عمران بن حصین ؓ بیان کرتے ہیں ، میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا کہ بنو تمیم (قبیلے) کے کچھ لوگ آپ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بنو تمیم ! تم خوشخبری قبول کرو ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا ، آپ نے ہمیں خوشخبری تو سنا دی ، آپ ہمیں عطا بھی فرمائیں ، اتنے میں اہل یمن سے کچھ لوگ آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ یمن والو ! تم خوشخبری قبول کرو ، جبکہ بنو تمیم نے اسے قبول نہیں کیا ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا ، ہم نے قبول کیا ، اور ہم آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوئے ہیں تا کہ ہم دین میں سمجھ بوجھ حاصل کریں اور سب سے پہلے کیا چیز تھی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ تھا ، اور اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی ، اور اس کا عرش پانی پر تھا ، پھر اس نے آسمان اور زمین پیدا فرمائی ، اور ذکر (لوح محفوظ) میں ہر چیز لکھی ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، پھر ایک آدمی میرے پاس آیا تو اس نے کہا : عمران ! اپنی اونٹنی کی خبر لو ، وہ جا چکی ہے ، میں اسے تلاش کرنے چلا گیا ، اللہ کی قسم ! میں نے خواہش کی کہ وہ چلی جاتی اور میں (وہاں سے) نہ اٹھتا ۔ رواہ البخاری ۔
عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک جگہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں طویل خطبہ ارشاد فرمایا ، آپ نے ہمیں مخلوق کی ابتدا سے بتانا شروع کیا (اور بتاتے گئے) حتی کہ جنت والے اپنی منازل میں اور جہنم والے اپنی جگہوں میں داخل ہو گئے ۔ اور جس نے اسے یاد رکھنا تھا اس نے اسے یاد رکھا ، اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا ۔ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی تخلیق سے پہلے ایک مکتوب (لوح محفوظ) تحریر کیا کہ میری رحمت ، میرے غضب پر غالب ہے اور وہ عرش کے اوپر اس کے پاس لکھا ہوا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عائشہ ؓ ، رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتی ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ فرشتے نور سے پیدا کیے گئے ، جن دھوئیں اور شعلے والی آگ سے پیدا کیے گئے جبکہ آدم ؑ اس چیز سے پیدا کیے گئے جو تمہیں بیان کر دی گئی ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب اللہ نے آدم ؑ کا خاکہ بنایا تو اللہ نے جس قدر چاہا کہ وہ انہیں جنت میں چھوڑ دے تو اس نے اسے اس قدر جنت میں چھوڑ دیا ، ابلیس ان کے گرد چکر لگانے لگا تا کہ وہ دیکھے کہ وہ کیا چیز ہے ؟ جب اس نے انہیں (اندر سے) خالی دیکھا تو اس نے پہچان لیا کہ یہ ایسی مخلوق کی تخلیق کی گئی ہے ، جو (اپنے نفس کی خواہشات پر) قابو نہیں رکھ سکے گی ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ابراہیم ؑ نے صرف تین جھوٹ بولے ، اس میں سے دو اللہ کی خاطر تھے ، انہوں نے کہا :’’ میں بیمار ہوں ۔‘‘ اور یہ کہنا :’’ بلکہ یہ ان کے بڑے نے کیا ہے ۔