Blog
Books
Search Hadith

خضر علیہ السلام کا موسی علیہ السلام کے ساتھ قصہ

18 Hadiths Found

۔ (۸۶۶۷)۔ حَدَّثَنِیْ اَبُوْ عُثْمَانَ، عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بُکَیْرٍ النَّاقِدُ ثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ عَمْروٍ یَعْنِیْ ابْنَ دِیْنَارٍ، عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ: قُلْتُ لِاِبْنِ عَبَّاسٍ: اِنَّ نَوْفًا الشَّامِیَّیَزْعَمُ اَوْیَقُوْلُ: لَیْسَ مُوْسٰی صَاحِبُ خَضِرٍ مُوْسٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ، قَالَ: کَذَبَ نَوْفٌ عَدُوُّ اللّٰہِ، حَدَّثَنِیْ اُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِنَّ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ قَامَ فِیْ بَنِیْ اِسْرَئِیْلَ خَطِیْبًا فَقَالُوْا لَہُ: مَنْ اَعْلَمُ النَّاسِ؟ قَالَ: اَنَا، فَاَوْحَی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعَاَلٰی اِلَیْہِ اِنَّ لِیْ عَبْدًا اَعْلَمَ مِنْکَ، قَالَ: رَبِّ فَاَرِنِیْہِ؟ قَالَ: قِیْلَ تَاْخُذُ حُوْتًا فَتَجْعَلُہُ فِیْ مِکْتَلٍ فَحَیْثُمَا فَقَدْتَّہُ فَھُوَ ثَمَّ، قَالَ: فَاَخَذَ حُوْتًا فَجَعَلَہُ فِیْ مِکْتَلٍ وَ جَعَلَ ھُوَ وَ صَاحِبُہُ یَمْشِیَانِ عَلَی السَّاحِلِ حَتّٰی اَتَیَا الصَّخْرَۃَ رَقَدَ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ وَ اضْطَرَبَ الْحُوْتُ فِیْ الْمِکْتَلِ فَوَقَعَ فِیْ الْبَحْرِ، فَحَبَسَ اللّٰہُ جِرْیَۃَ الْمَائِ فَاضْطَرَبَ الْمَائُ فَاسْتَیْقَظَ مُوْسٰی فَقَالَ: {لِفَتَاہُ آتِنَا غَدَائَ نَا لَقَدْ لَقِیْنَا مِنْ سَفَرِنَا ھٰذَا نَصَبًا} وَ لَمْ یُصِبِ النَّصَبَ حَتّٰی جَاوَزَ الَّذِیْ اَمَرَہُ اللّٰہُ تَباَرَکَ وَ تَعَالٰی فَقَالَ: {اَرَاَیْتَ اِذْ اَوَیْنَا اِلَی الصَّخْرِۃِ فَاِنِّیْ نَسِیْتُ الْحُوْتَ وَ مَا اَنْسَانِیْہُ اِلَّا الشَّیْطَانُ} { فَارْتَدَّا عَلٰی آثَارِھِمَا قَصَصًا} فَجَعَلَا یَقُصَّانِ آثَارَھُمَا {وَاتَّخَذَ سَبِیْلََہُ فِیْ الْبَحْرِ سَرَبًا} قَالَ: اَمْسَکَ عَنْہُ جِرْیَۃَ الْمَائِ فَصَارَ عَلَیْہِ مِثْلُ الطَّاقِ فَکَانَ لِلْحُوْتِ سَرَبًا وَ کَانَ لِمُوْسٰی عَلَیْہِ عَجَبًا حَتَّی انْتَھَیَا اِلَی الصَّخْرَۃِ فَاِذَا رَجُلٌ مُسَجًّی عَلَیْہِ ثَوْبٌ، فَسَلَّمَ مُوْسٰی عَلَیْہِ، فَقَالَ: وَ اَنّٰی بِاَرْضِکَ السَّلَامُ، قَالَ: اَنَا مُوْسٰی، قَالَ: مُوْسٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ؟ قَالَ: نَعَمْ، {اَتَّبِعُکَ عَلٰی اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا} قَالَ: یَا مُوْسٰی! اِنِّیْ عَلٰی عِلْمٍ مِنَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی لَا تَعْلَمُہُ، وَ اَنْتَ عَلٰی عِلْمٍ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَّمَکَہُ اللّٰہُ، فَانْطَلَقَا یَمْشِیَانِ عَلَی السَّاحِلِ فَمَرَّتْ سَفِیْنَۃٌ فَعَرَفُوْا الْخَضِرَ فَحُمِلَ بِغَیْرِ نَوْلٍ فَلَمْ یُعْجِبْہُ، وَ نَظَرَ فِیْ السَّفِیْنَۃِ فَاَخَذَ الْقَدُّوْمَ یُرِیْدُ اَنْ یَکْسِرَ مِنْھَا لَوْحًا، فَقَالَ: حُمِلْنَا بِغَیْرِ نَوْلٍ وَ تُرِیْدُ اَنْ تَخْرِقَھَا لِتُغْرِقَ اَھْلَھَا {قَالَ اَ لَمْ اَقُلْ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا} قَالَ: اِنِّیْ نَسِیْتُ، وَ جَائَ عُصْفُوْرٌ فَنَقَرَ فِیْ الْبَحْرِ قَالَ الْحَضِرُ: مَا یُنْقِصُ عِلْمِیْ وَ لَا عِلْمُکَ مِنْ عِلْمِ اللّٰہِ تَعَالٰی اِلَّا کَمَا یُنْقِصُھٰذَا الْعُصْفُوْرُ مِنْ ھٰذَا الْبَحْرِ {فَانْطَلَقَا حَتّٰی اِذَا اَتَیَا اَھْلَ قِرْیَۃٍ اسْْتَطْعَمَا اَھْلَھَا فَاَبَوْا اَنْ یُضَیِّفُوْھُمَا} فَرَاٰی غُلَامًا فَاَخَذَ رَاْسَہُ فَانْتَزَعَہُ فَقَالَ: {اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَکِیَّۃً بِغَیْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا نُکْرًا، قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَکَ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا} قَالَ: سُفْیَانُ: قَالَ عَمْرٌو: وَ ھٰذِہِ اَشَدُّ مِنَ الْاُوْلٰی، قَالَ: فَانْطَلَقَا فَاِذَا جِدَارٌ یُرِیْدُ اَنْ یَنْقَضَّ فَاَقَامَہُ، اَرَانَا سُفْیَانُ بِیَدِہِ فَرَفَعَ یَدَہُ ھٰکَذَا رَفْعًا فَوَضَعَ رَاحَتَیْہِ فَرَفَعَھُمَا لِبَطْنِ کَفَّیْہِ رَفْعًا فَقَالَ: {لَوْ شِئْتَ لَا تَّخَذْتَ عَلَیْہِ اَجْرًا قَالَ ھٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَ بَیْنِکَ} قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: کَانَتِ الْاَوْلیٰ نِسْیَانًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَرْحَمُ اللّٰہُ مُوْسٰی لَوْ کَانَ صَبَرَ حَتّٰییَقُصَّ عَلَیْنَا مِنْ اَمْرِہِ۔)) (مسند احمد: ۲۱۴۳۱)

۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے کہا: نوف شامی کا خیال ہے کہ جس موسی کی خضر سے ملاقات ہوئی تھی، وہ بنو اسرائیل والے موسی نہیں ہیں، انھوں نے کہا: اللہ کے دشمن نوف نے جھوٹ بولا ہے، سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک موسی علیہ السلام بنو اسرائیل میں خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے، لوگوں نے ان سے پوچھا: لوگوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا کون ہے؟ انھوں نے کہا: میں ہوں، اُدھر سے اللہ تعالی نے ان کی طرف وحی کر دی کہ میرا ایک بندا تجھ سے زیادہ علم والا ہے، انھوں نے کہا: اے میرے ربّ! تو پھر وہ مجھے دکھاؤ، ان سے کہا گیا کہ تم ایک مچھلی پکڑو اور اس کو ایک ٹوکرے میں ڈالو، جہاں تم اس کو گم پاؤ گے، وہ وہاں ہو گا، پس انھوں نے مچھلی پکڑی اور اس کو ایک ٹوکرے میں رکھا اور انھوں نے اور ان کے ایک ساتھی نے ساحل کی طرف چلنا شروع کر دیا،یہاں تک کہ وہ ایک چٹان کے پاس پہنچ گئے، موسی علیہ السلام وہاں سو گئے، مچھلی نے ٹوکرے میں حرکت کی اور سمندر میں کود گئی، اللہ تعالی نے مچھلی کے داخل ہونے والی جگہ کا پانی روک لیا (اور یوں ایک غار سی نظر آنے لگی)، جب پانی مضطرب ہوا تو موسی علیہ السلام بیدار ہو گئے (اور کہیں آگے جا کراپنے نوجوان سے) کہا: لا ہمارا کھانا دے، ہمیں تو اپنے اس سفر سے سخت تکلیف اٹھانی پڑی۔ موسی علیہ السلام نے اس مقام سے آگے گزر کر تھکاوٹ محسوس کی، جس کا اللہ تعالی نے حکم دیا تھا، آگے سے اس نوجوان نے جواب دیا کہ کیا آپ نے دیکھا بھی؟ جب کہ ہم چٹان پر ٹیک لگا کر آرام کر رہے تھے، وہیں میں مچھلی بھول گیا تھا، دراصل شیطان نے مجھے بھلا دیا۔ چنانچہ وہیں سے اپنے قدموں کے نشان ڈھونڈتے ہوئے واپس لوٹے۔ پس انھوں نے اپنے قدموں کے نشانات کو ڈھونڈنا شروع کر دیا، اور اس مچھلی نے انوکھے طور پر دریا میں اپنا راستہ بنا لیا۔ اور وہ اس طرح کہ اللہ تعالی نے پانی کا چلاؤ روک لیا اور وہ جگہ طاق کی طرح نظر آنے لگا، یہ مچھلی کے لیے انوکھا اور موسی علیہ السلام کے لیے عجیب کام تھا، بہرحال وہ دونوں بالآخر اس چٹان تک پہنچ گئے، مطلوبہ مقام پر پہنچ کر انھوں نے دیکھا کہ ایک آدمی ہے، اس نے کپڑا ڈھانپا ہوا ہے، موسی علیہ السلام نے اس کو سلام کہا، اس نے آگے سے کہا: تیرے علاقے میں سلام کیسے آ گیا؟ انھوں نے کہا: میں موسی ہوں، خضر علیہ السلام نے کہا: بنو اسرائیل کا موسی؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، میں آپ کی تابعداری کروں کہ آپ مجھے اس نیک علم کو سکھا دیں۔ خضر علیہ السلام نے کہا: اے موسی! بیشک مجھے اللہ کی طرف سے ایسا علم دیا گیا ہے کہ تم اس کو نہیں جانتے اور تم کو اسی کی طرف سے ایسا علم دیا گیا ہے کہ میں اس کی معرفت نہیں رکھتا، پھر وہ دونوں ساحل پر چل پڑے (اور خضر علیہ السلام نے موسی علیہ السلام پر پابندی لگا کہ انھوں نے اس سے اس کے کیے کے بارے میںسوال نہیں کرنا)، وہاں سے ایک کشتی گزری، انھوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا، اس لیے ان کو بغیر کسی اجرت کے سوار کر لیا گیا، لیکنیہ چیز اسے اچھی نہ لگی پھر خضر علیہ السلام نے کشتی کو دیکھا اور کلہاڑا لے کر اس کی ایک تختی کو توڑنا چاہا، موسی علیہ السلام نے کہا: ان لوگوں نے ہمیں اجرت کے بغیر سوار کر لیا اور اب تم اس کشتی کو توڑ کر سب سواروں کو غرق کرنا چاہتے ہو؟ انھوں نے کہا: میں نے تو پہلے ہی تجھ سے کہہ دیا تھا کہ تو میرے ساتھ ہر گز صبر نہ کر سکے گا۔ موسی علیہ السلام نے کہا: بیشک میں بھول گیا تھا، پھر ایک پرندہ آیا اور اس نے سمندر سے اپنی چونچ بھری، خضر علیہ السلام نے اس کو دیکھ کر کہا: اے موسی! میرے اور تیرے علم نے اللہ تعالی کے علم میں صرف اتنی کمی کی ہے، جتنی کہ اس پرندے نے اس سمندر میں کی ہے، پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ وہ دونوں ایک گاؤں والوں کے پاس آئے ان سے کھانا طلب کیا، لیکن انھوں نے ان کیمہمان داری سے صاف انکار کر دیا۔ نیز خضر علیہ السلام نے وہاں ایک لڑکا دیکھا اور اس کو پکڑ کر اس کا سر اکھاڑ دیا، موسی علیہ السلام نے کہا: کیا تو نے ایک پاک جان کو بغیر کسی جان کے عوض مار ڈالا، بیشک تو نے تو بڑی ناپسندیدہ حرکت کی، انھوں نے کہا: کیا میں نے تم نہیں کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر ہر گز صبر نہیں کر سکتے۔ عمرو نے اپنی روایت میں کہا: یہ پہلے کام سے زیادہ سخت کام تھا، پھر وہ دونوں چل پڑے، جب خضر علیہ السلام نے دیوار کو گرتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے اس کو سیدھا کر دیا، سفیان راوی نے اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے اپنے ہاتھ کو اس طرح بلند کیا، پھر اپنی ہتھیلیوں کو رکھا اور پھر ان کو ہتھیلیوں کی اندرونی سمت کی طرف سے بلند کیا، موسی علیہ السلام نے کہا: اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے لیتے، اس نے کہا: بس یہ جدائی ہے میرے اور تیرے درمیان۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: پہلی بار تو موسی علیہ السلام بھول گئے تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ موسی علیہ السلام پر رحم کرے، کاش وہ صبر کرتے تاکہ وہ ہم پر اپنے مزید معاملات بیان کرتے۔

