انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ دو قسم کے بھوکے حریص لوگ کبھی سیر نہیں ہوتے ، علم کا حریص شخص کبھی علم سے سیر نہیں ہوتا اور دنیا کا حریص کبھی دنیا سے سیر نہیں ہوتا ۔‘‘ بیہقی نے یہ تینوں احادیث شعب الایمان میں بیان کی ہیں ۔ اور امام احمد نے ابودرداء ؓ سے مروی حدیث کے بارے میں فرمایا : اس حدیث کا متن تو لوگوں میں مشہور ہے ، لیکن اس کی اسناد صحیح نہیں ۔ سندہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان (۱۰۲۷۹ ، ۹۷۹۸ ، ۵۰) و ابن عدی فی الکامل (۶/ ۲۲۹۸) و ابن جوزی فی العلل المتناھیۃ (۱۱۳) و الحاکم (۱/ ۹۲) و ابی خیشمۃ فی العلم (۱۴۱) ۔
عون ؒ بیان کرتے ہیں ، عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا :’’ دو بھوکے حریص لوگ سیر نہیں ہوتے صاحب علم اور صاحب دنیا ، اور یہ دونوں برابر بھی نہیں ہو سکتے ، رہا صاحب علم تو وہ رحمان کی رضا مندی میں بڑھتا چلا جاتا ہے ،اور رہا صاحب دنیا تو وہ سرکشی میں بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ پھر عبداللہ ؓ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ ہاں بلاشبہ انسان سرکش ہو جاتا ہے ، جب وہ اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتا ہے ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، انہوں نے دوسرے کے لیے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ بات صرف یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے علما ہی اس سے ڈرتے ہیں ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی (۱/ ۹۶ ح ۳۳۹) ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میری امت میں سے کچھ لوگ دین میں تفقہ حاصل کرنے کا دعویٰ کریں گے ، وہ قرآن پڑھیں گے ، وہ کہیں گے : ہم امرا کے پاس جا کر ان سے ان کی دنیا سے کچھ حاصل کرتے ہیں ، اور ہم اپنے دین کو ان سے بچا کر رکھتے ہیں حالانکہ ایسے نہیں ہو سکتا ۔ جیسے قتاد (سخت کانٹے دار جنگلی درخت) سے صرف کانٹے ہی چنے جا سکتے ہیں ، اسی طرح ان (امرا) کے قرب سے سوائے ۔‘‘ محمد بن صباح نے کہا : گویا آپ ﷺ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ’’ ان کے پاس جانے سے گناہ حاصل ہو گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابن ماجہ (۲۵۵) ۔
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں : اگر اہل علم ، علم کی حفاظت کرتے اور اسے اس کے اہل لوگوں تک پہنچاتے تو وہ اس کے ذریعے اپنے زمانے کے لوگوں پر سیادت و حکمرانی کرتے ، لیکن انہوں نے دنیا داروں کے لیے مخصوص کر دیا تاکہ وہ اس کے ذریعے ان کی دنیا سے کچھ حاصل کر لیں ، تو اس طرح وہ ان کے سامنے بے آبرو ہوگئے ، میں نے تمہارے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے :’’ جو شخص اپنے غموں کو سمیٹ کر فقط اپنی (آخرت کو) ایک غم بنا لیتا ہے تو اللہ اس کے دنیا کے غموں سے اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے ، اور جس شخص کو دنیا کے غم و فکر منتشر رکھیں تو پھر اللہ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوتا ہے ۔‘‘ ضعیف ، رواہ ابن ماجہ (۲۵۷) ۔
بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عمر ؓ سے آپ ﷺ کے قول :((من جعل الھموم ،،،،)) سے آخر تک روایت کیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان (۱۸۸۸) و الحاکم فی المستدرک (۴/ ۳۲۸ ، ۳۲۹) ۔
اعمش ؒ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بھول جانا علم کے لیے آفت ہے ، اور جو علم کی اہلیت نہیں رکھتے ان سے اسے بیان کرنا اسے ضائع کرنا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی (۱/ ۱۵۰ ح ۶۳۰) ۔
