ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے کوئی موت کی تمنا نہ کرے ، اگر تو وہ نیکوکار ہے تو شاید کہ وہ نیکیوں میں اضافہ کر لے ، اور اگر وہ خطا کار ہے تو شاید کہ وہ توبہ کر لے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے کوئی موت کی تمنا کرے نہ اس کے آنے سے پہلے اس کے لیے دعا کرے ، کیونکہ جب وہ فوت ہو جاتا ہے تو اس کی امید منقطع ہو جاتی ہے ، اور مومن کی عمر تو اس کے لیے خیرو بھلائی کے اضافہ کا باعث ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے کوئی شخص کسی تکلیف پہنچنے پر موت کی تمنا نہ کرے ، اگر اس کو ضرور کہنا ہے تو وہ یوں کہے : اے اللہ ! جب تک میرا زندہ رہنا میرے لیے بہتر ہے تب تک مجھے زندہ رکھنا ، اور جب وفات میرے لیے بہتر ہو تب مجھے (دنیا سے) اٹھا لینا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عبادہ بن صامت ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص اللہ سے ملاقات کرنا پسند کرتا ہے تو اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے ۔‘‘ عائشہ ؓ یا آپ کی کسی اور زوجہ مححترمہ نے فرمایا : بے شک ہم تو موت کو نا پسند کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ بات نہیں ہے ، بلکہ مومن کو موت آتی ہے تو اسے اللہ کی رضا مندی اور اس کی عزت افزائی کی بشارت دی جاتی ہے تو پھر جو اس کے آگے ہونے والا ہوتا ہے وہ اسے سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے لہذا وہ اللہ سے ملاقات کرنا پسند کرتا ہے اور اللہ اس سے ملاقات کرنا پسند کرتا ہے ، اور جب کافر کو موت آتی ہے تو اسے اللہ کے عذاب اور اس کی سزا کی بشارت دی جاتی ہے تو پھر اس کو مستقبل سے زیادہ ناگوار کوئی چیز نظر نہیں آتی تو وہ اللہ سے ملاقات کرنا ناپسند کرتا ہے اور اللہ اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوقتادہ ؓ حدیث بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ راحت پا گیا یا دوسرے اس سے راحت پا گئے ۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! یہ راحت پا گیا یا دوسرے اس سے راحت پا گئے اس سے کیا مراد ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بندہ مومن دنیا کی مشکلات اور تکلیفوں سے راحت پا کر اللہ کی رحمت کی طرف جاتا ہے جبکہ فاجر شخص سے عبادوبلاد اور درخت و حیوانات راحت پا جاتے ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے مجھے کندھے سے پکڑکر فرمایا :’’ دنیا میں کسی اجنبی شخص یا کسی راہ گزر کی طرح رہو ۔‘‘ اور ابن عمر ؓ فرمایا کرتے تھے : جب شام ہو جائے تو صبح کا انتظار نہ کرو ، اور جب صبح ہو جائے تو پھر شام کا انتظار نہ کرو ، اور صحت میں اپنی بیماری کے لیے اور اپنی حیات سے اپنی موت کے لیے توشہ حاصل کرو ۔ رواہ البخاری ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کی وفات سے تین روز قبل ، فرماتے ہوئے سنا :’’ تمہیں اللہ سے حسن ظن کی صورت میں موت آنی چاہیے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
معاذ بن جبل ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر تم چاہو تو میں تمہیں بتائے دیتا ہوں کہ روز قیامت سب سے پہلے اللہ مومنوں سے کیا فرمائے گا اور وہ سب سے پہلے اس سے کیا عرض کریں گے ؟‘‘ ہم نے عرض کیا جی ہاں اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا :’’ اللہ مومنوں سے فرمائے گا : کیا تم مجھے ملنا پسند کرتے تھے ؟ وہ عرض کریں گے : جی ہاں ، ہمارے پروردگار ! وہ پوچھے گا : کس لیے ؟ وہ عرض کریں گے : ہمیں آپ کے عفوو درگزر اور مغفرت کی امید تھی ، وہ فرمائے گا پس میری مغفرت تمہارے لیے واجب ہو گئی ۔‘‘ ضعیف ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ لذتوں کو کاٹ دینے والی ، موت کو کثرت سے یاد کیا کرو ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و النسائی و ابن ماجہ ۔
ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک روز اپنے صحابہ سے فرمایا :’’ اللہ سے حیا کرو جس طرح اس سے حیا کرنے کا حق ہے ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے نبی ! الحمد للہ ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ بات نہیں ہے ، بلکہ جو شخص اللہ سے ایسے حیا کرتا ہے جیسے حیا کرنے کا حق ہے تو وہ سر اور ان چیزوں کی جو سر میں ہیں (آنکھ ، کان ، زبان) کی حفاظت کرے ، اور وہ پیٹ اور اس کے متعلقات (شرم گاہ ، ہاتھ ، پاؤں اور دل وغیرہ) کی حفاظت کرے ، وہ موت اور بوسیدہ ہونے کو یاد رکھے ، اور جو آخرت چاہتا ہے وہ دنیا ترک کر دے ۔ جو شخص اس طرح کرے تو اس نے اللہ سے ایسے حیا کیا جیسے اس سے حیا کرنے کا حق ہے ۔‘‘ ضعیف ۔
عبیداللہ بن خالد بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اچانک موت ، غضب کی گرفت ہے ۔‘‘ ابوداؤد ۔ امام بیہقی ؒ نے شعب الایمان میں اور رزین نے اپنی کتاب میں یہ اضافہ نقل کیا ہے :’’ غضب کی پکڑ کافر کے لیے ہے جبکہ مومن کے لیے رحمت ہے ۔‘‘ صحیح ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ ایک نوجوان شخص کے پاس گئے جبکہ وہ نزع کی حالت میں تھا ، آپ نے فرمایا :’’ تم کیسا محسوس کرتے ہو ؟‘‘ اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میں اللہ سے امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ایسے موقع پر کسی بندے کے دل میں دو چیزیں (امید اور خوف) اکٹھی ہو جائیں تو اللہ اسے وہ چیز عطا فرما دیتا ہے جس کی وہ امید کرتا ہے اور جس چیز سے وہ ڈر رہا ہوتا ہے اس سے اسے بے خوف کر دیتا ہے ۔‘‘ حسن ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ موت کی تمنا نہ کرو ، کیونکہ مرنے کے بعد کے سماں کی ہولناکی بہت سخت ہے ، اور یہ سعادت کی بات ہے کہ بندے کی عمر دراز ہو جائے اور اللہ عزوجل اسے اپنی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔‘‘ سندہ حسن ، رواہ احمد ۔
ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم رسول اللہ ﷺ کی طرف توجہ کر کے بیٹھے ہوئے تھے ، آپ نے ہمیں وعظ و نصیحت کی اور ہمارے دلوں کو نرم کیا تو سعد بن ابی وقاص ؓ رونے لگے ، انہوں نے بہت زیادہ روتے ہوئے کہہ دیا : کاش کہ میں مر جاتا ، یہ سن کر ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ سعد ! کیا تم میرے ہوتے ہوئے موت کی تمنا کرتے ہو ؟‘‘ آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’ سعد ! اگر تمہیں جنت کے لیے پیدا کیا گیا ہے تو پھر تمہاری عمر جتنی دراز ہو گی اور تمہارے جتنے عمل اچھے ہوں گے وہ تمہارے لیے بہتر ہے ۔‘‘ ضعیف ۔
حارثہ بن مضرب ؒ بیان کرتے ہیں ، میں خباب ؓ کے پاس گیا تو انہوں نے جسم کو سات جگہوں پر داغا ہوا تھا ، انہوں نے کہا : اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا :’’ تم میں سے کوئی موت کی تمنا نہ کرے ۔‘‘ تو میں ضرور اس کی تمنا کرتا میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس طرح بھی دیکھا ہے کہ میرے پاس ایک درہم بھی نہیں تھا ، جبکہ اب میرے گھر کے ایک کونے میں چالیس ہزار درہم ہیں ۔ حارثہ بیان کرتے ہیں ، پھر ان کا کفن لایا گیا ، جب انہوں نے اسے دیکھا تو رونے لگے اور فرمایا :’’ لیکن حمزہ کو کفن کے لیے ایک چھوٹی سی دھاری دار چادر نصیب ہوئی ، جب اسے ان کے سر پر کیا جاتا تو پاؤں سے اکٹھی ہو جاتی اور جب پاؤں پر کی جاتی تو سر کی طرف سے اکٹھی ہو جاتی ، حتیٰ کہ اسے ان کے سر پر پھیلا دیا گیا اور ان کے پاؤں پر گھاس ڈال دی گئی ۔‘‘ احمد ، ترمذی ، البتہ امام ترمذی ؒ نے یہ ذکر نہیں کیا کہ پھر ان کے لیے کفن لایا گیا ، آخر حدیث تک ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ احمد و الترمذی و ابن ماجہ ۔