Blog
Books
Search Hadith

بدر کے قیدیوں کے فدیے اور اس کی وجہ سے نازل ہونے والے قرآن کا بیان

20 Hadiths Found

۔ (۵۰۹۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ، قَالَ: نَظَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی أَصْحَابِہِ، وَہُمْ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَنَیِّفٌ، وَنَظَرَ إِلَی الْمُشْرِکِینَ فَإِذَا ہُمْ أَلْفٌ وَزِیَادَۃٌ، فَاسْتَقْبَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْقِبْلَۃَ، ثُمَّ مَدَّ یَدَیْہِ وَعَلَیْہِ رِدَاؤُہُ وَإِزَارُہُ ثُمَّ قَالَ: ((اللّٰہُمَّ أَیْنَ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ أَنْجِزْ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ إِنَّکَ إِنْ تُہْلِکْ ہٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ أَہْلِ الْإِسْلَامِ، فَلَا تُعْبَدْ فِی الْأَرْضِ أَبَدًا۔)) قَالَ: فَمَا زَالَ یَسْتَغِیثُ رَبَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَیَدْعُوہُ حَتّٰی سَقَطَ رِدَاؤُہُ، فَأَتَاہُ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَأَخَذَ رِدَائَ ہُ فَرَدَّاہُ، ثُمَّ الْتَزَمَہُ مِنْ وَرَائِہِ، ثُمَّ قَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! کَفَاکَ مُنَاشَدَتُکَ رَبَّکَ، فَإِنَّہُ سَیُنْجِزُ لَکَ مَا وَعَدَکَ، وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ} فَلَمَّا کَانَ یَوْمُئِذٍ وَالْتَقَوْا، فَہَزَمَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُشْرِکِینَ، فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، وَأُسِرَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبَا بَکْرٍ وَعَلِیًّا وَعُمَرَ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ ہَؤُلَائِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِیرَۃُ وَالْإِخْوَانُ، فَإِنِّی أَرٰی أَنْ تَأْخُذَ مِنْہُمُ الْفِدْیَۃَ، فَیَکُونُ مَا أَخَذْنَا مِنْہُمْ قُوَّۃً لَنَا عَلَی الْکُفَّارِ، وَعَسَی اللّٰہُ أَنْ یَہْدِیَہُمْ، فَیَکُونُونَ لَنَا عَضُدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا تَرٰی یَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟)) قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! مَا أَرٰی مَا رَأٰی أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَلٰکِنِّی أَرٰی أَنْ تُمَکِّنَنِی مِنْ فُلَانٍ قَرِیبًا لِعُمَرَ، فَأَضْرِبَ عُنُقَہُ، وَتُمَکِّنَ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ عَقِیلٍ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ، وَتُمَکِّنَ حَمْزَۃَ مِنْ فُلَانٍ أَخِیہِ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ حَتّٰی یَعْلَمَ اللّٰہُ أَنَّہُ لَیْسَتْ فِی قُلُوبِنَا ہَوَادَۃٌ لِلْمُشْرِکِینَ، ہَؤُلَائِ صَنَادِیدُہُمْ وَأَئِمَّتُہُمْ وَقَادَتُہُمْ، فَہَوِیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا قَالَ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَلَمْ یَہْوَ مَا قُلْتُ فَأَخَذَ مِنْہُمُ الْفِدَائَ، فَلَمَّا أَنْ کَانَ مِنَ الْغَدِ قَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: غَدَوْتُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِذَا ہُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَإِذَا ہُمَا یَبْکِیَانِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَخْبِرْنِی مَاذَا یُبْکِیکَ أَنْتَ وَصَاحِبَکَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُکَائً بَکَیْتُ وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُکَائً تَبَاکَیْتُ لِبُکَائِکُمَا، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الَّذِی عَرَضَ عَلَیَّ أَصْحَابُکَ مِنْ الْفِدَائِ، لَقَدْ عُرِضَ عَلَیَّ عَذَابُکُمْ أَدْنٰی مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ لِشَجَرَۃٍ قَرِیبَۃٍ۔)) وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَکُونَ لَہُ أَسْرَی حَتَّی یُثْخِنَ فِی الْأَرْضِ… إِلٰی قَوْلِہِ: {لَوْلَا کِتَابٌ مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ} مِنْ الْفِدَائِ ثُمَّ أُحِلَّ لَہُمُ الْغَنَائِمُ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ مِنْ الْعَامِ الْمُقْبِلِ عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا یَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَخْذِہِمْ الْفِدَائ، َ فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ، وَفَرَّ أَصْحَابُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَکُسِرَتْ رَبَاعِیَتُہُ وَہُشِمَتْ الْبَیْضَۃُ عَلٰی رَأْسِہِ، وَسَالَ الدَّمُ عَلٰی وَجْہِہِ، وَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {أَوَلَمَّا أَصَابَتْکُمْ مُصِیبَۃٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَیْہَا} الْآیَۃَ بِأَخْذِکُمُ الْفِدَائَ۔ (مسند أحمد: ۲۰۸)

۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بدر کے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ کی طرف دیکھا،جبکہ وہ تین سوسے کچھ زائد تھے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مشرکوں کی طرف دیکھا اور وہ ایک ہزار سے زائد تھے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے، ہاتھوں کو لمبا کیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک چادر اور ایک ازار زیب ِ تن کیا ہوا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ دعا کی: اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا، وہ کہاں ہے، اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا، اس کو پورا کر دے، اے اللہ! اگر تو نے اہل اسلام کی اس جماعت کو ختم کر دیا تو زمین میں کبھی بھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ربّ سے مدد طلب کرتے رہے اور دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چادر گر گئی، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے، انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چادر اٹھائی اور اس کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ڈال کر پیچھے سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پکڑ لیا اور پھر کہا: اے اللہ کے نبی! آپ نے اپنے ربّ سے جو مطالبہ کر لیا ہے، یہ آپ کو کافی ہے، اس نے آپ سے جو وعدہ کیا ہے، وہ عنقریب اس کو پورا کر دے گا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمایا: {إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ۔}… اس وقت و یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا، جو لگاتار چلے آئیں گے۔ (سورۂ انفال: ۹) پھر جب اس دن دونوں لشکروں کی ٹکر ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو اس طرح شکست دی کہ ان کے ستر افراد مارے گئے اور ستر افراد قید کر لیے گئے، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو بکر، سیدنا علی اور سیدنا عمر سے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! یہ لوگ ہمارے چچوں کے ہی بیٹے ہیں، اپنے رشتہ دار اور بھائی ہیں، میرا خیال تو یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، اس مال سے کافروں کے مقابلے میں ہماری قوت میں اضافہ ہو گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بعد میں ہدایت دے دے، اس طرح یہ ہمارا سہارا بن جائیں۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب! اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ انھو ں نے کہا: اللہ کی قسم! میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا ، میرا خیال تو یہ ہے کہ فلاں آدمی، جو میرا رشتہ دار ہے، اس کو میرے حوالے کریں، میں اس کی گردن اڑاؤں گا، عقیل کو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سپرد کریں، وہ اس کو قتل کریں گے، فلاں شخص کو سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حوالے کریں، وہ اس کی گردن قلم کریں گے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کو علم ہو جائے کہ ہمارے دلوں میں مشرکوں کے لیے کوئی رحم دلی نہیں ہے، یہ قیدی مشرکوں کے سردار، حکمران اور قائد ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے پسند کی اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رائے کو پسند نہیں کیا، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فدیہ لے لیا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب اگلے دن میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا تو آپ اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دونوں بیٹھے ہوئے رو رہے تھے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے اس چیز کے بارے میں بتائیں جو آپ کو اور آپ کے ساتھی کو رُلا رہی ہے؟ اگر مجھے بھی رونا آ گیا تو میں بھی روؤں گا اور اگر مجھے رونا نہ آیا تو تمہارے رونے کی وجہ سے رونے کی صورت بنا لوں گا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے ساتھیوں نے فدیہ لینے کے بارے میں جو رائے دی تھی، اس کی وجہ سے مجھ پر تمہارا عذاب پیش کیا گیا ہے، جو اس درخت سے قریب ہے۔ اس سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد قریب والا ایک درخت تھا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں: {مَا کَانَ لِنَبِیٍّ …… عَذَاب’‘ عَظِیْم’‘} نبی کے ہاتھ قیدی نہیں چاہئیں جب تک کہ ملک میں اچھی خونریزی کی جنگ نہ ہو جائے، تم تو دنیا کا مال چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے اور اللہ بے حد غالب کمال حکمت والا ہے، اگر پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے بات لکھی ہوئی نہ ہوتی تو جو کچھ تم نے لیا ہے اس بارے میں تمہیں کوئی بڑی سزا ہوتی۔ (سورۂ انفال:۶۷) پھر ان کے لیے مالِ غنیمت حلال کر دیا گیا، جب اگلے سال غزوۂ احد ہوا تو بدر والے دن فدیہ لینے کی سزا دی گئی اور ستر صحابہ شہید ہو گئے، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بھاگ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا رباعی دانت شہید کر دیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر پر خود کو توڑ دیا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے پر خون بہنے لگا، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: {اَوَلَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃ’‘ …… اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر’‘۔} (کیا بات ہے کہ جب احد کے دن)تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند پہنچا چکے، تو یہ کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آگئی؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ خود تمہاری طرف سے ہے، بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ (سورۂ آل عمران: ۱۶۵) یعنی فدیہ لینے کی وجہ سے۔

Haidth Number: 5097

۔ (۵۰۹۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ، قَالَ: نَظَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی أَصْحَابِہِ، وَہُمْ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَنَیِّفٌ، وَنَظَرَ إِلَی الْمُشْرِکِینَ فَإِذَا ہُمْ أَلْفٌ وَزِیَادَۃٌ، فَاسْتَقْبَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْقِبْلَۃَ، ثُمَّ مَدَّ یَدَیْہِ وَعَلَیْہِ رِدَاؤُہُ وَإِزَارُہُ ثُمَّ قَالَ: ((اللّٰہُمَّ أَیْنَ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ أَنْجِزْ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ إِنَّکَ إِنْ تُہْلِکْ ہٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ أَہْلِ الْإِسْلَامِ، فَلَا تُعْبَدْ فِی الْأَرْضِ أَبَدًا۔)) قَالَ: فَمَا زَالَ یَسْتَغِیثُ رَبَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَیَدْعُوہُ حَتّٰی سَقَطَ رِدَاؤُہُ، فَأَتَاہُ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَأَخَذَ رِدَائَ ہُ فَرَدَّاہُ، ثُمَّ الْتَزَمَہُ مِنْ وَرَائِہِ، ثُمَّ قَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! کَفَاکَ مُنَاشَدَتُکَ رَبَّکَ، فَإِنَّہُ سَیُنْجِزُ لَکَ مَا وَعَدَکَ، وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ} فَلَمَّا کَانَ یَوْمُئِذٍ وَالْتَقَوْا، فَہَزَمَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُشْرِکِینَ، فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، وَأُسِرَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبَا بَکْرٍ وَعَلِیًّا وَعُمَرَ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ ہَؤُلَائِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِیرَۃُ وَالْإِخْوَانُ، فَإِنِّی أَرٰی أَنْ تَأْخُذَ مِنْہُمُ الْفِدْیَۃَ، فَیَکُونُ مَا أَخَذْنَا مِنْہُمْ قُوَّۃً لَنَا عَلَی الْکُفَّارِ، وَعَسَی اللّٰہُ أَنْ یَہْدِیَہُمْ، فَیَکُونُونَ لَنَا عَضُدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا تَرٰی یَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟)) قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! مَا أَرٰی مَا رَأٰی أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَلٰکِنِّی أَرٰی أَنْ تُمَکِّنَنِی مِنْ فُلَانٍ قَرِیبًا لِعُمَرَ، فَأَضْرِبَ عُنُقَہُ، وَتُمَکِّنَ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ عَقِیلٍ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ، وَتُمَکِّنَ حَمْزَۃَ مِنْ فُلَانٍ أَخِیہِ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ حَتّٰی یَعْلَمَ اللّٰہُ أَنَّہُ لَیْسَتْ فِی قُلُوبِنَا ہَوَادَۃٌ لِلْمُشْرِکِینَ، ہَؤُلَائِ صَنَادِیدُہُمْ وَأَئِمَّتُہُمْ وَقَادَتُہُمْ، فَہَوِیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا قَالَ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَلَمْ یَہْوَ مَا قُلْتُ فَأَخَذَ مِنْہُمُ الْفِدَائَ، فَلَمَّا أَنْ کَانَ مِنَ الْغَدِ قَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: غَدَوْتُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِذَا ہُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَإِذَا ہُمَا یَبْکِیَانِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَخْبِرْنِی مَاذَا یُبْکِیکَ أَنْتَ وَصَاحِبَکَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُکَائً بَکَیْتُ وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُکَائً تَبَاکَیْتُ لِبُکَائِکُمَا، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الَّذِی عَرَضَ عَلَیَّ أَصْحَابُکَ مِنْ الْفِدَائِ، لَقَدْ عُرِضَ عَلَیَّ عَذَابُکُمْ أَدْنٰی مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ لِشَجَرَۃٍ قَرِیبَۃٍ۔)) وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَکُونَ لَہُ أَسْرَی حَتَّی یُثْخِنَ فِی الْأَرْضِ… إِلٰی قَوْلِہِ: {لَوْلَا کِتَابٌ مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ} مِنْ الْفِدَائِ ثُمَّ أُحِلَّ لَہُمُ الْغَنَائِمُ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ مِنْ الْعَامِ الْمُقْبِلِ عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا یَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَخْذِہِمْ الْفِدَائ، َ فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ، وَفَرَّ أَصْحَابُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَکُسِرَتْ رَبَاعِیَتُہُ وَہُشِمَتْ الْبَیْضَۃُ عَلٰی رَأْسِہِ، وَسَالَ الدَّمُ عَلٰی وَجْہِہِ، وَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {أَوَلَمَّا أَصَابَتْکُمْ مُصِیبَۃٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَیْہَا} الْآیَۃَ بِأَخْذِکُمُ الْفِدَائَ۔ (مسند أحمد: ۲۰۸)

