Blog
Books
Search Hadith

باب دوم: مدینہ اور اہل مدینہ کی خیرو برکت اور یہاں سے وباؤں کے ٹلنے کے لیے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعاؤں کا تذکرہ

68 Hadiths Found
سیدناجابربن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے شام کی طرف رخ کیا اور یہ دعا کی: اے اللہ! ان کے دلوں کو ادھر مائل کردے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عراق کی جانب اور پھر ہر افق کی جانب رخ کر کے یہی دعا فرمائی اور پھر فرمایا: اے اللہ! ہمیں زمین کے پھلوں کا رزق عطا فرما اور ہمارے مد اور صاع میںبرکت فرما دے۔

Haidth Number: 12630
سیدناابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وضو کیا اور پھر حرہ میں واقع سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی جگہ میں سقیا کے گھروں کے قریب نماز ادا کی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں دعا کی: اے اللہ! تیرے خلیل، بند ے اور نبی ابراہیم علیہ السلام نے اہل مکہ کے لیے دعا کی تھی، میں محمد تیرا بندہ، نبی اور رسول ہوں، میں تجھ سے اہل مدینہ کے لیے اسی طرح دعا کرتا ہوں، جیسے ابراہیم علیہ السلام نے اہل مکہ کے لیے دعا کی تھی، ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ اہل مدینہ کے صاع،مد اور پھلوں میں برکت فرما، اے اللہ! تو نے جس طرح ہمارے دلوں میں مکہ کی محبت رکھی ہے، اسی طرح مدینہ کی محبت بھی ہمارے دلوں میں ڈال دے اور یہاں کی وبا اور بیماری کو (جحفہ کے قریب) خُم میں منتقل کردے، اے اللہ! جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام کی زبانی مکہ کو حرم قرار دیا ہے، اسی طرح میں مدینہ کی دوحرّوںکے درمیان والی جگہ کو حرام قرار دیتا ہوں۔

Haidth Number: 12631
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو یہ روئے زمین پر سب سے زیادہ وبا زدہ زمین تھی، جب سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس بات کا شکوہ کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ دعا کی: اے اللہ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت بھی اسی طرح ڈال دے، جیسے ہمارے دلوں میں مکہ کی محبت ہے، یا اس سے بھی زیادہ محبت ڈال اور اسے بیماریوں سے پاک کر کے صحت و پاکیزگی والا بنا دے اور ہمارے لیے اس کے مد اور صاع میں برکت فرما اور اس کے بخار کو یہاں سے حجفہ میں منتقل کر دے۔

