Blog
Books
Search Hadith

محض قتلِ خطا کی دیت کا بیان

68 Hadiths Found
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ جو آدمی خطأً قتل ہو گیا، اس کی دیت سو اونٹ ہو گی، جس کی تفصیلیہ ہے: تیس بنت ِ مخاض، تیس بنت ِ لبون، تیس حِقّے اور دس ابن لبون مذکر۔

Haidth Number: 6592
۔ سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے قبطی موٹی چادر دی، جو آپ کو دحیہ کلبی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہدیہ میں دی تھی، میں نے وہ اپنی بیوی کو دے دی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اسامہ! کیا وجہ ہے کہ تونے وہ قبطی چادر نہیں پہنی؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ میں نے اپنی بیوی کو دے دی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے حکم دے کہ اس کے نیچے شمیز پہنے، کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ یہ اس کے بدن کوواضح نہ کر دے۔

Haidth Number: 8141
۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم داخل ہوئے اور میں دوپٹہ اوڑھ رہی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بس ایک ہی بل دینا، دونہ دینا۔

Haidth Number: 8142
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا: میری امت کے آخری زمانے میں لوگ کجاووں کی طرح کی زینوں پر سوار ہوں گے، وہ مساجد کے دروازوں پر اتریں گے، ان کی عورتیں لباس پہننے کے باجود ننگی ہوں گی، ان کے سر کمزور بختی اونٹوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے۔ ایسی عورتیں ملعون ہیں، ان پر لعنت کرنا۔ اگر تمھارے بعد کوئی اور امت ہوتی تو تمھاری عورتیں اس کی خدمت کرتیں جیسا کہ تم سے پہلے والی امتوں کی عورتوں نے تمھاری خدمت کی ہے۔

Haidth Number: 8143
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے جہنم میں جانے والے دو قسم کے لوگ ابھی تک نہیں دیکھے۔ (۱)وہ لوگ جن کے پاس گائیوں کی دموں کی طرح کوڑے ہوتے ہیں اور وہ ان سے لوگوں کی پٹائی کرتے ہیں۔ اور(۲) وہ عورتیں جو لباس میں ملبوس ہونے کے باوجود ننگی ہوتی ہیں، لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں اور خود ان کی طرف مائل ہو تی ہیں، اس کے سر بختی اونٹوں کے کوہانوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ایسی عورتیں جنت میں داخل ہوں گی نہ اس کی خوشبو پائیں گی، حالانکہ اس کی خوشبو بہت دور سے محسوس کی جاتی ہے ۔

Haidth Number: 8144
۔ بنو ہذیل کے ایک آدمی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا، ان کا گھرحرم سے باہر تھا اور مسجد حرم میں تھی، میں ان کے پاس تھا کہ انھوں نے ابو جہل کی بیٹی ام سعید کو دیکھا، اس نے کمان لٹکائی ہوئی تھی اور مرد کی سی چال چل رہی ہے۔ پھر انھوں نے پوچھا: یہ خاتون کون ہے؟ میں نے کہا: یہ ابو جہل کی بیٹی ام سعید ہے۔ انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: وہ عورت ہم میں سے نہیں جو مردوں کی مشابہت اختیار کرے اور وہ مرد ہم سے نہیں جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرے۔

Haidth Number: 8145
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آدمی پر لعنت کی ہے جو عورت کا لباس پہنتا ہے اور اس عورت پر بھی لعنت کی ہے جو مرد کا لباس پہنتا ہے۔

Haidth Number: 8146
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: روز قیامت کافر کو لایا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا: اچھا یہ بتا کہ اگر تجھے زمین بھر سونا دے دیا جائے تو کیا اس عذاب سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اس کا فدیہ دے دے گا؟ وہ کہے گا: جی ہاں، اے میرے پروردگار! تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: (دنیا میں) تجھ سے اس سے آسان تر مطالبہ کیا گیا تھا (لیکن تو نے اس کو بھی پورا نہ کیا)۔ اللہ تعالی کے اس فرمان کا یہی مطلب ہے: {إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَہُمْ کُفَّارٌ فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْ أَ حَدِہِمْ مِلْئُ الْأَ رْضِ ذَہَبًا وَلَوِ افْتَدٰی بِہِ}… یقینا وہ لوگ جو کفر کی حالت میں مر گئے، اگر یہ زمین بھر سونا بھی فدیہ میں دے دیں تو ان سے قبول نہیں کیا جائے گا۔

Haidth Number: 8539
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان دس چیزوں کو ناپسند کرتے تھے: (۱) سونے کی انگوٹھی، (۲) تہبند کو گھسیٹنا، (۳) صفرہ یعنی خلوق خوشبو، (۴) سفید بالوں کو تبدیل کر دینا،یعنی ان کو اکھاڑ دینا، (۵) مادۂ منویہ کو اس کے محل سے دور گرانا یعنی عزل کرنا، (۶) معوذات کے علاوہ دم کرنا، (۷) بچے میں فساد پیدا کرنا، لیکن اس کام کو حرام نہیں قرار دیا، (۸) تمیمے لٹکانا، (۹) بے محل موقع پر عورت کا زینت اختیار کرنا اور (۱۰) نرد کھیل کے مہرے مارنا۔

Haidth Number: 10024

۔ (۱۰۰۲۵)۔ عَنْ مُعَاذٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: اَوْصَانِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِعَشْرِ کَلِمَاتٍ، قَالَ: ((لَاتُشْرِکْ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَاِنْ قُتِلْتَ وَحُرِّقْتَ، وَلَا تَعُقَّنَّ وَالِدَیْکَ وَاِنْ اَمَرَاکَ اَنْ تَخْرُجَ مِنْ اَھْلِکَ وَمَالِکَ، وَلَا تَتْرُکَنَّ صَلَاۃً مَکْتُوْبَۃً مُتَعَمِّدًا فَاِنَّہُ مَنْ تَرَکَ صَلَاۃً مَکْتُوْبَۃً مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْہُ ذِمَّۃُ اللّٰہِ، وَلَا تَشْرَبَنَّ خَمْرًا فَاِنَّہُ رَاْسُ کُلِّ فَاحِشَۃٍ، وَاِیَّاکَ وَالْمَعْصِیَۃَ فَاِنَّ بِالْمَعْصِیَۃِ حَلَّ سَخَطُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، وَاِیَّاکَ مِنَ الْفِرَارِ یَوْمَ الزَّحْفِ وَاِنْ ھَلَکَ النَّاسُ، وَاِذَا اَصَابَ النَّاسَ مُوْتَانٌ وَاَنْتَ فِیْھِمْ فَاثْبُتْ، وَاَنْفِقْ عَلٰی عَیْالِکَ مِنْ طَوْلِکَ، وَلَا تَرْفَعْ عَنْھُمْ عَصَاکَ اَدَبًا، وَاَخِفْھُمْ فِیْ اللّٰہِ۔)) (مسند احمد: ۲۲۴۲۵)

