Blog
Books
Search Hadith

سورۂ حجرات {یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ…}کی تفسیر

10 Hadiths Found

۔ (۸۷۵۸)۔ عَنِ ابْنِ أَ بِی مُلَیْکَۃَ قَالَ: کَادَ الْخَیِّرَانِ أَ نْ یَہْلِکَا أَ بُو بَکْرٍ وَعُمَرُ، لَمَّا قَدِمَ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَفْدُ بَنِی تَمِیمٍ أَ شَارَ أَحَدُہُمَا بِالْأَ قْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِیِّ أَخِی بَنِی مُجَاشِعٍ، وَأَ شَارَ الْآخَرُ بِغَیْرِہِ، قَالَ أَ بُو بَکْرٍ لِعُمَرَ: إِنَّمَا أَ رَدْتَ خِلَافِی، فَقَالَ عُمَرُ: مَا أَ رَدْتُ خِلَافَکَ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُہُمَا عِنْدَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَزَلَتْ: {یَا أَ یُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا أَ صْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ} إِلٰی قَوْلِہِ: {عَظِیمٌ } [الحجرات: ۲] قَالَ ابْنُ أَ بِی مُلَیْکَۃَ: قَالَ ابْنُ الزُّبَیْرِ: فَکَانَ عُمَرُ بَعْدَ ذٰلِکَ، وَلَمْ یَذْکُرْ ذٰلِکَ عَنْ أَ بِیہِیَعْنِی أَ بَا بَکْرٍ، إِذَا حَدَّثَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَدَّثَہُ کَأَ خِی السِّرَارِ لَمْ یَسْمَعْہُ حَتّٰییَسْتَفْہِمَہُ۔ (مسند احمد: ۱۶۲۳۲)

۔ ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: قریب تھا کہ اس امت کے دو بہترین آدمی سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہلاک ہو جاتے،ہوا یوں کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بنو تمیم کا وفد آیا تو سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما میں سے ایک نے رائے دی کہ اقرع بن حابس حنظلی کو ان کا امیر مقرر کیا جائے، جبکہ دوسرے نے اور آدمی (قعقعاع بن معبد) کا نام پیش کیا، اس پر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: تمہارا مقصد میری مخالفت کرنا تھا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:، نہیں، میرا ارادہ تمہاری خلاف ورزی کرنا نہیں تھا، پس نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی موجودگی میں ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں، سو یہ آیات نازل ہوئیں: {یَا أَ یُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا أَ صْوَاتَکُمْ … … عَظِیمٌ} ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ ابن زبیر نے کہا اس کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بات کرتے تو ایک راز دان کی طرح کرتے، حتیٰ کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بات کو دوہرانے کا مطالبہ کرتے۔

Haidth Number: 8758

۔ (۸۷۵۹)۔ عَنْ أَ نَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: { یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوْا أَ صْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ} إِلٰی قَوْلِہِ: {وَأَ نْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ} [الحجرات: ۲] وَکَانَ ثَابِتُ بْنُ قَیْسِبْنِ الشَّمَّاسِ رَفِیعَ الصَّوْتِ فَقَالَ: أَ نَا الَّذِی کُنْتُ أَ رْفَعُ صَوْتِی عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَبِطَ عَمَلِی، أَ نَا مِنْ أَ ہْلِ النَّارِ، وَجَلَسَ فِی أَ ہْلِہِ حَزِینًا، فَتَفَقَّدَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَانْطَلَقَ بَعْضُ الْقَوْمِ إِلَیْہِ، فَقَالُوْا لَہُ: تَفَقَّدَکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا لَکَ؟ فَقَالَ: أَنَا الَّذِی أَرْفَعُ صَوْتِی فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ، وَأَجْہَرُ بِالْقَوْلِ حَبِطَ عَمَلِی وَأَ نَا مِنْ أَ ہْلِ النَّارِ، فَأَ تَوُا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَ خْبَرُوہُ بِمَا قَالَ، فَقَالَ: ((لَا، بَلْ ہُوَ مِنْ أَ ہْلِ الْجَنَّۃِ۔)) قَالَ أَ نَسٌ: وَکُنَّا نَرَاہُ یَمْشِی بَیْنَ أَ ظْہُرِنَا، وَنَحْنُ نَعْلَمُ أَ نَّہُ مِنْ أَ ہْلِ الْجَنَّۃِ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ الْیَمَامَۃِ کَانَ فِینَا بَعْضُ الِانْکِشَافِ فَجَائَ ثَابِتُ بْنُ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، وَقَدْ تَحَنَّطَ وَلَبِسَ کَفَنَہُ، فَقَالَ: بِئْسَمَا تُعَوِّدُونَ أَقْرَانَکُمْ فَقَاتَلَہُمْ حَتّٰی قُتِلَ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۲۶)

۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: {یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْـہَرُوْا لَہ بِالْقَوْلِ کَجَــہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ۔} … اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنی آوازیں نبی کی آواز کے اوپر بلند نہ کرو اور نہ بات کرنے میں اس کے لیے آواز اونچی کرو، تمھارے بعض کے بعض کے لیے آواز اونچی کرنے کی طرح، ایسا نہ ہوکہ تمھارے اعمال برباد ہو جائیں اور تم شعور نہ رکھتے ہو۔ تو سیدنا ثابت بن قیس بن شماس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ بلند آواز والے تھے، یہ کہنے لگے: میری آواز نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آواز سے بلند ہے، میرے اعمال تو ضائع ہو گئے، میں تو دوزخی ہوا، یہ سوچ کر اور غمگین ہو کر گھر میں بیٹھ گئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو گم پا کر ان کے بارے میں پوچھا، ایک آدمی (سیدنا عاصم بن عدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) ان کے پاس گیا اور کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تمہیں گم پا کر تمہاری تلاش کر رہے ہیں، کیا وجہ ہے: کہنے لگے: میں وہ ہوں کہ میری آواز نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آواز سے بلند ہے، میں اس بلند آوازی کی وجہ سے دوزخی ہوا، میرے تو تمام اعمال ضائع ہوگئے، وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور سیدنا ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، وہ تو جنتی ہے۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: سیدنا ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے متعلق ہمارا یہی خیال تھا کہ وہ ہمارے درمیان چلتے تو تھے لیکن ہم یہی سمجھتے تھے کہ وہ جنتی ہیں۔ جب جنگ یمامہ ہوئی تو ہمارے درمیان شکست کے آثار نمودار ہوئے، سیدنا ثابت بن قیس بن شماس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور انہوں نے حنوط خوشبو لگا رکھی تھی اور کفن پہن رکھا تھا اور کہا: تم نے اپنے مد مقابل لوگوں کو بری عادت ڈالی ہے، پھر انھوں نے ان سے لڑائی کی،یہاں تک کہ وہ شہید ہوگئے۔