Haidth Number: 12632

۔ (۱۲۶۳۳)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: لَمَّا قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِینَۃَ اشْتَکٰی أَصْحَابُہُ، وَاشْتَکٰی أَبُو بَکْرٍ وَعَامِرُ بْنُ فُہَیْرَۃَ مَوْلٰی أَبِی بَکْرٍ وَبِلَالٌ، فَاسْتَأْذَنَتْ عَائِشَۃُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی عِیَادَتِہِمْ، فَأَذِنَ لَہَا، فَقَالَتْ لِأَبِی بَکْرٍ: کَیْفَ تَجِدُکَ؟ فَقَالَ: کُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِی أَہْلِہِ وَالْمَوْتُ أَدْنٰی مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہِ، وَسَأَلَتْ عَامِرًا، فَقَالَ: إِنِّی وَجَدْتُ الْمَوْتَ قَبْلَ ذَوْقِہِ إِنَّ الْجَبَانَ حَتْفُہُ مِنْ فَوْقِہِ وَسَأَلَتْ بِلَالًا فَقَالَ: یَا لَیْتَ شِعْرِی ہَلْ أَبِیتَنَّ لَیْلَۃً بِفَجٍّ وَحَوْلِی إِذْخِرٌ وَجَلِیلُ، فَأَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَتْہُ بِقَوْلِہِمْ، فَنَظَرَ إِلَی السَّمَائِ، وَقَالَ: ((اللَّہُمَّ حَبِّبْ إِلَیْنَا الْمَدِینَۃَ کَمَا حَبَّبْتَ إِلَیْنَا مَکَّۃَ اَوْأَشَدَّ، اللَّہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی صَاعِہَا وَفِی مُدِّہَا، وَانْقُلْ وَبَائَ ہَا إِلٰی مَہْیَعَۃَ۔)) وَہِیَ الْجُحْفَۃُ کَمَا زَعَمُوْا۔ (مسند احمد: ۲۴۸۶۴)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مدینہ میں تشریف لائے تو صحابہ کرامf بیمار پڑگئے، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، ان کے غلام سیدنا عامر بن فہیرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی بیمار پڑگئے، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان کی عیادت کے لیے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اجازت لی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو اجازت دے دی، پس وہ گئیں اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: آپ کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہر آدمی کو اپنے اہل و عیال میں صبح بخیر کہا جاتا ہے جبکہ موت اس کے جوتے کے تسمہ سے بھی قریب ترہوتی ہے ۔ پھر انھوں نے سیدنا عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ان کا حال پوچھا تو انہوں نے کہا: میں موت آنے سے پہلے ہی موت چکھ رہا ہوں، بے شک بزدل آدمی پر اس کے اوپر سے موت آ گرتی ہے، جب سیدہ نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ان کا حال دریافت کیا تو انھوں نے کہا: کاش مجھے معلوم ہو کہ میں کس رات مکہ کے قریب وادی فبح میں پہنچوں گا اوررات وہاں بسرکروں گا اور وہاں کی اذخر جھاڑی اور جلیل گھاس میرے ارد گرد ہوگی۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان حضرات کی کیفیات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر یہ دعاکی: اے اللہ! تو نے جس طرح ہمارے دلوں میں مکہ کی محبت ڈالی ہوئی ہے، اسی طرح ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت یا اس سے زیادہ محبت ڈال دے، اے اللہ! ہمارے لیے یہاں کے صاع اور مد میں برکت فرما اور یہاں کی وباء کو مھیعہ کی طرف منتقل کردے۔ اہل علم کہتے ہیں: مھیعہ سے مراد مقام جحفہ ہے۔

Haidth Number: 12633
۔ (دوسری سند) سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، اس طریق میں سیدنا عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ذکر نہیں ہے، اس میں ہے کہ سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ کہا تھا: ہر آدمی کو اپنے اہل و عیال میں صبح بخیر کہا جاتا ہے جب کہ موت اس کے جوتے کے تسمہ سے بھی قریب ترہوتی ہے، جب سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بخار اتر جاتا تو وہ گا کر یہ پڑھتے تھے: کاش مجھے معلوم ہو کہ میں کونسی رات اس وادی میں جا کر گزاروں گا، جہا ں میرے ارد گرد اذخر اور جلیل گھاس ہوگی اور میں مجنہ وادی کے پانیوں میں پہنچوں گا اور شامہ اور طفیل نامی پہاڑ میری نظر کے سامنے ہوں گے۔ اے اللہ! تو عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف کو رسوا کر دے، جیسا کہ انھوں نے ہمیں مکہ سے نکال دیا ہے۔