۔ سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دس امور کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: تونے اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرانا، اگرچہ تجھ کو قتل کر دیا جائے اور جلا دیا جائے، ہر گز والدین کی نافرمانی نہیں کرنی، اگرچہ وہ تجھ کو حکم دیں کہ تو اپنے اہل و مال سے نکل جائے، جان بوجھ کر ہر گز فرضی نماز کو ترک نہیں کرنا، کیونکہ جس نے جان بوجھ کر فرضی نماز ترک کر دی، اللہ تعالیٰ کا ذمہ اس سے بری ہو جائے گا، تو نے ہر گز شراب نہیں پینی، کیونکہ وہ ہر بے حیائی کی جڑ ہے، نافرمانی سے بچنا، کیونکہ نافرمانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی نازل ہوتی ہے، لڑائی والے دن بھاگنے سے بچنا ہے، اگرچہ لوگ مر رہے ہوں، جب لوگ کثرت سے موت میں مبتلا رہے ہوں، جبکہ تو ان میں موجود ہو تو تو نے ثابت قدم رہنا ہے، اپنی حیثیت کے مطابق اپنے اہل و عیال پر خرچ کر، ان کو ادب سکھانے کے لیے اپنی لاٹھی کو ان سے دور نہ کر اور ان کو اللہ تعالیٰ سے ڈرا۔

Haidth Number: 10025

۔ (۱۰۰۲۶)۔ عَنْ عَیَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ اَبِیْ الْحُصَیْنِ الْھَیْثَمِ بْنِ شُفَیٍّ اَنَّہُ سَمِعَہُ یَقُوْلُ: خَرَجْتُ اَنَا وَصَاحِبٌ لِیْیُسَمَّی اَبَاعَامِرٍ رَجُلٌ مِنَ اْلمَعَافِرِ لِیُصَلِّیَ بِاِیْلِیَائِ، وَکَانَ قَاصُّھُمْ رَجُلًا مِنَ الْاَزْدِ یُقَالُ لَہُ: اَبُوْ رَیْحَانَۃَ مِنَ الصَّحَابَۃِ، قَالَ اَبُوْ الْحُصَیْنِ: فَسَبَقَنِیْ صَاحِبی اِلَی المسجد، ثُمَّ اَدْرَکْتُہٗفَجَلَسْتُاِلٰیجَنْبِہٖ، فَسَاَلَنِیْ، ھَلْ اَدْرَکْتَ قِصَصَ اَبِیْ رَیْحَانَۃَ؟ فَقُلْتُ لَا، فَقَالَ: سَمِعْتُہُ یَقُوْلُ: نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ عَشْرَۃٍ، عَنِ الْوَشْرِ، وَالْوَشْمِ، وَالنَّتْفِ، وَعَنْ مُکَامَعَـۃِ الرَّجُلِ الرَّجُلَ بِغَیْرِ شِعَارٍ، وَعَنْ مُکَامَعَۃِ الْمَرْاَۃِ الْمَرْاَۃَ بِغَیْرِ شِعَارٍ، وَاَنْ یَجْعَلَ الرَّجُلُ فِیْ اَسْفَلِ ثِیَابِہٖ حَرِیْرًا مِثْلَ الْاَعْلَامِ، وَاَنْ یَجْعَلَ عَلٰی مَنْـکِبَیْہِ مِثْلَ الْاَعَاجِمِ، وَعَنِ النُّھْبٰی، وَرُکُوْبِ النُّمُوْرِ، وَلُبُوسِ الْخَاتَمِ اِلَّا لِذِیْ سُلْطَانٍ۔)) (مسند احمد: ۱۷۳۴۱)

۔ ابو حصین ہیثم بن شُفَی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اور میرا ابو عامر نامی ایک ساتھی (بیت المقدس کے شہر) ایلیا میں نماز پڑھنے کے لیے نکلے، میرے ساتھی کا تعلق یمن کے مقام معافر سے تھا، ان کا واعظ ازدی تھا، اس کو ابو ریحانہ کہتے تھے اور وہ صحابی تھا، ابو حصین کہتے ہیں: میرا ساتھ مجھ سے پہلے مسجد میںپہنچ گیا، پھر جب میں مسجد میں پہنچا تو اس کے پہلو میں بیٹھ گیا، انھوں نے مجھ سے سوال کیا: کیا تم نے سیدنا ابو ریحانہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قصے سنے ہیں؟ میں نے کہا: جی نہیں، اس نے کہا: میں نے سنا ہے، وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اِن دس چیزوں سے منع کیا ہے: دانتوں کو باریک کرنا، تل بھرنا، بالوں کو اکھاڑنا، بغیر لباس کے مرد کا مرد کے ساتھ لیٹنا، اسی طرح بغیر لباس سے عورت کا عورت کے ساتھ لیٹنا، مرد کا اپنے کپڑوں کے نچلی طرف اور کندھوں پر عجموں کی طرح (ریشم) ڈالنا، ڈاکہ زنی، چیتوں کے چمڑے کی زین وغیرہ بنا کر اس پر سوار ہونا اور حکومت والے بندے کے علاوہ دوسرے لوگوں کا انگوٹھی پہننا۔

