سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں ، جب یہ آیت (نَدْعُ اَبْنَاءَ نَا وَ اَبْنَاءَ کُمْ) نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین ؓ کو بلایا اور فرمایا :’’ اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، صبح کے وقت نبی ﷺ نکلے اس وقت آپ پر کالے بالوں سے بنی ہوئی نقش دار چادر تھی ، اس دوران حسن بن علی ؓ تشریف لائے تو آپ نے انہیں اپنے ساتھ اس (چادر) میں داخل فرما لیا ، پھر حسین ؓ آئے تو آپ نے انہیں بھی داخل فرما لیا ، پھر فاطمہ ؓ آئیں تو آپ نے انہیں بھی داخل فرما لیا ، پھر علی ؓ تشریف لائے تو آپ نے انہیں بھی داخل فرما لیا ، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ اللہ صرف یہی چاہتا ہے ، اے اہل بیت ! کہ وہ تم سے گناہ کی گندگی دور فرما دے اور تمہیں مکمل طور پر پاک صاف کر دے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، ہم نبی ﷺ کی ازواج مطہرات ؓ آپ کی خدمت میں حاضر تھیں ، فاطمہ ؓ آئیں ، وہ رسول اللہ ﷺ تک پہنچ گئیں ، جب آپ ﷺ نے انہیں دیکھا تو فرمایا :’’ پیاری بیٹی ! خوش آمدید ۔‘‘ پھر آپ نے انہیں بٹھا لیا ، پھر ان سے سرگوشی فرمائی تو وہ بہت زیادہ رونے لگیں ، جب آپ نے ان کا غم دیکھا تو آپ نے دوسری مرتبہ ان سے سرگوشی فرمائی وہ ہنس دیں ، چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے تو میں نے فاطمہ ؓ سے پوچھا : آپ ﷺ نے تمہارے ساتھ کیا سرگوشی فرمائی ؟ انہوں نے فرمایا : میں رسول اللہ ﷺ کے راز کو افشاں نہیں کروں گی ، جب آپ ﷺ وفات پا گئے تو میں نے کہا : میرا آپ پر جو حق ہے اس حوالے سے میں آپ کو قسم دے کر پوچھتی ہوں کیا آپ مجھے نہیں بتائیں گی ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ! اب ٹھیک ہے ، جہاں تک اس پہلی سرگوشی کا تعلق ہے تو آپ ﷺ نے مجھے بتایا کہ ’’ جبریل ؑ ہر سال مجھ سے ایک مرتبہ قرآن کا دور کیا کرتے تھے جبکہ اس سال انہوں نے دو مرتبہ دور کیا ہے ، اور میں سمجھتا ہوں کہ وقت پورا ہو چکا ہے ، تم اللہ سے ڈرتی رہنا اور صبر کرنا ، اور میں تمہارے لیے بہترین کارواں ہوں ۔‘‘ لیکن جب آپ نے میری گھبراہٹ دیکھی تو آپ ﷺ نے دوسری مرتبہ سرگوشی کی اور فرمایا :’’ فاطمہ ! کیا تم اس پر خوش نہیں کہ تم اہل جنت کی خواتین یا مومنوں کی خواتین کی سردار ہوں گی ؟‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے : آپ ﷺ نے مجھ سے سرگوشی کی تو مجھے بتایا کہ اسی تکلیف میں ان کی روح قبض کی جائے گی تو اس پر میں رو پڑی ، پھر آپ ﷺ نے مجھ سے سرگوشی کی تو مجھے بتایا کہ آپ کے اہل بیت میں سے سب سے پہلے میں آپ کے پیچھے آؤں گی ، تو اس پر میں ہنس پڑی ۔ متفق علیہ ۔
مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اس سے دشمنی رکھی اس نے مجھ سے دشمنی رکھی ۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے :’’ جو چیز اسے قلق میں مبتلا کر دیتی ہے وہی چیز مجھے قلق میں مبتلا کر دیتی ہے اور جو چیز اسے ایذا پہنچاتی ہے وہی چیز مجھے ایذا پہنچاتی ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
زید بن ارقم ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک روز مکہ اور مدینہ کے درمیان پانی کی جگہ پر خم نامی مقام پر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا ، آپ ﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی ، وعظ و نصیحت کی پھر فرمایا :’’ امابعد ! لوگو ! سنو ! میں بھی انسان ہوں ، قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد آئے اور میں اس کی بات قبول کر لوں ، میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ، ان دونوں میں سے پہلی چیز اللہ کی کتاب ہے ، اس میں ہدایت اور نور ہے ، تم اللہ کی کتاب کو پکڑو اور اس سے تمسک اختیار کرو ۔‘‘ آپ نے اللہ کی کتاب (پر عمل کرنے) پر ابھارا اور اس کے متعلق ترغیب دلائی ، پھر فرمایا :’’ (دوسری چیز) میرے اہل بیت ، میں اپنے اہل بیت کے متعلق تمہیں اللہ سے ڈراتا ہوں ، اپنے اہل بیت کے متعلق میں تمہیں اللہ سے ڈراتا ہوں ۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے :’’ اللہ کی کتاب ، وہ اللہ کی رسی ہے ، جس نے اس کی اتباع کی وہ ہدایت پر ہے ، اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہی پر ہو گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
