ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر احد پہاڑ جتنا سونا میرے پاس ہو تو مجھے خوشی ہو گی کہ تین دن کے بعد اس میں سے کچھ بھی میرے پاس باقی نہ بچے بجز اس کے جسے میں قرض کی ادائیگی کے لیے رکھ لوں ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ہر روز صبح کے وقت دو فرشتے آسمان سے نازل ہوتے ہیں تو ان میں سے ایک کہتا ہے : اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا فرما جبکہ دوسرا کہتا ہے : اے اللہ ! بخیل کو تباہی سے دوچار کر ۔‘‘ متفق علیہ ۔
اسماء ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ خرچ کر لیکن شمار نہ کر ورنہ اللہ تجھے بھی گن گن کر دے گا ، (مال کو) روک کر نہ رکھ ورنہ اللہ تجھ سے روک لے گا اور جتنا ہو سکے عطا کرتی رہو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ابن آدم ! اگر تو زائد از ضروریات خرچ کر دے تو وہ تیرے لیے بہتر ہے ، اور اگر تو اسے روک رکھے تو وہ تیرے لیے برا ہے ، لیکن ضرورت کے مطابق رکھ لینے پر تجھ پر کوئی ملامت نہیں ، اور اپنے زیر کفالت افراد پر پہلے خرچ کر ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بخیل اور صدقہ کرنے والے کی مثال ان دو آدمیوں کی سی مثال ہے جن پر لوہے کی زرہیں ہیں ، اور ان کے ہاتھ ان کے سینے اور ہنسلی تک بندھے ہوئے ہیں ، جب صدقہ کرنے والا صدقہ کرتا ہے تو وہ زرہ کشادہ ہوتی چلی جاتی ہے ، اور جب بخیل صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ تنگ ہو جاتی ہے اور ہر کڑی اپنی جگہ پر آ جاتی ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ظلم سے بچو ، کیونکہ ظلم روز قیامت اندھیروں کا باعث ہو گا ، اور مزید کی حرص (بخل) سے بچو کیونکہ اس نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا ، اور باہم قتل و غارت کرنے اور محارم کو حلال کرنے پر انہیں آمادہ کیا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
حارثہ بن وہب ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ صدقہ کیا کرو کیونکہ تم پر ایسا وقت بھی آئے گا کہ آدمی اپنا صدقہ لیے پھرے گا لیکن وہ ایسا شخص نہیں پائے گا جو اسے قبول کر لے ، آدمی (جس کے پاس وہ جائے گا) کہے گا : اگر تم کل اسے لے آتے تو میں اسے قبول کر لیتا جبکہ آج مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اجر و ثواب کے لحاظ سے کون سا صدقہ سب سے بہتر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ صدقہ جو تو تندرستی میں کرے جبکہ مال کی حرص تم پر غالب ہو ، اور تجھے فقر کا اندیشہ بھی ہو اور تونگری کا طمع بھی ، اور (صدقہ کرنے میں) دیر نہ کر حتیٰ کہ جب سانس حلق تک پہنچ جائے اور تو کہے : اتنا مال فلاں کے لیے اور اتنا فلاں کے لیے جبکہ وہ تو (ازخود) فلاں کا ہو چکا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ کعبہ کے سائے تلے تشریف فرما تھے ، جب آپ نے مجھے دیکھا تو فرمایا :’’ رب کعبہ کی قسم ! وہ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، میرے والدین آپ پر قربان ہوں ، وہ کون ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ زیادہ مال والے ، لیکن وہ لوگ جنہوں نے کہا : اس طرف بھی ، اس طرف بھی اور اس طرف بھی ، اپنے آگے ، اپنے پیچھے اور اپنے دائیں ، اپنے بائیں ، جبکہ ایسے لوگ کم ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ سخی شخص اللہ کے قریب ہے ، جنت کے قریب اور لوگوں کے قریب ہے اور جہنم سے بعید ہے ، جبکہ بخیل شخص اللہ سے دور ، جنت سے بعید ، لوگوں سے بعید اور جہنم کے قریب ہے ، اور جاہل سخی اللہ کو عابد بخیل سے زیادہ پسند ہے ۔‘‘ ضعیف ۔