‘‘ اور آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ایک روز وہ (ابراہیم ؑ) اور (ان کی اہلیہ) سارہ ایک ظالم بادشاہ کی سلطنت سے گزر رہے تھے تو اس (بادشاہ) کو بتایا گیا کہ یہاں ایک آدمی ہے اور اس کے ساتھ ایک انتہائی خوبصورت عورت ہے ، اس (بادشاہ) نے ابراہیم ؑ کو بلا بھیجا اور ان سے سارہ کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا : میری بہن ہے ، پھر ابراہیم ؑ سارہ کے پاس آئے اور انہیں بتایا کہ ظالم بادشاہ ہے اگر اسے پتہ چل جائے کہ تو میری اہلیہ ہے تو وہ تیرے بارے میں مجھ پر غالب آ جائے گا ، اگر وہ تجھ سے پوچھے تو یہی کہنا کہ تو میری بہن ہے ، کیونکہ تو میری اسلامی بہن ہے ، روئے زمین پر میرے اور تیرے سوا کوئی اور مومن نہیں ، اس (بادشاہ) نے سارہ ؓ کو بلا بھیجا ، انہیں لایا گیا تو ابراہیم ؑ نماز پڑھنے لگے جب وہ ان کے پاس گئیں اور اس نے دست درازی کی کوشش کی تو اسے پکڑ لیا گیا ۔‘‘ اور اس طرح بھی مروی ہے کہ ’’ اس کا گلا گھونٹ دیا گیا حتی کہ اس نے زمین پر اپنا پاؤں مارا اور کہا : اللہ سے میرے لیے دعا کرو میں تمہیں نقصان نہیں پہنچاؤں گا ، انہوں نے اللہ سے دعا کی تو اسے چھوڑ دیا گیا ، اس نے دوسری مرتبہ دست درازی کی کوشش کی تو اسے اسی طرح یا اس سے بھی سختی کے ساتھ پکڑ لیا گیا ، اس نے کہا : اللہ سے میرے لیے دعا کرو ، میں تمہیں نقصان نہیں پہنچاؤں گا ، انہوں نے اللہ سے دعا کی تو اسے چھوڑ دیا گیا ، اس نے اپنے کسی دربان کو بلایا اور کہا : تو نے میرے پاس کسی انسان کو نہیں بلکہ کسی شیطان کو بھیجا ہے ، اس نے سارہ کی خدمت کے لیے انہیں ہاجر عطا کی ، وہ ابراہیم ؑ کے پاس آئیں تو وہ کھڑے نماز ادا کر رہے تھے ، انہوں نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے پوچھا : کیا ہوا ؟ انہوں نے بتایا : اللہ نے کافر کی تدبیر کو اسی پر الٹ دیا ہے ، اور اس نے خدمت کے لیے ہاجر دی ہے ۔‘‘ ابوہریرہ ؓ نے فرمایا :’’ اہل عرب (بارش پر گزارہ کرنے والو) یہ ہاجر تمہاری والدہ ہیں ۔ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ہم ابراہیم ؑ کے مقابلے میں شک کرنے کا زیادہ حق رکھتے ہیں ، جب انہوں نے کہا :’’ رب جی ! مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا ۔‘‘ اللہ لوط ؑ پر رحم فرمائے وہ زبردست سہارے (یعنی اللہ تعالیٰ) کی پناہ لیتے تھے ، اور اگر میں اتنی مدت تک ، جتنی مدت تک یوسف ؑ قید خانے میں رہے ، قید خانے میں رہتا تو میں بلانے والے کی بات ضرور مان لیتا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ موسی ؑ بڑے ہی شرم و حیا والے انسان تھے ، ان کے حیا کی وجہ سے ان کی جلد سے کچھ بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا ، بنی اسرائیل کے جن لوگوں نے آپ ؑ کو اذیت پہنچائی تھی وہ پہنچا کر رہے ، انہوں نے کہا : یہ اپنی کسی جلدی بیماری کی وجہ سے اس قدر اپنا بدن چھپا کر رکھتے ہیں ، یہ یا تو برص کے مریض ہیں یا ان کے خصیے (فوطے) پھول گئے ہیں ، اللہ نے ارادہ فرمایا کہ وہ ان کو عیوب سے بے عیب ثابت کرے ، ایک روز وہ اکیلے غسل کرنے کے لیے آئے تو اپنے کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیے ، اور وہ پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگ گیا ، موسی ؑ بھی تیزی کے ساتھ اس کے پیچھے بھاگنے لگے اور کہنے لگے : پتھر ! میرے کپڑے (واپس کر دو میں اور کچھ نہیں چاہتا) وہ (اس طرح کہتے ہوئے) بنی اسرائیل کی ایک جماعت تک پہنچ گئے ، انہوں نے ان کو عریاں حالت میں دیکھ لیا کہ اللہ نے جو تخلیق فرمائی ہے وہ احسن ہے ، اور انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! موسی ؑ میں کوئی نقص نہیں ، اور انہوں نے اپنے کپڑے لیے اور پتھر کو مارنے لگے ، اللہ کی قسم ! ان کی مار کے ، تین ، چار یا پانچ نشان پتھر پر پڑ گئے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ایوب ؑ عریاں حالت میں غسل کر رہے تھے کہ ان پر سونے کی ٹڈیاں گریں تو ایوب ؑ انہیں کپڑے میں جمع کرنے لگے تو ان کے رب نے انہیں آواز دی ، ایوب ! کیا میں نے تجھے مال عطا کر کے ان (ٹڈیوں) سے بے نیاز نہیں کر دیا ؟ انہوں نے عرض کیا ، تیری عزت کی قسم ! کیوں نہیں ، لیکن میں تیری برکت سے کیسے بے نیاز رہ سکتا ہوں ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، دو آدمیوں نے آپس میں بُرا بھلا کہا ، ان میں سے ایک مسلمان تھا اور ایک یہودی تھا ، مسلمان نے کہا ، اس ذات کی قسم جس نے محمد ﷺ کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی ! یہودی نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے موسی ؑ کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی ، مسلمان نے اس وقت اپنا ہاتھ اٹھایا اور یہودی کے چہرے پر تھپڑ رسید کر دیا ؟ یہودی ، نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا اور مسلمان کا معاملہ آپ کو بتایا تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ مجھے موسی ؑ پر فوقیت نہ دو ، کیونکہ روزِ قیامت لوگ بے ہوش ہو جائیں گے تو میں بھی ان کے ساتھ بے ہوش ہو جاؤں گا ، اور مجھے سب سے پہلے ہوش آئے گا تو میں دیکھوں گا کہ موسی ؑ عرش کے ایک کونے کو تھامے ہوئے ہوں گے ، میں نہیں جانتا کہ وہ بے ہوش ہونے والوں میں سے تھے اور مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے یا وہ ان میں سے تھے جنہیں اللہ نے اس (بے ہوشی) سے مستثنیٰ قرار دے دیا ۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے :’’ میں نہیں جانتا کہ وہ طور کے روز جو بے ہوش ہوئے تھے وہی ان کے لیے کافی تھا ، یا وہ مجھ سے پہلے اٹھائے گئے ، اور میں نہیں کہتا کہ کوئی یونس بن متی ؑ سے افضل ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابوسعید ؓ کی روایت میں ہے ، فرمایا :’’ انبیا کو ایک دوسرے پر برتری نہ دو ۔‘‘
اور ابوہریرہ ؓ کی روایت میں ہے :’’ انبیا کو ایک دوسرے پر فضیلت نہ دو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کسی بندے کے لیے مناسب نہیں کہ وہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں ۔‘‘ اور صحیح بخاری کی روایت میں ہے ، فرمایا :’’ جس نے کہا کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں تو اس نے جھوٹ کہا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابی بن کعب ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ غلام جسے خضر ؑ نے قتل کیا تھا وہ کافر پیدا ہوا تھا ، اگر وہ زندہ رہتا تو وہ اپنے والدین کو سرکشی اور کفر پر مجبور کرتا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ خضر ؑ کا نام خضر اس لیے رکھا گیا کہ وہ ایک خشک زمین پر بیٹھے تھے ، تو وہ (زمین) ان کے بعد سرسبز ہو کر لہلہانے لگی ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ موت کا فرشتہ موسیٰ بن عمران ؑ کے پاس آیا تو اس نے انہیں کہا : اپنے رب کا حکم قبول کرو (میں آپ کی روح قبض کرنے آیا ہوں) ۔‘‘ فرمایا :’’ موسی ؑ نے موت کے فرشتے کی آنکھ پر تھپڑ مارا اور اسے پھوڑ دیا ۔