ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ اللہ اس شخص کے چہرے کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی ایسی چیز سنی ، تو اس نے جیسے اسے سنا تھا ویسے ہی اسے آگے پہنچا دیا ، کیونکہ بسا اوقات جسے بات پہنچائی جاتی ہے وہ اس کی ، اس سننے والے کی نسبت زیادہ حفاظت کرنے والا ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ الترمذی (۲۶۵۷) و ابن ماجہ (۲۳۲) و ابن حبان (۷۴ ۔ ۷۶) ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھ سے حدیث بیان کرتے وقت احتیاط کیا کرو اور صرف وہی حدیث بیان کرو جس کے بارے میں تمہیں علم ہو (کہ یہ میری حدیث ہے) ، پس جس نے عمداً مجھ پر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی (۲۹۵۱) ۔
ابن ماجہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے لیکن ابن ماجہ نے یہ الفاظ :’’ مجھ سے حدیث بیان کرتے وقت احتیاط کرو اور وہی حدیث بیان کرو جس کے بارے میں تمہیں علم ہو ۔‘‘ ذکر نہیں کئے ۔ صحیح ، رواہ ابن ماجہ (۳۰ ، ۳۳) و الترمذی (۲۲۵۷) ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص قرآن کے بارے میں اپنی رائے سے کچھ کہے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ (۲۹۵۰ ، ۲۹۵۱) ۔
اور ایک دوسری روایت میں ہے :’’ جو شخص قرآن کے بارے میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے ۔‘‘
جندب ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص قرآن کے بارے میں اپنی رائے سے کچھ کہے اور اگر وہ درست بھی ہو تب بھی اس نے غلطی کی ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی (۲۹۵۲) و ابوداؤد (۳۶۵۲) ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ قرآن کے بارے میں اختلاف و جھگڑا کرنا کفر ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد (۲/ ۲۸۶ ح ۷۸۳۵ ، ۲/ ۵۰۳ ح ۱۰۵۴۶) و ابوداود (۴۶۰۳) و ابن حبان (۷۳) و الحاکم (۲/ ۲۲۳) ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا ، نبی ﷺ نے کچھ لوگوں کو قرآن کے بارے میں جھگڑا کرتے ہوئے پایا تو فرمایا :’’ تم سے پہلے لوگ بھی اسی وجہ سے ہلاک ہوئے انہوں نے اللہ کی کتاب کے بعض حصوں کا بعض حصوں سے رد کیا ، حالانکہ اللہ کی کتاب تو اس لیے نازل ہوئی کہ وہ ایک دوسرے کی تصدیق کرتا ہے ، پس تم قرآن کے بعض حصے سے بعض کی تکذیب نہ کرو ، اس سے جو تم جان لو تو اسے بیان کرو ، اور جس کا تمہیں پتہ نہ چلے اسے اس کے جاننے والے کے سپرد کر دو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد (۲/ ۱۸۵ ح ۶۷۴۱۹) و ابن ماجہ (۸۵) ۔
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ قرآن سات قراءتوں میں نازل کیا گیا ، اس میں سے ہر آیت کا ظاہر اور باطن ہے ، اور ہر سطح کا مفہوم سمجھنے کے لیے مناسب استعداد کی ضرورت ہے ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ (۱/ ۲۶۳ بعد ح ۱۲۲ معلقًا) و الطبری فی تفسیرہ (۱/ ۱۰ ،۱۱) و ابن حبان (۱۷۸۱) و ابی یعلیٰ فی مسندہ (۹/ ۸۱ ح ۵۱۴۹) ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ علم تین ہیں : آیت محکمہ یا سنت ثابتہ یا فریضہ عادلہ (ہر وہ فرض جس کی فرضیت پر مسلمانوں کا اجماع ہے) اور جو اس کے سوا ہو وہ افضل ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد (۲۸۸۵) و ابن ماجہ (۵۴) الذھبی فی تلخیص المستدرک (۴/ ۳۳۲) ۔
عوف بن مالک اشجعی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ امیر یا جسے وہ اجازت دے وہی خطاب کرنے کا مجاز ہے یا پھر متکبر شخص وعظ کرتا ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد (۳۶۶۵) ۔