Haidth Number: 8759

۔ (۱۱۳۶۹)۔ عَنْ مَسْرُوْقٍ، عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، قَالَتْ: أَقْبَلَتْ فَاطِمَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، تَمْشِی کَأَنَّ مَشْیَتَہَا مَشْیَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ: ((مَرْحَباً بِاِبْنَتِی۔)) ثُمَّ أَجْلَسَہَا عَنْ یَمِیْنِہِ أَوْ عَنْ شِمَالِہِ، ثُمَّ إِنَّہُ أَسَرَّ اِلَیْہَا حَدِیْثًا فَبَکَتْ، فَقُلْتُ لَھَا: اسْتَخَصَّکِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِحَدِیْثِہِ ثُمَّ تَبْکِیْنَ؟ ثُمَّ إِنَّہُ أَسَرَّ اِلَیْہَا حَدِیْثاً فَضَحِکَتْ، فَقُلْتُ: مَارَأَیْتُ کَالْیَوْمِ فَرَحاً أَقْرَبَ مِنْ حُزْنٍ، فَسَأَلْتُہَا عَمَّا قَالَ، فَقَالَتْ: مَا کُنْتُ لَأُفْشِیَ سِرَّ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، حَتّٰی إِذَا قُبِضَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَأَلْتُہَا، فَقَالَتْ: إِنَّہُ أَسَرَّ اِلَیَّ فَقَالَ: ((إِنَّ جِبْرِیْلَ علیہ السلام کَانَ یُعَارِضُنِی بِالْقُرْآنِ فِی کُلِّ عَامٍ مَرَّۃً، وَإِنَّہُ عَارَضَنِی بِہِ الْعَامَ مَرَّتَیْنِ، وَلَا أُرَاہُ إِلَّا قَدْ حَضَرَ أَجَلِی، وَإِنَّکِ أَوَّلُ أَھْلِ بَیْتِیْ لُحُوْقًا بِی، وَنِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَکِ۔)) فَبَکَیْتُ لِذٰلِکِ، ثُمَّ قَالَ: ((أََلاَ تَرْضَیْنَ أَنْ تَکُوْنِی سَیِّدَۃَ نِسَائِ ھَذِہِ الأُمَّۃِ أَوْنِسَائِ الْمُؤُمِنِیْنَ؟)) قَالَتْ: فَضَحِکْتُ لِذٰلِکِ۔ (مسند احمد: ۲۶۹۴۵)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اس طرح چلتی ہوئی تشریف لائیں، گویا ان کی چال رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چال جیسی تھی،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پیاری بیٹی کو خوش آمدید۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو اپنی داہنییا بائیں جانب بٹھا لیااور ان سے راز دار انہ طور پر کوئی بات کی تو وہ رونے لگیں۔ (سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ) میں نے ان سے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو آپ کے ساتھ بطور خاص بات کی اور تم رونے لگ گئیں؟ اس کے بعد پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے راز دارانہ طور پر کوئی بات کی تو وہ مسکرا دیں۔ میں نے کہا کہ میں نے آج تک غم اور خوشی کو اس قدر اکٹھا کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آپ سے کیا بات کہی ہے؟ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا:میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے راز کو فاش نہیں کروں گی،یہاں تک کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہو گیا تو میں نے دوبارہ اس کی بابت ان سے دریافت کیا تو اب کی بار انھوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے چپکے سے کہا: جبریل علیہ السلام ہر سال میرے ساتھ قرآن مجید کا دور ایک بار کیا کرتے تھے، لیکن اس سال قرآن مجید کا دور دو بار کیا ہے، میرا خیال ہے کہ میری وفات کا وقت قریب آچکا ہے اور میرے اہل بیت میں سے تم ہی سب سے پہلے مجھ سے آملو گی، میں تمہارے لیے بہترین پیش رو ہوں۔ یہ سن کر میں رونے لگی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تم (آخرت میں ) اس امت یا اہل ایمان کی خواتین کی سردار بنو؟ یہ بات سن کر میں مسکرادی۔

Haidth Number: 11369
سیدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں میں سے سیدنا حسن بن علی اور سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے بڑھ کر کوئی بھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مشابہ نہیں تھا۔

Haidth Number: 11370
سیدنا عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کی باتیں کیں، جب یہ خبر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس بات سے اسے دکھ پہنچتا ہے، مجھے بھی اس سے دکھ پہنچتا ہے اور جو بات اسے غمگین کرتی ہے، مجھے بھی اس بات سے رنج ہوتا ہے۔