براء ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی ﷺ کو دیکھا اس وقت حسن بن علی ؓ آپ کے کندھے پر تھے ، آپ ﷺ فرما رہے تھے :’’ اے اللہ ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، دن کے کسی حصے میں میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ روانہ ہوا حتیٰ کہ آپ فاطمہ ؓ کے گھر تشریف لے گئے ، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا :’’ کیا یہاں چھوٹا بچہ ہے کیا یہاں چھوٹا بچہ یعنی حسن ہے ؟‘‘ تھوڑی دیر گزری تھی کہ وہ دوڑتے ہوئے آئے حتیٰ کہ ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے ساتھی کو گلے لگایا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اے اللہ ! بے شک میں اس سے محبت کرتا ہوں ، تو بھی اس سے محبت رکھنے والے سے محبت فرما ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوبکرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر دیکھا جبکہ حسن بن علی ؓ آپ کے پہلو میں تھے ، آپ ﷺ ایک مرتبہ لوگوں کی طرف توجہ فرماتے اور دوسری مرتبہ ان حسن ؓ کی طرف توجہ فرماتے ، اور فرماتے :’’ بے شک میرا یہ بیٹا سردار ہے ، امید ہے کہ اللہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
عبد الرحمن بن ابی نعم ؒ بیان کرتے ہیں ، میں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے اس وقت سنا جب ان سے کسی آدمی نے محرم (حالت احرام والے شخص) کے متعلق مسئلہ دریافت کیا ، شعبہ بیان کرتے ہیں ، میرا خیال ہے کہ وہ پوچھ رہا تھا (اگر محرم) مکھی مار دے (تو اس پر کیا کفارہ ہو گا ؟) انہوں نے فرمایا : اہل عراق مکھی (مارنے) کے متعلق مجھ سے مسئلہ دریافت کرتے ہیں جبکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے نواسے کو قتل کر دیا ، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا :’’ وہ دونوں (حسن و حسین ؓ) دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، حسن بن علی ؓ رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے ۔ اور انہوں نے حسین ؓ کے بارے میں بھی فرمایا : وہ رسول اللہ ﷺ سے ان سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے ۔ رواہ البخاری ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے مجھے سینے سے لگا کر فرمایا :’’ اے اللہ ! اسے حکمت کی تعلیم عطا فرما ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے :’’ اسے کتاب کی تعلیم عطا فرما ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ بیت الخلا میں داخل ہوئے تو میں نے طہارت کے لیے پانی رکھ دیا ، چنانچہ جب آپ ﷺ باہر تشریف لائے تو فرمایا :’’ یہ کس نے رکھا تھا ؟‘‘ آپ کو بتایا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اے اللہ ! اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما ۔‘‘ متفق علیہ ۔
اسامہ بن زید ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ مجھے اور حسن کو پکڑ کر فرماتے :’’ اے اللہ ! ان سے محبت فرما کیونکہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں ۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے : رسول اللہ ﷺ مجھے پکڑ کر اپنی ایک ران پر بٹھا لیتے تھے اور حسن بن علی ؓ کو اپنی دوسری ران پر بٹھا لیتے پھر انہیں ملا کر فرماتے :’’ اے اللہ ! ان دونوں پر رحم فرما کیونکہ میں ان پر شفقت و رحمت فرماتا ہوں ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر بھیجا تو اس پر اسامہ بن زید ؓ کو امیر مقرر فرمایا ، کچھ لوگوں نے ان کی امارت کے بارے میں اعتراض کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر تم اس کی امارت پر اعتراض کرتے ہو تو تم اس سے پہلے اس کے والد کی امارت کےبارے میں بھی اعتراض کر چکے ہو ۔ اللہ کی قسم ! بلاشبہ وہ امارت کے زیادہ لائق تھا اور وہ تمام لوگوں سے مجھے زیادہ محبوب تھا اور اس کے بعد یہ بھی مجھے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہے ۔‘‘
اور صحیح مسلم کی روایت میں بھی اسی طرح ہے ، اور اس کے آخر میں ہے :’’ میں اس کے متعلق تمہیں وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ تمہارے صالحین میں سے ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ ؓ کو قرآن کریم کی اس آیت ’’ ان کو ان کے آباء کے نام سے بلاؤ ۔‘‘ کے نازل ہونے تک ہم زید بن محمد (ﷺ) کہہ کر بلایا کرتے تھے ۔ متفق علیہ ۔