سفیان الثوری ؒ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب ؓ نے کعب ؓ سے پوچھا : اہل علم کون ہیں ؟ انہوں نے کہا : جو اپنے علم کے مطابق عمل کرتے ہیں ، پھر پوچھا : کون سی چیز علما کے دلوں سے علم نکال دیتی ہے ؟ انہوں نے کہا : (دنیا کا) طمع ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی (۱/ ۱۴۴ ح ۵۹۰) ۔
احوص بن حکیم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : کسی آدمی نے نبی ﷺ سے شر کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھ سے شر کے بارے میں مت پوچھو ۔ مجھ سے خیر کے بارے میں پوچھو ۔‘‘ آپ نے تین مرتبہ ایسے فرمایا : پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’ سن لو ! سب سے بڑا شر علمائے سوء ہیں ، اور سب سے بڑی خیر علمائے خیر ہیں ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی (۱ /۱۰۴ ح ۳۷۶) ۔
ابودرداء ؓ بیان کرتے ہیں :’’ روز قیامت اللہ کے ہاں سب سے بُرا مقام اس عالم کا ہو گا جو اپنے علم سے فائدہ حاصل نہیں کرتا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا موضوع ، رواہ الدارمی (۱ /۸۲ ح ۲۶۸) ۔
زیاد بن حُدیر ؒ بیان کرتے ہیں ، عمر ؓ نے مجھ سے پوچھا : کہ تم جانتے ہو کون سی چیز اسلام کی عزت میں کمی کرتی ہے ؟ میں نے کہا : نہیں ، انہوں نے فرمایا : عالم کی لغزش ، منافق کا قرآن کے ساتھ جدال کرنا اور گمراہ حکمرانوں کا فیصلے کرنا ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ الدارمی (۱ /۷۱ ح ۲۲۰) ۔
حسن بصری ؒ بیان کرتے ہیں : علم کی دو اقسام ہیں ، ایک علم دل میں ہے ، وہ علم نفع مند ہے ، اور ایک علم زبان پر ہے ، وہ اللہ عزوجل کی ابن آدم کے خلاف حجت ہو گی ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی (۱ /۱۰۲ ح ۳۷۰) ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے (علم کے) دو ظروف یاد کیے ، ان میں سے ایک میں نے تمہارے درمیان نشر کر دیا ، رہی دوسری قسم تو اگر میں اسے نشر کردوں تو میرا گلا کاٹ دیا جائے ۔ رواہ البخاری (۱۲۰) ۔
عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا : لوگو ! جس شخص کو کسی چیز کا علم ہو تو وہ اس کے متعلق بات کرے ، اور جسے علم نہ ہو تو وہ کہے : (اللہ اعلم) اللہ بہتر جانتا ہے ۔ کیونکہ جس چیز کا تجھے علم نہ ہو اس کے متعلق تمہارا یہ کہنا کہ اللہ بہتر جانتا ہے ، یہ بھی علم کی بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا :’’ کہہ دیجیے ، میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور میں تکلف کرنے والوں میں سے بھی نہیں ہوں ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۴۸۰۹) و مسلم ۔
حذیفہ ؓ نے فرمایا : اے قراء کی جماعت ! سیدھی راہ پر ثابت قدم رہو ، اس لیے کہ تم سب سے آگے ہو ، اور اگر تم دائیں بائیں چلے گئے تو تم بہت دور گمراہی میں چلے جاؤ گے ۔ رواہ البخاری (۷۲۸۲) ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ (غمناک گڑھے) سے اللہ کی پناہ طلب کرو ۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! غمناک گڑھے سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ جہنم میں ایک وادی ہے ، جس سے جہنم (کی دیگر وادیاں) ہر روز چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہیں ۔‘‘ عرض کیا گیا ، اللہ کے رسول ﷺ ! اس میں کون داخل ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنے اعمال کے ذریعے ریاکاری کرنے والے قراء ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی (۲۳۸۳) و ابن ماجہ (۲۵۶) ۔
اسی طرح ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ، اور انہوں نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے :’’ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ قراء وہ ہیں جو امرا کے پاس جاتے ہیں ۔‘‘ محاربی نے کہا : اس سے ظالم امرا مراد ہیں ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ قریب ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا دور آئے جب اسلام کا صرف نام اور قرآن کا صرف رسم الخط باقی رہ جائے گا ، ان کی مساجد آباد ہوں گی لیکن وہ ہدایت سے خالی ہوں گی ، ان کے علما آسمان تلے بدترین لوگ ہوں گے ، ان کے پاس سے فتنہ ظاہر ہو گا اور انہی میں لوٹ جائے گا ۔‘‘ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان (۱۹۰۸) ۔