Haidth Number: 12634

۔ (۱۲۹۷۶)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ قَالَ: ثَنَا مُجَالِدٌ قَالَ: ثَنَا عَامِرٌقَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِیْنَۃَ، فَاَتَیْتُ فَاطِمَۃَ بِنْتَ قَیْسٍ فَحَدَّثَتْنِیْ اَنَّ زَوْجَہَا طَلَّقَہَا عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَذَکَرَ حَدِیْثَہَا فِی النَّفَقَۃِ وَالسُّکْنٰی وَزَوَاجَہَا بِاُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ (تَقَدَّمَ ذٰلِکَ فِیْ بَابِ النَّفَقَۃِ وَالسُّکْنٰی لِلْمُعْتَدَّۃِ الرَّجْعِیَّۃِ وَالْبَتُوْتَۃِ الْحَامِلِ) قَالَ: فَلَمَّا اَرَدْتُّ اَنْ اَخْرُجَ قَالَتْ: اِجْلِسْ حَتّٰی اُحَدِّثَکَ حَدِیْثًا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا مِنَ الْاَیَّامِ فَصَلّٰی صَلاَۃَ الْھَاجِرَۃِ ثُمَّ قَعَدَ فَفَزِعَ النَّاسُ فَقَالَ: ((اِجْلِسُوْا اَیُّہَاالنَّاسُ فَاِنِّیْ لَمْ اَقُمْ مَقَامِیْ ہٰذَا لِفَزَعٍ وَلٰکِنَّ تَمِیْمًا الدَّارِیَّ اَتَانِیْ فَاَخْبَرَنِیْ خَبََرًا مَنَعَنِیْ الْقَیْلُوْلَۃُ مِنَ الْفَرَحِ وَقُرَّۃِ الْعَیْنِ فَاَحْبَبْتُ اَنْ اَنْشُرَ عَلَیْکُمْ فَرَحَ نَبِیِّکُمْ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، اَخْبَرَنِیْ اَنَّ رَھْطًا مِنْ بَنِیْ عَمِّہٖرَکِبُوْاالْبَحْرَفَاَصَابَتْہُمْرِیْحٌ عَاصِفٌ فَاَلْجَاَتْہُمُ الرِّیْحُ اِلٰی جَزِیْرَۃٍ لَایَعْرِفُوْنَہَا فَقَعَدُوْا فِیْ قُوَیْرِبِ السَّفِیْنَۃِ حَتّٰی خَرَجُوْا اِلَی الْجَزِیْرَۃِ فَاِذَا ھُمْ بِشَیْئٍ اَھْلَبَ کَثِیْر الشَّعْرِ، لَا یَدْرُوْنَ اَرَجُلٌ ھُوَ اَوْ اِمْرَاَۃٌ فَسَلَّمُوْا عَلَیْہِ فَرَدَّ عَلَیْہِمُ السَّلَامُ قَالُوْا: اَلَا تُخْبِرُنَا قَالَ: مَا اَنَا بِمُخْبِرِکُمْ وَلَابِمُسْتَخْبِرٍکُمْ وَلٰکِنَّ ہٰذَا الدَّیْرَ قَدْ رَھِقْتُمُوْہُ فَفِیْہِ مَنْ ھُوَ اِلٰی خَبَرِکُمْ بِالْاَشْوَاقِ اَنْ یُخْبِرَکُمْ وَیَسْتَخْبِرَکُمْ ، قَالَ: قُلْنَا: فَمَا اَنْتَ؟ قَالَ: اَنَاالْجَسَّاسَۃُ،فَانْطَلَقُوْا حَتّٰی اَتَوُا الدَّیْرَ فَاِذَا ھُمْ بِرَجُلٍ مُوَثَّقٍ شَدِیْدِ الْوَثَاقِ مُظْہِرِ الْحُزْنِ کَثِیْرِ التَّشَکِّیْ، فَسَلَّمُوْا عَلَیْہِ، فَرَدَّ عَلَیْہِمْ فَقَالَ: مِمَّنْ اَنْتُمْ؟ قَالُوْا: مِنَ الْعَرَبِ۔ قَالَ: مَا فَعَلَتِ الْعَرَبُ؟ اَخَرَجَ نَبِیُّہُمْ بَعْدُ؟ قَالُوْا: نَعَمْ قَالَ: فَمَا فَعَلُوْا؟ قَالُوْا: خَیْرًا آمَنُوْا بِہٖوَصَدَّقُوْہُ؟قَالَ: ذٰلِکَخَیْرٌ لَّھُمْ وَکَانَ لَہُ عَدُوٌّ فَاَظْہَرَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ قَالَ: فَالْعَرَبُ الْیَوْمَ اٰلِہُہُمْ وَاحِدٌ وَدِیْنُہُمْ وَاحِدٌ وَکَلِمُتُہُمْ وَاحِدَۃٌ؟ قَالُوْا: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا فَعَلَتْ عَیْنُ زُغَرَ؟ قَالُوْا: صَالِحَۃٌیَشْرَبُ مِنْہَا اَھْلُھَا لِشَفَتِہِمْ وَیَسْقُوْنَ مِنْہَا زَرْعَہُمْ۔ قَالَ: فَمَا فَعَلَ نَخْلٌ بَیْنَ عُمَّانَ وَبَیْسَانَ؟ قَالُوْا: صَالِحٌ یُطْعِمُ جَنَاہُ کُلَّ عَامٍ۔ قَالَ: فَمَا فَعَلَتْ بُحَیْرَۃُ الطَّبْرِیَّۃُ؟ قَالُوْا: مَلْاٰی۔ قَالَ: فَزَفَرَ ثُمَّ زَفَرَ ثُمَّ زَفَرَ ثُمَّ حَلَفَ لَوْ خَرْجْتُ مِنْ مَّکَانِیْ ہٰذَا مَا تَرَکْتُ اَرْضًا مِنْ اَرْضِ اللّٰہِ اِلَّا وَطَئْتُہَا غَیْرَ طَیْبَۃَ، لَیْسَ لِیْ عَلَیْہَا سُلْطَانٌ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ غَیْرَمَکَّۃَ وَطَیْبَۃَ )۔)) قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِلٰی ہٰذَا انْتَہٰی فَرْحِیْ ثَلَاثَ مِرَارٍ، اِنَّ طَیْبَۃَ الْمَدِیْنَۃُ اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلٰی الدَّجَّالِ اَنْ یَّدْخُلَھَا۔)) ثُمَّ حَلَفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَالَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ! مَالَھَا طَرِیْقٌ ضَیِّقٌ وَلَا وَاسِعٌ فِیْ سَہْلٍ وَلاَ فِیْ جَبَلٍ اِلَّا عَلَیْہِ مَلَکٌ شَاھِرٌ بِالسَّیْفِ اِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ مَا یَسْتَطِیْعُ الدَّجَّالُ اَنْ یَّدْخُلَہَا عَلٰی اَھْلِہَا۔)) قَالَ عَامِرٌ: فَلَقِیْتُ الْمُحَرَّرَ بْنَ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ، فَحَدَّثْتُہُ حَدِیْثَ فَاطِمَۃَ بْنِ قَیْسٍ فَقَالَ: اَشْہَدُ عَلٰی اَبِیْ اَنَّہُ حَدَّثَنِیْ کَمَا حَدَّثَتْکَ فَاطِمَۃُ غَیْرَ اَنَّہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّہُ نَحْوَ الْمَشْرِقِ۔)) قَالَ: ثُمَّ لَقِیْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ، فَذَکَرْتُ لَہُ حَدِیْثَ فَاطِمَۃَ فَقَالَ: اَشْہَدُ عَلٰی عَائِشَۃَ اَنَّہَا حَدَّثَتْنِیْ کَمَا حَدَّثَتْکَ فَاطِمَۃُ غَیْرَ اَنَّہَا قَالَتْ: ((اَلْحَرَمَانِ عَلَیْہِ حَرَامٌ مَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۷۸۹۲)