Haidth Number: 10026

۔ (۱۰۵۶۸)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أُتیْتُ بِالْبُرَاقِ، وَھُوَ دَابَّۃٌ أَبْیَضُ طَوِیْلٌ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُوْنَ الْبَغْلِ، یَضَعُ حَافِرَہُ عِنْدَ مُنْتَھٰی طَرْفِہِ، قَالَ: فَرَکِبْتُہُ حَتّٰی أَتَیْتُ بَیْتَ الْمَقْدِسِ، قَالَ: فَرَبَطْتُّہُ بِالْحَلْقَۃِ الَّتِییَرْبِطُ بِھَا الْأَنْبِیَائُ، قَالَ: ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَصَلَّیْتُ فِیْہِ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَائَ نِی جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ بِأِنَائٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَائٍ مِنْ لَبَنٍ، فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ، فَقَالَ جِبْرِیْلُعَلَیْہِ السَّلَامُ: اِخْتَرْتَ الْفِطْرَۃَ ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِیْلُ۔ فَقِیْلَ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ۔ قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ۔ قِیْلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ، فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِآدَمَ، فَرَحَّبَ بِیْ وَدَعَا لِی بِخَیْرٍ، ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الثَّانِیَۃِ۔ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ۔ فَقِیْلَ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ۔ قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ۔ قِیْلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ اِلَیْہِ۔ فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِاِبْنَیِ الْخَالَۃِ: عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَیَحْیَی بْنِ زَکَرِیَّا صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْھِمَا، فَرَحَّبَا وَدَعَوَا لِی بِخَیْرٍ۔ ثُمَّ عُرِجَ بِیْ إِلَی السَّمَائِ الثَّالِثَۃِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِیْلُ فَقِیْلَ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ۔ قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ:مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔قِیْلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ۔ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِیُوْسُفَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، إِذَا ھُوَ قَدْ أُعْطِیَ شَطْرَ الْحُسْنِ، فَرَحَّبَ وَدَعَا لِی بِخَیْرٍ ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الرَّابِعَۃِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ۔ قِیْلَ: مَنْ ھٰذَا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ۔ قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ۔ قَالَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ۔ فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِإِدْرِیْسَ، فَرَحَّبَ بِیْ وَدَعَا لِی بِخَیْرٍ، وَقَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا}ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ الْخَامِسَۃِ۔ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِیْلُ۔ قِیْلَ: مَنْ ھٰذَا؟ فَقَالَ: جِبْرِیْلُ۔ قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ۔ قِیْلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ۔ فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِھَارُوْنَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَرَحَّبَ وَدَعَالِی بِخَیْرٍ ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ السَّادِسَۃِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ۔ قِیْلَ: مَنْ ھٰذَا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ۔ قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قاَلَ: مُحَمَّدٌ قِیْلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ، فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِمُوْسٰی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَحَّبَ وَدَعَا لِی بِخَیْرٍ ثُمَّ عُرِجَ بِنَا إِلَی السَّمَائِ السَّابِعَۃِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِیْلُ۔ فَقِیْلَ: مَنْ ھٰذَا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ۔ قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ قِیْلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ، فَفُتِحَ لَنَا، فَإِذَا أَنَا بِإِبْرَاھِیْمَ مُسْنِداً ظَھْرَہُ إِلَی الْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ، وَإِذَا ھُوَیَدْخُلُہُ کُلَّ یَوْمٍ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ لَایَعُوْدُوْنَ إِلَیْہِ۔ ثُمَّ ذَھَبَ بِی إِلَی السِّدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی، وَإِذَا وَرَقُھَا کَآذَانِ الْفِیَلَۃِ، وَإِذَا ثَمَرُھَا کَالْقِلَالِ، قَالَ:فَلَمَّا غَشِیَھَا مِنْ أَمْرِ اللّٰہِ مَاغَشِیَ، تَغَیَّرَتْ، فَمَا أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ یَسْتَطِیْعُ أَن یَّنْعَتَھَا مِنْ حُسْنِھَا، فَأَوْحٰی اللّٰہُ إِلَیَّ مَا أَوْحٰی، فَفَرَضَ عَلَیَّ خَمْسِیْنَ صَلَاۃً فِی کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ، فَنَزَلْتُ إِلٰی مُوْسٰی فَقَالَ:مَافَرَضَ رَبُّک عَلٰی اُمَّتِکَ؟ قُلْتُ: خَمْسِیْنَ صَلَاۃً۔ قَالَ: اِرْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ التَّخْفِیْفَ فَاِنَّ اُمَّتَکَ لَایُطِیْقُوْنَ ذٰلِکَ، فَإِنِّی قَدْ بَلَوْتُ بَنِی إِسْرَائِیْلَ وَخَبَرْتُھُمْ۔ قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلٰی رَبِّیْ۔ فَقُلْتُ: یَارَبِّ! خَفِّفْ عَلٰی أُمَّتِی، فَحَطَّ عَنِّی خَمْساً فَرَجَعْتُ إِلٰی مُوْسٰی، فَقُلْتُ: حَطَّ عَنِّی خَمْساً۔ قَالَ: إِنَّ أُمَّتَکَ لَایُطِیْقُوْنَ ذٰلِکَ فَارْجِعْ إِلٰی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ التَّخْفِیْفَ۔ قاَلَ: فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَیْنَ رَبِّی تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَبَیْنَ مُوْسیٰ عَلَیْہِ السَّلَامُ حَتّٰی قَالَ: یَامُحَمَّدُ! إِنَّھُنَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ کُلَّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ، لِکُلِّ صَلَاۃٍ عَشْرٌ، فَذٰلِکَ خَمْسُوْنَ صَلَاۃً، وَمَنْ ھَمَّ بِحَسَنَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْھَا،کُتِبَتْ لَہٗحَسَنَۃٌ، فَإِنْ عَمِلَھَا کُتِبَتْ لَہُ عَشْراً، وَمَنْ ھَمَّ بِسَیِِّئَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْھَا، لَمْ یُکْتَبْ شَیْئاً، فَإِنْ عَمِلَھَا کُتِبَتْ سَیَّئَۃً وَاحِدَۃً۔ قَالَ: فَنَزَلْتُ حَتّٰی انْتَھَیْتُ إِلٰی مُوْسٰی فَأَخْبَرْتُہُ، فَقَالَ: اِرْجِعْ إِلٰی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ التَّخْفِیْفَ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : فَقُلْتُ: قَدْ رَجَعْتُ إِلٰی رَبِّی حَتّٰی اسْتَحْیَیْتُ مِنْہُ۔)) (مسند احمد: ۱۲۵۳۳)

