عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی ایسا کام جاری کیا جو کہ اس میں نہیں وہ مردود ہے ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۲۶۹۷) و مسلم ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ حمدوثنا اور صلوۃ و سلام کے بعد ، سب سے بہترین کلام ، اللہ کی کتاب ہے ، اور بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے ، بدترین امور وہ ہیں جو نئے جاری کیے جائیں ، اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔‘‘ رواہ مسلم و النسائی (۳/ ۱۸۹ ، ۱۸۸ ح ۱۵۷۹) ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تین قسم کے لوگ اللہ کو سخت ناپسندیدہ ہیں ، حرم میں ظلم و ناانصافی کرنے والا ، اسلام میں ، جاہلیت کا طریقہ تلاش کرنے والا اور بڑی جدوجہد کے بعد کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا ۔‘‘ رواہ البخاری (۶۸۸۲) ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میری ساری امت جنت میں جائے گی بجز اس شخص کے جس نے انکار کیا ۔‘‘ عرض کیا گیا ، کس نے انکار کیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے میری اطاعت کی وہ جنت میں جائے گا اور جس نےمیری نافرمانی کی گویا اس نے انکار کر دیا ۔‘‘ رواہ البخاری (۷۲۸۰) ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، کچھ فرشتے نبی ﷺ کے پاس آئے ، آپ سو رہے تھے ، انہوں نے کہا : تمہارے اس ساتھی کی ایک مثال ہے ، وہ مثال ان کے سامنے بیان کر دو ، ان میں سے بعض فرشتوں نے کہا : وہ تو سوئے ہوئے ہیں ، جبکہ بعض نے کہا : بے شک آنکھیں سوئی ہوئی ہیں لیکن دل بیدار ہے ، پس انہوں نے کہا : ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے ایک گھر بنایا ، اس میں دسترخوان لگایا اور ایک داعی کو بھیجا ، پس جس شخص نے داعی کی دعوت کو قبول کر لیا وہ گھر میں داخل ہو گا اور دسترخوان سے کھانا بھی کھائے گا ، اور جس نے داعی کی دعوت کو قبول نہ کیا وہ گھر میں داخل ہوا نہ دسترخوان سے کھانا کھایا ، پھر انہوں نے کہا : اس کی (مزید) وضاحت کردو تاکہ وہ اسے سمجھ سکیں ، پھر ان میں سے کسی نے کہا کہ وہ تو سوئے ہوئے ہیں اور بعض نے کہا : آنکھ سوئی ہوئی ہے اور دل بیدار ہے ، پس انہوں نے کہا : گھر ، جنت ہے ، داعی ، محمد ﷺ ہیں ۔ پس جس شخص نے محمد ﷺ کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد ﷺ کی نافرمانی کی تو اس نے اللہ کی نافرمانی کی ، اور محمد ﷺ لوگوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں ۔‘‘ رواہ البخاری (۷۲۸۱) ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، تین اشخاص نبی ﷺ کی عبادت کے متعلق پوچھنے کے لیے نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کے پاس آئے ، جب انہیں اس کے متعلق بتایا گیا ، تو گویا انہوں نے اسے کم محسوس کیا ، چنانچہ انہوں نے کہا : ہماری نبی ﷺ سے کیا نسبت ؟ اللہ نے تو ان کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف فرما دی ہیں ، ان میں سے ایک نے کہا : میں تو ہمیشہ ساری رات نماز پڑھوں گا ۔ دوسرے نے کہا : میں دن کے وقت ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور افطار نہیں کروں گا اور تیسرے نے کہا : میں عورتوں سے اجتناب کروں گا اور میں کبھی شادی نہیں کروں گا ۔ نبی ﷺ ان کے پاس آئے اور پوچھا : تم وہ لوگ ہو جنہوں نے اس طرح ، اس طرح کہا ہے ، اللہ کی قسم ! میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سے زیادہ تقویٰ رکھتا ہوں ، لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں ، رات کو نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں ، پس جو شخص میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۵۰۶۳) و مسلم ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے کوئی کام کیا ، پھر آپ نے اس میں رخصت دے دی تو کچھ لوگوں نے رخصت کو قبول کرنے سے اجتناب کیا ، پس رسول اللہ ﷺ کو اس بارے میں پتہ چلا تو آپ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا ، اللہ کی حمد بیان کی ، پھر فرمایا :’’ لوگوں کو کیا ہو گیا کہ جو کام میں کرتا ہوں وہ اس سے دور رہتے ہیں ، اللہ کی قسم ! میں اللہ کے متعلق ان سے زیادہ جانتا ہوں ، اور اس سے ان سے زیادہ ڈرتا ہوں ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۶۱۰۱) و مسلم ۔