عامر شعبی کہتے ہیں: میںمدینہ منورہ میں آیا اور سیدنافاطمہ بنت قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گیا، انہوں نے مجھے بیان کیا عہد رسالت میں ان کے شوہرنے انکو طلاق دے دی تھی، پھر اس کے بعد نفقہ و رہائش اور سیدہ اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ ان کی شادی کا واقعہ بیان کیا، ( بَابُ النَّفَقَۃِ وَالسُّکْنٰی لِلْمُعْتَدَّۃِ الرَّجْعِیَّۃِ وَالْبَتُوْتَۃِ الْحَامِلِ میں اس حدیث کا ذکر ہو چکا ہے۔) عامر کہتے ہیں: میں نے جب وہاں سے روانہ ہونے کا ارادہ کیا تو سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے مجھ سے کہاـ: بیٹھ جاؤ، میں تمہیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک حدیث بیان کرتی ہوں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک دن مسجد میں تشریف لئے گئے اور نمازِظہر پڑھا کر وہیں بیٹھ گئے اور لوگ آپ کی حالت و کیفیت دیکھ کر گھبرا گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: لوگو بیٹھ جاؤ،میں اس وقت کسی پریشا نی کیو جہ سے یہاں سے کھڑا نہیں ہوا، بات یہ ہے کہ تمیم داری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آکر مجھے ایک بات بتائی ہے ، مجھے اس کی وجہ سے اس قدر خوشی اور راحت ہوئی کہ میں قیلولہ بھی نہیں کر سکا ، میں چاہتا ہوں کہ تم بھی اپنے نبی کی خوشی والی بات سنو، اس نے مجھے بتلایا ہے کہ اس کے چچا کے بیٹوں کی ایک جماعت سمندری سفر کر رہی تھی، تیز ہوا چلنے لگی، وہ ہوا انہیں ایک جزیرے کی طرف لے گئی، ان کی اس جزیرہ سے کوئی واقفیت نہیں تھی، وہ لوگ طوفان کے دوران کسی ایک چھوٹی کشتی پر بیٹھ کر جزیرہ کی طرف جا پہنچے، وہاں انہیں ایک عجیب چیز نظر آئی، اس پر بال ہی بال تھے، وہ تو یہ بھی نہیں پہچان سکے کہ وہ مرد تھا یا عورت؟ انہوںنے اسے سلام کہا، اس نے سلام کا جواب دیا، ان لوگوں نے اس سے کہا: کیا تم ہمیں کچھ بتاؤ گی؟ وہ بولی: نہیں، میں نہ تمہیں کچھ بتاتی ہوں، اور نہ تم سے کچھ پوچھتی ہوں،یہ راہبوں کی خانقاہ ہے،اب تم اس کے قریب تو پہنچ چکے ہو اور اس میں ایک ایسا شخص ہے کہ وہ تمہاری باتیں سننے کا بہت زیادہ خواہش مند ہے، وہ تمہیں کچھ باتیں بتائے گا اور کچھ تم سے پوچھے گا، ہم نے اس سے پوچھا کہ تم کیا ہو؟ اس نے کہا: میں جَسَّاسَہ ہوں، پھر وہ لوگ چلے گئے اور اس خانقاہ میں پہنچ گئے، وہاں ایک شخص بڑی مضبوط بندشوں میں جکڑا ہوا تھا، اس پر غم و حزن نمایاں تھا اور وہ تکلیف کی شکایت کا اظہار کرتا تھا، انہوںنے اسے سلام کہا، اس نے سلام کا جواب دیا، اس نے پوچھا: تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا: ہم عرب ہیں، اس نے پوچھا: عرب کیا کرتے ہیں؟ کیا ان کا نبی ظاہر ہو چکا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ اس نے پوچھا: انھوںنے اس کے ساتھ کیا کیا؟ انھوں نے کہا: اچھا رویہ ہے، وہ اس پر ایمان لائے اور اس کی باتوں کی تصدیق کی۔ اس نے کہا: ان کے لیے یہی بات بہتر ہے، اس کا ایک دشمن تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس نبی کو اس پر غالب کر دیا۔ پھر اس نے پوچھا: کیا اب ان سب عربوں کا معبود ایک ہے، نیز کیا ان کا دین اور کلمہ بھی ایک ہی ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔ اس نے پوچھا: زغر والے چشمے کے بارے میں بتلاؤ، وہ کس حالت میں ہے؟ انہوں نے کہا: وہ ٹھیک ہے، لوگ اس سے پانی پیتے ہیں اور اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں۔ اس نے پوچھا: عمان اور بیسان کے درمیان والی کھجوروں کی کیا حالت ہے؟انہوںنے کہا: وہ ٹھیک ہیں، ہر سال ان کے پھل کھائے جاتے ہیں۔ اس نے پوچھا:بحیرہ ٔ طبریہ کی صورتحال کیسی ہے؟ انہوںنے کہا: وہ بھی بھرا ہوا ہے۔ یہ باتیں سن کر وہ خوب اچھلا، پھر اس نے قسم اٹھا کر کہا: اگر میں اپنی اس جگہ سے نکل آؤںتو طیبہ(یعنی مدینہ منورہ) اور مکہ مکرمہ کے علاوہ ساری زمین پر چلوں گا۔ اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تو میری خوشی کی انتہا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ تین دفعہ فرمایا، بے شک طیبہ سے مراد مدینہ منورہ ہے، اللہ تعالیٰ نے دجال پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ اس میں داخل ہو سکے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حلف اٹھا کر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! مدینہ منورہ کی طرف آنے والے میدانی اور پہاڑی کشادہ اور تنگ ہر راستے پر اللہ کا فرشتہ قیامت تک تلوار لیے کھڑا ہے، دجال کسی راستے سے مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوسکے گا۔ عامر شعبی کہتے ہیں: پھر میری ملاقات محرر بن ابو ہریرہ سے ہوئی، میںنے انہیں سیدہ فاطمہ بنت قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے سنی ہوئی یہ حدیث بیان کی، تو انہوںنے کہا: میں گواہی دیتا کہ میرے والد نے بھی یہ حدیث مجھے اسی طرح بیان کی تھی، جیسے آپ کو سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بیان کیا ہے، البتہ انہوںنے یہ بھی کہا تھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ مشرق کی جہت میں ہے۔ عامر کہتے ہیں: پھر میری ملاقات قاسم بن محمد سے ہوئی،میںنے ان کو بھی سیدہ فاطمہ بنت قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے سنی ہوئی یہ حدیث سنائی، انہوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ مجھے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے یہ حدیث اس طرح بیان کی تھی، جیسے آپ کو سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بیان کیا ہے، البتہ سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے یہ بھی بیان کیا کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ یہ دونوں حرم، دجال پر حرام ہیں۔