۔ انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے پاس براق لایاگیا، وہ گدھے سے بڑا اور خچرسے چھوٹاسفید رنگ کا لمبا جانور تھا، وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا جہاں تک اس کی نگاہ جاتی تھی۔ میں اُس پر سوار ہوا،(اور چل پڑا) حتیٰ کہ بیت المقدس میں پہنچ گیا، میں نے اُس کو اُس کڑے کے ساتھ باندھ دیا جس کے ساتھ دوسرے انبیاء بھی باندھتے تھے،پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور دو رکعت نماز پڑھی۔ جب میں وہاں سے نکلا تو حضرت جبریل علیہ السلام شراب کا اور دودھ کا ایک ایک برتن لائے، میں نے دودھ کا انتخاب کیا۔ جبریل نے کہا: آپ نے فطرت کو پسند کیاہے۔ پھر ہمیں آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ (جب ہم وہاں پہنچے تو) جبریل نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، کہا گیا: کون ہے؟ اس نے کہا: جبریل ہوں۔ پھر کہاگیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں۔ کہاگیا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ اُس نے کہا: (جی ہاں) انہیں بلایا گیا ہے۔ پھر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔میں نے حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھا ، انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے دعا کی۔پھر ہمیں دوسرے آسمان کی طرف اٹھایاگیا۔ جبریل نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا، پوچھا گیا: کون ہے؟ اس نے کہا: جبریل ہوں۔ فرشتوں نے پوچھا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں۔ فرشتوں نے کہا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ جبریل نے کہا: (جی ہاں!ان کو بلایا گیا ہے۔ پھر ہمارے لیے دروازہ کھول دیاگیا۔ میں نے خالہ زاد بھائیوں عیسیٰ بن مریم اوریحییٰ بن زکریا کو دیکھا، اُن دونوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے خیر و بھلائی کی دعا کی۔پھرہمیں تیسرے آسمان کی طرف اٹھایاگیا، جبریل نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا ۔فرشتوں نے پوچھا: کون؟اس نے کہا: جبریل۔ فرشتوں نے پوچھا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ کہاگیا: کیا ان کو بلایا گیا ہے؟جبریل نے کہا :جی ہاں! انہیںبلایا گیا ہے۔سو ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا، وہاں میں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا،(ان کی خوبصورتی سے معلوم ہوتا تھا کہ) نصف حسن ان کو عطا کیا گیا ہے۔اُنہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی۔پھرہمیں چوتھے آسمان کی طرف اٹھایا گیا، جبریل نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔ پوچھا گیا: کون؟ اس نے کہا: جبریل ہوں۔ پھر پوچھا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں۔ کہاگیا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ اُس نے کہا: جی ہاں! اُن کو بلایا گیا ہے، پھر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ وہاں ادریس علیہ السلام کو دیکھا، انہوںنے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے خیر و بھلائی کی دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور ہم نے ادریس کا مقام و مرتبہ بلند کیا۔پھر ہمیں پانچویں آسمان کی طرف اٹھایا گیا، اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔ کہا گیا: کون ؟ اس نے کہا: میں جبریل ہوں۔ کہاگیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں۔ پوچھاگیا: کیا انہیںبلایا گیا ہے؟ جبریل نے جواب دیا: جی ہاں! انہیں بلایا گیا ہے،پھر ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ وہاں حضرت ہارون ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لیے خیر کی دعا کی۔پھر ہمیں چھٹے آسمان کی طرف اٹھایا گیا اور چھٹے آسمان پر دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔ کہا گیا: کون؟اس نے کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں۔ پھر پوچھا گیا: کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ اس نے کہا: ہاں! پس ہمارے لیے دروازہ کھول دیا گیا۔ میں نے وہاں موسیٰ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا ۔اُنہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی۔ پھرہمیں ساتویں آسمان کی طرف اٹھایا گیا اور دروازہ کھولنے کے لیے کہا گیا۔ پوچھا گیا: کون؟ اس نے کہا:جبریل ہوں۔ کہا گیا: تیرے ساتھ کون ہے؟ اس نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں۔ کہا گیا:کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ جبریل نے کہا : ہاں! ان کو بلایا گیا ہے۔ سو دروازہ کھول دیا گیا۔ میں نے ابراہیم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا ۔وہ بیتِ معمور کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ (بیتِ معمور کی کیفیتیہ ہے کہ) ہر روز اس میں ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیںاور پھردوبارہ ان کی باری نہیں آتی۔ پھر جبریل مجھے سِدْرَۃُ الْمُنْتَہٰی کے پاس لے گئے، اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے اور اُس کا پھل مٹکوں کی مانند ۔ جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے کسی چیز سے اسے ڈھانکا گیا تو (اس کی کیفیتیوں) بدل گئی کہ اللہ کی مخلوق میں کوئی بھی اس کا حسن بیان نہیں کر سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی اور ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کیں۔ میں اُتر کر موسیٰ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا،انہوں نے پوچھا: تیرے رب نے تیری امت پر کیا کچھ فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: پچاس نمازیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اپنے ربّ کے پاس جاؤ اور تخفیف کا سوال کرو، تیری امت (کے افراد) میں اتنی استطاعت نہیں ہے، میں نے بنی اسرائیل کو آزما لیاہے اور اُن کا تجربہ کر چکا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کہا:پس میں اپنے پروردگار کی طرف واپس چلا گیا اور کہا: اے میرے ربّ! میری امت کے لیے (نمازوں والے حکم میں) تخفیف کیجیے۔ پس اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں کم کردی۔ پھر میں موسیٰ کی طرف لوٹا اور ان کو بتلایا کہ مجھ سے پانچ نمازیں کم کردی گئی ہیں، انہوں نے کہا: تیری امت کو اتنی طاقت بھی نہیں ہو گی، اس لیے اپنے رب کے پاس جاؤ اور اس سے (مزید) کمی کا سوال کرو۔ آپ نے فرمایا: میں اسی طرح اپنے پروردگار اور موسیٰ کے درمیان آتا جاتا رہا،حتی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد ! ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں، ہر نماز (کے عوض) دس نمازوں کا ثواب ہے،(اس طریقے سے یہ) پچاس نمازیں ہوں گئیں اور (مزید سنو کہ) جس نے نیکی کا قصد کیا اور (عملًا) نہیں کی تو اُس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جائے گی اور اگر اُس نے وہ نیکی عملًا کرلی تو اُس کے لیے دس گنا ثواب لکھ دیاجائے گا اور جس نے برائی کا ارادہ کیا اور عملًا اُس کا ارتکاب نہیں کیا،تو اُس (کے حق میں کوئی گناہ) نہیں لکھا جائے گا، اور اگر اُس نے عملًا برائی کا ارتکاب کر لیا تو (پھر) اُس کے لیے ایک برائی لکھ دی جائے گی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نیچے اترا اور موسیٰ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچا اور اُن کو (ساری صورتحال کی) خبر دی۔انہوں نے پھر کہا: اپنے پرودگار کی طرف لوٹ جائو اور اُس سے مزید تخفیف کا سوال کرو۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے کہا: میں اپنے پروردگار کی طرف (بار بار) لوٹ چکا ہوں۔ اب تو میں اپنے ربّ سے شرماتا ہوں۔