رافع بن خدیج ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ مدینہ تشریف لائے تو وہ (اہل مدینہ) کھجوروں کی پیوندکاری کیا کرتے تھے ، آپ ﷺ نے پوچھا :’’ تم کیا کرتے ہو ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : ہم ایسے ہی کرتے آ رہے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر تم (پیوندکاری) نہ کرو تو شاید تمہارے لیے بہتر ہو ۔‘‘ انہوں نے ایسا کرنا چھوڑ دیا تو اس سے پیداوار کم ہو گئی ۔ راوی بیان کرتے ہیں ، انہوں نے اس کے متعلق آپ سے بات کی تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں ایک انسان ہوں ، جب میں تمہیں تمہارے دین کے کسی معاملے کے بارے میں تمہیں حکم دوں تو اس کی تعمیل کرو ، اور جب میں اپنی رائے سے کسی چیز کے متعلق تمہیں کوئی حکم دوں تو میں ایک انسان ہوں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوموسیٰ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میری اور جس چیز کے ساتھ اللہ نے مجھے مبعوث کیا ہے اس کی مثال ، اس شخص جیسی ہے جو کسی قوم کے پاس آیا اور اس نے کہا : میری قوم ! میں نے اپنی آنکھوں سے لشکر دیکھا ہے اور میں واضح اور حقیقی طور پر آگاہ کرنے والا ہوں ، لہذا تم جلدی سے بچاؤ کر لو ، پس اس کی قوم کا ایک گروہ اس کی بات مان کر سرشام اطمینان کے ساتھ روانہ ہو گیا ، اور وہ بچ گیا ، جبکہ ان کے ایک گروہ نے اس شخص کی بات کو جھٹلایا اور اپنی جگہ پر ڈٹے رہے تو صبح ہوتے ہی اس لشکر نے ان پر دھاوا بول دیا اور انہیں مکمل طور پر ختم کر دیا ، پس یہ اس شخص کی مثال ہے جس نے میری اطاعت کی اور میری لائی ہوئی شریعت کی اتباع کی ، اور اس شخص کی مثال ہے جس نے میری نافرمانی کی اور میرے لائے ہوئے حق کی تکذیب کی ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۷۲۸۳) و مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی ، پس جب اس (آگ) نے اپنے اردگرد کو روشن کر دیا تو پروانے اور آگ میں گرنے والے حشرات وغیرہ اس میں گرنا شروع ہو گئے ، اور وہ شخص انہیں روکنے لگا لیکن وہ بزور اس میں گرنے لگے ، پس میں تمہیں کمر سے پکڑ کر آگ سے روک رہا ہوں جبکہ تم بزور اسی میں گر رہے ہو ۔‘‘ یہ بخاری کی روایت ہے اور مسلم کی روایت بھی اسی طرح ہے اور اس کے آخر میں ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میری اور تمہاری مثال اس طرح ہے کہ میں تمہیں کمر سے پکڑ کر آگ سے بچا رہا ہوں ، آگ سے بچ کر میری طرف آ جاؤ ، آگ سے بچ کر میری طرف آ جاؤ ، لیکن تم مجھ سے بزور اس میں گر رہے ہو ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۶۴۸۳) و مسلم ۔
ابوموسیٰ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ نے جو ہدایت اور علم دے کر مجھے مبعوث کیا ہے ، وہ کسی زمین پر برسنے والی موسلادھار بارش کی طرح ہے ، پس اس زمین کا ایک ٹکڑا بہت اچھا تھا ، اس نے پانی کو قبول کیا اور اس نے بہت سا گھاس اور سبزہ اگایا ، اور اس زمین کا کچھ ٹکڑا سخت تھا ، اس نے پانی کو روک لیا ، پس اللہ نے اس کے ذریعے لوگوں کو فائدہ پہنچایا ، لوگوں نے خود پیا ، جانوروں کو پلایا اور آب پاشی کی ، جبکہ زمین کا ایک ٹکڑا صاف چٹیل تھا ، وہاں بارش ہوئی تو وہ پانی روکتی ہے نہ سبزہ اگاتی ہے ، پس یہی مثال اس شخص کی ہے جسے اللہ کے دین میں سمجھ بوجھ عطا کی گئی ، اور اللہ نے جو تعلیمات دے کر مجھے مبعوث فرمایا ان سے اسے فائدہ پہنچایا ، پس اس نے خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا ، اور یہی اس شخص کی مثال ہے جس نے (ازراہ تکبر) اس کی طرف سر نہ اٹھایا اور اللہ نے جو ہدایت دے کر مجھے مبعوث فرمایا اسے قبول نہ کیا ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۷۹) و مسلم ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے آپ پر یہ کتاب نازل کی ، اس کی بعض آیتیں صاف واضح ہیں اور محکم ہیں ۔