‘‘ فرمایا :’’ وہ فرشتہ اللہ کے پاس واپس چلا گیا اور عرض کیا ، تو نے مجھے اپنے ایک ایسے بندے کی طرف بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا ، اور اس نے میری آنکھ بھی پھوڑ دی ہے ، فرمایا : اللہ نے اس کی آنکھ اسے لوٹا دی ، اور فرمایا : میرے بندے کے پاس دوبارہ جاؤ ، اور اسے کہو : تم زندگی چاہتے ہو ، اگر تم زندگی چاہتے ہو تو اپنا ہاتھ بیل کی کمر پر رکھو اور جتنے بال تمہارے ہاتھ کے نیچے آ جائیں گے تم اتنے سال زندہ رہو گے ، فرمایا :’’ پھر کیا ہو گا ؟ فرمایا : پھر تم مر جاؤ گے ، فرمایا : پھر اب اسی حالت میں روح قبض کر لو ، اور عرض کیا : رب جی ! مجھے ارض مقدس (بیت المقدس) کے اتنا قریب کر دے کہ اگر کوئی پتھر پھینکنے والا پھینکے تو وہ وہاں (بیت المقدس) تک پہنچ سکے ۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ کی قسم ! اگر میں اس (بیت المقدس) کے پاس ہوتا تو میں سرخ ٹیلے کے پاس ، راستے کے ایک جانب ، تمہیں ان کی قبر دکھاتا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھے انبیا ؑ دکھائے گئے ، موسی ؑ دبلے پتلے ہیں ، گویا وہ شنوۂ قبیلے کے مردوں جیسے ہیں ، میں نے عیسیٰ بن مریم ؑ کو دیکھا ، اور میں نے جنہیں دیکھا ان میں سے وہ عروہ بن مسعود ؓ سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے ، میں نے ابراہیم ؑ کو دیکھا وہ سب سے زیادہ ، تمہارے ساتھی ، یعنی محمد سے مشابہت رکھتے ہیں ، اور میں نے جبریل ؑ کو دیکھا تو وہ ان لوگوں میں سے جنہیں میں نے دیکھا ہے دحیہ بن خلیفہ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔ یا بخاری ۔
ابن عباس ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ معراج کی رات میں نے موسی ؑ کو دیکھا ، آپ کا رنگ گندمی ، دراز قد اور بال گھونگریالے تھے ، گویا وہ شنوۂ قبیلے کے افراد میں سے ہوں ، اور میں نے عیسیٰ ؑ کو دیکھا ، ان کا قد درمیانہ ، رنگ سرخی مائل سفید تھا اور بال گھنگریالے نہیں بلکہ سیدھے تھے ، میں نے جہنم کے دروغے مالک اور دجال کو بھی دیکھا ، یہ ان نشانیوں میں سے تھیں جو اللہ نے مجھے دکھائیں تھیں ، آپ ان (موسی ؑ) سے ملاقات کرنے میں کسی قسم کے شک میں مبتلا نہ ہوں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ معراج کی رات میری موسی ؑ سے ملاقات ہوئی ۔‘‘ آپ نے ان کا وصف بیان کیا کہ ’’ وہ ایک دبلے پتلے سیدھے بالوں والے آدمی ہیں ، گویا وہ شنوءہ قبیلے کے آدمی ہیں ، میں نے عیسیٰ ؑ سے ملاقات کی ، ان کا قد درمیانہ اور رنگ سرخ تھا ، گویا وہ غسل خانے سے نکلے ہیں ، میں نے ابراہیم ؑ سے ملاقات کی ، ان کی اولاد میں سے میں ان کے زیادہ مشابہ ہوں ۔‘‘ فرمایا :’’ میرے پاس دو برتن لائے گئے ، ان میں سے ایک میں دودھ اور دوسرے میں شراب تھی ، مجھے کہا گیا : دونوں میں سے جو چاہو پسند کر لو ، میں نے دودھ لیا اور اسے پی لیا ، مجھے کہا گیا ، آپ کو فطرت کی رہنمائی کی گئی ، اگر آپ شراب لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکے اور مدینے کے درمیان سفر کیا ، ہم ایک وادی سے گزرے تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ کون سی وادی ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، وادی ازرق ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ گویا میں موسی ؑ کو دیکھ رہا ہوں ۔‘‘ آپ نے ان کے رنگ اور ان کے بالوں کے متعلق کچھ بتایا ، اور بتایا کہ ’’ وہ اپنی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں رکھے ہوئے تھے ، وہ تلبیہ کے ذریعے اللہ سے تضرع کرتے ہوئے اس وادی سے گزر رہے ہیں ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، پھر ہم نے سفر کیا اور ہم گھاٹی پر پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ کون سی گھاٹی ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، ہرشی یا لفت ۔ فرمایا :’’ گویا میں یونس ؑ کو سرخ اونٹنی پر سوار دیکھ رہا ہوں ، انہوں نے اونی جبہ پہنا ہوا ہے ، اور ان کی اونٹنی کی مہار کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی ہے ، اور وہ بھی تلبیہ کہتے ہوئے اس وادی سے گزر رہے ہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ داؤد ؑ پر زبور کی قراءت آسان کر دی گئی تھی ، وہ اپنی سواریوں پر زین کسنے کا حکم فرماتے اور وہ سواریوں پر زین کسے جانے سے پہلے ہی اس (زبور) کی قراءت مکمل کر لیتے تھے ، اور وہ صرف اپنے ہاتھوں کی کمائی کھاتے تھے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ دو عورتیں تھیں ان کے ساتھ ان کے بیٹے بھی تھے ، بھیڑیا آیا اور وہ ان میں سے ایک کے بیٹے کو لے گیا ، ایک نے اپنی ساتھ والی سے کہا : وہ تو تیرے بیٹے کو لے کر گیا ہے ، اور دوسری نے کہا : (نہیں) وہ تیرے بیٹے کو لے کر گیا ہے ، چنانچہ وہ دونوں داؤد ؑ کے پاس مقدمہ لے گئیں تو انہوں نے بڑی کے حق میں فیصلہ کر دیا ، پھر وہ دونوں سلیمان بن داؤد ؑ کے پاس سے گزریں اور انہوں نے پورا واقعہ بیان کیا تو انہوں نے فرمایا : مجھے چھری دو میں اسے ٹکڑے کر کے تم دونوں کے درمیان تقسیم کر دیتا ہوں ، چھوٹی نے کہا : اللہ آپ پر رحم فرمائے ، ایسے نہ کریں وہ اسی کا بیٹا ہے ، انہوں نے اس کے متعلق چھوٹی کے حق میں فیصلہ کر دیا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ سلیمان ؑ نے فرمایا : آج رات میں اپنی نوے بیگمات اور ایک دوسری روایت میں ہے ، سو بیگمات کے پاس جاؤں گا ، وہ سب اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے گھڑ سوار بچوں کو جنم دیں گی ۔ فرشتے نے انہیں کہا : ان شاء اللہ (اگر اللہ نے چاہا) کہو ، انہوں نے نہ کہا اور (یہ کہنا) بھول گئے ، وہ ان کے پاس گئے (ان کے ساتھ جماع کیا) اور ان میں سے صرف ایک حاملہ ہوئی ، اور اس نے بھی ناقص بچے کو جنم دیا ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے ! اگر وہ ان شاء اللہ کہہ دیتے تو وہ سارے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے گھڑ سوار ہوتے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں عیسیٰ بن مریم ؑ سے دنیا و آخرت میں اور لوگوں کی نسبت زیادہ قرابت دار ہوں ، انبیا ؑ علاتی (ایک باپ کی اولاد) بھائی ہیں ، ان کی مائیں الگ الگ ہیں ، جبکہ ان کا دین ایک ہے ، اور ہمارے (میرے اور عیسیٰ ؑ) کے درمیان کوئی نبی نہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ عیسیٰ بن مریم ؑ کے علاوہ ، شیطان ہر نومولود کو اس کی پیدائش کے وقت اپنی دو انگلیوں سے اس کے پہلو میں کچوکے لگاتا ہے ۔ وہ انہیں بھی کچوکے لگانے گیا تھا ، لیکن اس نے حجاب میں کچوکے لگا دیے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوموسی ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مردوں میں سے تو بہت سے کامل ہوئے لیکن عورتوں میں سے مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون کمال کو پہنچیں ، اور عائشہ ؓ کو تمام عورتوں پر ایسے ہی برتری حاصل ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر فضیلت حاصل ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