Haidth Number: 12976

۔ (۱۲۹۷۷)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا یُوْنُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ ثَنَا حَمَّادٌ یَعْنِی ابْنَ سَلَمَۃَ عَنْ دَاوٗدَیَعْنِی ابْنَ اَبِیْ ھِنْدٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ قَیْسٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَائَ ذَاتَ یَوْمٍ مُسْرِعًا فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ وَنُوْدِیَ فِی النَّاسِ: اَلصَّلاَۃُ جَامِعَۃٌ فَاجْتَمَعَ النَّاسُ فَقَالَ: ((یَا اَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ لَمْ اَدْعُکُمْ لِرَغْبَۃٍ نَزَلَتْ وَلاَ لِرَھْبِۃٍ وَلٰکِنَّ تَمِیْمًا الدَّارِیَّ اَخْبَرَنِیْ اَنَّ نَفَرًا مِنْ اَھْلِ فَلِسْطِیْنَ رَکِبُوْا الْبَحْرَ فَقَذَفَتْہُمُ الرِّیْحُ اِلٰی جَزِیْرَۃٍ مِّنْ جَزَائِرِ الْبَحْرِ، فَاِذَا ھُمْ بِدَابَّۃٍ اَشْعَرَ، مَا یُدْرٰی اَذَکَرٌ ھُوَ اَمْ اُنْثٰی لِکَثْرَۃِ شَعْرِہٖ،قَالُوْا: مَنْاَنْتَفَقَالَتْ: اَنَاالْجَسَّاسَۃُ فَقَالُوْا: فَاَخْبِرِیْنَا فَقَالَتْ: مَا اَنَا بِمُخْبِرَتِکُمْ وَلَامُسْتَخْبِرَتِکُمْ وَلٰکِنْ فِیْ ہٰذَا الدَّیْرِ رَجُلٌ فَقِیْرٌ اِلٰی اَنْ یُخْبِرَکُمْ وَاِلٰی اَنْ یَسْتَخْبِرَکُمْ، فَدَخَلُوْا الدَّیْرَ فَاِذَا رَجُلٌ اَعْوَرُ مُصَفَّدٌ فِی الْحَدِیْدِ، فَقَالَ: مَنْ اَنْتُمْ؟ قُلْنَا: نَحْنُ الْعَرَبُ، فَقَالَ: ھَلْ بُعِثَ فِیْکُمُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالُوْا: نَعَمْ، قَالَ: فَہَلْ اِتَّبَعَتْہُ الْعَرَبُ؟ قَالُوْا: نَعَمْ، قَالَ: ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّھُمْ، قَالَ: مَا فَعَلَتْ فَارِسُ؟ ھَلْ ظَہَرَ عَلَیْہَا؟ قَالُوْا: لَمْ یَظْہَرْ عَلَیْہَا بَعْدُ، فَقَالَ: اَمَا اِنَّہُ سَیَظْہَرُ عَلَیْہَا، ثُمَّ قَالَ: مَا فَعَلَتْ عَیْنُ زُغَرَ؟ قَالُوْا: ھِیَ تَدْفُقُ مَلْاٰی، قَالَ: فَمَا فَعَل نَخْلُ بَیْسَانَ؟ ھَلْ اَطْعَمَ؟ قَالُوْا: قَدْ اَطْعَمَ اَوَائِلُہُ، قَالَ: فَوَثَبَ وَثْبَۃً حَتّٰی ظَنَنَّا اَنَّہُ سَیَفْلِتُ، فَقُلْنَا: مَنْ اَنْتَ؟ قَالَ: اَنَا الدَّجَّالُ، اَمَا اِنِّیْ سَاَطَأُ الْاَرْضَ کُلَّہَا غَیْرَ مَکَّۃَ وَطَیْبَۃَ۔)) فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَبْشِرُوْا یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِیْنَ! ہٰذَا طَیْبَۃُ لَا یَدْخُلُہَا۔)) یَعْنِی الدَّجَّالَ۔ (مسند احمد: ۲۷۶۴۳)