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں ایک درہم صدقہ کرتا ہے تو یہ اس کے لیے قریب المرگ سو درہم صدقہ کرنے سے بہتر ہے ۔‘‘ ضعیف ۔
ابودرداء ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ شخص جو اپنی موت کے قریب صدقہ کرتا ہے یا غلام آزاد کرتا ہے تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو شکم سیر ہونے کے بعد ہدیہ کرے ۔‘‘ احمد ، نسائی ، دارمی ، اور انہوں نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ حسن ، رواہ احمد و النسائی و الدارمی ۔
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی بعض ازواج مطہرات نے نبی ﷺ سے عرض کیا ، ہم میں سے سب سے پہلے آپ سے کون ملیں گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے جس کے ہاتھ زیادہ دراز ہیں ۔‘‘ وہ لکڑی لے کر اپنے بازو ناپنے لگیں ، تو سودہ ؓ کے ہاتھ ان میں سے زیادہ دراز تھے ، پھر ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ ان کے ہاتھ لمبے ہونے سے مراد ، صدقہ تھی ، اور ہم میں سے زینب ؓ سب سے پہلے آپ سے جا ملیں ، اور وہ صدقہ کرنا پسند کیا کرتی تھیں ۔ بخاری اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے : عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں لمبے ہاتھ والی مجھے سب سے پہلے ملے گی ۔‘‘ وہ بیان کرتی ہیں : وہ یہ جاننے کے لیے ان میں سے کس کے ہاتھ دراز ہیں وہ باہم ہاتھ ناپا کرتی تھیں ، پس زینب ؓ کے ہم میں سے ہاتھ زیادہ لمبے تھے ، کیونکہ وہ اپنے ہاتھ سے کام کیا کرتی تھیں ۔ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کسی آدمی نے کہا : میں صدقہ کروں گا ، وہ اپنا صدقہ لے کر باہر نکلا تو اس نے اسے کسی چور کے ہاتھ میں تھما دیا ، صبح ہوئی تو باتیں ہونے لگیں کہ رات کسی چور پر صدقہ کر دیا گیا ، تو اس آدمی نے کہا : اے اللہ ! ہر قسم کی حمد تیرے ہی لیے ہے ، کسی چور پر (صدقہ کر دیا گیا)، میں ضرور صدقہ کروں گا ، وہ صدقہ لے کر نکلا اور اسے کسی زانیہ کے ہاتھ پر رکھ دیا ، صبح ہوئی تو باتیں ہونے لگیں کہ رات کسی زانیہ پر صدقہ کر دیا گیا ، پھر اس آدمی نے کہا : اے اللہ ! ہر قسم کی حمد تیرے ہی لیے ہے ، (میں نے) کسی زانیہ پر (صدقہ کر دیا)، میں ضرور صدقہ کروں گا ، وہ صدقہ لے کر نکلا اور اور کسی مال دار شخص کے ہاتھ میں دے دیا ، صبح ہوئی تو لوگ بڑے تعجب سے باتیں کرنے لگے کہ رات کسی مال دار پر صدقہ کر دیا گیا ، اس نے کہا : اے اللہ ! ہر قسم کی حمد تیرے ہی لیے ہے ، (میں نے) چور ، زانیہ اور مال دار شخص پر (صدقہ کر دیا) اسے خواب میں بتایا گیا ، تم نے جو چور پر صدقہ کیا تو ممکن ہے کہ وہ چوری کرنے سے باز آ جائے ، رہی زانیہ تو ممکن ہے کہ وہ زنا کاری سے باز آ جائے ، اور رہا مال دار شخص تو شاید کہ وہ عبرت حاصل کرے اور اللہ کے عطا کردہ مال میں سے خرچ کرے ۔‘‘ بخاری ، مسلم ، اور الفاظ حدیث امام بخاری کے ہیں ۔ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس اثنا میں ایک آدمی صحرا میں تھا کہ اس نے بادلوں میں ایک آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کرو ، وہ بادل (وہاں سے) الگ ہوا اور اس نے اپنا پانی سنگریزوں والی زمین پر برسایا ، تو ان نالیوں میں سے ایک نالی نے وہ سارا پانی سمیٹ لیا ، پھر وہ آدمی پانی کے پیچھے پیچھے گیا تو دیکھا کہ ایک آدمی اپنے باغ میں کھڑا اپنی کسّی کے ذریعے پانی کے (بہاؤ کے) رخ بدل رہا ہے ، اس آدمی نے اس سے دریافت کیا : اللہ کے بندے ! تمہارا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا : فلاں ، اس نے بالکل وہی نام بتایا جو اس نے بادلوں میں سنا تھا ، اس آدمی نے کہا : اللہ کے بندے ! تم نے میرا نام کیوں پوچھا ہے ؟ اس نے کہا : میں نے اس بادل میں ، جس کا یہ پانی ہے ، ایک آواز سنی کہ وہ تمہارا نام لے کر کہہ رہا تھا ، فلاں شخص کے باغ کو سیراب کرو ، تم اس میں کیا کرتے ہو ؟ اس نے کہا : جو تم نے کہہ دیا ، تو اب سنو ، میں اس کی پیداوار کا تہائی حصہ صدقہ کرتا ہوں ، تہائی حصہ میں اور میرے اہل و عیال کھاتے ہیں اور اس کا تہائی حصہ اس (باغ) پر خرچ کر دیتا ہوں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ بنی اسرائیل کے تین آدمی تھے ، برص میں مبتلا شخص ، گنجا اور اندھا ، اللہ نے انہیں آزمانے کا ارادہ فرمایا تو ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا ، وہ برص کے مریض شخص کے پاس آیا تو کہا تمہیں کون سی چیز زیادہ پسند ہے ؟ اس نے کہا : اچھا رنگ اور خوبصورت جلد ، اور یہ بیماری مجھ سے ہٹا دی جائے ، جس کی وجہ سے لوگ مجھے نا پسند کرتے ہیں ، راوی بیان کرتے ہیں ، اس نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کا مرض جاتا رہا ، اور اسے بہترین رنگت اور بہترین جلد عطا کر دی گئی ، اس (فرشتے) نے پوچھا : تمہیں کون سا مال زیادہ محبوب ہے ؟ اس نے کہا : اونٹ یا اس نے کہا گائے ۔‘‘ اسحاق راوی کو شک ہوا کہ برص کے مریض اور گنجے ان دونوں میں سے ایک نے اونٹ کہا اور دوسرے نے گائے کہا ، فرمایا :’’ اسے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی دے دی گئی تو اس (فرشتے) نے کہا : اللہ ان کے بارے میں تمہیں برکت عطا فرمائے ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں :’’ پھر وہ گنجے کے پاس گیا تو اس نے کہا : تمہیں کون سی چیز زیادہ پسند ہے ؟ اس نے کہا : خوبصورت زلفیں اور مجھ سے یہ تکلیف دور کر دی جائے جس کی وجہ سے لوگ مجھے نا پسند کرتے ہیں ۔‘‘ راوی نے کہا :’’ اس نے اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ تکلیف جاتی رہی ، اسے خوبصورت زلفیں عطا کر دی گئیں ، پھر اس نے پوچھا : تمہیں کون سا مال زیادہ محبوب ہے ؟ اس نے کہا : گائے ، اسے ایک حاملہ گائے دے دی گئی اور فرشتے نے کہا : اللہ اس میں تمہیں برکت عطا فرمائے ، راوی نے کہا : پھر وہ نابینے شخص کے پاس گیا تو کہا : تمہیں کون سی چیز زیادہ محبوب ہے ؟ اس نے کہا : اللہ مجھے میری بصارت لوٹا دے تاکہ میں اس کے ذریعے لوگوں کو دیکھ سکوں ۔‘‘ راوی نے کہا :’’ اس نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اللہ نے اسے اس کی بصارت لوٹا دی ، پھر اس نے پوچھا : تمہیں کون سا مال زیادہ پسند ہے ؟ اس نے کہا بکریاں ، پھر اسے حاملہ بکری دے دی گئی ، پھر اونٹ ، گائے اور بکری نے بچے دیے ، تو اس (برص والے) کے ہاں وادی بھر اونٹ ہو گئے ، اس کے ہاں وادی بھر گائے ہو گئیں اور اس (نابینے) کے ہاں وادی بھر بکریاں ہو گئی ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں :’’ پھر وہ (فرشتہ) اسی صورت و ہیئت میں برص میں مبتلا شخص کے پاس آیا تو اس نے کہا : مسکین آدمی ہوں ، دوران سفر اسباب ختم ہو چکے ہیں ، آج مجھے صرف اللہ کا سہارا ہے یا پھر میں تم سے اس ذات کے واسطے سے سوال کرتا ہوں ، جس نے تجھے بہترین رنگت اور بہترین جلد اور مال عطا کیا ، کہ تم مجھے ایک اونٹ دے دو جس کے ذریعے میں اپنی منزل پر پہنچ جاؤں گا ، اس شخص نے کہا : حقوق بہت زیادہ ہیں ، (کس کس کو دوں )، اس (فرشتے) نے کہا : ایسے لگتا ہے کہ میں تمہیں پہچانتا ہوں ، کیا تم برص میں مبتلا نہیں تھے ، لوگ تجھے