Haidth Number: 10568

۔ (۱۰۷۴۴)۔ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا بَعَثَ حَرَامًا خَالَہُ أَخَا أُمِّ سُلَیْمٍ فِی سَبْعِینَ رَجُلًا، فَقُتِلُوا یَوْمَ بِئْرِ مَعُونَۃَ، وَکَانَ رَئِیسُ الْمُشْرِکِینَیَوْمَئِذٍ عَامِرَ بْنَ الطُّفَیْلِ، وَکَانَ ہُوَ أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: اخْتَرْ مِنِّی ثَلَاثَ خِصَالٍ یَکُونُ لَکَ أَہْلُ السَّہْلِ وَیَکُونُ لِی أَہْلُ الْوَبَرِ، أَوْ أَکُونُ خَلِیفَۃً مِنْ بَعْدِکَ أَوْ أَغْزُوکَ بِغَطَفَانَ أَلْفِ أَشْقَرَ وَأَلْفِ شَقْرَائ، قَالَ: فَطُعِنَ فِی بَیْتِ امْرَأَۃٍ مِنْ بَنِی فُلَانٍ، فَقَالَ: غُدَّۃٌ کَغُدَّۃِ الْبَعِیرِ فِی بَیْتِ امْرَأَۃٍ مِنْ بَنِی فُلَانٍ ائْتُونِی بِفَرَسِی، فَأُتِیَ بِہِ فَرَکِبَہُ فَمَاتَ وَہُوَ عَلٰی ظَہْرِہِ، فَانْطَلَقَ حَرَامٌ أَخُو أُمِّ سُلَیْمٍ وَرَجُلَانِ مَعَہُ رَجُلٌ مِنْ بَنِی أُمَیَّۃَ، وَرَجُلٌ أَعْرَجُ، فَقَالَ لَہُمْ: کُونُوا قَرِیبًا مِنِّی حَتّٰی آتِیَہُمْ فَإِنْ آمَنُونِی وَإِلَّا کُنْتُمْ قَرِیبًا، فَإِنْ قَتَلُونِی أَعْلَمْتُمْ أَصْحَابَکُمْ، قَالَ: فَأَتَاہُمْ حَرَامٌ، فَقَالَ: أَتُؤْمِنُونِی أُبَلِّغْکُمْ رِسَالَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَیْکُمْ، قَالُوا: نَعَمْ، فَجَعَلَ یُحَدِّثُہُمْ وَأَوْمَئُوا إِلٰی رَجُلٍ مِنْہُمْ مِنْ خَلْفِہِ فَطَعَنَہُ حَتّٰی أَنْفَذَہُ بِالرُّمْحِ، قَالَ: اللّٰہُ أَکْبَرُ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ، قَالَ: ثُمَّ قَتَلُوہُمْ کُلَّہُمْ غَیْرَ الْأَعْرَجِ، کَانَ فِی رَأْسِ جَبَلٍ، قَالَ أَنَسٌ: فَأُنْزِلَ عَلَیْنَا وَکَانَ مِمَّا یُقْرَأُ فَنُسِخَ أَنْ بَلِّغُوا قَوْمَنَا أَنَّا لَقِینَا رَبَّنَا فَرَضِیَ عَنَّا وَأَرْضَانَا، قَالَ: فَدَعَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَیْہِمْ أَرْبَعِینَ صَبَاحًا عَلٰی رِعْلٍ وَذَکْوَانَ وَبَنِی لِحْیَانَ، وَعُصَیَّۃَ الَّذِینَ عَصَوُا اللّٰہَ وَرَسُولَہُ۔ (مسند احمد: ۱۳۲۲۷)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بھائی میرے ماموں حرام کو ستر افراد کے ایک دستہ کے ہمراہ بھیجا تھا اور یہ لوگ بئر معونہ کے دن قتل کر دئیے گئے تھے۔ ان دنوں مشرکین کا لیڈر عامر بن طفیل بن مالک عامری تھا، اس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آکر پیش کش کی تھی کہ آپ میری طرف سے تین میں سے کوئی ایک بات قبول کر لیں: (۱) دیہاتی علاقے آپ کے اور شہری علاقے میرے ہوں، یا (۲) آپ کے بعد خلافت مجھے دی جائے، یا (۳)میں بنو غطفان کو ساتھ ملا کر ایک ہزار اونٹوں اور ایک ہزار اونٹنیوں کے ساتھ آپ سے لڑوں گا۔ ( اس موقعہ پر آپ نے دعا کی کہ یا اللہ عامر کے مقابلے میں میری مدد فرما) چنانچہ وہ بنو سلول کے ایک گھرانے میں تھا کہ اسے طاعون نے آلیا، وہ کہنے لگا: یہ تو بنو فلاں کی عورت کے گھر میں اونٹوں کی گلٹی جیسی گلٹی ہے، میرا گھوڑا میرے پاس لاؤ۔ اس کا گھوڑا اس کے پاس لایا گیا،یہ اس پر سوار ہو ا اور اس کی پشت پر ہی اسے موت آگئی۔ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بھائی سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور اس کے ساتھ دو آدمی ان میں سے ایک کا تعلق بنو امیہ سے تھا اور دوسرا اعرج یعنی لنگڑا تھا، کو ساتھ لئے چلا، اور اس نے ان تینوں سے کہا: تم میرے قریب قریب رہنا تاآنکہ میں ان کے پاس جا پہنچوں، انہوں نے اگر مجھے کچھ نہ کہا تو بہتر اور اگر کوئی دوسری صورت پیدا ہوئی تو تم میرے قریب ہی ہو گئے اور اگر انہوں نے مجھے قتل کر ڈالا تو تم پیچھے والے اپنے ساتھیوں کواطلاع تو دے سکو گے۔ چنانچہ حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے قریب پہنچے اور ان سے کہا: کیا تم مجھے اس بات کی اجازت دو گے کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پیغام تم لوگوں تک پہنچا سکوں۔ انہوں نے کہا: جی ہاں، یہ ان کے سامنے گفتگو کرنے لگے اور ان لوگوں نے حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پیچھے سے اپنے ایک آدمی کو اشارہ کیا ور اس نے ان پر نیزے کا وار کیا، جوان کے جسم سے پار ہو گیا۔ سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس وقت کہا: اللہ اکبر، رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا۔ پھر انہوں نے اعرج کے سوا باقی دو کو قتل کر دیا، وہ پہاڑ کی چوٹی پر تھا اس لئے بچ گیا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں اسی واقعہ کے سلسلہ میں ہم پر یہ آیت نازل ہوئی، اس کی باقاعدہ تلاوت کی جاتی تھی،یہ بعد میں منسوخ کر دی گئی: بَلِّغُوا قَوْمَنَا أَنَّا لَقِینَا رَبَّنَا فَرَضِیَ عَنَّا وَأَرْضَانَا۔ (ہماری قوم تک یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے ہیں اور وہ ہم سے راضی ہو گیا ہے اور اس نے ہمیں بھی راضی کر دیا ہے۔)نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان رِعل، ذکوان، بنو لحیان اور بنو عصیہ پر چالیس دن تک بددعا کی، جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معصیت کی تھی۔

Haidth Number: 10744

۔ (۱۰۷۴۵)۔ عَنْ ثَابِتٍ قَالَ کُنَّا عِنْدَ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ فَکَتَبَ کِتَابًا بَیْنَ أَہْلِہِ فَقَالَ: اشْہَدُوا، یَا مَعْشَرَ الْقُرَّائِ! قَالَ: ثَابِتٌ فَکَأَنِّی کَرِہْتُ ذَلِکَ، فَقُلْتُ: یَا أَبَا حَمْزَۃَ! لَوْ سَمَّیْتَہُمْ بِأَسْمَائِہِمْ، قَالَ: وَمَا بَأْسُ ذَلِکَ أَنْ أَقُلْ لَکُمْ قُرَّائُ، أَفَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنْ إِخْوَانِکُمْ الَّذِینَ کُنَّا نُسَمِّیہِمْ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْقُرَّائَ، فَذَکَرَ أَنَّہُمْ کَانُوا سَبْعِینَ فَکَانُوا إِذَا جَنَّہُمْ اللَّیْلُ انْطَلَقُوا إِلٰی مُعَلِّمٍ لَہُمْ بِالْمَدِینَۃِ، فَیَدْرُسُونَ اللَّیْلَ حَتَّییُصْبِحُوا، فَإِذَا أَصْبَحُوا فَمَنْ کَانَتْ لَہُ قُوَّۃٌ اسْتَعْذَبَ مِنَ الْمَائِ وَأَصَابَ مِنَ الْحَطَبِ، وَمَنْ کَانَتْ عِنْدَہُ سَعَۃٌ اجْتَمَعُوا فَاشْتَرَوُا الشَّاۃَ وَأَصْلَحُوہَا، فَیُصْبِحُ ذٰلِکَ مُعَلَّقًا بِحُجَرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا أُصِیبَ خُبَیْبٌ بَعَثَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَتَوْا عَلٰی حَیٍّ مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ وَفِیہِمْ خَالِی حَرَامٌ، فَقَالَ حَرَامٌ لِأَمِیرِہِمْ: دَعْنِی فَلْأُخْبِرْ ہٰؤُلَائِ أَنَّا لَسْنَا إِیَّاہُمْ نُرِیدُ حَتّٰییُخْلُوا وَجْہَنَا، وَقَالَ عَفَّانُ: فَیُخْلُونَ وَجْہَنَا، فَقَالَ لَہُمْ حَرَامٌ: إِنَّا لَسْنَا إِیَّاکُمْ نُرِیدُ فَخَلُّوا وَجْہَنَا، فَاسْتَقْبَلَہُ رَجُلٌ بِالرُّمْحِ فَأَنْفَذَہُ مِنْہُ، فَلَمَّا وَجَدَ الرُّمْحَ فِی جَوْفِہِ، قَالَ: اللّٰہُ أَکْبَرُ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ، قَالَ: فَانْطَوَوْا عَلَیْہِمْ فَمَا بَقِیَ أَحَدٌ مِنْہُمْ، فَقَالَ أَنَسٌ: فَمَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَجَدَ عَلٰی شَیْئٍ قَطُّ وَجْدَہُ عَلَیْہِمْ، فَلَقَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی صَلَاۃِالْغَدَاۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ فَدَعَا عَلَیْہِمْ، فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ذٰلِکَ إِذَا أَبُو طَلْحَۃَیَقُولُ لِی: ہَلْ لَکَ فِی قَاتِلِ حَرَامٍ؟ قَالَ: قُلْتُ لَہُ: مَا لَہُ فَعَلَ اللّٰہُ بِہِ وَفَعَلَ، قَالَ: مَہْلًا فَإِنَّہُ قَدْ أَسْلَمَ، وَقَالَ عَفَّانُ: رَفَعَ یَدَیْہِیَدْعُو عَلَیْہِمْ و قَالَ أَبُو النَّضْرِ رَفَعَ یَدَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۲۹)