زیاد بن لبید ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے کسی (خوفناک) چیز کا ذکر کیا تو فرمایا :’’ یہ علم کے رخصت ہو جانے کے وقت ہو گی ۔‘‘ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! علم کیسے رخصت ہو جائے گا ، جبکہ ہم قرآن پڑھتے ہیں ، اور ہم اسے اپنی اولاد کو پڑھا رہے ہیں ، اور ہماری اولاد اپنی اولاد کو پڑھائے گی اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ زیاد ! تیری ماں تمہیں گم پائے ، میں تو تمہیں مدینہ کا بڑا فقیہ شخص سمجھتا تھا ، کیا یہ یہود و نصاری تورات و انجیل نہیں پڑھتے ، لیکن وہ ان کے مطابق عمل نہیں کرتے ۔‘‘ احمد ، ابن ماجہ ، اور ترمذی نے بھی انہی سے اسی طرح روایت کیا ہے ۔ ضعیف ، رواہ احمد (۴ /۱۶۰ ح ۱۷۶۱۲) و ابن ماجہ (۴۰۴۸) و الترمذی (۲۶۵۳) ۔
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا :’’ علم سیکھو اور اسے دوسروں کو سکھاؤ ، فرائض (علم میراث) سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھاؤ ، قرآن سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھاو ، کیونکہ میری روح قبض کر لی جائے گی ، اور (میرے بعد) علم بھی اٹھا لیا جائے گا ، فتنے ظاہر ہو جائیں گے ، حتیٰ کہ دو آدمی کسی فریضہ میں اختلاف کریں گے لیکن وہ اپنے درمیان فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں پائیں گے ۔‘‘ ضعیف ، رواہ الدارمی (۱ /۷۲ ، ۷۳ ح ۲۲۷) و الدارقطنی (۴ /۸۲) و الترمذی (۲۰۹۱) ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس علم سے فائدہ نہ اٹھایا جائے وہ اس خزانے کی طرح ہے جس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا جائے ۔‘‘ ضعیف ، رواہ احمد (۲ /۴۹۹ ح ۱۰۴۸۱) و الدارمی (۱ /۱۳۸ ح ۵۶۲) ۔
ابومالک اشعری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ پاکیزگی نصف ایمان ہے ، الحمدللہ میزان کو بھر دیتا ہے ، سبحان اللہ اور الحمدللہ دونوں یا (ان میں سے ہر کلمہ) زمین و آسمان کے مابین کو بھر دیتا ہے ، نماز نور ہے ، صدقہ برہان ہے ، صبر ضیا ہے اور قرآن تیرے حق میں یا تیرے خلاف دلیل ہو گا ۔ ہر آدمی صبح کے وقت اپنے نفس کا سودا کرتا ہے ، پس وہ اسے آزاد کرا لیتا ہے یا ہلاک کر دیتا ہے ۔‘‘ رواہ مسلم و الدارمی (۱ /۱۶۷ ح ۶۵۹) و النسائی فی الکبریٰ : ۹۹۹۶) ۔
اور ایک دوسری روایت میں ہے :((لا الہ الا للہ و اللہ اکبر)) زمین و آسمان کے مابین ہر چیز کو بھر دیتے ہیں ۔‘‘ میں نے یہ روایت صحیحین میں پائی ہے نہ حمیدی کی کتاب میں اور نہ ہی الجامع میں ۔ لیکن دارمی نے اسے سبحان اللہ و الحمدللہ کے بدلے ذکر کیا ہے ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا میں تمہیں ایسا عمل بتاؤں جس کے ذریعے اللہ خطائیں معاف کر دیتا ہے اور درجات بلند کرتا ہے ؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا : کیوں نہیں ، اللہ کے رسول ! ضرور بتائیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ناگواری کے باوجود مکمل طور پر وضو کرنا ، مساجد کی طرف زیادہ قدم چل کر جانا اور نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا ، یہی سرحدی چھاؤنی کی حفاظت ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عثمان ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص وضو کرے اور خوب اچھی طرح وضو کرے تو اس کی خطائیں اس کے جسم سے نکل جاتی ہیں ، حتیٰ کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتی ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (لم