نا پسند کرتے تھے اور تم فقیر تھے ، اللہ نے تمہیں مال عطا کیا ، اس شخص نے کہا : یہ مال تو مجھے آباؤو اجداد سے ملا ہے ، اس فرشتے نے کہا : اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں پہلے کی طرح کر دے گا ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں :’’ پھر وہ اپنی اسی صورت میں گنجے شخص کے پاس گیا تو اس نے اسے بھی وہی بات کہی جو اس نے اس (برص والے) سے کہی تھی ، اور اس نے ویسے ہی جواب دیا جیسے اس شخص نے جواب دیا تھا ، فرشتے نے کہا : اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تمہیں پھر پہلے کی طرح کر دے ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں :’’ پھر وہ اپنی اسی صورت و ہیئت میں نابینے شخص کے پاس گیا تو کہا : مسکین آدمی اور مسافر ہوں ، میرے دوران سفر اسباب منقطع ہو گئے ہیں ، آج منزل تک پہنچنے کے لیے مجھے اللہ کا سہارا ہے ، اور پھر میں تم سے اس ذات کا وسیلہ بنا کر سوال کرتا ہوں جس نے تمہاری بینائی لوٹائی کہ تم ایک بکری دے دو ، جس کے ذریعے میں اپنی منزل پر پہنچ جاؤں گا ، اس شخص نے کہا : یقیناً میں ایک نابینا شخص تھا ، اللہ نے میری بینائی لوٹا دی ، جو چاہو لے جاؤ اور چاہو چھوڑ جاؤ ، اللہ کی قسم ! آج جو کچھ تم اللہ کی خاطر اٹھاؤ گے اس پر میں تم پر کوئی سختی نہیں کروں گا ، اس (فرشتے) نے کہا : اپنا مال اپنے پاس رکھو ، تمہاری تو آزمائش کی گئی تھی ، اللہ تعالیٰ تم پر راضی ہو گیا اور تیرے دو ساتھیوں پر ناراض ہو گیا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ام بجید ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! مسکین میرے دروازے پر کھڑا ہو جاتا ہے حتیٰ کہ مجھے حیا آتی ہے کہ میں اس کے ہاتھ پر رکھنے کے لیے گھر میں کوئی چیز نہیں پاتی ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اس کے ہاتھ پر کچھ نہ کچھ رکھ دیا کرو خواہ جلا ہوا کھر ہی کیوں نہ ہو ۔‘‘ احمد ، ترمذی ، ابوداؤد ، اور امام ترمذی نے فرمایا :’’ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ صحیح ، رواہ احمد و ابوداؤد و الترمذی ۔
عثمان ؓ کے آزاد کردہ غلام بیان کرتے ہیں ، ام سلمہ ؓ کو گوشت کا ایک ٹکڑا بطور ہدیہ پیش کیا گیا جبکہ نبی ﷺ کو گوشت پسند تھا ، تو انہوں نے خادمہ سے فرمایا : اسے گھر میں رکھو شاید کہ نبی ﷺ اسے تناول فرمائیں ، اس نے اسے گھر کے طاق میں رکھا ، اور اتنے میں سائل دروازے پر آ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا : اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے ، صدقہ کرو ۔ اہل خانہ نے بھی کہا : اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے (یعنی تمہارا بھلا ہو)، وہ سائل چلا گیا ، تو نبی ﷺ تشریف لے آئے ، آپ نے فرمایا :’’ ام سلمہ ! کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے کہ میں اسے کھا لوں ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، جی ہاں ، اور خادمہ سے فرمایا : جاؤ اور رسول اللہ ﷺ کے لیے وہ گوشت لاؤ ، وہ گئی تو وہاں طاق میں (گوشت کے بجائے) صرف ایک سفید پتھر پڑا ہوا تھا ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ وہ گوشت ، سفید پتھر بن گیا ، تم نے اسے سائل کو کیوں نہ دیا ؟‘‘ ضعیف ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ کیا میں تمہیں مقام و مرتبہ کے لحاظ سے بدترین شخص کے بارے میں نہ بتاؤں ؟‘‘ عرض کیا گیا ، جی ہاں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جس سے اللہ کے نام پر سوال کیا جائے اور وہ نہ دے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد ۔
ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عثمان ؓ سے اندر جانے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے انہیں اجازت دے دی ، اور ان کے ہاتھ میں ایک لاٹھی تھی ، تو عثمان ؓ نے فرمایا : کعب ! عبدالرحمن ؓ وفات پا گئے اور انہوں نے مال چھوڑا ہے ، اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ انہوں نے کہا : اگر تو وہ اس بارے میں اللہ کا حق ادا کیا کرتے تھے تو پھر کوئی حرج نہیں ، ابوذر ؓ نے لاٹھی اٹھائی اور کعب کو دے ماری ، اور کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ میں یہ پسند نہیں کرتا کہ اگر میرے پاس اس پہاڑ برابر سونا ہو اور میں اسے خرچ کر دوں اور وہ مجھ سے قبول بھی ہو جائے اور پھر میں اپنے پیچھے چھ اوقیہ چھوڑ جاؤں ۔‘‘ عثمان ! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ، کیا آپ نے اسے سنا ہے ؟ تین مرتبہ کہا ، انہوں نے فرمایا : ہاں ۔ ضعیف ۔
عقبہ بن حارث ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے مدینہ میں نبی ﷺ کے پیچھے نماز عصر ادا کی تو آپ سلام پھیر کر کھڑے ہوئے اور تیزی کے ساتھ لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے اپنی بعض ازواج مطہرات کے حجروں کی طرف تشریف لے گئے ، صحابہ کرام آپ کی اس تیزی اور جلدی سے پریشان ہو گئے جب آپ ان کے پاس واپس تشریف لائے اور آپ نے دیکھا کہ انہوں نے آپ کی تیزی پر تعجب کیا ہے ، آپ نے فرمایا :’’ مجھے سونے کی ایک ڈلی (ٹکڑا) یاد آ گئی جو ہمارے پاس تھی ، مجھے ناگوار گزرا کہ وہ مجھے اللہ کی یاد سے روکے رکھے ، لہذا میں نے اس کی تقسیم کا حکم فرما دیا ۔‘‘ بخاری ، اور صحیح بخاری کی دوسری روایت میں ہے ، فرمایا :’’ میں نے صدقہ کی سونے کی ڈلی گھر چھوڑی تھی ، میں نے اسے رات بھر گھر رکھنا نا پسند کیا ۔ رواہ البخاری ۔
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ، جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے تو میرے پاس آپ کے چھ یا سات دینار تھے ، رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں انہیں تقسیم کر دوں ، لیکن نبی ﷺ کی تکلیف نے مجھے مصروف رکھا ، آپ نے ان کے متعلق پھر مجھ سے پوچھا :’’ آپ نے ان چھ یا سات دیناروں کا کیا کیا ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ کی قسم ! آپ کی تکلیف نے مجھے مصروف کر دیا ، انہوں نے وہ منگائے ، پھر انہیں اپنی ہتھیلی میں رکھا ، فرمایا :’’ اللہ کا نبی کیا گمان کرے کہ وہ اللہ عزوجل سے ملاقات کرے اور یہ اس کے پاس ہوں ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد ۔
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ بلال ؓ کے پاس تشریف لے گئے تو اس وقت کھجوروں کا ایک ڈھیر ان کے پاس تھا ، آپ نے فرمایا :’’ بلال ! یہ کیا ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، میں نے کل کے لیے کچھ ذخیرہ کیا تھا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم ڈرتے نہیں کہ کل روز قیامت تو اسے جہنم کی آگ دیکھے گا ، بلال ! خرچ کر اور عرش والی ذات سے مفلسی کا اندیشہ نہ کر ۔‘‘ حسن ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ سخاوت ، جنت میں ایک درخت ہے ، پس جو شخص سخی ہو گا تو وہ اس کی ایک شاخ کو پکڑ لے گا ، پھر شاخ اسے نہیں چھوڑے گی حتیٰ کہ وہ اسے جنت میں لے جائے گی ، جبکہ بخیلی و طمع جہنم کا ایک درخت ہے جو شخص بخیل ہو گا تو وہ اس کی ایک شاخ پکڑ لے گا ، اور وہ شاخ اسے نہیں چھوڑے گی حتیٰ کہ اسے جہنم میں لے جائے گی ۔‘‘ ضعیف ۔