ثابت سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:ہم سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں تھے، انہوں نے اپنے اہل کے درمیان بیٹھ کر ایک مکتوب لکھا اور کہا: اے قراء کی جماعت! حاضر ہو جاؤ، ثابت کہتے ہیں:مجھے یہ لفظ کچھ اچھا نہ لگا، سو میں نے عرض کیا: اے ابو حمزہ! کیا ہی بہتر ہوتا کہ آپ ان لوگوں کو ان کے ناموں سے پکارتے، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اس میں تو کوئی حرج نہیں کہ میں تمہیں قراء کہوں، کیا میں تمہیں تمہارے ان بھائیوں کے متعلق نہ بتلاؤں، جنہیں ہم عہدِ رسالت میں قراء کہا کرتے تھے۔ پھر انہو ں نے بیان کیا کہ وہ ستر افراد تھے، ان کی حالت یہ تھی کہ جب رات ہوتی تو وہ مدینہ میں اپنے ایک استاد کی خدمت میں پہنچ جاتے اور وہاں ساری رات صبح تک قرآن کا سبق لیتے اور جب صبح ہوتی تو جس میں استطاعت ہوتی وہ شیریں پانی لاتا۔( اور اسے فروخت کرتا) اور کوئی ایندھن کی لکڑیاں لا کر بیچ لیتا اور جس میں استطاعت ہوتی وہ مل کر بکری خرید لیتے، اسے خوب بنا سنوار کر ذبح کر کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حجروں کے پاس لٹکا دیتے، جب سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت ہوئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان قراء کو ایک مہم پر روانہ فرمایا،یہ بنو سلیم کے ایک قبیلے میں گئے، ان کے ہمراہ میرے ماموں سیدنا حرام بن ملحان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے۔ سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے امیرِ قافلہ سے گزارش کی کہ مجھے اجازت دیں تاکہ میں ان لوگوں کو بتا دوں کہ ہم ان سے لڑائی کرنے کے لیے نہیں آئے، تاکہ وہ ہمارا راستہ نہ روکیں، پس سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جا کر ان سے کہا: ہم تمہارے ساتھ لڑنے کے لیے نہیں آئے، لہٰذا تم ہمارا راستہ نہ روکو۔ ایک آدمی نیزہ لے کر سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سامنے آیا اور اس نے ان پر نیزے کا وار کر دیا، نیزہ ان کے جسم سے پار ہو گیا۔ انہوں نے جب اپنے پیٹ پر نیزے کا وار محسوس کیا تو زور سے کہا: اللہ اکبر، ربِّ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا ہوں۔ پھر وہ لوگ باقی قافلہ والوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ان میں سے ایک بھی باقی نہ بچا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کسی موقع پر اس قدر غمگین نہیں دیکھا، جس قدر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس واقعہ سے غمگین ہوئے۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز فجر میں ہاتھ اُٹھا کر ان ظالموں پر بددعا کرتے تھے، سیدنا ابو طلحہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مجھ سے کہا کرتے تھے: کیا میں تمہیں تمہارے ماموں سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قاتل کے متعلق بتلاؤں؟ میں نے کہا: اللہ نے اس کے ساتھ جو کرنا تھا کر لیا،اس نے کہا وہ تو اسلام قبول کر چکا ہے۔ عفان کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دونوں ہاتھ اُٹھا کر ان پر بددعائیں کیں۔اور ابو النضر نے یوں کہا کہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے۔

Haidth Number: 10745
سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، میری والدہ نے مجھ سے دریافت کیا کہ تمہاری نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملاقات کب ہوئی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ میں تو اتنے عرصہ سے آپ سے ملاقات نہیں کر سکا، انہوںنے مجھے سخت سست کہا۔ میں نے عرض کیا: امی جان! آپ اجازت دیں تاکہ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جائوں اور میں اس وقت ان کو چھوڑ کر الگ نہ ہوں گا، جب تک وہ میرے اور آ پ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حق میں دعائے مغفرت نہ کریں، چنانچہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گیا، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں نماز مغرب ادا کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ کھڑے ہو کر مزید نفل نماز ادا کرنے لگے یہاں تک کہ آپ نے نماز عشاء ادا کی۔ اس کے بعد آپ باہر تشریف لے چلے۔ دوسری روایت کے الفاظ ہیں:آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا: کیا بات ہے؟ میں نے سارا واقعہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں دعا کی: اللہ تعالیٰ تمہاری اور تمہاری والدہ کی مغفرت فرمائے۔

Haidth Number: 11673
سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: غزوۂ بدر میں ہماری عدم شرکت کی وجہ یہ ہوئی کہ میں اور میرا والد سیدنا حسیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جا رہے تھے کہ قریشی کفار نے ہمیں گرفتار کر لیا، انھوں نے کہا کہ تم لوگ محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی طرف جا رہے ہو۔ ہم نے کہا کہ ہم تو مدینہ کی طرف جا رہے ہیں۔ انہوںنے ہم سے اللہ کی قسم اور پختہ عہد لیا کہ ہم مدینہ کی طرف جائیں اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مل کر ان کے خلاف لڑائی میں حصہ نہ لیں۔ ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا کر سارا واقعہ بیان کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم دونوں چلے جاؤ، ہم ان سے کیے ہوئے عہد و پیمان کو پورا کریں گے اور ان کے خلاف اللہ کی مدد کے خواستگار ہیں۔

Haidth Number: 11674
سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: میں نے رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک ایک مسئلہ دریافت کیا،یہاں تک کہ میں نے یہ بھی پوچھا کہ (نماز کے دوران سجدہ والی جگہ سے) کنکریوں کو ہٹانا یا صاف کرنا کیسا ہے؟ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک دفعہ ہٹا سکتے ہو یا پھر یہ بھی رہنے دو (تو بہتر ہے)۔