اجدہ) و مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب مسلمان یا مومن بندہ وضو کرتا ہے اور وہ اپنا چہرہ دھوتا ہے تو آنکھوں کے دیکھنے سے ہونے والی تمام خطائیں پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے چہرے سے نکل جاتی ہیں ، پس جب وہ اپنے ہاتھ دھوتا ہے ، تو اس کے ہاتھوں سے جو خطائیں سرزد ہوتی ہیں ، وہ پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے ہاتھوں سے نکل جاتی ہیں ، پس جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو اس کے پاؤں سے جو خطائیں سرزد ہوتی ہیں پانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے پاؤں سے نکل جاتی ہیں ، حتیٰ کہ وہ گناہوں سے صاف ہو جاتا ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عثمان ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب کوئی مسلمان فرض نماز کا وقت ہونے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرتا ہے اور اس کے خشوع و رکوع کا اچھی طرح اہتمام کرتا ہے تو وہ اس (نماز) سے پہلے کیے ہوئے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے بشرطیکہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ ہو ، اور یہ (فرض نماز سے صغیرہ گناہوں کا معاف ہو جانا) ہمیشہ کے لیے ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عثمان ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے وضو کیا تو تین مرتبہ اپنے ہاتھوں پر پانی ڈالا ، پھر کلی کی اور ناک جھاڑی ، پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا ، پھر تین مرتبہ کہنی سمیت اپنا دایاں ہاتھ دھویا ، پھر تین مرتبہ کہنی سمیت اپنا بایاں ہاتھ دھویا ، پھر اپنے سر کا مسح کیا ، پھر تین مرتبہ اپنا دایاں پاؤں دھویا ، پھر تین مرتبہ بایاں ، پھر فرمایا : میں نے رسول اللہ کو دیکھا ، آپ نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا ، پھر فرمایا :’’ جو شخص میرے اس وضو کی طرح وضو کرتا ہے ، پھر دو رکعتیں پڑھتا ہے اور وہ اس دوران اپنے دل میں کسی قسم کا خیال نہ لائے تو اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں ۔‘‘ بخاری ، مسلم ، حدیث کے الفاظ بخاری کے ہیں ۔ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۱۹۳۴) و مسلم ۔
عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو مسلمان وضو کرتا ہے اور وہ اپنا وضو اچھی طرح کرتا ہے پھر کھڑا ہو کر مکمل توجہ کے ساتھ دو رکعتیں پڑھتا ہے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عمر بن خطاب ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے جو شخص وضو کرتا ہے اور اچھی طرح مکمل وضو کرتا ہے ۔ پھر کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور یہ کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔‘‘ اور ایک دوسری روایت میں ہے :’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، وہ جس سے چاہے داخل ہو جائے ۔‘‘ رواہ مسلم و ابن الاثیر فی جامع الاصول (۹ /۳۳۶ ح ۷۰۱۷) زیادۃ الترمذی (۵۵) سنن ترمذی (۱ /۷۹ ۔ ۸۲) ۔
امام مسلم نے اسے اس طرح اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ۔ حمیدی نے ’’افراد مسلم‘‘ میں اور اسی طرح ابن اثیر نے ’’جامع الاصول‘‘ میں روایت کیا ہے ۔ الشیخ محی الدین النووی نے مسلم کی حدیث کے آخر میں ذکر کیا ہے ، اور امام ترمذی نے یہ الفاظ زائد نقل کیے ہیں : ’’ اے اللہ ! مجھے توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں میں سے بنا دے ۔‘‘ وہ حدیث جسے محی السنہ ’’الصحاح‘‘ میں روایت کیا ہے ’’ جو شخص وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے ۔‘‘ آخر تک ، امام ترمذی نے اسے بالکل اسی طرح اپنی جامع میں روایت کیا ہے ، لیکن ((ان محمد)) سے پہلے ((اشھد)) کا ذکر نہیں ۔