۔ سیدنا علی بن ابو طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ بدر والے دن فرمایا: بنو عبد المطلب کو جس قدر تم قیدی کر سکتے ہو، قیدی کرو (قتل نہ کرو)، کیونکہ وہ مجبور ہو کر نکلے ہیں۔

Haidth Number: 5098

۔ (۵۰۹۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنِی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ، قَالَ: نَظَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی أَصْحَابِہِ، وَہُمْ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَنَیِّفٌ، وَنَظَرَ إِلَی الْمُشْرِکِینَ فَإِذَا ہُمْ أَلْفٌ وَزِیَادَۃٌ، فَاسْتَقْبَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْقِبْلَۃَ، ثُمَّ مَدَّ یَدَیْہِ وَعَلَیْہِ رِدَاؤُہُ وَإِزَارُہُ ثُمَّ قَالَ: ((اللّٰہُمَّ أَیْنَ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ أَنْجِزْ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ إِنَّکَ إِنْ تُہْلِکْ ہٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ أَہْلِ الْإِسْلَامِ، فَلَا تُعْبَدْ فِی الْأَرْضِ أَبَدًا۔)) قَالَ: فَمَا زَالَ یَسْتَغِیثُ رَبَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَیَدْعُوہُ حَتّٰی سَقَطَ رِدَاؤُہُ، فَأَتَاہُ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَأَخَذَ رِدَائَ ہُ فَرَدَّاہُ، ثُمَّ الْتَزَمَہُ مِنْ وَرَائِہِ، ثُمَّ قَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! کَفَاکَ مُنَاشَدَتُکَ رَبَّکَ، فَإِنَّہُ سَیُنْجِزُ لَکَ مَا وَعَدَکَ، وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ} فَلَمَّا کَانَ یَوْمُئِذٍ وَالْتَقَوْا، فَہَزَمَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُشْرِکِینَ، فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، وَأُسِرَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبَا بَکْرٍ وَعَلِیًّا وَعُمَرَ ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ ہَؤُلَائِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِیرَۃُ وَالْإِخْوَانُ، فَإِنِّی أَرٰی أَنْ تَأْخُذَ مِنْہُمُ الْفِدْیَۃَ، فَیَکُونُ مَا أَخَذْنَا مِنْہُمْ قُوَّۃً لَنَا عَلَی الْکُفَّارِ، وَعَسَی اللّٰہُ أَنْ یَہْدِیَہُمْ، فَیَکُونُونَ لَنَا عَضُدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا تَرٰی یَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟)) قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! مَا أَرٰی مَا رَأٰی أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَلٰکِنِّی أَرٰی أَنْ تُمَکِّنَنِی مِنْ فُلَانٍ قَرِیبًا لِعُمَرَ، فَأَضْرِبَ عُنُقَہُ، وَتُمَکِّنَ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنْ عَقِیلٍ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ، وَتُمَکِّنَ حَمْزَۃَ مِنْ فُلَانٍ أَخِیہِ فَیَضْرِبَ عُنُقَہُ حَتّٰی یَعْلَمَ اللّٰہُ أَنَّہُ لَیْسَتْ فِی قُلُوبِنَا ہَوَادَۃٌ لِلْمُشْرِکِینَ، ہَؤُلَائِ صَنَادِیدُہُمْ وَأَئِمَّتُہُمْ وَقَادَتُہُمْ، فَہَوِیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا قَالَ أَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَلَمْ یَہْوَ مَا قُلْتُ فَأَخَذَ مِنْہُمُ الْفِدَائَ، فَلَمَّا أَنْ کَانَ مِنَ الْغَدِ قَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: غَدَوْتُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِذَا ہُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، وَإِذَا ہُمَا یَبْکِیَانِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَخْبِرْنِی مَاذَا یُبْکِیکَ أَنْتَ وَصَاحِبَکَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُکَائً بَکَیْتُ وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُکَائً تَبَاکَیْتُ لِبُکَائِکُمَا، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الَّذِی عَرَضَ عَلَیَّ أَصْحَابُکَ مِنْ الْفِدَائِ، لَقَدْ عُرِضَ عَلَیَّ عَذَابُکُمْ أَدْنٰی مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ لِشَجَرَۃٍ قَرِیبَۃٍ۔)) وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَکُونَ لَہُ أَسْرَی حَتَّی یُثْخِنَ فِی الْأَرْضِ… إِلٰی قَوْلِہِ: {لَوْلَا کِتَابٌ مِنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ} مِنْ الْفِدَائِ ثُمَّ أُحِلَّ لَہُمُ الْغَنَائِمُ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ مِنْ الْعَامِ الْمُقْبِلِ عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا یَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَخْذِہِمْ الْفِدَائ، َ فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ، وَفَرَّ أَصْحَابُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَکُسِرَتْ رَبَاعِیَتُہُ وَہُشِمَتْ الْبَیْضَۃُ عَلٰی رَأْسِہِ، وَسَالَ الدَّمُ عَلٰی وَجْہِہِ، وَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {أَوَلَمَّا أَصَابَتْکُمْ مُصِیبَۃٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَیْہَا} الْآیَۃَ بِأَخْذِکُمُ الْفِدَائَ۔ (مسند أحمد: ۲۰۸)

۔ سیدنا جریر بن مطعم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور (بدر کے) ان بد بودار قیدیوں کے بارے میں مجھ سے بات کرتا تو میں ان کو (بغیر فدیے کے) آزاد کر دیتا۔

Haidth Number: 5099
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو وہ لوگ دوتین تین سال کے کھجور کی بیع سلف کرتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو بیع سلف کرنا چاہے، اس کو چاہیے کہ وہ مقررہ ماپ، معین وزن اور مقررہ مدت تک کرے۔