۔ (دوسری سند) عامر شعبی کہتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ بنت قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جلدی سے آکر منبر پر بیٹھ گئے اور لوگوں میں یہ اعلان کرا دیا گیا کہ اَلصَّلاَۃُ جَامِعَۃٌ ، لوگ اکٹھے ہو گئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! میں نے تمہیں کوئی خوش کرنے والے یا ڈرانے دھمکانے والی خبر بتلانے کے لیے نہیں بلایا، جو آج نازل ہوئی ہو، بات یہ ہے کہ تمیم داری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے ایک خبر دی ہے، میں وہ تمہیں بتلانا چاہتا ہوں، اس کی تفصیل یہ ہے کہ فلسطین کے کچھ لوگ سمندری سفر پر روانہ ہوئے، وہ طوفان کی وجہ سے ایک سمندری جزیرے پر پہنچ گئے، وہاں انہوںنے ایک ایسا جانور دیکھا جس کے اوپر بال ہی بال تھے اور بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کی یہ شناخت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ مذکر ہے یا مونث؟ بہرحال انھوں نے اس سے پوچھا: تو کون ہے؟ اس نے کہا: میں جَسَّاسہ ہوں۔ انھوں نے کہا: ہمیں کچھ بتلاؤ، اس نے کہا: نہیں، میں نے تمہیں نہ کچھ بتلانا ہے اور نہ پوچھنا ہے، البتہ اس خانقاہ میںایک آدمی ہے، وہ تمہیں بعض باتیں بتانے اور بعض پوچھنے کا شوقین ہے، یہ لوگ اس مقام میں چلے گئے، وہاں ایک کانا آدمی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ اس نے پوچھا: تم کون لوگ ہو؟ انھوں نے کہا: ہم عرب ہیں۔ اس نے پوچھا: کیا تمہارے اندر نبی مبعوث ہو چکا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔ اس نے پوچھا: کیا عربوں نے اس کی اطاعت کی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ اس نے کہا: یہی چیز ان کے لیے بہتر ہے۔ اس نے پوچھا: فارس کا کیا بنا؟ کیا یہ نبی ان پر غالب آچکا ہے؟ انہوں نے کہا: جی نہیں، ابھی تک وہ ان پر غالب نہیں آیا، اس نے کہا: لیکن عنقریب وہ اس پر غالب آجائے گا۔ پھر اس نے پوچھا: زغر کے چشمہ کی صورتحال کیا ہے؟ انہوں نے کہا: وہ بھرا ہوا ہے اور چھلک رہا ہے۔ اس نے پوچھا: بیسان کے نخلستان کے بارے میں بتاؤ، کیا وہ پھل دیتے ہیں؟ انھوں نے کہا: جی اس کے درخت پھل دے رہے ہیں،یہ باتیں سن کر وہ خوب اچھلا، ہم نے سمجھا کہ شاید وہ اپنی قید سے نکل جائے گا۔ پھر ہم نے اس سے پوچھا: تو کون ہو؟ اس نے کہا: میں دجال ہوں اور خبردار ہو جاؤ، میں عنقریب ساری زمین کو روند دوں گا، ماسوائے مکہ اور طیبہ (یعنی مدینہ) کے۔ پھررسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مسلمانوں کی جماعت! خوش ہو جاؤ،یہ طیبہ ہے، دجال اس میں داخل نہیں ہو سکے گا۔

Haidth Number: 12977
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اہل ِ جنت سے فرمائے گا: اے جنت والو! وہ سب کہیں گے: ہم حاضر ہیں، اے ہمارے رب! ہم حاضر ہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تم راضی ہو گئے ہو؟ وہ عرض کریں گے: اور ہم راضی کیوںنہ ہوں، تو نے تو ہمیںوہ کچھ عنایت کر دیا ہے، جو مخلوقات میں سے کسی کو بھی نہیں دیا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اب میں تمہیں سب سے افضل چیز دینے لگا ہوں، وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ان نعمتوں سے بڑھ کر بھی کوئی نعمت ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں تمہیں اپنی رضامندی کا مستحق ٹھہراتا ہوں اور اب میں تم سے کبھی بھی ناراض نہیں ہوں گا۔

Haidth Number: 13330