Haidth Number: 11371

۔ (۱۱۳۷۲)۔ عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ: أَنَّ الْمِسْوَرَبْنَ مَخْرَمَۃَ أَخْبَرَہُ، أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ خَطَبَ ابْنَۃَ أَبِی جَہْلٍ وَعِنْدَہُ فَاطِمَۃُ ابْنَۃُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَلَمَّا سَمِعَتْ بِذٰلِکَ فَاطِمَۃُ أَتَتِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ لَہُ: اِنَّ قَوْمَکَ یَتَحَدَّثُوْنَ أَنَّکَ لَا تَغْضَبُ لِبَنَاتِکَ، وَھٰذَا عَلِیٌّ نَاکِحٌ ابْنَۃَ أَبِی جَہْلٍ، قَالَ الْمِسْوَرُ: فَقَامَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَمِعْتُہُ حِیْنَ تَشَہَّدَ، ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ! فَاِنِّی أَنْکَحْتُ أَبَا الْعَاصِ بْنَ الرَّبِیْعِ فَحَدَّثَنِی فَصَدَقَنِی، وَإِنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ بَضْعَۃٌ مِنِّی وَأَنَا أَکْرَہُ أَنْ یَفْتِنُوْھَا، وَاِنَّہَا وَاللّٰہِ لَا تَجْتَمِعُ ابْنَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَابْنَۃُ عَدُوِّ اللّٰہِ عِنْدَ رَجُلٍ وَاحِدٍ أَبَدًا۔)) قَالَ: فَتَرَکَ عَلِیٌّ الْخِطْبَۃَ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۱۹)

علی بن حسین بن علی بن ابی طالب سے مروی ہے کہ سیدنا مسور بن مخرمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو بتلایا کہ سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ابو جہل کی بیٹی کو نکاح کا پیغام بھجوایا، جبکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دختر سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ان کی زوجیت میں تھیں، جب سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے یہ بات سنی تو انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں آکر عرض کی کہ آپ کی قوم باتیں بنائے گی کہ آپ اپنی بیٹیوں کے حق میں کسی کے ساتھ غصہ نہیں کرتے ،اب دیکھیں ناںکہ یہ علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنے کی تیاریوں میں ہیں۔یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خطبۂ شہادت پڑھا اور پھر فرمایا: میں نے اپنی ایک بیٹی کا نکاح ابو العاص بن ربیع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کیا، پس اس نے میرے ساتھ کی ہوئی بات پوری کی، بے شک فاطمہ بنت محمد میرے جگر کا گوشہ ہے، میں یہ پسند نہیں کرتا کہ لوگ اسے رنجیدہ اورغمگین کریں، اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دختر اور اللہ کے دشمن کی بیٹی کبھی بھیایک آدمی کی زوجیت میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ یہ سن کر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنا پروگرام ختم کر دیا۔

Haidth Number: 11372

۔ (۱۱۳۷۳)۔ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ: أَنَّ عَلِیَّ بْنَ الْحُسَیْنِ حَدَّثَہُ، أَنَّہُمْ حِیْنَ قَدِمُوا الْمَدِیْنَۃَ مِنْ عِنْدِ یَزِیْدَ بْنِ مُعَاوِیَۃَ مَقْتَلَ حُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ لَقِیَہُ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَۃَ فَقَالَ: ھَلْ لَکَ إِلَّی مِنْ حَاجَۃٍ تَأْمُرُنِی بِہَا؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَہُ: لَا، قَالَ: ھَلْ أَنْتَ مُعْطِیَّ سَیْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ فَأِنِّیْ أَخَافُ أَنْ یَغْلِبَکَ الْقَوْمُ عَلَیْہِ، وَأَیْمُ اللّٰہِ لَئِنْ أَعْطَیْتَنِیْہِ لَا یُخْلَصُ اِلَیْہِ أَبَدًا حَتّٰی تَبْلُغَ نَفْسِی، إِنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ خَطَبَ ابْنَۃَ أَبِی جَہْلٍ عَلٰی فَاطِمَۃَ، فَسَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ یَخْطُبُ النَّاسَ فِی ذٰلِکَ عَلٰی مِنْبَرِہِ ھٰذَا وَأَنَا یَوْمَئِذٍ مُحْتَلِمٌ فَقَالَ: ((اِنَّ فَاطِمَۃَ بَضْعَۃٌ مِنِّی وَأَنَا أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِی دِیْنِہَا۔)) قَالَ: ثُمَّ ذَکَرَ صِہْرًا لَہُ مِنْ بَنِی عَبْدِ شَمْسٍ، فَأَثْنٰی عَلَیْہِ فِی مُصَاھَرَتِہِ اِیََّاہُ فَأَحْسَنَ، قَالَ: ((حَدَّثَنِی فَصَدَقَنِی وَوَعَدَنِی فَوَفٰی لِی، وَاِنِّی لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلَالاً وَلَا أُحِلُّ حَرَامًا، وَلٰکِنْ وَاللّٰہِ لَا تَجْتَمِعُ ابْنَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَابْنَۃُ عَدُوِّ اللّٰہِ مَکَانًا وَاحِدًا أَبَدًا۔)) (مسند احمد: ۱۹۱۲۰)