Haidth Number: 6002

۔ (۶۰۰۳)۔ عَنْ مُحَمَّدِ بنِ اَبی الْمُجَالِدِ مَوْلیٰ بَنِیْ ھَاشِمٍ قَالَ: أَرْسَلَنِی ابنُ شدَّادٍ وَأبوْ بُرْدَۃَ فَقَالَا: انْطَلِقْ إِلٰی ابنِ اَبیْ أَوْفیٰ فَقُلْ لہُ: إِنَّ عبدَاللّٰہِ بنَ شدَّادٍ وَأَبابرْدَۃَیُقْرِاٰنِکَ السَّلامَ وَیَقُوْلَانِ: ھَلْ کُنْْتُمْ تُسْلِفُوْنَ فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی البُرِّ وَالشَّعِیْرِ وَالزَّبِیْبِ؟ قَالَ: نَعَمْ کَمَا نُصِیْبُ غَنَائِمَ فِیْ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنُسْلِفُہَا فِی الْبُرِّ وَالشَّعِیْرِ وَالتَّمْرِ وَالزَّبِیْبِ، فَقُلْتُ: عِنْدَ منْ کَانَ لہُ زَرْعٌ أَوْ عِنْدَ منْ لَیْسَ لَہُ زَرْعٌ؟ فَقَالَ: مَا کُنَّا نَسْئَلُھُمْ عَنْ ذٰلکِ قالَ: وَقَالَا لِیْ: انْطَلِقْ اِلٰی عَبْدِالرَّحْمٰنِ بنِ اَبزٰی فاسْئَلْہُ، قالَ: فَانْطَلَقَ فَسَئَلَہُ فقالَ لہُ مِثْلَ مَاقَالَ ابنُ اَبیْ أوفیٰ، قَالَ: وَکَذَا حَدَّثَنَاہُ اَبُوْ مُعَاوِیَۃَ عَنْ زَائِدَۃَ عَنِ الشَّیْبَانیِّ قَالَ: وَالزَّیْتِ۔ (مسند احمد: ۱۹۶۱۵)

۔ محمد بن ابی مجالد کہتے ہیں: ابن شداد اور ابوبردہ نے مجھے بھیجا اور کہا: تو سیدنا ابن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس جا اور ان سے کہہ کہ عبداللہ بن شداد اور ابو بردہ آپ کو سلام کہتے ہیں اور یہ سوال کرتے ہیں کہ تم لوگ عہد ِ نبوی میں گندم، جو اور منقی میں بیع سلف کیا کرتے تھے؟ انھوں نے جواباً کہا: جی ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میںمال غنیمت حاصل کرتے اور پھر اس میں گندم، جو، کھجور اور منقی میں بیع سلف کرتے تھے۔ میں نے کہا:کیایہ بیع ان سے کرتے تھے، جن کے پاس کھیتی ہوتی تھییا ان سے بھی کہ جن کے پاس کھیتی نہیں ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا: اس چیز کے بارے میں ہم پوچھتے ہی نہیں تھے۔ (جب میں نے واپس آ کر ان کو تفصیل بتائی تو) انھوں نے کہا: اب سیدنا عبدالرحمن بن ابزیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس جا اوران سے یہی مسئلہ دریافت کر کے آ۔ پس میں ان کے پاس گیا اور انھوں نے بھی سیدنا ابن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ والا جواب دیا۔ امام احمد کہتے ہیں کہ ابو معاویہ کی روایت میں تیل (یا زیتون کے تیل) کاذکر بھی ہے۔

Haidth Number: 6003
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ایک آدمی نے ایک آدمی سے کھجوریں خریدیں، لیکن اس سال انہیں پھل ہی نہیں لگا، پس وہ دونوں فیصلہ لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو اس کے درہم کو اپنے لئے کیسے حلال سمجھتا ہے؟اس کے درہم اس کو واپس لوٹادے، کھجور میں ہر گز بیع سلم نہ کیا کرو، جب تک کہ اس کی صلاحیت ظاہر نہ ہوجائے۔ راوی کہتا ہے: میں نے مسروق سے پوچھا کہ صلاحیت کے ظہور کا کیا مطلب ہے، انھوں نے کہا: پھل کا سرخ یازرد ہوجانا۔

Haidth Number: 6004
۔ سیدنا ابوسعید خدری سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: گندم اور عام جو اور چھلکے کے بغیر جو میں اس وقت تک بیع سلف جائزنہیں، جب تک کہ اس کادانہ خشک نہ ہوجائے ، انگوراور زیتون وغیرہ میں بھییہ بیع جائز نہیں ہے، یہاں تک کہ یہ چیزیں اچھی طرح پختہ نہ ہو جائیں اور نہ نقد سونے کی ادھار چاندی کے ساتھ اور نقد چاندی کی ادھار سونے کے ساتھ بیع جائز ہے۔ امام احمد نے کہا: یہ روایت مرفوع نہیں ہے۔

Haidth Number: 6005
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حمل کے حمل کا ادھار کے ساتھ سودا کرنا سود ہے۔

Haidth Number: 6006
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ صحابۂ کرام کی ایک جماعت بنو سلیم کے ایک آدمی کے پاس سے گزری، اس کے پاس بکریاں تھیں، اس نے ان صحابہ کرام کو سلام کہا، لیکن صحابہ نے کہا: یہ صرف تم سے پناہ لینے کے لیے سلام کہہ رہا ہے، انہوں نے اسے قتل کر دیا اور اس کی بکریوں پر قبضہ کر لیا، جب وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ان بکریوں کو لائے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {وَلَا تَقُولُوْا لِمَنْ أَ لْقٰی إِلَیْکُمْ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا}… اور جو تمھیں سلام پیش کرے اسے یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں۔ تم دنیا کی زندگی کا سامان چاہتے ہو۔

Haidth Number: 8560

۔ (۸۵۶۱)۔ عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی حَدْرَدٍ، عَنْ أَ بِیہِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَ بِی حَدْرَدٍ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی إِضَمَ، فَخَرَجْتُ فِی نَفَرٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فِیہِمْ أَ بُو قَتَادَۃَ الْحَارِثُ بْنُ رِبْعِیٍّ وَمُحَلَّمُ بْنُ جَثَّامَۃَ بْنِ قَیْسٍ، فَخَرَجْنَا حَتّٰی إِذَا کُنَّا بِبَطْنِ إِضَمَ مَرَّ بِنَا عَامِرٌ الْأَشْجَعِیُّ عَلَی قَعُودٍ لَہُ مُتَیْعٌ وَوَطْبٌ مِنْ لَبَنٍ، فَلَمَّا مَرَّ بِنَا سَلَّمَ عَلَیْنَا، فَأَ مْسَکْنَا عَنْہُ وَحَمَلَ عَلَیْہِ مُحَلَّمُ بْنُ جَثَّامَۃَ، فَقَتَلَہُ بِشَیْئٍ کَانَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُ، وَأَ خَذَ بَعِیرَہُ وَمُتَیْعَہُ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَ خْبَرْنَاہُ الْخَبَرَ، نَزَلَ فِینَا الْقُرْآنُ: {یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوا وَلَا تَقُولُوْا لِمَنْ أَ لْقٰی إِلَیْکُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا، تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا، فَعِنْدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیرَۃٌ، کَذٰلِکَ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ، فَتَبَیَّنُوا إِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا} [النسائ: ۹۴]۔ (مسند احمد: ۲۴۳۷۸)