Haidth Number: 11675

۔ (۱۱۶۷۶)۔ عَنْ حُذَیْفَۃَ، أَنَّہُ قَدِمَ مِنْ عِنْدِ عُمَرَ قَالَ: لَمَّا جَلَسْنَا إِلَیْہِ أَمْسِ سَأَلَ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَیُّکُمْ سَمِعَ قَوْلَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْفِتَنِ؟ فَقَالُوْا: نَحْنُ سَمِعْنَاہُ، قَالَ: لَعَلَّکُمْ تَعْنُونَ فِتْنَۃَ الرَّجُلِ فِی أَہْلِہِ وَمَالِہِ؟، قَالُوْا: أَجَلْ، قَالَ: لَسْتُ عَنْ تِلْکَ أَسْأَلُ، تِلْکَ یُکَفِّرُہَا الصَّلَاۃُ وَالصِّیَامُ وَالصَّدَقَۃُ، وَلٰکِنْ أَیُّکُمْ سَمِعَ قَوْلَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْفِتَنِ الَّتِی تَمُوجُ مَوْجَ الْبَحْرِ؟ قَالَ: فَأَمْسَکَ الْقَوْمُ وَظَنَنْتُ أَنَّہُ إِیَّایَ یُرِیدُ، قُلْتُ: أَنَا، قَالَ لِی: أَنْتَ لِلَّہِ أَبُوکَ، قَالَ: قُلْتُ: تُعْرَضُ الْفِتَنُ عَلَی الْقُلُوبِ عَرْضَ الْحَصِیرِ، فَأَیُّ قَلْبٍ أَنْکَرَہَا نُکِتَتْ فِیہِ نُکْتَۃٌ بَیْضَائُ، وَأَیُّ قَلْبٍ أُشْرِبَہَا نُکِتَتْ فِیہِ نُکْتَۃٌ سَوْدَائُ، حَتّٰی یَصِیرَ الْقَلْبُ عَلٰی قَلْبَیْنِ أَبْیَضَ مِثْلِ الصَّفَا لَا یَضُرُّہُ فِتْنَۃٌ مَا دَامَتْ السَّمٰوَاتُ وَالْأَرْضُ، وَالْآخَرِ أَسْوَدَ مُرْبَدٍّ کَالْکُوزِ مُخْجِیًا وَأَمَالَ کَفَّہُ لَا یَعْرِفُ مَعْرُوفًا وَلَا یُنْکِرُ مُنْکَرًا إِلَّا مَا أُشْرِبَ مِنْ ہَوَاہُ۔ (مسند احمد: ۲۳۶۶۹)

سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ وہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس سے واپس آئے تو بیان کیا کہ کل جب ہم ان کی خدمت میں بیٹھے تھے تو انہوں نے صحابۂ کرام سے دریافت کیا کہ تم میں سے کسی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے قیامت سے قبل بپا ہونے والے فتن کے بارے میں حدیث سنی ہو؟ تو سب نے کہا کہ اس بارے میں تو ہم سب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بہت کچھ سن چکے ہیں۔ انہوںنے کہا:شاید تم لوگ میری بات سے انسان کے اس کے اہل اور مال کا فتنہ سمجھ رہے ہو؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں۔ انھوں نے کہا: میں اس کے بارے میں نہیں پوچھ رہا، ان فتنوں کو تو نماز، روزہ اور صدقات مٹا دیتے ہیں، میں تو یہ پوچھ رہا ہوں کہ تم میں سے کسی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ان فتنوں کے بارے میں سنا ہو جو سمندر کی موجوں کی طرح تندی تیزی سے آئیں گے۔ سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر سب لوگ خاموش ہوگئے۔ میں سمجھ گیا کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مجھ سے پوچھنا چاہتے ہیں۔ میں نے عرض کیا: میں سن چکا ہوں۔ انھوں نے کہا: بہت خوب، سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: پھر میں نے بیان کیا کہ فتنے انسانوں کے دلوں پر اس طرح مسلسل چھا جائیں گے جیسے چٹائی کے تنکے ایک دوسرے کے ساتھ متصل ہوتے ہیں، جو دل ان فتنوں سے مانوس نہیں ہوں گے یعنی ان میں ملوث نہ ہوں گے ان پر سفید نقطے لگتے جائیں گے اور جو دل ان فتنوں سے مانوس ہو جائیں گے یعنی ان میں ملوث ہو جائیں گے ان پر سیاہ نقطے لگتے جائیں گے۔ یہاں تک کہ لوگوں کے دل یعنی لوگ دو قسم کے ہو جائیں گے۔ ایک قسم ان لوگوں کی ہوگی جن کے دل چکنے پتھر کی مانند صاف ہوں گے، جب تک آسمان اور زمین باقی ہیںیعنی قیامت تک کوئی فتنہ ان کو ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہوگی جن کے دل کا لے سیاہ اور ٹیڑھے ہوں گے (ساتھ ہی آپ نے اپنی ہتھیلی کو الٹا کر بھی دکھایا) ایسے اپنی خواہشات کے ہی تابع ہوں گے، وہ کسی بھی اچھائی کو اچھا یا برائی کو برانہیں سمجھیں گے۔

Haidth Number: 11676
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: میںجنت میں داخل ہوا اور میں نے وہاں سونے سے بنا ہوا ایک محل دیکھا، میں نے دریافت کیا کہ یہ محل کس کا ہے، انہو ں نے کہا یہ ایک قریشی نوجوان کا ہے، میں نے سمجھا کہ شاید اس سے مراد میں ہوں، انہو ں نے بتلایا کہ یہ عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ہے۔

Haidth Number: 12191
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ہی مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میںجنت میں چلا جارہا تھا کہ مجھے ایک محل دکھائی دیا، میں نے کہا اے جبریل! یہ کس کا ہے؟ جبکہ مجھے امید تھی کہ یہ میرا ہوگا، انھوں نے کہا: یہ عمر کا ہے، پھر میں مزید کچھ دیر چلا تو پہلے سے زیادہ خوبصورت محل نظر آیا، میں نے کہا: جبریل! یہ کس کا ہے؟ جبکہ مجھے توقع تھی کہ وہ میرا ہوگا، انہو ںنے بتلایا کہ یہ عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ہے اور اس میں فراخ چشم حوریں بھی ہیں، اے عمر! اگر تمہاری غیرت مانع نہ ہوتی تو میں اس کے اندر چلا جاتا۔ یہ سن کر عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور انہو ںے کہا: اے اللہ کے رسول! میں آپ پر تو غیرت نہیں کھاسکتا۔

Haidth Number: 12192

۔ (۱۲۱۹۳)۔ وَعَنْ اَبِیْ بَرْزَۃَ الْاَسْلَمِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اَصْبَحَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَعَا بِلَالًا فَقَالَ: ((یَا بِلَالُ بِمَ سَبَقْتَنِی إِلَی الْجَنَّۃِ؟ مَا دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ قَطُّ إِلَّا سَمِعْتُ خَشْخَشَتَکَ أَمَامِی، إِنِّی دَخَلْتُ الْبَارِحَۃَ الْجَنَّۃَ فَسَمِعْتُ خَشْخَشَتَکَ، فَأَتَیْتُ عَلٰی قَصْرٍ مِنْ ذَہَبٍ مُرْتَفِعٍ مُشْرِفٍ، فَقُلْتُ: لِمَنْ ہٰذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوْا: لِرَجُلٍ مِنَ الْعَرَبِ، قُلْتُ: أَنَا عَرَبِیٌّ، لِمَنْ ہٰذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوْا: لِرَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ مِنْ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ، قُلْتُ: فَأَنَا مُحَمَّدٌ لِمَنْ ہٰذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوْا: لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ۔)) فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((لَوْلَا غَیْرَتُکَیَا عُمَرُ! لَدَخَلْتُ الْقَصْرَ۔)) فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا کُنْتُ لِأَغَارَ عَلَیْکَ، قَالَ: وَقَالَ لِبِلَالٍ: ((بِمَ سَبَقْتَنِی إِلَی الْجَنَّۃِ؟)) قَالَ: مَا أَحْدَثْتُ إِلَّا تَوَضَّأْتُ وَصَلَّیْتُ رَکْعَتَیْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((بِہٰذَا۔)) (مسند احمد: ۲۳۳۸۴)