دارمی نے عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے روایت بیان کی ہے ، اس میں ((مختال))’’ متکبر ‘‘ کے بجائے ((مراء))’’ ریاکار ‘‘ کا لفظ ہے ۔ حسن ، رواہ الدارمی (۲/ ۳۱۹ ح ۲۷۸۲) ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے علم کے بغیر فتویٰ دیا تو اس کا گناہ اسے فتویٰ دینے والے پر ہے ، اور جس شخص نے اپنے (مسلمان) بھائی کو کسی معاملے میں مشورہ دیا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ بھلائی و بہتری اس کے علاوہ کسی دوسری صورت میں ہے ، تو اس نے اس سے خیانت کی ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد (۳۶۵۷) و الحاکم (۱/ ۱۲۶) و ابن ماجہ (۵۳) ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ علم میراث اور قرآن کی تعلیم حاصل کرو اور لوگوں کو سکھاؤ ، کیونکہ عنقریب میری روح قبض کر لی جائے گی َ:‘‘ ضعیف ، رواہ الترمذی (۲۰۹۱) و ابن ماجہ (۲۷۱۹) ۔
ابودرداء ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ، تو آپ نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر فرمایا :’’ یہ وہ وقت ہے جس میں لوگوں سے علم سلب کر لیا جائے گا حتیٰ کہ وہ اس سے کسی چیز پر بھی قدرت نہیں رکھیں گے ۔‘‘ حسن ، رواہ الترمذی (۲۶۵۳) و الحاکم (۱/ ۹۹) ۔
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ عنقریب لوگ طلب علم میں اونٹوں پر سفر کریں گے ، لیکن وہ عالم مدینہ سے زیادہ عالم کسی کو نہیں پائیں گے ۔ اور ان کی جامع میں ہے کہ ابن عیینہ ؒ نے فرمایا : اس سے مراد مالک بن انس ؒ ہیں ۔ انہی کے مثل عبدالرزاق سے مروی ہے ، اسحاق بن موسی نے بیان کیا ، میں نے ابن عیینہ سے سنا ، تو انہوں نے کہا : اس سے مراد عمری زاہد ہے اور ان کا نام عبدالعزیز بن عبداللہ ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی (۲۶۸۰) و الحاکم (۱/ ۹۱ ح ۳۰۷) ۔
راوی حدیث ابوعلقمہ بیان کرتے ہیں کہ میری معلومات کے مطابق ابوہریرہ ؓ اسے رسول اللہ ﷺ سے مرفوع روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ عزوجل اس امت کے لیے ہر سو سال کے آخر پر کسی ایسے شخص کو بھیجے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد (۴۲۹۱) و الحاکم فی المستدرک (۴/ ۵۲۲) ۔
ابراہیم بن عبدالرحمن عذری ؒ (مرسل روایت) بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اس علم کو بعد میں آنے والے ہر طبقہ کے صاحب تقویٰ لوگ حاصل کریں گے ، وہ اس (علم) سے غلو کرنے والوں کی تحریف ، جھوٹے لوگوں کی جعل سازی اور جہلا کی تاویل کی نفی کریں گے ۔‘‘ بیہقی نے المدخل میں مرسل روایت کیا ہے ، ہم جابر ؓ سے مروی حدیث : ((فانما شفاء العی السوال)) کو باب التیمم میں ان شاء اللہ بیان کریں گے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی (۱۰/ ۲۰۹) ۔
حسن بصری ؒ مرسل روایت بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص کو احیائے اسلام کے لیے علم حاصل کرتے ہوئے موت آ جائے تو جنت میں اس کے اور انبیا علیہم السلام کے مابین صرف (نبوت کا) ایک درجہ ہو گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی (۱/ ۱۰۰ ح ۳۶۰) ۔
حسن بصری ؒ سے مرسل روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ سے بنی اسرائیل کے دو آدمیوں کا تذکرہ کیا گیا ، ان میں سے ایک عالم تھا ، وہ فرض نماز پڑھ کر بیٹھ جاتا اور لوگوں کو خیر (علم) کی تعلیم دیتا ، جبکہ دوسرا شخص دن کو روزہ رکھتا اور رات کو قیام کرتا تھا ۔ آپ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ ان دونوں میں کون افضل ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اس عالم کی ، جو فرض نماز پڑھ کر بیٹھ جاتا ہے اور لوگوں کو خیر کی تعلیم دیتا ہے ، اس پر عابد ، جو دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو قیام کرتا ہے ، اس طرح فضیلت ہے ، جس طرح میری تمہارے ادنی پر فضیلت ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی (۱/ ۹۸ ح ۳۴۷) ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ دین کا فقیہ شخص کیا ہی اچھا ہے اگر اس کی طرف رجوع کیا جائے تو وہ فائدہ پہنچاتا ہے ، اور اگر اس سے بے نیازی برتی جائے تو وہ بھی اپنے آپ کو بے نیاز کر لیتا ہے ۔‘‘ اسنادہ موضوع ، رواہ رزین (لم اجدہ) و ابن عساکر فی تاریخ دمشق (۴۸/ ۲۰۳) ۔
عکرمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا :’’ ہر جمعہ (سات دن) میں لوگوں سے ایک مرتبہ وعظ کرو ، اگر تم (اس سے) انکار کرتے ہو تو پھر (ہفتہ میں) دو مرتبہ ، اگر زیادہ کرتے ہو تو پھر تین مرتبہ ، لوگوں کو اس قرآن سے اکتا نہ دو ، میں تمہیں نہ پاؤں کہ تم لوگوں کے پاس آؤ اور وہ اپنی گفتگو میں مصروف ہوں اور تم ان کی بات کاٹ کر کے انہیں وعظ کرنا شروع کر دو ، اس طرح تم انہیں اکتا دو گے ، بلکہ تم (وہاں جا) کر خاموشی اختیار کرو ، جب وہ تمہیں کہیں تو انہیں وعظ کرو ، درآنحالیکہ وہ اس کی خواہش رکھتے ہوں اور مسجع و مقفع کلام میں دعا کرنے سے اجتناب کرو ، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کو دیکھا کہ وہ ایسے نہیں کیا کرتے تھے ۔ رواہ البخاری (۶۳۳۷) ۔
واثلہ بن اسقع ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص علم تلاش کرے اور اسے پا لے تو اس کے لیے دو اجر ہیں ، اور اگر اسے نہ پا سکے تو اس کے لیے ایک اجر ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الدارمی (۱/ ۹۷ ح ۳۴۲) ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مومن کو اپنی موت کے بعد اپنے مال و حسنات میں جن کا ثواب پہنچتا رہتا ہے ، ان میں سے ایک علم ہے جو اس نے سکھایا اور اسے نشر کیا ، (دوسرا) نیک اولاد جو اس نے چھوڑی ، یا قرآن مجید جو اس نے کسی کو عطیہ کیا ، یا مسجد ہے جو اس نے بنائی یا مسافر خانہ ہے جو اس نے بنایا ، یا نہر ہے جو اس نے جاری کی یا وہ صدقہ ہے جو اس نے اپنی صحت و حیات میں اپنے مال سے کیا ، پس یہ وہ اعمال ہیں جن کا ثواب اس کی موت کے بعد بھی اسے پہنچتا رہتا ہے ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ ابن ماجہ (۲۴۲) و البیھقی فی شعب الایمان (۳۴۴۸) و ابن خذیمہ (۲۴۹۰) ۔
عائشہ ؓ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ اللہ عزوجل نے میری طرف وحی فرمائی کہ جو شخص طلب علم میں کوئی سفر کرتا ہے تو میں اس کے لیے راہ جنت آسان کر دیتا ہوں ، اور میں جس کی دونوں آنکھیں سلب کر لیتا ہوں تو میں اس کے بدلے اسے جنت عطا کر دیتا ہوں ، علم میں زیادت ، عبادت میں زیادت سے بہتر ہے ، اور دین کی اصل تقویٰ ہے ۔‘‘ سندہ موضوع ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان (۵۷۵۱) ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد نبوی میں دو حلقوں کے پاس سے گزرے تو فرمایا :’’ دونوں خیرو بھلائی پر ہیں ، لیکن ان میں ایک دوسرے سے افضل ہے ، رہے وہ لوگ جو اللہ سے دعا کر رہے ہیں اور اس کے مشتاق ہیں ، پس اگر وہ چاہے تو انہیں عطا فرمائے اور اگر چاہے تو عطا نہ فرمائے ، اور رہے وہ لوگ جو فقہ یا علم سیکھ رہے ہیں اور جاہلوں کو تعلیم دے رہے ہیں ، تو وہ بہتر ہیں ، اور مجھے تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ۔‘‘ پھر آپ اس حلقے میں بیٹھ گئے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی (۱/ ۹۹ ، ۱۰۰ ح ۳۵۵) ۔
ابودرداء ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ سے دریافت کیا گیا کہ علم کی وہ کیا حد ہے جہاں پہنچ کر انسان فقیہ بن جاتا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے امور دین کے متعلق چالیس احادیث یاد کیں اور انہیں آگے امت تک پہنچایا تو اللہ اسے فقیہ کی حیثیت سے اٹھائے گا اور روز قیامت میں اس کے حق میں شفاعت کروں گا اور گواہی دوں گا ۔‘‘ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان (۱۷۲۶) ۔
انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم جانتے ہو سب سے بڑا سخی کون ہے ؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا ، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا سخی ہے ، پھر اولاد آدم میں سب سے بڑا سخی میں ہوں ، اور میرے بعد وہ شخص سخی ہے جس نے علم حاصل کیا اور اسے فروغ دیا ، روز قیامت وہ اس حیثیت سے آئے گا کہ وہ اکیلا ہی امیر ہو گا ۔‘‘ یا فرمایا :’’ اکیلا ہی ایک امت ہو گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان (۱۷۶۷) ۔