Haidth Number: 8667

۔ (۸۶۶۸)۔ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کُنَّا عِنْدَہُ فَقَالَ الْقَوْمُ: إِنَّ نَوْفًا الشَّامِیَّیَزْعُمُ أَنَّ الَّذِی ذَہَبَ یَطْلُبُ الْعِلْمَ لَیْسَ مُوسٰی بَنِی إِسْرَائِیلَ، وَکَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ مُتَّکِئًا فَاسْتَوٰی جَالِسًا فَقَالَ: کَذَلِکَ یَا سَعِیدُ! قُلْتُ: نَعَمْ، أَ نَا سَمِعْتُہُ یَقُولُ ذَاکَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: کَذَبَ نَوْفٌ، حَدَّثَنِی أُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ: أَ نَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْنَا وَعَلَی صَالِحٍ، رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْنَا وَعَلَی أَ خِی عَادٍ۔))، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ مُوسٰی علیہ السلام بَیْنَا ہُوَ یَخْطُبُ قَوْمَہُ ذَاتَ یَوْمٍ، إِذْ قَالَ لَہُمْ: مَا فِی الْأَ رْضِ أَ حَدٌ أَ عْلَمُ مِنِّی، وَأَ وْحَی اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی إِلَیْہِ أَ نَّ فِی الْأَ رْضِ مَنْ ہُوَ أَ عْلَمُ مِنْکَ، وَآیَۃُ ذٰلِکَ أَ نْ تُزَوِّدَ حُوتًا مَالِحًا، فَإِذَا فَقَدْتَہُ فَہُوَ حَیْثُ تَفْقِدُہُ، فَتَزَوَّدَ حُوتًا مَالِحًا فَانْطَلَقَ ہُوَ وَفَتَاہُ حَتَّی إِذَا بَلَغَ الْمَکَانَ الَّذِی أُمِرُوْا بِہِ، فَلَمَّا انْتَہَوْا إِلَی الصَّخْرَۃِ انْطَلَقَ مُوسٰییَطْلُبُ، وَوَضَعَ فَتَاہُ الْحُوتَ عَلَی الصَّخْرَۃِ، وَاضْطَرَبَ فَاتَّخَذَ سَبِیلَہُ فِی الْبَحْرِ سَرَبًا، قَالَ فَتَاہُ: إِذَا جَائَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَدَّثْتُہُ، فَأَ نْسَاہُ الشَّیْطَانُ، فَانْطَلَقَا فَأَ صَابَہُمْ مَا یُصِیبُ الْمُسَافِرَ مِنْ النَّصَبِ وَالْکَلَالِ، وَلَمْ یَکُنْیُصِیبُہُ مَا یُصِیبُالْمُسَافِرَ مِنْ النَّصَبِ وَالْکَلَالِ حَتّٰی جَاوَزَ مَا أُمِرَ بِہِ، فَقَالَ مُوسٰی لِفَتَاہُ: {آتِنَا غَدَائَ نَا لَقَدْ لَقِینَا مِنْ سَفَرِنَا ہٰذَا نَصَبًا} قَالَ لَہُ فَتَاہُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! {أَ رَأَ یْتَ إِذْ أَ وَیْنَا إِلَی الصَّخْرَۃِ فَإِنِّی نَسِیتُ} أَ نْ أُحَدِّثَکَ {وَمَا أَ نْسَانِیہُ إِلَّا الشَّیْطَانُ} قَالَ: أُخْبِرْتُ أَ نَّ عِنْدَکَ عِلْمًا فَأَ رَدْتُ أَ نْ أَ صْحَبَکَ {قَالَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیعَ مَعِیَ صَبْرًا} {قَالَ سَتَجِدُنِی إِنْ شَائَ اللّٰہُ صَابِرًا وَلَا أَ عْصِی لَکَ أَ مْرًا} قَالَ: {فَکَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰی مَا لَمْ تُحِطْ بِہِ خُبْرًا} قَالَ: قَدْ أُمِرْتُ أَ نْ أَ فْعَلَہُ، {قَالَ سَتَجِدُنِی إِنْ شَائَ اللّٰہُ صَابِرًا} {قَالَ فَإِنْ اتَّبَعْتَنِی فَلَا تَسْأَ لْنِی عَنْ شَیْئٍ حَتّٰی أُحْدِثَ لَکَ مِنْہُ ذِکْرًا، فَانْطَلَقَا حَتّٰی إِذَا رَکِبَا فِی السَّفِینَۃِ} خَرَجَ مَنْ کَانَ فِیہَا وَتَخَلَّفَ لِیَخْرِقَہَا قَالَ: فَقَالَ لَہُ مُوسَی: تَخْرِقُہَا لِتُغْرِقَ أَ ہْلَہَا {لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا إِمْرًا} {قَالَ أَ لَمْ أَ قُلْ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیعَ مَعِیَ صَبْرًا، قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِی بِمَا نَسِیتُ وَلَا تُرْہِقْنِی مِنْ أَ مْرِی عُسْرًا} فَانْطَلَقَا حَتّٰی إِذَا أَ تَوْا عَلٰی غِلْمَانٍ یَلْعَبُونَ عَلٰی سَاحِل الْبَحْرِ، وَفِیہِمْ غُلَامٌ لَیْسَ فِی الْغِلْمَانِ غُلَامٌ أَ نْظَفَ یَعْنِی مِنْہُ، فَأَ خَذَہُ فَقَتَلَہُ، فَنَفَرَ مُوسٰی عَلَیْہِ السَّلَام عِنْدَ ذٰلِکَ وَقَالَ: {أَ قَتَلْتَ نَفْسًا زَکِیَّۃً بِغَیْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا نُکْرًا، قَالَ أَ لَمْ أَ قُلْ لَکَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیعَ مَعِیَ صَبْرًا} قَالَ: فَأَ خَذَتْہُ ذَمَامَۃٌ مِنْ صَاحِبِہِ وَاسْتَحٰی، فَقَالَ: {اِنْ سَاَلْتُکَ عَنْ شَیْئٍ بَعْدَھَا فَلَا تُصَاحِبْنِیْ قَدْ بَلَغْتَ مِن لَّدُنِّیْ عُذْرًا، فَانْطَلَقَا حَتّٰی اِذَا اَتَیَا اَھْلَ قَرْیَۃٍ} لِئَامًا {اسْتَطْعَمَا أَ ہْلَہَا} وَقَدْ أَ صَابَ مُوسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ جَہْدٌ فَلَمْ یُضَیِّفُوہُمَا، {فَوَجَدَا فِیہَا جِدَارًا یُرِیدُ أَ نْ یَنْقَضَّ فَأَقَامَہُ} قَالَ لَہُ مُوسٰی مِمَّا نَزَلَ بِہِمْ مِنْ الْجَہْدِ: {لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَیْہِ أَ جْرًا، قَالَ ہٰذَا فِرَاقُ بَیْنِی وَبَیْنِکَ} فَأَ خَذَ مُوسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ بِطَرَفِ ثَوْبِہِ فَقَالَ: حَدِّثْنِی فَقَالَ: {أَ مَّا السَّفِینَۃُ فَکَانَتْ لِمَسَاکِینَیَعْمَلُونَ فِی الْبَحْرِ} {وَکَانَ وَرَائَ ہُمْ مَلِکٌ یَأْخُذُ کُلَّ سَفِینَۃٍ غَصْبًا} فَإِذَا مَرَّ عَلَیْہَا فَرَآہَا مُنْخَرِقَۃً تَرَکَہَا وَرَقَّعَہَا أَ ہْلُہَا بِقِطْعَۃِ خَشَبَۃٍ فَانْتَفَعُوا بِہَا، وَأَ مَّا الْغُلَامُ فَإِنَّہُ کَانَ طُبِعَ یَوْمَ طُبِعَ کَافِرًا، وَکَانَ قَدْ أُلْقِیَ عَلَیْہِ مَحَبَّۃٌ مِنْ أَ بَوَیْہِ وَلَوْ أَ طَاعَاہُ لَأَ رْہَقَہُمَا: {طُغْیَانًا وَکُفْرًا} {فَأَ رَدْنَا أَ نْ یُبْدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیْرًا مِنْہُ زَکَاۃً وَأَ قْرَبَ رُحْمًا} وَوَقَعَ أَ بُوہُ عَلَی أُمِّہِ فَعَلِقَتْ فَوَلَدَتْ مِنْہُ خَیْرًا مِنْہُ زَکَاۃً وَأَ قْرَبَ رُحْمًا، {وَأَ مَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلَامَیْنِیَتِیمَیْنِ فِی الْمَدِینَۃِ، وَکَانَ تَحْتَہُ کَنْزٌ لَہُمَا، وَکَانَ أَ بُوہُمَا صَالِحًا، فَأَ رَادَ رَبُّکَ أَ نْ یَبْلُغَا أَ شُدَّہُمَا، وَیَسْتَخْرِجَا کَنْزَہُمَا، رَحْمَۃً مِنْ رَبِّکَ، وَمَا فَعَلْتُہُ عَنْ أَمْرِی، ذٰلِکَ تَأْوِیلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَیْہِ صَبْرًا}۔ (مسند احمد: ۲۱۱۱۸)