۔ سیدنا عبداللہ بن ابی حدرد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں اِضَم پہاڑ یا مقام کی جانب بھیجا، پس میں مسلمانوں کے ایک لشکر میں نکلا، سیدنا ابوقتادہ حارث بن ربعی اور سیدنا مُحَلّم بن جثامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بھی اس لشکر میں شامل تھے، پس ہم نکل پڑے اور جب اضم کی ہموار جگہ پر پہنچے تو ہمارے پاس سے عامر اشجعی گزرا،یہ نوجوان اونٹ پر سوار تھا اور اس کے ساتھ کچھ سامان بھی اور دودھ اور گھی کا مشکیزہ بھی تھا، اس نے ہمیں سلام کہا، سو ہم نے اس پر حملہ نہ کیا، لیکن مُحَلّم بن جثامہ نے اس پر حملہ کر دیا اور اس کے پاس جو آلہ تھا، اس نے اس کے ذریعے اس کو قتل کر دیا اور اس کے اونٹ اور سامان پر قبضہ کر لیا، جب ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے تو ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ واقعہ بیان کیا تو ہمارے بارے میں یہ قرآن نازل ہوا: {یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوا وَلَا تَقُولُوْا لِمَنْ أَ لْقٰی إِلَیْکُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیرَۃٌ کَذٰلِکَ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ، فَتَبَیَّنُوا إِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا}… اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم اللہ کے راستے میں سفر کرو تو خوب تحقیق کر لو اور جو تمھیں سلام پیش کرے اسے یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں۔ تم دنیا کی زندگی کا سامان چاہتے ہو تو اللہ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں، اس سے پہلے تم بھی ایسے ہی تھے تو اللہ نے تم پر احسان فرمایا۔ پس خوب تحقیق کر لو، بے شک اللہ ہمیشہ سے اس سے جو تم کرتے ہو، پورا با خبر ہے۔

Haidth Number: 8561

۔ (۱۰۶۲۷)۔ عَنْ أبِیْ الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ أَنَّ الطُّفَیْلَ بْنَ عَمْرِو نِ الدَّوْسِیَّ أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَلْ لَکَ فِیْ حِصْنٍ حَصِیْنَۃٍ وَمَنْعَۃٍ؟ قَالَ: فَقَالَ: ((حِصْنٌ کَانَ لِدَوْسٍ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ۔)) فَاَبٰی ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِلَّذِیْ ذَخَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِأَنْصَارٍ فَلَمَّا ھَاجَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلَی الْمَدِیْنَۃِ ھَاجَرَ اِلَیْہِ الطُّفَیْلُ بْنُ عَمْرٍو وَھَاجَرَ مَعَہُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِہِ فَاجْتَوَوُا الْمَدِیْنَۃَ فَمَرِضَ فَجَزَعَ فَأَخَذَ مَشَاقِصَ لَہُ فَقَطَعَ بِھَا بَرَاجِمَہُ، فَشَخَبَتْ یَدَاہُ حَتّٰی مَاتَ فَرَآہُ الطُّفَیْلُ بْنُ عَمْرٍو فِیْ مَنَامِہِ فَرَآہُ فِیْ ھَیْئَۃٍ حَسَنَۃٍ وَرَآہُ مُغَطِّیًایَدَہُ فَقَالَ لَہُ: مَا صَنَعَ بِکَ رَبُّکَ؟ قَالَ: غَفَرَلِیْ بِھِجْرَتِیْ اِلٰی نَبِیِّہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَمَالِیْ أَرَاکَ مُغَطِّیًایَدَکَ، قَالَ: قَالَ لِیْ: لَنْ نُصْلِحَ مِنْکَ مَا أَفْسَدْتَ قَالَ: فَقَصَّھَا الطُّفَیْلُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُوْل اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَللّٰھُمَّ وَلِیَدَیْہِ فَاغْفِرْ۔)) (مسند احمد: ۱۵۰۴۵)

۔ سیدنا طفیل بن عمرو دوسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ کو مضبوط قلعے کی اور عزت و دفاع کی رغبت ہے ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جاہلیت میں دوس قبیلے کا ایک قلعہ تھا۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس چیز کی خاطر اس کی اس پیشکش کا انکار کر دیا، جو اللہ تعالیٰ نے انصاریوں کے لیے ذخیرہ کر رکھی تھی، پھر جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہجرت کی تو سیدنا طفیل بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اور ان کے ساتھ ان کی قوم کے ایک اور آدمی نے بھی ہجرت کی، انھوں نے مدینہ کی آب و فضا کو ناموافق پایا اور وہ آدمی بیمار ہوگئے، پھر اس نے بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے (نیزے والا) پھلکا پکڑا اور اپنی انگلی کے جوڑ کاٹ دیئے، اس کے ہاتھوں سے خون بہنا شروع ہو گیا،یہاں تک کہ وہ فوت ہو گیا، سیدنا طفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کو خواب میں دیکھا کہ وہ اچھی حالت میں ہے، البتہ اس نے اپنے ہاتھ کو ڈھانپا ہوا ہے، انھوں نے اس سے پوچھا: تیرے ربّ نے تیرے ساتھ کیا کیا ہے؟ اس نے کہا: اس نے اپنے نبی کی طرف میرے ہجرت کی وجہ سے مجھے بخش دیا ہے، انھوں نے کہا: میں تجھے ہاتھ ڈھانپا ہوا کیوں دیکھ رہی ہوں؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا: جو چیز تو نے خود خراب کی ہے، ہم اس کی اصلاح نہیں کریں گے، جب سیدنا طفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ خواب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بیان کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! اس کے ہاتھوں کو بھی بخش دے۔

Haidth Number: 10627
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! کون سی ہجرت افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ امور کو چھوڑ دیا۔

