انس ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے دس سال نبی ﷺ کی خدمت کی ، لیکن آپ نے مجھے کبھی اُف تک نہ کہا ، اور نہ ہی یہ کہا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا اور وہ کام کیوں نہیں کیا ۔ متفق علیہ ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں سے بہترین اخلاق کے حامل تھے ، آپ نے ایک روز مجھے کسی کام کے لیے بھیجا تو میں نے کہا ، اللہ کی قسم ! میں نہیں جاؤں گا ، جبکہ میرے دل میں تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے جس کام کا مجھے حکم فرمایا ہے میں اس کے لیے ضرور جاؤں گا ، میں نکلا ، اور چند ایسے بچوں کے پاس سے گزرا جو بازار میں کھیل رہے تھے ۔ (میں وہاں کھڑا ہو گیا) اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے میرے پیچھے سے میری گدی پکڑ لی ، وہ بیان کرتے ہیں ، میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ ہنس رہے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اُنیس ! جہاں جانے کے متعلق میں نے تمہیں کہا تھا ، کیا وہاں گئے ہو ؟‘‘ میں نے عرض کیا : جی ہاں ، اللہ کے رسول ! میں جا رہا ہوں ۔ رواہ مسلم ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا ، آپ پر موٹے کنارے (چوڑی پٹی) والی نجرانی چادر تھی ، اتنے میں ایک اعرابی آپ کے پاس آیا اور اس نے آپ کی چادر کے ساتھ آپ کو اتنے زور سے کھینچا کہ نبی ﷺ اس اعرابی کے سینے کے قریب پہنچ گئے ، میں نے رسول اللہ ﷺ کے کندھے پر دیکھا تو زور سے کھینچنے کی وجہ سے چادر کے کنارے کے نشانات کندھے مبارک پر پڑ چکے تھے ، پھر اس نے کہا : محمد ! اللہ کا مال جو آپ کے پاس ہے اس میں سے میرے لیے بھی حکم فرمایئے ، رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا ، اور ہنس دیے ، پھر اسے کچھ دینے کا حکم فرمایا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ حسین ، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے ، ایک رات مدینہ والے گھبرا گئے تو لوگ اس کی آواز کی طرف چل پڑے ، نبی ﷺ سب سے پہلے اس کی آواز کی طرف گئے تھے اور واپسی پر آپ لوگوں سے ملے تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ گھبراؤ نہیں ، گھبراؤ نہیں ۔‘‘ آپ اس وقت ابو طلحہ ؓ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے ، اس پر زین نہیں تھی اور آپ کے گلے میں تلوار تھی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں نے اس (گھوڑے) کو نہایت تیز رفتار پایا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے اتنی بکریاں مانگیں جس سے دو پہاڑوں کا درمیانی فاصلہ بھر جائے ، آپ نے اتنی ہی اسے دے دیں تو وہ اپنی قوم کے پاس گیا اور انہیں کہا : میری قوم ! اسلام قبول کر لو ، اللہ کی قسم ! محمد (ﷺ) اس قدر عطا فرماتے ہیں ، کہ وہ فقر کا اندیشہ نہیں رکھتے ۔ (یا فقر کا اندیشہ نہیں رہتا) رواہ مسلم ۔
جبیر بن مطعم ؓ سے روایت ہے ، اس اثنا میں کہ غزوۂ حنین سے واپسی پر وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہے تھے ، (راستے میں) اعرابی چمٹ کر آپ سے سوال کرنے لگے ، حتی کہ انہوں نے آپ کو ببول کے درخت کی طرف دھکیل دیا ، وہ (کانٹے) آپ کی چادر سے الجھ گئے تو نبی ﷺ نے کھڑے ہو کر فرمایا :’’ میری چادر مجھے دے دو ، اگر میرے پاس ان (کانٹے دار) درختوں جتنے اونٹ ہوتے تو میں وہ بھی تمہارے درمیان تقسیم کر دیتا ، لہذا تم مجھے بخیل پاؤ گے نہ جھوٹا اور نہ بزدل ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ جب صبح کی نماز پڑھ لیتے تو مدینہ کے خادم اپنے برتن لے آتے ، ان میں پانی ہوتا تھا ، وہ جو بھی برتن لاتے ، آپ اس میں اپنا دستِ مبارک ڈبو دیتے تھے ، بسا اوقات تو وہ موسم سرما میں صبح کے وقت آپ کے پاس آ جاتے تھے ، تو آپ ﷺ اس میں اپنا ہاتھ ڈبو دیا کرتے تھے ۔ رواہ مسلم ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت تھی جس کی عقل کچھ کم تھی ، اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے آپ سے کچھ کام ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ام فلاں ! دیکھو ! جس گلی میں تم چاہو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں تا کہ میں تمہارا کام پورا کر سکوں ، آپ ایک راستے میں اس کے ساتھ گئے حتی کہ اس کا کام ہو گیا ۔ رواہ مسلم ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ بدگو تھے نہ لعنت کرنے والے تھے ، اور نہ ہی گالی دیتے تھے ، ناراضی کے عالم میں آپ ﷺ بس یہی فرماتے :’’ اسے کیا ہوا ؟ اس کی پیشانی خاک آلود ہو ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا ، اللہ کے رسول ! مشرکوں کے لیے بددعا فرمائیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھے لعنت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا ، مجھے تو باعث رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ پردہ نشین کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے ، جب آپ کوئی ایسی چیز دیکھتے جو آپ کو ناگوار گزرتی تو ہم اسے آپ کے چہرے مبارک سے پہچان لیتے تھے ۔ متفق علیہ ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے نبی ﷺ کو اس طرح کھلکھلا کر ہنستے ہوئے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کا آخری حصہ دیکھ سکوں کیونکہ آپ ﷺ صرف تبسم فرمایا کرتے تھے ۔ رواہ البخاری ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تمہاری طرح نہایت تیز گفتگو نہیں فرماتے تھے ، بلکہ آپ اس طرح گفتگو فرماتے تھے کہ اگر کوئی (الفاظ) شمار کرنے والا شمار کرنا چاہتا تو شمار کر سکتا تھا ۔ متفق علیہ ۔
اسود ؒ بیان کرتے ہیں ، میں نے عائشہ ؓ سے دریافت کیا ، نبی ﷺ اپنے گھر میں کیا کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا : آپ اپنے اہل خانہ کی خدمت میں مصروف رہتے تھے ، جب نماز کا وقت ہو جاتا تو آپ نماز کے لیے تشریف لے جاتے تھے ۔ متفق علیہ ، رواہ البخاری ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، جب بھی رسول اللہ ﷺ کو دو کاموں میں سے ایک کا اختیار دیا جاتا تو آپ ان دونوں میں سے آسان تر کو اختیار فرماتے تھے ، بشرطیکہ وہ گناہ کا کام نہ ہوتا ، اگر اس میں گناہ ہوتا تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے ، رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذات کے متعلق کسی معاملے میں انتقام نہیں لیا ، اگر اللہ کی حدود پامال کی جاتیں تو آپ اس میں اللہ کی رضا کی خاطر انتقام لیا کرتے تھے ۔ متفق علیہ ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے علاوہ اپنے ہاتھ سے کسی چیز کو مارا نہ کسی خادم کو اور نہ ہی کسی عورت کو ، اور اگر آپ کو کسی کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچتی تو آپ اس تکلیف پہنچانے والے سے انتقام نہیں لیتے تھے ، آپ صرف اس صورت میں انتقام لیتے تھے جب اللہ کی حدود پامال ہوتی ہوں اور وہ انتقام بھی محض اللہ کی رضا کی خاطر ہی لیتے تھے ۔ رواہ مسلم ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، میں آٹھ برس کی عمر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت کے لیے حاضر ہوا اور دس سال آپ کی خدمت کی ، آپ نے اس عرصے میں میرے ہاتھوں ہونے والے کسی نقصان پر مجھے ملامت نہیں کی ، اگر آپ کے اہل خانہ میں سے کوئی مجھے ملامت کرتا تو آپ ﷺ فرماتے :’’ اسے چھوڑ دو ، کیونکہ جو تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے وہ ہو کر رہتا ہے ۔‘‘ یہ الفاظِ حدیث مصابیح کے ہیں ، اور امام بیہقی نے کچھ تبدیلی کے ساتھ شعب الایمان میں روایت کیا ہے ۔ صحیح ، رواہ فی شرح السنہ و البیھقی فی شعب الایمان ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ طبعاً فحش گو تھے نہ تکلفاً فحش گو تھے ، آپ بازاروں میں شور و غل کرتے تھے نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے ، بلکہ آپ ﷺ درگزر فرماتے تھے ، اور معاف فرما دیتے تھے ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
انس ؓ ، نبی ﷺ سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپ بیماروں کی عیادت کرتے تھے ، جنازوں میں شریک ہوتے تھے ، غلاموں کی دعوت قبول کرتے تھے ، اور گدھے پر سواری کرتے تھے ، خیبر کے دن میں نے آپ کو گدھے پر دیکھا جس کی لگام کھجور کے پتوں کی تھی ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابن ماجہ و البیھقی فی شعب الایمان ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ اپنا جوتا مرمت کرتے تھے ، اپنا کپڑا خود سی لیتے تھے اور اپنے گھر میں تمہاری طرح ہی کام کرتے تھے ۔ اور انہوں نے فرمایا : آپ بھی ایک انسان تھے ، آپ اپنے کپڑے میں جوئیں دیکھ لیا کرتے تھے ، اپنی بکری کا دودھ خود دھوتے تھے اور اپنے ذاتی کام خود کیا کرتے تھے ۔ حسن ، رواہ الترمذی فی الشمائل و البخاری فی الأدب المفرد ۔
خارجہ بن زید بن ثابت بیان کرتے ہیں ، کچھ افراد زید بن ثابت ؓ کے پاس آئے تو انہوں نے ان سے کہا ، آپ ہمیں رسول اللہ ﷺ کی احادیث سناؤ ، انہوں نے کہا ، میں آپ کا پڑوسی تھا ، جب آپ ﷺ پر وحی نازل ہوتی تو آپ مجھے بلاتے اور میں وحی کو لکھ دیتا تھا ، جب ہم دنیا کا ذکر کرتے تھے تو آپ ہمارے ساتھ اس کا ذکر فرماتے تھے ، جب ہم آخرت کا ذکر کرتے تو آپ ہمارے ساتھ اس کا ذکر فرماتے تھے ، اور جب ہم کھانے کا ذکر کرتے تو آپ ہمارے ساتھ کھانے کا ذکر فرماتے تھے ۔ میں یہ ساری باتیں تمہیں رسول اللہ ﷺ سے بیان کر رہا ہوں ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی فی الشمائل و فی شرح السنہ ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب آدمی سے مصافحہ فرماتے تھے تو آپ اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہیں چھڑاتے تھے حتی کہ وہ آدمی خود اپنا ہاتھ چھڑا لیتا تھا ، آپ اپنا چہرہ مبارک (توجہ) اس شخص سے نہیں ہٹاتے تھے حتی کہ وہ شخص خود اپنا چہرہ آپ کے چہرۂ مبارک سے ہٹا لیتا (کسی اور طرف متوجہ کر لیتا) اور آپ کو مجلس میں اپنے ہم نشین سے آگے گھٹنے نکال کر بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا گیا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ تمہاری طرح نہایت تیز گفتگو نہیں فرماتے تھے ، بلکہ آپ کا کلام الگ الگ ہوتا تھا ، آپ کے پاس بیٹھنے والا اسے یاد کر لیتا تھا ۔ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
عبداللہ بن سلام ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ جب گفتگو فرمانے کے لیے بیٹھتے تو آپ (نزول وحی کے انتظار میں) آسمان کی طرف بہت دیکھتے تھے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