‘‘ اور یہاں تک تلاوت فرمائی :’’ اور وعظ و نصیحت کو صرف وہی لوگ سمجھتے ہیں جو عقل مند ہیں ۔‘‘ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تو دیکھے ۔‘‘ جبکہ مسلم کی روایت میں ہے :’’ جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو مختلف معانی کی متحمل آیات تلاش کرتے ہیں ، تو وہ ایسے لوگ ہیں جن کا اللہ نے (دلوں میں کجی رکھنے والے) نام رکھا ہے ، تو تم ان سے بچو ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۴۵۴۷) و مسلم ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں ، میں صبح سویرے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، راوی بیان کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے دو آدمیوں کی آواز سنی جو کہ کسی آیت کے بارے میں جھگڑ رہے تھے ، رسول اللہ ﷺ غصے کی حالت میں ہمارے پاس تشریف لائے غصے کے آثار آپ کے چہرے پر نمایاں تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم سے پہلی قومیں کتاب میں اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مسلمانوں کے حق میں وہ مسلمان سب سے بڑا مجرم ہے جس نے کسی ایسی چیز کے بارے میں (اپنے نبی سے) دریافت کیا جو پہلے حرام نہیں تھی ، لیکن اس کے دریافت کرنے کی وجہ سے اسے حرام کر دیا گیا ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۷۲۸۹) و مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ آخری دور میں فریب کار جھوٹے لوگ ہوں گے ، وہ تمہارے پاس ایسی احادیث لائیں گے جو تم نے سنی ہوں گی نہ تمہارے آباء نے ، پس اپنے آپ کو ان سے اور انہیں اپنے آپ سے دور رکھو ، تاکہ وہ تمہیں گمراہی اور فتنے میں مبتلا نہ کر دیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، اہل کتاب تورات عبرانی زبان میں پڑھا کرتے تھے اور اہل اسلام کے لیے عربی زبان میں اس کی تفسیر بیان کیا کرتے تھے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اہل کتاب کی تصدیق کرو نہ تکذیب ، بلکہ کہو : ہم اللہ پر اور جو ہماری طرف نازل کیا گیا اس پر ایمان لائے ۔‘‘ رواہ البخاری (۷۵۴۲) ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے بس یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (تحقیق کیے بغیر) بیان کر دے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ نے مجھ سے پہلے جس نبی کو مبعوث فرمایا تو اس نبی کے اس کی امت میں کچھ معاون اور کچھ عام ساتھی ہوتے ہیں ، وہ اس کی سنت کو قبول کرتے اور اس کے حکم کی اتباع کرتے ہیں ، پھر ان کے بعد برے جانشین آ جائیں گے وہ ایسی باتیں کریں گے جس پر ان کا عمل نہیں ہو گا اور ایسے کام کریں گے جن کا انہیں حکم نہیں دیا گیا ہو گا ، پس جو شخص اپنے ہاتھ کے ساتھ ان سے جہاد کرے گا وہ مومن ہے ، جو اپنی زبان کے ساتھ ان سے جہاد کرے گا وہ مومن ہے ، اور جو دل سے ان سے جہاد کرے گا تو وہ بھی مومن ہے ، اور اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص ہدایت کی طرف دعوت دے تو اسے بھی اس ہدایت کی اتباع کرنے والوں کی مثل ثواب ملے گا ، اور یہ ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں کرے گا ، اور جو شخص کسی گمراہی کی طرف دعوت دے تو اسے بھی اس گمراہی کی اتباع کرنے والوں کی مثل گناہ ملے گا ، اور یہ ان کے گناہ میں کوئی کمی نہیں کرے گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اسلام اجنبیت کے عالم میں شروع ہوا ، اور عنقریب اسی حالت میں لوٹ جائے گا جیسے شروع ہوا ، پس اجنبیوں (جنہوں نے اسلام کے ابتدائی دور اور آخری دور میں اسلام کا ساتھ دیا) کے لیے خوشخبری ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک ایمان مدینہ کی طرف سمٹ آئے گا جس طرح سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ آتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ البخاری (۱۸۷۶) و مسلم ۔