Haidth Number: 10628
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی اٹھا اور اس نے یہ سوال کیا: اے اللہ کے رسول! کون سا اسلام افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: افضل اسلام یہ ہے کہ تیرے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان سالم رہیں۔ وہی صحابییا کوئی دوسرا کھڑا ہوا اور پوچھا: اے اللہ کے رسول! کون سی ہجرت افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیرا اپنے پروردگار کی ناپسندیدہ چیزوں کو ترک کر دینا، دراصل ہجرت کی دو قسیمیں ہیں: (ا) دیہاتی لوگوں کی ہجرت (۲) شہری لوگوں کی ہجرت۔ دیہاتی کی ہجرت یہ کہ جب اسے امیر کی طرف سے حکم دیا جائے تو وہ اسے تسلیم کرے اور جب اسے بلایا جائے تو بلاوے کا جواب دے‘ رہا مسئلہ شہری کی ہجرت کا تو اس کی مصیبت و آزمائش زیادہ سخت اور اجر عظیم ہے۔

Haidth Number: 10629

۔ (۱۰۸۰۸)۔ عَنْ إِیَاسٍ قَالَ: حَدَّثَنِی أَبِی: قَالَ: قَدِمْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْحُدَیْبِیَۃَ، وَنَحْنُ أَرْبَعَ عَشْرَۃَ مِائَۃً وَعَلَیْہَا خَمْسُونَ شَاۃً لَا تُرْوِیہَا، فَقَعَدَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی جَبَاہَا، فَإِمَّا دَعَا وَإِمَّا بَسَقَ، فَجَاشَتْ فَسَقَیْنَا وَاسْتَقَیْنَا، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَعَا بِالْبَیْعَۃِ فِی أَصْلِ الشَّجَرَۃِ فَبَایَعْتُہُ أَوَّلَ النَّاسِ، وَبَایَعَ وَبَایَعَ حَتّٰی إِذَا کَانَ فِی وَسَطٍ مِنَ النَّاسِ، قَالَ: یَا سَلَمَۃُ! بَایِعْنِی، قَالَ: قَدْ بَایَعْتُکَ فِی أَوَّلِ النَّاسِ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((وَأَیْضًا فَبَایِعْ۔)) وَرَآنِی أَعْزَلًا فَأَعْطَانِی حَجَفَۃً أَوْ دَرَقَۃً، ثُمَّ بَایَعَ وَبَایَعَ حَتّٰی إِذَا کَانَ فِی آخِرِ النَّاسِ، قَالَ: ((أَلَا تُبَایِعُنِی؟)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَدْ بَایَعْتُ أَوَّلَ النَّاسِ وَأَوْسَطَہُمْ وَآخِرَہُمْ، قَالَ: ((وَأَیْضًا فَبَایِعْ۔)) فَبَایَعْتُہُ، ثُمَّ قَالَ: ((أَیْنَ دَرَقَتُکَ أَوْ حَجَفَتُکَ الَّتِی أَعْطَیْتُکَ؟)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لَقِیَنِی عَمِّی عَامِرٌ أَعْزَلًا فَأَعْطَیْتُہُ إِیَّاہَا، قَالَ: فَقَالَ: ((إِنَّکَ کَالَّذِی قَالَ اللَّہُمَّ ابْغِنِی حَبِیبًا ہُوَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ نَفْسِی۔)) وَضَحِکَ، ثُمَّ إِنَّ الْمُشْرِکِینَ رَاسَلُونَا الصُّلْحَ حَتّٰی مَشَی بَعْضُنَا إِلٰی بَعْضٍ، قَالَ: وَکُنْتُ تَبِیعًا لِطَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ، أَحُسُّ فَرَسَہُ وَأَسْقِیہِ وَآکُلُ مِنْ طَعَامِہِ وَتَرَکْتُ أَہْلِی وَمَالِی مُہَاجِرًا إِلَی اللّٰہِ وَرَسُولِہِ، فَلَمَّا اصْطَلَحْنَا نَحْنُ وَأَہْلُ مَکَّۃَ، وَاخْتَلَطَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ، أَتَیْتُ الشَّجَرَۃَ فَکَسَحْتُ شَوْکَہَا وَاضْطَجَعْتُ فِی ظِلِّہَا، فَأَتَانِی أَرْبَعَۃٌ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ فَجَعَلُوا وَہُمْ مُشْرِکُونَ یَقَعُونَ فِی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَحَوَّلْتُ عَنْہُمْ إِلٰی شَجَرَۃٍ أُخْرٰی وَعَلَّقُوا سِلَاحَہُمْ وَاضْطَجَعُوا، فَبَیْنَمَا ہُمْ کَذٰلِکَ إِذْ نَادٰی مُنَادٍ مِنْ أَسْفَلِ الْوَادِی: یَا آلَ الْمُہَاجِرِینَ! قُتِلَ ابْنُ زُنَیْمٍ، فَاخْتَرَطْتُ سَیْفِی فَشَدَدْتُ عَلَی الْأَرْبَعَۃِ، فَأَخَذْتُ سِلَاحَہُمْ فَجَعَلْتُہُ ضِغْثًا، ثُمَّ قُلْتُ: وَالَّذِی أَکْرَمَ مُحَمَّدًا! لَایَرْفَعُ رَجُلٌ مِنْکُمْ رَأْسَہُ إِلَّا ضَرَبْتُ الَّذِییَعْنِی فِیہِ عَیْنَاہُ، فَجِئْتُ أَسُوقُہُمْ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَجَائَ عَمِّی عَامِرٌ بِابْنِ مِکْرَزٍ یَقُودُ بِہِ فَرَسَہُ یَقُودُ سَبْعِینَ حَتّٰی وَقَفْنَاہُمْ فَنَظَرَ إِلَیْہِمْ، فَقَالَ: ((دَعُوہُمْ یَکُونُ لَہُمْ بُدُوُّ الْفُجُورِ۔)) وَعَفَا عَنْہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأُنْزِلَتْ: {وَہُوَ الَّذِی کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ} ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِینَۃِ فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا یُقَالُ لَہُ: لَحْیُ جَمَلٍ، فَاسْتَغْفَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِمَنْ رَقِیَ الْجَبَلَ فِی تِلْکَ اللَّیْلَۃِ، کَانَ طَلِیعَۃً لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابِہِ، فَرَقِیتُ تِلْکَ اللَّیْلَۃَ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثَۃً، ثُمَّ قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ، وَبَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِظَہْرِہِ مَعَ غُلَامِہِ رَبَاحٍ وَأَنَا مَعَہُ، وَخَرَجْتُ بِفَرَسِ طَلْحَۃَ أُنَدِّیہِ عَلٰی ظَہْرِہِ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عُیَیْنَۃَ الْفَزَارِیُّ قَدْ أَغَارَ عَلٰی ظَہْرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاسْتَاقَہُ أَجْمَعَ وَقَتَلَ رَاعِیَہُ۔ (مسند احمد: ۱۶۶۳۳)