سیدنا ابو برزہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صبح کے وقت سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلاایا اور ان سے فرمایا: اے بلال! تم کس عمل کی بنا پر جنت میں مجھ سے سبقت لے جا رہے تھے؟ میں جب بھی جنت میں گیا، وہاںمیں نے تمہارے پاؤں کی آہٹ اپنے سامنے سنی ہے۔ گزشتہ رات میں جنت میں گیا تو میں نے تمہاری وہی آواز سنی، پھر میں سونے سے بنے ہوئے ایک بلند وبالا محل کے پاس پہنچا۔ میں نے دریافت کیاکہ یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ ایک عربی شخص کا ہے، میں نے کہا: عربی تو میں بھی ہوں، یہ محل ہے کس کا؟ انہو ںنے بتلایا کہ یہ امت محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میں سے ایک آدمی کا ہے، میں نے کہا: میں ہی محمد ہوں، مجھے بتلاؤ کہ یہ محل کس کا ہے؟ انہو ں نے کہا: یہ عمر بن خطاب کا ہے۔ بعد ازاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عمر! اگر تمہاری غیرت کالحاظ نہ ہوتا تو میں محل کے اندر چلا جاتا۔ یہ سن کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ پر غیرت نہیں کر سکتا۔ سیدنا ابو برزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تم کس عمل کی بنا پر جنت میں مجھ سے سبقت لیے جا رہے تھے؟ انہوں نے کہا: میںجب بھی بے وضو ہوتا ہوں تو وضو کرتا ہوں اور دو رکعت (تحیۃ الوضو پڑھتا ہوں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسی عمل کی وجہ سے ہے۔

Haidth Number: 12193
Haidth Number: 12194
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا، میں نے خواب میں اپنے آپ کو دیکھا کہ میں جنت میں ہوں، ایک خاتون ایک محل کے پاس وضو کر رہی تھی، میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ہے۔ عمر! (میں نے اس کے اندر جانا چاہا لیکن) مجھے تمہاری غیرت یاد آ گئی، پس میں واپس پلٹ آیا۔ جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ بات ارشاد فرما رہے تھے تو اس وقت سیدنا عمر ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ بھی لوگوںکے ساتھ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انہو ںنے جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ بات سنی تو رونے لگ گئے اور کہا: اللہ کے رسول! میرا والد آپ پر قربان جائے، کیا میں آپ پر غیرت کھا سکتا ہوں؟

Haidth Number: 12195
سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یقینا جنتی ہیں، کیونکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیداری کی حالت میں یا خواب کی حالت میں میں جو کچھ دیکھا، وہ برحق ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں جنت میں تھا، میں نے ایک محل دیکھا اور پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے، بتلایا گیا کہ یہ عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ہے۔

Haidth Number: 12196
سیدنا مصعب بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جنتی ہیں، مجھے یہ بات پسند نہیں کہ مجھے انتہائی قیمتی سرخ اونٹ مل جائیں اور تم اٹھ کر چلے جاؤ قبل اس کے کہ میں تمہیں پوری بات بتلاؤں کہ میں نے یہ بات کیوں کہی ہے، ا س کے بعد انہو ں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خواب بیان کیا اور پھر کہا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خواب حق ہے۔

Haidth Number: 12197
سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں باہر گئے، جب ہم حرّہ میں سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے کنوئیں پر پہنچے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وضو کا پانی لاؤ۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وضو کر کے قبلہ رخ ہو کر کھڑے ہو گئے اور پھر فرمایا: اے اللہ! ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے اور خلیل تھے، انہوں نے مکہ والوں کے لیے برکت کی دعا کی تھی، میں محمد بھی تیرا بندہ اور رسول ہوں، میںتجھ سے اہل مدینہ کے حق میں دعا کرتا ہوں کہ ان کے مد اور صاع میں اہل مکہ سے دو گنا زیادہ برکت کر دے۔

Haidth Number: 12625
سیدناسعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مدینہ منورہ کے دو حرّوںکے درمیان والی جگہ حرم ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اسی طرح حرم قرار دیا ہے، جیسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا، آ پ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یااللہ! تو مدینہ میں دو گناہ برکت نازل فرما اور اہل مدینہ کے صاع اور مد میں برکت فرما۔

Haidth Number: 12626
سیدناابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! ہمار ے مد اور صاع میںبرکت فرما اور اس کی برکت کو دو گناکر دے۔

Haidth Number: 12627

۔ (۱۲۶۲۸)۔ وحَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللّٰہِ الْقَرَّاظُ، أَنَّہُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ مَالِکٍ وَأَبَا ہُرَیْرَۃَیَقُولَانِ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اللَّہُمَّ بَارِکْ لِأَہْلِ الْمَدِینَۃِ فِی مَدِینَتِہِمْ، وَبَارِکْ لَہُمْ فِی صَاعِہِمْ، وَبَارِکْ لَہُمْ فِی مُدِّہِمْ، اللَّہُمَّ إِنَّ إِبْرَاہِیمَ عَبْدُکَ وَخَلِیلُکَ، وَإِنِّی عَبْدُکَ وَرَسُولُکَ، وَإِنَّ إِبْرَاہِیمَ سَأَلَکَ لِأَہْلِ مَکَّۃَ، وَإِنِّی أَسْأَلُکَ لِأَہْلِ الْمَدِینَۃِ کَمَا سَأَلَکَ إِبْرَاہِیمُ لِأَہْلِ مَکَّۃَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ، إِنَّ الْمَدِینَۃَ مُشْتَبِکَۃٌ بِالْمَلَائِکَۃِعَلٰی کُلِّ نَقْبٍ مِنْہَا مَلَکَانِ یَحْرُسَانِہَا، لَا یَدْخُلُہَا الطَّاعُونُ وَلَا الدَّجَّالُ، فَمَنْ أَرَادَہَا بِسُوئٍ أَذَابَہُ اللّٰہُ کَمَا یَذُوبُ الْمِلْحُ فِی الْمَائِ۔)) (مسند احمد: ۱۵۹۳)

سیدنا سعدبن مالک اور سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یااللہ! اہل مدینہ کے لیے ان کے مدینہ میں برکت فرما اور ان کے لیے ان کے صاع اور مد میں برکت فرما، اے اللہ! ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے اور خلیل تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور رسول ہوں، ابراہیم علیہ السلام نے تجھ سے اہل مکہ کے لیے دعا کی تھی اور انہوںنے جس طرح اہل مکہ کے لیے دعا کی تھی، اسی طرح میں اہل مدینہ کے لیے دو گنا برکت کی دعا کرتا ہوں، مدینہ منورہ فرشتوں سے ڈھانپا ہوا ہے، اس کے داخلہ کے ہر راستہ پر دو دو فرشتے مقرر ہیں، جو اس کی حفاظت کرتے ہیں، طاعون اور دجال مدینہ میں داخل نہیں ہوسکیں گے، جو آدمی اہل مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا، اللہ اسے اسی طرح پگھلا کر نیست و نابود کر دے گا، جیسے پانی میں نمک گھل جاتا ہے۔

Haidth Number: 12628
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! مکہ میں جس قدر برکت ہے، مدینہ میں اس سے دوگنا زیادہ برکت نازل فرما۔

Haidth Number: 12629