ہم ان شاءاللہ تعالیٰ ابوہریرہ ؓ سے مروی حدیث : ((ذرونی ما ترکتکم)) کتاب المناسک میں اور معاویہ و جابر ؓ سے مروی حدیثیں : ((لایزال من امتی)) اور ((ولا یزال طائفۃ من امتی)) باب ثواب ھذہ الامۃ میں ذکر کریں گے ۔
ربیعہ جرشی ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ کی خدمت میں ایک فرشتہ حاضر ہوا ، اور آپ سے عرض کیا گیا : آپ کی آنکھیں سوئی ہوئی ہوں (کسی اور طرف نہ دیکھیں) آپ کے کان توجہ سے سنتے ہوں اور آپ کا دل سمجھتا ہو ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میری آنکھیں سو گئیں ، میرے کان غور سے سنتے رہے اور میرا دل سمجھتا رہا ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھے کہا گیا : کسی سردار نے کوئی گھر بنایا ، اس میں دسترخوان لگایا اور کسی دعوت دینے والے کو بھیجا ، پس جس شخص نے داعی کی دعوت کو قبول کر لیا ، وہ گھر میں داخل ہوا ، کھانا کھایا اور وہ سردار اس سے خوش ہو گیا ، اور جس شخص نے داعی کی دعوت قبول نہ کی تو وہ گھر میں داخل ہوا نہ کھانا کھایا اور سردار بھی اس پر ناراض ہوا ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ ، سردار ہے ، محمد ﷺ داعی ہیں ، گھر سے مراد اسلام اور دسترخوان سے مراد جنت ہے ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الدارمی (۱/ ۷ ح ۱۱) ۔
ابورافع ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں تم میں سے کسی کو اپنی مسند پر ٹیک لگائے ہوئے نہ پاؤں کہ اس کے پاس میرا کوئی امر آئے ، جس کے متعلق میں نے حکم دیا ہو یا میں نے اس سے منع کیا ہو ، تو وہ شخص یوں کہے : میں (اسے) نہیں جانتا ، ہم نے جو کچھ اللہ کی کتاب میں پایا ، ہم اس کی اتباع کریں گے ۔‘‘ صحیح ، رواہ احمد (۶/ ۸ ح ۲۴۳۶۲ ، اطراف المسند ۶/ ۲۱۸) و الترمذی (۲۶۶۳) و ابوداود (۶۰۵) و ابن ماجہ (۱۳) و البیھقی فی دلائل النبوۃ (۱/ ۲۵ ، ۶/ ۵۴۹) و ابن حبان (۱۳) و الحاکم (۱/ ۱۰۸ ، ۱۰۹) ۔
مقداد بن معدی کرب ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ سن لو ، مجھے قرآن اور اس کے ساتھ اس کی مثل عطا کی گئی ہے ، سن لو ، قریب ہے کہ کوئی شکم سیر شخص اپنی مسند پر یوں کہے : تم اس قرآن کو لازم پکڑو پس تم جو چیز اس میں حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور تم جو چیز اس میں حرام پاؤ تو اسے حرام سمجھو ، حالانکہ اللہ کے رسول ﷺ نے جس چیز کو حرام قرار دیا ہے وہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے ، سن لو ، پالتو گدھے ، کچلی والے درندے اور ذمی کی گری پڑی کوئی چیز ، الا یہ کہ وہ خود اس سے بے نیاز ہو جائے ، تمہارے لیے حلال نہیں ، اور جو شخص کسی قوم کے ہاں پڑاؤ ڈالے تو ان لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اس کی ضیافت کریں ، اور اگر وہ اس کی ضیافت نہ کریں ، تو پھر اسے حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ضیافت کے برابر ان سے وصول کرے ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد (۴۶۰۴) و دارمی (۱/ ۱۴۴ ح ۵۹۲) و ابن ماجہ (۱۲) و ابن حبان (۹۷) ۔
دارمی نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے ، اور اسی طرح ابن ماجہ نے ((کما حرم اللہ)) تک روایت کیا ہے ۔