ایاس سے مروی ہے، وہ کہتے ہیںمیرے والد سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں حدیبیہ کے مقام پر پہنچے، ہم چودہ سو کی تعداد میں تھے، وہاں پچاس بکریاں تھیں اور وہاں کا پانی ان کے لیے بھی نا کافی تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کنوئیں کے کنارے بیٹھ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یا تو دعا کییا اس میں اپنا لعاب مبارک ڈالا، پس کنواں تو جوش مارنے لگا۔ ہم نے پانی خود پیا اور جانوروں کو بھی پلایا، بعدازاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک درخت کے نیچے سب لوگوں کو بیعت کے لیے پکارا، سب سے پہلے سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیعت کی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں سے بیعت لیتے رہے، یہاں تک کہ جب آدھے لوگ بیعت کر چکے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سلمہ! تم بیعت کرو۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں تو سب سے پہلے بیعت کر چکا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دوبارہ بیعت کرو۔ چنانچہ انہوں نے دوبارہ بیعت کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بغیر اسلحہ کے یعنی خالی ہاتھ دیکھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ڈھال عطا فرمائی اور پھر لوگوں سے بیعت لیتے رہے۔ یہاں تک کہ جب آخری لوگ بیعت کر رہے تھے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: ابن اکوع! کیا تم میری بیعت نہیں کر و گے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں تو سب سے پہلے بھی اور لوگوں کے وسط میں بھی بیعت کر چکا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر بیعت کرو۔ چنانچہ میں نے سہ بارہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں جو ڈھال دی ہے، وہ کہاں ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے میرا چچا عامر بغیر اسلحہ کے یعنی خالی ہاتھ ملے تو میں نے وہ ڈھال ان کو دے دی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم تو اس آدمی کی مانند ہو، جس نے کہا تھا یا اللہ مجھے ایسے دوست مہیا کر جو مجھے اپنے آپ سے بھی زیادہ محبوب ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ فرما کر مسکرا دئیے، اس کے بعد مشرکین ہمارے ساتھ صلح کی کوششیں کرتے رہے، یہاں تک کہ ہم میں سے بعض ایک دوسرے کی طرف بھی گئے۔ میں اس وقت سیدنا طلحہ بن عبیداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا خدمت گزار تھا، میں ان کے گھوڑے کو سہلاتا، اسے پانی پلاتا اور میں ان کے کھانے میں سے کھانا کھاتا اور میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرنے کی وجہ سے اپنے اہل وعیال اور اموال کو چھوڑ کر ان سے لا تعلق ہو چکا تھا۔ جب ہماری اہل مکہ سے صلح ہوئی اور ہم ایک دوسرے سے ملنے جلنے لگے، ایک درخت کے نیچے جا کر میں نے اس کے کانٹے صاف کئے اور اس کے سائے میں لیٹ گیا،مکہ کے باشندوں میں سے چار مشرک میرے پاس آگئے اور وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بارے میں نازیبا الفاظ کہنے لگے،میں ان کو چھوڑ کر ایک اور درخت کے نیچے چلا گیا، انہوں نے اپنے ہتھیار درخت کے ساتھ لٹکائے اور لیٹ گئے، وہ ابھی اسی حال میں تھے کہ وادی کے پست حصے کی جانب سے ایک پکارنے والے نے پکارا: اے مہاجرین! ابن زُنیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کر دیا گیا ہے۔ میں اپنی تلوار سونت کر ان چاروں کی طرف دوڑا، میں نے ان کے ہتھیار اپنے قبضہ میں لے لئے اور میں نے ان سے کہا: اس ذات کی قسم جس نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو عزت سے نوازا ہے! اگر تم میں سے کسی نے اپنا سر اوپر کو اُٹھایا تو میں اسے قتل کر دوں گا، میں ان کو ہانک کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لے آیا اور میرے چچا عامر نے ابن مکرز کو گرفتار کر لیا، وہ اسے اپنے گھوڑے پر کر رہا تھا، ان کے ساتھ مزید ستر مشرکین تھے، یہاں تک کہ ہم سب آکر رک گئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان لوگوں کی طرف دیکھ کر فرمایا: ان کو چھوڑ دو، گناہ کا آغاز انہی کے ذمہ ہے۔ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے در گزر فرمایا اور یہ آیت نازل ہوئی: {وَہُوَ الَّذِی کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ}… اور وہ ذات ہے جس نے ان کے ہاتھوں کوتم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روکا۔ (سورۂ فتح: ۲۴) اس کے بعد ہم مدینہ منورہ کی طرف واپس چل دئیے، ہم واپسی پر لحی جمل نامی ایک مقام پر ٹھہرے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں اس آدمی کے حق میں مغفرت کی دعا کی جو اس رات پہاڑ پر چڑھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابہ کرام کا پہرہ دے، پس میں اس رات دو یا تین مرتبہ پہاڑ پر چڑھا، پھر ہم مدینہ منورہ پہنچ گئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا اونٹ دوسرے اونٹوں میں پہنچانے کے لیے اپنے غلام رباح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاتھ بھیجا، میں بھی سیدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھوڑے پر سوار اسے دوڑاتا ہوا، رباح کے ہمراہ تھا، صبح ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ عبدالرحمن بن عیینہ فرازی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اونٹوں کو لوٹ کر ان سب کو لے گیا اور اونٹوں کے چرواہے کو قتل کر گیا ہے۔

Haidth Number: 10808
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں:مجھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضری دینے میں تاخیر ہوگئی، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: عائشہ! تم کیوں لیٹ ہو گئی ہو؟ انہوںنے کہا: اے اللہ کے رسول! مسجد میں ایک آدمی تھا، میں نے اس سے زیادہ حسین قرأت کرتے کسی کو نہیں سنا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جا کر دیکھا تو وہ سیدنا ابو حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے غلام سیدنا سالم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، ان کو دیکھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کا شکر ہے، جس نے میری امت میں تم جیسے لوگ بھی پیدا کیے ہیں۔