۔ سعید بن جبیر ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کہتے ہیں: ہم سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کے پاس بیٹھے تھے،کچھ لوگوں نے بتایا کہ نوف شامی بکالی کہتا ہے کہ جو موسی حصولِ علم کے لئے سیدنا خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے، وہ بنی اسرائیل والے موسیٰ علیہ السلام نہ تھے، یہ سن کر سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور کہا: اے سعید! کیا وہ ایسا ہی کہتاہے؟ میںنے کہا: جی میں نے خود اس سے یہی سنا ہے، سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: وہ غلط کہتا ہے، سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہم پر اور صالح علیہ السلام پر رحمت کرے اور اللہ تعالیٰ ہم پر اور عاد قوم والے میرے پیغمبر بھائی ہود علیہ السلام پر رحمت کرے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام نے ایکدفعہ اپنی قوم سے خطاب کیا اور ان سے کہا: روئے زمین میں مجھ سے بڑھ کر عالم کوئی نہیں ہے، اللہ تعالی نے ان کی جانب وحی کی کہ فلاں زمین میں تم سے زیادہ علم والا آدمی موجود ہے اوراس سے ملاقات کی علامت یہ ہے کہ ایک نمکین مچھلی لو، جہاں وہ ہاتھ سے نکل جائے، وہ وہاں ہوگا، پس موسیٰ علیہ السلام نے نمکین مچھلی لی اور اپنے نوجوان شاگرد یوشع بن نون کے ساتھ چل دئیے، جس جگہ کا حکم ملا تھا، جب وہاں پہنچے توایک چٹان تھی، جب اس تک گئے تو موسیٰ علیہ السلام کوئی چیز تلاش کرنے گئے اور ان کے شاگرد نے مچھلی چٹان پر رکھی، وہ حرکت میں آئی اور سمندر میں رستہ بنا لیا، شاگرد کہنے لگا کہ سیدنا موسیٰ آئیں گے تو انہیں بتادوں گا، لیکن شیطان نے اسے بھلا دیا اوروہ آگے کو چلتے رہے حتیٰ کہ جب انہیں مسافروں کی مانند تھکاوٹ محسوس ہوئی، اور تھکاوٹ مطلوبہ جگہ سے آگے گزر جانے کے بعد محسوس ہوئی، تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے شاگرد سے کہا: ہمیں کھانا دو، اس سفر نے تو ہمیں تھکا دیا ہے، شاگرد نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ کو معلوم ہے کہ جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے تھے، تو مچھلی نے وہاں حرکت کی، لیکن میں بتانا بھول گیا تھا، یہ شیطان ہی نے بھلایاہے تواس مچھلی نے سمندر میں جگہ بنا لی تھی، موسی علیہ السلام نے کہا کہ وہی مقام ہماری مطلوبہ جگہ ہے، اب پچھلے پائوں انہی نشانات قدم پر واپس آئے، جب اسی چٹان تک پہنچے تووہاں گھومے، اچانک دیکھتے ہیں کہ خضر علیہ السلام کپڑا لئے موجود ہیں، موسیٰ علیہ السلام نے ان پر سلام کہا، انہوں نے سراٹھایا اور کہا: تم کون ہو؟ انھوں نے کہا: میں موسیٰ علیہ السلام ہوں، انھوں نے پوچھا: کون سا موسیٰ؟ انھوں نے کہا: بنو اسرائیل والے موسیٰ، پھر موسیٰ علیہ السلام نے کہا: تمہارے پاس علم ہے، میں چاہتاہوں کہ تمہاری رفاقت میں رہ کر وہ علم حاصل کروں، انہوں نے کہا: تم اس کے حصول کی طاقت نہیں رکھتے، انھوں نے کہا:آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے، میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا، خضر علیہ السلام نے کہا:جس کی آپ کو خبر نہیں اس پر تم صبر نہیں کر سکو گے، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: مجھے چونکہ حکم ملاہے، اس لئے میں صبر کروں گا، خضر علیہ السلام نے کہا: اگر تم میرے سنگ چلے ہو تو پھر جو بھی میں کرتا جاؤں، تم نے نہیں بولنا،میں خود ہی وضاحت کر دوں گا۔ اب دونوں چلے، کشتی میں سوار ہوئے، جب وہ رکی تو اس کی سواریاں باہر چلی گئیں تو یہ پیچھے رہ گئے اور انھوں نے اس میں سوراخ کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ تم نے اس میں سوراخ کر دیا ہے، کشتی میں بیٹھنے والوں کو غرق کرنا چاہتے ہو، یہ تو اچھا کام نہیں کیا، خضر علیہ السلام نے کہا: میں نے تم سے کہاتھا کہ تم اس سفر میں میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا:میں بھول گیا ہوں، اس پرمؤاخذہ نہ کریںاور تنگ نہ ہوں، پھر چل پڑے اور سمندر کے کنارے پرپہنچ گئے، وہاں بچے کھیل رہے تھے، ان میں ایک بچہ سب سے زیادہ صاف ستھراتھا، خضر علیہ السلام نے اسے پکڑا اور قتل کر دیا، اب کی بات پھر موسیٰ علیہ السلام بول پڑے اورکہا: ایک ایسی جان کو قتل کر دیا ہے، جس کا کوئی قصور نہیں،یہ تو بہت بری چیز ہوئی ہے، خضر علیہ السلام کے تکرار سے کچھ شرم سی محسوس ہونے لگی، موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: اگر میں اس کے بعد سوال کروں تو آپ مجھے ساتھ نہ لے جانا،آپ کا عذر معقول ہوگا۔ اب وہ دونوں چلے اور ایک بستی والوں کے پاس آئے اور ان سے کھانا طلب کیا، جبکہ موسیٰ علیہ السلام سخت تھک چکے تھے اور بھوک سے نڈھال تھے، انہوںنے میزبانی کرنے سے انکار کردیا، پھر خضر علیہ السلام نے دیکھا کہ ایک دیوار گرنا چاہتی ہے، پس انھوں نے اسے درست کر دیا، اس بار موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اتنی مشقت میں ہم مبتلاہیں، اگر تم چاہتے تو اس پر اجرت لے لیتے، خضر علیہ السلام نے کہا: یہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی کا وقت آ گیا ہے، سید ناموسیٰ علیہ السلام نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: جو کچھ آپ نے کیا ہے، اس کاپس منظر تو بیان کردو، خضر علیہ السلام نے کہا: {اَمَّا السَّفِیْنَۃُ فَکَانَتْ لِمَسٰکِیْنَیَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَہَا وَکَانَ وَرَاء َہُمْ مَّلِکٌ یَّاْخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ غَصْبًا۔} (اس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں، کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔) اب جب وہ بادشاہ کے پاس سے گزرے گی اور وہ اس کو سوراخ زدہ دیکھے گا تو اس کو چھوڑ دے گا، اور (یہ نقص اتنا بڑا بھی نہیں ہے) اس کا مالک لکڑی کا ٹکڑا لگا کا اس کی مرمت کر لے گا اور پھر یہ لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں گے، رہا مسئلہ بچے کو قتل کرنے کا تو اس پر کافر کی مہر لگ چکی تھی، جبکہ اس کے والدین اس سے محبت کرتے تھے، اگر اس معاملے وہ اس کی اتباع کرتے تو وہ ان کو کفر اور سرکشی میں پھنسا دیتا، پس{فَأَ رَدْنَا أَ نْ یُبْدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیْرًا مِنْہُ زَکَاۃً وَأَ قْرَبَ رُحْمًا} (اس لیے ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کے بدلے ان کو ایسی اولاد دے جو اخلاق میں بھی اس سے بہتر ہو اور جس سے صلہ رحمی بھی زیادہ متوقع ہو۔)، اُدھر اس خاوند نے جب اپنی بیوی سے جماع کیا تو اسے حمل ہو گیا اور اس نے بہترین پاکیزگی والا اور بہت صلہ رحمی کرنے والا بچہ جنم دیا۔ {وَأَ مَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلَامَیْنِیَتِیمَیْنِ فِی الْمَدِینَۃِ، وَکَانَ تَحْتَہُ کَنْزٌ لَہُمَا، وَکَانَ أَ بُوہُمَا صَالِحًا، فَأَ رَادَ رَبُّکَ أَ نْ یَبْلُغَا أَ شُدَّہُمَا، وَیَسْتَخْرِجَا کَنْزَہُمَا، رَحْمَۃً مِنْ رَبِّکَ، وَمَا فَعَلْتُہُ عَنْ أَ مْرِی، ذٰلِکَ تَأْوِیلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَیْہِ صَبْرًا}۔ اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں۔ اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لیے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا۔ اس لیے تمہارے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ یہ تمہارے رب کی رحمت کی بنا پر کیا گیا ہے، میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کر دیا ہے۔ یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے۔