عرباض بن ساریہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا :’’ کیا تم میں سے کوئی اپنی مسند پر ٹیک لگا کر یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ نے صرف وہی کچھ حرام قرار دیا ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے ، سن لو ! اللہ کی قسم ! میں نے بھی کچھ چیزوں کے بارے میں حکم دیا ہے ، وعظ و نصیحت کی اور کچھ چیزوں سے منع کیا ، بلاشبہ وہ بھی قرآن کی مثل ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے ، بے شک اللہ نے تمہارے لیے حلال نہیں کیا کہ تم بلا اجازت اہل کتاب (ذمیوں) کے گھروں میں داخل ہو جاؤ اور جب تک وہ تمہیں جزیہ دیتے رہیں ، ان کی خواتین کو مارنا اور ان کے پھل کھانا تمہارے لیے حلال نہیں ۔‘‘ ابوداؤد ، اس کی سند میں اشعث بن شعبہ مصیصی راوی ہے جس پر کلام کیا گیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد (۳۰۵۰) ۔
عرباض بن ساریہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک روز رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی ، پھر آپ نے اپنا رخ انور ہماری طرف کیا تو ایک بڑے بلیغ انداز میں ہمیں وعظ و نصیحت فرمائی جس سے آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور دل ڈر گئے ، ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ تو الوداعی نصیحتیں معلوم ہوتی ہیں ، پس آپ ہمیں وصیت فرمائیں ، تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے ، سننے اور اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں خواہ وہ (امیر) حبشی غلام ہو ، کیونکہ تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت اختلاف دیکھے گا ، پس تم پر میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے ، پس تم اس سے تمسک اختیار کرو اور داڑھوں کے ساتھ اسے پکڑ لو ، اور دین میں نئے کام جاری کرنے سے بچو ، کیونکہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔‘‘ احمد ، ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ۔ البتہ امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے نماز کا ذکر نہیں کیا ۔ صحیح ، رواہ احمد (۴/ ۱۲۶ ، ۱۲۷ ح ۱۷۲۷۵) و ابوداؤد (۴۶۰۷) و الترمذی (۲۶۷۶) و ابن ماجہ (۴۳) و ابن حبان (۱۰۲) و الحاکم (۱/ ۹۵ ، ۹۶) ۔
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ہمارے لیے ایک خط کھینچا ، پھر فرمایا :’’ یہ اللہ کی راہ ہے ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے اس کے دائیں بائیں کچھ خط کھینچے ، اور فرمایا :’’ یہ اور راہیں ہیں ، اور ان میں سے ہر راہ پر ایک شیطان ہے جو اس راہ کی طرف بلاتا ہے ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ یہ میری سیدھی راہ ہے ، پس اس کی اتباع کرو ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد (۱/ ۴۳۵ ح ۴۱۴۲) و النسائی (فی الکبریٰ : ۱۱۱۷۴ ، التفسیر : ۱۹۴) و الدارمی (۱/ ۶۷ ، ۶۸ ح ۲۰۸) و ابن حبان (۱۷۴۱ ، ۱۷۴۲) و الحاکم (۲/ ۳۱۸) و ابن ماجہ (۱۱) ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع ہو جائیں ،‘‘ امام بغوی نے شرح السنہ میں اسے روایت کیا ہے ۔ امام نووی نے اربعین میں فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے اور ہم نے اسے کتاب الحجہ میں صحیح سند کےساتھ روایت کیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ (۱/ ۲۱۲ ، ۲۱۳ ح ۱۰۴) و النووی فی الاربعین (۴۱) ۔
بلال بن حارث مزنی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس نے میری کسی ایسی سنت کا احیا کیا ، جسے میرے بعد ترک کر دیا گیا ، تو اسے بھی ، اس پر عمل کرنے والوں کے برابر ثواب ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی ، اور جس نے بدعت و ضلالت کو جاری کیا جسے اللہ اور اس کے رسول پسند نہیں کرتے ، تو اسے بھی اتنا ہی گناہ ملے گا جتنا اس پر عمل کرنے والوں کو ملے گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الترمذی (۲۶۷۷) و ابن ماجہ (۲۰۹) ۔
اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور ابن ماجہ نے یہ روایت کثیر بن عبداللہ بن عمرو عن ابیہ عن جدہ کے طریق سے بیان کی ہے ۔ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ ابن ماجہ (۲۱۰) ۔