اور انس ؓ سے مروی حدیث : ((یا خیر البریۃ)) ، ابوہریرہ ؓ سے مروی حدیث : ((أی الناس اکرم)) اور ابن عمر ؓ سے مروی حدیث : ((الکریم ابن الکریم)) باب المفاخرۃ و العصیۃ میں ذکر کی گئی ہے ۔
ابورزین ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! جب رب تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو پیدا فرمایا تو اس سے پہلے وہ کہاں تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ابر میں ، اس کے نیچے ہوا تھی اور اس کے اوپر ہوا تھی ، اور اس نے اپنا عرش پانی پر تخلیق فرمایا ۔‘‘ ترمذی ، اور فرمایا : یزید بن ہارون نے کہا : عماء سے مراد ہے اس کے ساتھ کوئی چیز نہیں تھی ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
عباس بن عبد المطلب ؓ سے روایت ہے ، انہوں نے نقل کیا کہ وہ بطحا میں ایک جماعت کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ، اور رسول اللہ ﷺ ان میں تشریف فرما تھے ، اتنے میں بادل کا ایک ٹکڑا گزرا تو انہوں نے اس کی طرف دیکھا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم اسے کیا نام دیتے ہو ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا :’’ السحاب ‘‘، فرمایا :’’ المزن ‘‘، انہوں نے عرض کیا :’’ المزن ‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ العنان ‘‘ انہوں نے عرض کیا :’’ العنان ‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم جانتے ہو کہ آسمان اور زمین کے درمیان کتنی مسافت ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : ہم نہیں جانتے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ان دونوں کے درمیان یا تو اکہتر یا بہتر یا تہتر سال کی مسافت ہے ، اور آسمان جو اس کے اوپر ہے اسی طرح ہے ۔‘‘ حتی کہ آپ ﷺ نے ساتوں آسمان گنے ۔‘‘ پھر ساتویں آسمان کے اوپر ایک سمندر ہے ، اوپر والے اور نچلے حصے کے درمیان اتنی ہی مسافت ہے ، جیسے آسمان سے دوسرے آسمان تک ، پھر اس کے اوپر آٹھ فرشتے ہیں جو پہاڑی بکروں کی شکل کے ہیں ، ان کے کھروں اور سرین کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان سے آسمان تک ہے ، پھر ان کی پشتوں پر عرش ہے ، اس کے نچلے اور اوپر والے حصے کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان سے دوسرے آسمان کے درمیان فاصلہ ہے ۔ پھر اس کے اوپر اللہ ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔
جبیر بن مطعم ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو اس نے عرض کیا جانیں مشقت میں پڑ گئیں ، بال بچے بھوک کا شکار ہو گئے ، اموال ختم ہو گئے اور جانور ہلاک ہو گئے ، آپ اللہ سے ہمارے لیے بارش کی دعا فرمائیں ، ہم آپ کے ذریعے اللہ سے سفارش کرتے ہیں اور اللہ کے ذریعے آپ سے سفارش کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ سبحان اللہ ! سبحان اللہ !‘‘ آپ مسلسل تسبیح بیان کرتے رہے حتی کہ یہ چیز آپ کے صحابہ کے چہروں سے معلوم ہونے لگی ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تجھ پر افسوس ہے ، کسی پر اللہ کو سفارشی نہیں بنایا جاتا ، اللہ کی شان اس سے عظیم تر ہے ، تجھ پر افسوس ہے ، کیا تم جانتے ہو ، اللہ (کی عظمت و کبریائی) کیا ہے ؟ بے شک اس کا عرش اس کے آسمانوں پر اس طرح ہے ۔‘‘ اور آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ فرمایا جیسے اس پر قبہ ہو ۔‘‘ وہ اس وجہ سے اس طرح آواز نکالتا ہے جس طرح سوار کی وجہ سے پالان آواز نکالتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