Haidth Number: 8668
ابن جریح سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے میرے والد نے بتلایا ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کہاں دفن کریں،یہاں تک کہ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں فرماتے سنا تھا کہ نبی جہاں فوت ہوتا ہے، اسے وہیںدفن کیا جاتا ہے۔ چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بستر کو ہٹا کر اسی کے نیچے والی جگہ کو قبر کے لیے کھودا گیا۔

Haidth Number: 11054
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات ہوئی تو مدینہ منورہ میں ایک آدمی لحد والییعنی بغلی قبر بناتا تھا اور دوسرا صندوقییعنی شق والی قبر بناتا تھا، صحابۂ کرام نے مشورہ کیا کہ اس بارے میں ہم اللہ تعالیٰ سے استخارہ ( یعنی خیر طلب) کرتے ہیں اور ہم ان دونوں کی طرف پیغام بھیج کر انہیں بلواتے ہیں، جو پیچھے رہ گیا ہم اسے رہنے دیں گے، سو دونوں کی طرف پیغام بھیجا گیا اور لحد والی قبر بنانے والا پہلے آگیا، پس انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے لحد تیار کی۔

Haidth Number: 11055
Haidth Number: 11056
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دفن کئے جانے کا علم نہ ہو سکا تاآنکہ ہم نے بدھ کے دن رات کے وقت گینتیوں کی آوازیں سنیں۔ صاحب ِ مغازی محمد بن اسحاق نے بیان ہے کہ مجھ سے یہ حدیث عبداللہ بن ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی زوجہ فاطمہ بنت محمد نے بیان کی ۔

Haidth Number: 11057
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات سوموار کے دن ہوئی تھی اور تدفین بدھ کی رات کو۔

Haidth Number: 11058
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قبر کے اندر ایک سرخ رنگ کی چادر رکھی گئی تھی۔

Haidth Number: 11059
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہ میری قبر کو عید بناؤ اور نہ اپنے گھروں کو قبرستان بناؤ اور تم جہاں کہیں بھی ہو، مجھ پر درود پڑھا کرو، کیونکہ تمہارا درود مجھ تک پہنچ جاتا ہے۔

Haidth Number: 11060
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جس دن اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تھے، مدینہ منورہ کی ہر چیز روشن ہو گئی، لیکن جس روز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہو،ا اس دن مدینہ منورہ کی ہر چیز پر اندھیرا چھایا ہوا تھا اور ہم ابھی تک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دفن سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ ہم نے اپنے دلوں میں تبدیلی محسوس کی۔

Haidth Number: 11061
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دفن کر کے واپس آئے تو سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: ارے انس! تمہارے دلوں نے اس بات کو کیسے گوارا کر لیا کہ تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مٹی میں دفن کر کے واپس چلے آئے۔ (۱۱۰۶۲)۔ اس جسد اطہر کو دفن کرنے کے لیے مٹی تو ڈالنی ہی تھی، بس سیدہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عظمت اور اپنے غم کا اظہار کر رہی تھی، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بظاہر تو خاموش ہو گئے، لیکن وہ زبانِ حال سے یہ کہہ رہے تھے کہ یہ مٹی ڈالنا ہمیں بھی گوارا نہ تھا، لیکن کیا کرتے، آخر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حکم جو یہی تھا۔

Haidth Number: 11062
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبداللہ بن قیسیعنی ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو تلاوت کرتے ہوئے سنا اورفرمایا: اسے تو اللہ کے نبی دائود علیہ السلام کی سی خوش الحانی عطا کی گئی ہے۔

Haidth Number: 11954
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو تلاوت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: ابو موسیٰ کو تو آل دائود کی سی خوش الحانی عطا کی گئی ہے۔

Haidth Number: 11955

۔ (۱۱۹۵۶)۔ وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ الْأَسْلَمِیِّ، عَنْ أَبِیْہِ قَالَ: خَرَجَ بُرَیْدَۃُ عِشَائً فَلَقِیَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخَذَ بِیَدِہِ فَأَدْخَلَہُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا صَوْتُ رَجُلٍ یَقْرَأُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((تُرَاہُ مُرَائِیًا۔)) فَأَسْکَتَ بُرَیْدَۃُ، فَإِذَا رَجُلٌ یَدْعُو فَقَالَ: اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِأَنِّی أَشْہَدُ أَنَّکَ أَنْتَ اللّٰہُ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِی لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَقَدْ سَأَلَ اللّٰہَ بِاسْمِہِ الْأَعْظَمِ الَّذِی إِذَا سُئِلَ بِہِ أَعْطٰی، وَإِذَا دُعِیَ بِہِ أَجَابَ۔)) قَالَ: فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْقَابِلَۃِ خَرَجَ بُرَیْدَۃُ عِشَائً فَلَقِیَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخَذَ بِیَدِہِ فَأَدْخَلَہُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا صَوْتُ الرَّجُلِ یَقْرَأُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَتَقُولُہُ مُرَائٍ؟)) فَقَالَ بُرَیْدَۃُ: أَتَقُولُہُ مُرَائٍ یَا رَسُولَ اللّٰہِ!؟، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا بَلْ مُؤْمِنٌ مُنِیبٌ، لَا بَلْ مُؤْمِنٌ مُنِیبٌ۔)) فَإِذَا الْأَشْعَرِیُّ یَقْرَأُ بِصَوْتٍ لَہُ فِی جَانِبِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ الْأَشْعَرِیَّ أَوْ إِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ قَیْسٍ أُعْطِیَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِیرِ دَاوُدَ۔)) فَقُلْتُ: أَلَا أُخْبِرُہُ؟ یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ: ((بَلٰی فَأَخْبِرْہُ۔)) فَأَخْبَرْتُہُ فَقَالَ: أَنْتَ لِی صَدِیقٌ أَخْبَرْتَنِی عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِحَدِیْثٍ۔ (مسند احمد: ۲۳۳۴۰)

سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ عشا کے وقت باہر گئے اورنبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملاقات ہوگئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور مسجد میں لے گئے، وہاں تلاوت کرتے ہوئے ایک آدمی کی آوازسنی،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ دکھلاوا کر رہا ہے؟ سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خاموش رہے، پھر اس آدمی نے یوں دعا کی: اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْأَلُکَ بِأنّی اَشْہَدُ اَنَّکَ اَنْتَ اللّٰہُ الَّذِی لَا اِلٰہ اِلَّا اَنْتَ الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِی لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَہٗکُفُوَاًاَحَدٌ۔ (یا اللہ! میں یہ واسطہ دے کر تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو ہی وہ اللہ ہے، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، تو اکیلا ہے، تو ایسا بے نیاز ہے، جس نے کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا اور کوئی بھی اس کا ہم سر نہیں۔) یہ دعا سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کیقسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس نے اللہ سے اس کے اس سب سے با عظمت نام لے کر دعا کی ہے کہ جب بھی اللہ سے اس کا یہ نام لے کر کچھ مانگا جائے تو وہ عنایت کرتا ہے اور جو بھی دعا کی جائے، وہ قبول کرتا ہے۔ بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: دوسری رات ہوئی تو میں عشاء کے وقت باہر نکلا، اس دن بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملاقات ہوئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور مسجد میں لے گئے تو اسی آدمی کی تلاوت کی آواز آرہی تھی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو سمجھتا ہے کہ یہ دکھلاوا کر رہا ہے؟ سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ دکھلاوا کرنے والا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ دکھلاوا کرنے والا نہیں ہے، بلکہ مخلص مومن ہے، یہ دکھلاوا کرنے والا نہیں، بلکہ مخلص مومن ہے۔ میں (بریدہ) نے دیکھا تو وہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، جو مسجد کے ایک کونے میں بلند آواز سے قرأت کر رہے تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عبداللہ بن قیس اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دائود علیہ السلام کیسی خوش الحانی عطا کی گئی ہے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں ان کو اس بات سے با خبر کردوں؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں اور ان کو بتلا دو۔ جب میں نے ان کو اس کی خبر دی تو انہوںنے مجھ سے فرمایا: تم میرے مخلص دوست ہو، کیونکہ تم نے مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کیایک خاص بات سے باخبر کیا ہے۔

Haidth Number: 11956
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے ایک آدمی سے کہا:آئو ہم اپنا آج کا یہ دن اللہ تعالیٰ کے لیے مختص کر یں، اللہ کی قسم یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس دن اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی ہمارے ساتھ موجود تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خطاب کیا اور کہا: بعض لوگ ایسے بھی ہیں، جو دوسروں سے کہتے ہیں کہ آئو ہم اپنا آج کا یہ دن اللہ تعالیٰ کے لیے مختص کریں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بات اس قدر تکرار سے ارشاد فرمائی کہ میں نے تمنا کی کاش کہ زمین مجھے اپنے اندر دھنسا لے۔

Haidth Number: 11957
شعبی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنی وصیت میںلکھا تھا کہ میرا مقرر کردہ کوئی عامل ایک سال سے زیادہ عرصہ تک اپنی ذمہ داری پر بحال نہ رکھا جائے، البتہ تم سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو چار سال تک ان کی ذمہ داری پر برقرار رکھو۔

Haidth Number: 11958
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یااللہ! اپنے بندے عبید ابو عامر کو قیامت کے دن اکثر لوگوں سے بلند مرتبہ پر فائز فرمانا۔ سیدنا عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غزوۂ اوطاس میں شہید ہوئے تھے اور سیدنا ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قاتل کو قتل کرکے جہنم رسید کیا تھا۔ راویٔ حدیث عاصم کہتے ہیں: میرے شیخ ابو وائل نے بیان کیا: مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قاتل اور سیدنا ابو موسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جہنم میں اکٹھے نہیں کرے گا۔

Haidth Number: 11959
ابو بردہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وفات کا وقت آیا تو انھوں نے وصیت کرتے ہوئے کہا: جب تم میرا جنازہ لے کر چلو تو ذرا تیز تیز چلنا اور کوئی آدمی آگ کے کوئلوں پر خوشبو ڈال کر جنازے کے ساتھ نہ چلے اور میری قبر میں کوئی ایسی چیز بھی نہ رکھنا جو میرے اور مٹی کے درمیان حائل ہو، نیز تم میری قبر پر کوئی عمارت کھڑی نہ کرنا اور میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں کسی کی وفات پر سر کے بال مونڈنے والی، چیخنے والی اور کپڑے پھاڑنے والی ہر عورت سے بری اور لا تعلق ہوں۔ لوگوں نے عرض کیا: کیا آپ نے اس بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کچھ سنا ہے؟ انہوںنے کہا: جی ہاں۔

Haidth Number: 11960