علی بن حسین نے بیان کیا کہ جب یہ لوگ شہادت حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بعد یزید بن معاویہ کے ہاں سے مدینہ منورہ آئے تو سیدنا مسور بن مخرمہ نے آکر ان سے ملاقات کی اور کہا: میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیں۔ میں نے ان سے کہا:جی کوئی نہیں ہے۔ مسور نے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم والی تلوار عنایت کر سکتے ہیں؟مجھے اندیشہ ہے کہ اس تلوار کے بارے میں لوگ آپ پر حاوی ہوجائیں گے۔ اللہ کی قسم! اگر آپ وہ تلوار مجھے عنایت فرمائیں گے تو جب تک میں زندہ رہوں گا، اس وقت تک کسی کو نہیں پہنچنے دوں گا، جبکہ تک وہ مجھے ختم نہیں کر دے گا، بے شک سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی زندگی میں ابو جہل کی بیٹی کو نکاح کا پیغام بھیجا تھا۔ اس موقع پر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنے منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے سناجبکہ میں ان دنوں بالغ ہو چکا تھا،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ اسے دین کے بارے میں مشکلات میں ڈال دیا جائے گا۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو عبد شمس سے تعلق رکھنے والے اپنے داماد (ابو العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ )کا ذکر کیا اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی خوب تعریف کی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس نے میرے ساتھ جو عہد وپیماں کیا اسے پورا کیا، ہاں ہاں میں کسیحلال کو حرام یا حرام کو حلال نہیں کرتا، لیکن اللہ کی قسم! رسول اللہ کی دختر اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ (یعنی ایک آدمی کی زوجیت میں) کبھی اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔

Haidth Number: 11373
سیدنا مسور بن مخرمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انہوںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بنو ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے اجازت طلب کی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کر دیں، میں انہیں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: میں انہیں اس کی اجازت نہیں دیتا، میری بیٹی میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جو بات اسے رنجیدہ کرتی ہے، اس سے مجھے بھی رنج ہوتا ہے اور جس بات سے اسے دکھ ہوتا ہے، مجھے بھی اس سے دکھ پہنچتا ہے۔

Haidth Number: 11374
سیدنامسور بن مخرمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ حسن بن حسن نے ان سے ان کی دختر کا رشتہ طلب کیا، اس نے جواباً یہ پیغام بھیجا کہ حسن بن حسن آج رات خود مجھ سے ملو۔ جب ان کی ان سے ملاقات ہوئی تو سیدنا مسور ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پہلے تو اللہ کی حمد و ثناء کی اورپھر کہا: اللہ کی قسم! مجھے تمہاری رشتہ داری اور دامادی سے بڑھ کر دوسری کوئی چیز محبوب نہیں ہے، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس بات سے وہ رنجیدہ ہو میں بھی اس سے رنجیدہ خاطر ہوتا ہوںاور جس بات سے وہ خوش ہو مجھے بھی اس سے خوشی ہوتی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے تعلق، رشتہ داری اور دامادی کے علاوہ باقی تمام رشتہ داریاں قیامت کے دن منقطع ہو جائیں گی۔ تمہارے نکاح میں ان (یعنی سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ) کی ایک دختر موجود ہیں۔ اگر میں تمہارے ساتھ اپنی دختر کا نکاح کروں تو اس سے ان کا دل دکھے گا، چنانچہ وہ انہیں اس بارے میں معذور سمجھ کر چلے گئے۔

Haidth Number: 11375
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حسن اور حسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما جنتی نوجوانوں کے سردار اور فاطمہ جنتی خواتین کی سردار ہوں گی، ما سوائے مریم بنت عمران کے۔

Haidth Number: 11376