Haidth Number: 11714

۔ (۱۲۲۴۹)۔ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللّٰہِ الْجَسْرِیِّ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی عَائِشَۃَ، وَعِنْدَہَا حَفْصَۃُ بِنْتُ عُمَرَ، فَقَالَتْ لِی: إِنَّ ہٰذِہِ حَفْصَۃُ زَوْجُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَقْبَلَتْ عَلَیْہَا فَقَالَتْ: أَنْشُدُکِ اللّٰہَ أَنْ تُصَدِّقِینِی بِکَذِبٍ قُلْتُہُ، أَوْ تُکَذِّبِینِی بِصِدْقٍ قُلْتُہُ، تَعْلَمِینَ أَنِّی کُنْتُ أَنَا وَأَنْتِ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأُغْمِیَ عَلَیْہِ، فَقُلْتُ لَکِ: أَتَرَیْنَہُ قَدْ قُبِضَ؟ قُلْتِ: لَا أَدْرِی، فَأَفَاقَ فَقَالَ: ((افْتَحُوا لَہُ الْبَابَ۔)) ثُمَّ أُغْمِیَ عَلَیْہِ، فَقُلْتُ لَکِ: أَتَرَیْنَہُ قَدْ قُبِضَ؟ قُلْتِ: لَا أَدْرِی، ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ: ((افْتَحُوا لَہُ الْبَابَ۔)) فَقُلْتُ لَکِ: أَبِی أَوْ أَبُوکِ، قُلْتِ: لَا أَدْرِی، فَفَتَحْنَا الْبَابَ فَإِذَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَلَمَّا أَنْ رَآہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((ادْنُہْ۔)) فَأَکَبَّ عَلَیْہِ فَسَارَّہُ بِشَیْئٍ لَا أَدْرِی أَنَا وَأَنْتِ مَا ہُوَ؟ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ، فَقَالَ: ((أَفَہِمْتَ مَا قُلْتُ لَکَ؟)) قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ((ادْنُہْ۔)) فَأَکَبَّ عَلَیْہِ أُخْرٰی مِثْلَہَا فَسَارَّہُ بِشَیْئٍ لَا نَدْرِی مَا ہُوَ؟ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ فَقَالَ: ((أَفَہِمْتَ مَا قُلْتُ لَکَ؟)) قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ((ادْنُہُ۔)) فَأَکَبَّ عَلَیْہِ إِکْبَابًا شَدِیدًا فَسَارَّہُ بِشَیْئٍ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ، فَقَالَ: ((أَفَہِمْتَ مَا قُلْتُ لَکَ؟)) قَالَ: نَعَمْ، سَمِعَتْہُ أُذُنَیَّ وَوَعَاہُ قَلْبِی، فَقَالَ لَہُ: ((اخْرُجْ۔)) قَالَ: قَالَتْ حَفْصَۃُ: اللَّہُمَّ نَعَمْ، أَوْ قَالَتْ: اللَّہُمَّ صِدْقٌ۔ (مسند احمد: ۲۶۷۹۹)

ابو عبد االلہ جسری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہا ں گیا، ان کے ہاں سیدہ حفصہ بنت عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بھی موجود تھیں، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بتلایا کہ یہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیوی سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ہیں، پھر وہ ان کی طرف متوجہ ہوئیں اور کہا: میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتی ہوں کہ اگر میں جھوٹ کہوں تو آپ نے میری تصدیق نہیں کرنی اور اگر میں سچ کہوں تو آپ نے میری تکذیب نہیں کرنی، کیا آپ جانتی ہیں کہ میں اور تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس موجود تھیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر غشی اور بے ہوشی طاری ہوگئی، میں نے تم سے کہا: تمہارا کیا خیال ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی روح پرواز تو نہیں کر گئی؟ تم نے کہا تھا: مجھے تو اس بارے کوئی علم نہیں ہے، اتنے میں کچھ دیر کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کچھ افاقہ ہوگیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے لیے دروازہ کھول دو۔ پھر آپ پر غشی طاری ہوگئی، میں نے تم سے کہا: دیکھیں، کہیں آپ کی روح تو پرواز نہیں کر گئی؟ تم نے کہا تھا: مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی، اتنے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو افاقہ ہوگیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے لیے دروازہ کھول دو۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ میرے والد مراد ہیں یا تمہارے والد؟ تم نے کہا تھا: میں نہیں جانتی۔ پھر ہم نے دروازہ کھول دیا تو کیا دیکھا کہ وہ سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو دیکھا تو فرمایا: قریب ہوجاؤ۔ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ کے اوپر جھک گئے، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے ساتھ راز دارانہ بات کی، میں اور تم نہیں جاتی تھیں کہ وہ کیا بات تھی، پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنا سر اوپر اٹھالیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تم سے جو کچھ کہا ہے، تم نے سمجھ لیا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوبارہ فرمایا: پھر قریب ہو جاؤ۔ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دوبارہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اوپر اسی طرح جھک گئے، جیسے پہلی دفعہ کیاتھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے ساتھ چپکے سے کوئی بات کی، جس کے متعلق ہم نہیں جاتی کہ وہ کیا بات تھی۔ پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنا سر اٹھایا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تم سے جو بات کہی ہے، تونے اچھی طرح سمجھ لی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تیسری مرتبہ پھر فرمایا: میرے قریب ہو جاؤ۔ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پہلے سے بھی زیادہ جھک گئے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر رازداری اور چپکے سے ان کے ساتھ کوئی بات کی، اس کے بعد انہوں نے اپنا سر اٹھالیا،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تم سے جو کچھ کہاہے، کیاتم نے خوب سمجھ لیا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، میرے کانوں نے سنا ہے اور میرے دل نے سمجھ لیا ہے۔ آپ نے فرمایا: باہرچلے جاؤ۔ یہ سب کچھ سن کر سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: جی ہاں، یہ سب کچھ سچ ہے۔

Haidth Number: 12249
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ایک صحابی کو بلاؤ۔ میںنے کہا: سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: آپ کے چچا زاد سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ وہ آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم ذرا ایک طرف ہوجاؤ۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ چپکے سے باتیں کرنا شروع کیں، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا رنگ فق ہونے لگا، پھر جب سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اپنے گھر میں محصور کر دیا گیا تو ہم نے کہا: اے امیر المومنین! آپ ان باغیوں کے ساتھ لڑتے کیوں نہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، میں لڑائی نہیں کروں گا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے اس بات کا عہد لیا تھا اور میں ان حالات پر اپنے آپ کو صابر ثابت کرنے والا ہوں۔

Haidth Number: 12250
ایک صحابی رسول ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عنقریب تم شام کو فتح کروگے، اور جب تمہیں سکونت کے لیے کسی جگہ کے انتخاب کا موقع دیا جائے تو تم دمشق نامی شہر کو منتخب کرنا، خون ریز لڑائیوں میں وہ مسلمانوں کی قرار گاہ ہوگا اور اس کا ایک حصہ شہر غوطہ مسلمانوں کے لیے خیمہ کی مانند جائے امن ہوگا۔

Haidth Number: 12729
۔ ( دوسری سند)اسی طرح کی روایت مروی ہے، البتہ اس میں ہے: شام میں ایک شہر کانام غوطہ ہوگا، خون ریز لڑائیوں میں وہ مسلمانوں کے لیے بہترین مقامات میں سے ایک ہوگا۔

Haidth Number: 12730
سیدنا ابو دردا ء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خون ریز لڑائی کے دنوں میں دمشق کے نواح میں واقع ایک مقام غوطہ مسلمانوں کے لیے خیمہ کی مانند ہوگا۔

Haidth Number: 12731