اور براء ؓ سے مروی حدیث کہ آپ ﷺ نے علی ؓ سے فرمایا ((أنت منی)) باب بلوغ الصغیر و حضانتہ میں ذکر ہو چکی ہے ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجۃ الوداع کے موقع پر عرفہ کے روز آپ کی اونٹنی قصواء پر خطاب فرماتے ہوئے دیکھا ، میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ لوگو ! میں نے تم میں ایسی چیز چھوڑی ہے جب تک تم اسے تھامے رکھو گے گمراہ نہیں ہو گے ، وہ اللہ کی کتاب اور میری عترت میرے اہل بیت ہیں ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
زید بن ارقم ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں تم میں ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک تم اس کے ساتھ تمسک اختیار رکھو گے تو میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے ، ان میں سے ایک دوسری سے عظیم تر ہے ، اللہ کی کتاب جو کہ ایک ایسی رسی ہے جو آسمان سے زمین کی طرف دراز کی گئی ہے ، اور میری عترت اہل بیت ، یہ دونوں الگ نہیں ہوں گے حتیٰ کہ حوض (کوثر) پر میرے پاس آئیں گے ۔ دیکھو کہ تم ان دونوں کے بارے میں میری کیسی جانشینی نبھاتے ہو ۔‘‘ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے علی ، فاطمہ اور حسن اور حسین ؓ کے بارے میں فرمایا :’’ جس نے ان سے لڑائی کی میں اس سے لڑنے والا ہوں ، اور جس نے ان سے مصالحت کی میں اس سے مصالحت کرنے والا ہوں ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
جمیع بن عمیر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں اپنی پھوپھی کے ساتھ عائشہ ؓ کے پاس گیا تو میں نے پوچھا : رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ کس سے محبت تھی ؟ انہوں نے فرمایا : فاطمہ ؓ سے ، پوچھا گیا : مردوں میں سے ؟ انہوں نے فرمایا : ان کے شوہر (علی ؓ) سے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
عبد المطلب بن ربیعہ سے روایت ہے کہ عباس ؓ غصے کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، میں اس وقت آپ کے پاس ہی تھا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ آپ کو کس نے ناراض کیا ؟‘‘ انہوں نے فرمایا : اللہ کے رسول ! ہمارا (بنو ہاشم) اور باقی قریشیوں کا کیا معاملہ ہے ؟ جب وہ آپس میں ملتے ہیں تو بڑی خندہ پیشانی سے ملتے ہیں ، اور جب ہم سے ملتے ہیں تو اس طرح نہیں ملتے ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ بھی غصے میں آ گئے حتیٰ کہ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا ۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! کسی شخص کے دل میں ایمان داخل نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی خاطر تم سے محبت کرے ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ لوگو ! جس نے میرے چچا کو اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی ، آدمی کا چچا اس کے باپ کے مانند ہوتا ہے ۔‘‘ ترمذی ، اور مصابیح میں مطلب سے مروی ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے عباس ؓ سے فرمایا :’’ جب پیر کا دن ہو تو آپ اور آپ کی اولاد میرے پاس آنا ، میں تمہارے لیے دعا کروں گا جس کے ذریعے اللہ تمہیں اور تمہاری اولاد کو فائدہ پہنچائے گا ۔‘‘ ہم ان کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ ﷺ نے ہمیں اپنی چادر میں لے کر دعا فرمائی :’’ اے اللہ ! عباس اور اس کی اولاد کی تمام ظاہری و باطنی لغزشیں معاف فرما ، ان کا کوئی گناہ باقی نہ چھوڑ ، اے اللہ ! ان کا سایہ ان کی اولاد پر قائم فرما ۔‘‘
اور رزین نے یہ اضافہ نقل کیا ہے :’’ اور ان کی اولاد میں خلافت باقی رکھ ۔‘‘ اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و رزین ۔ْ
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، جعفر ؓ مساکین سے محبت کیا کرتے تھے ، ان کے ہاں بیٹھا کرتے تھے اور وہ ان سے بات چیت کیا کرتے تھے ۔ اور رسول اللہ ﷺ نے ان کی کنیت ’’ابوالمساکین‘‘ رکھی تھی ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں نے جعفر کو جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ حسن ، رواہ الترمذی ۔
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ حسن و حسین دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔‘‘ ترمذی ۔ یہ حدیث فصل اول میں بھی گزر چکی ہے ۔ صحیح ، رواہ الترمذی ۔