Blog
Books
Search Hadith

مسلمان ہونے والے قیدی کا مسلمانوں کی ملکیت میں ہی رہنے کا اور عربوں کو غلام بنانے کے جواز کا بیان

21 Hadiths Found

۔ (۵۱۱۴)۔ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ: کَانَتْ ثَقِیفٌ حُلَفَائَ لِبَنِی عُقَیْلٍ، فَأَسَرَتْ ثَقِیفُ رَجُلَیْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَأَسَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَجُلًا مِنْ بَنِی عُقَیْلٍ وَأُصِیبَتْ مَعَہُ الْعَضْبَائُ، فَأَتٰی عَلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ فِی الْوَثَاقِ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! یَا مُحَمَّدُ! فَقَالَ: ((مَا شَأْنُکَ؟۔)) فَقَالَ: بِمَ أَخَذْتَنِی بِمَ أَخَذْتَ سَابِقَۃَ الْحَاجِّ؟ إِعْظَامًا لِذٰلِکَ، فَقَالَ: ((أَخَذْتُکَ بِجَرِیرَۃِ حُلَفَائِکَ ثَقِیفٍ۔)) ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْہُ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! یَا مُحَمَّدُ!، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَحِیمًا رَفِیقًا، فَأَتَاہُ فَقَالَ: ((مَا شَأْنُکَ؟)) قَالَ: إِنِّی مُسْلِمٌ، قَالَ: ((لَوْ قُلْتَہَا وَأَنْتَ تَمْلِکُ أَمْرَکَ أَفْلَحْتَ کُلَّ الْفَلَاحِ۔)) ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْہُ فَنَادَاہُ یَا مُحَمَّدُ یَا مُحَمَّدُ فَأَتَاہُ، فَقَالَ: ((مَا شَأْنُکَ؟)) فَقَالَ: إِنِّی جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِی وَظَمْآنُ فَاسْقِنِی، قَالَ: ((ہٰذِہِ حَاجَتُکَ۔)) قَالَ: فَفُدِیَ بِالرَّجُلَیْنِ۔ (مسند أحمد: ۲۰۱۳۶)

۔ سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بنو ثقیف، بنو عُقیل کے حلیف تھے، بنو ثقیف نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دو صحابہ کو قید کر لیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ نے بنو عقیل کا ایک آدمی گرفتار کر لیا، اس کے ساتھ عَضْبَاء نامی اونٹنی بھی پکڑی گئی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب اس قیدی کے پاس آئے، جبکہ وہ بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا تو اس نے کہا: اے محمد! اے محمد! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیرا کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا: آپ نے مجھے کیوں پکڑا ہے، آپ نے اس اونٹنی کو کیوں پکڑ لیا، جو حاجیوں کے قافلے سے آگے گزر جاتی تھی؟ وہ اس گرفتاری کو بڑا خیال کر رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تجھے تیر حلیف بنو ثقیف کے جرم میں پکڑا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس سے پھر گئے، لیکن اس نے پھر کہا: اے محمد! اے محمد! چونکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رحم دل اور نرم تھے، اس لیے اس کے پاس آ گئے اور اس سے پوچھا: تجھے کیا ہو گیا ہے ؟ اس نے کہا: میں مسلمان ہو گیا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تو یہ بات اس وقت کرتا، جب تو اپنے معاملے کامالک اور آزاد تھا تو تو مکمل طور پر کامیاب ہو جاتا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چلے گئے، اس نے پھر آواز دی: اے محمد! اے محمد! پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: کیا ہو گیا ہے تجھے؟ اس نے کہا: جی میں بھوکا ہوں، مجھے کھانا کھلائیے اور میں پیاسا ہوں، مجھے پانی پلائیے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تیری ضرورت ابھی پوری کر دی جاتی ہے۔ اس قیدی کے فدیے میں دو آدمی لیے گئے تھے۔

Haidth Number: 5114

۔ (۵۱۱۵)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ، عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ قَالَتْ: لَمَّا قَسَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَبَایَا بَنِی الْمُصْطَلِقِ، وَقَعَتْ جُوَیْرِیَۃُ بِنْتُ الْحَارِثِ فِی السَّہْمِ لِثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، أَوْ لِابْنِ عَمٍّ لَہُ وَکَاتَبَتْہُ عَلٰی نَفْسِہَا، وَکَانَتْ امْرَأَۃً حُلْوَۃً مُلَاحَۃً لَا یَرَاہَا أَحَدٌ إِلَّا أَخَذَتْ بِنَفْسِہِ، فَأَتَتْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَسْتَعِینُہُ فِی کِتَابَتِہَا، قَالَتْ: فَوَاللّٰہِ! مَا ہُوَ إِلَّا أَنْ رَأَیْتُہَا عَلٰی بَابِ حُجْرَتِی فَکَرِہْتُہَا، وَعَرَفْتُ أَنَّہُ سَیَرٰی مِنْہَا مَا رَأَیْتُ، فَدَخَلَتْ عَلَیْہِ فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَنَا جُوَیْرِیَۃُ بِنْتُ الْحَارِثِ بْنِ أَبِی ضِرَارٍ سَیِّدِ قَوْمِہِ، وَقَدْ أَصَابَنِی مِنَ الْبَلَائِ مَا لَمْ یَخْفَ عَلَیْکَ، فَوَقَعْتُ فِی السَّہْمِ لِثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ الشَّمَّاسِ أَوْ لِابْنِ عَمٍّ لَہُ فَکَاتَبْتُہُ عَلٰی نَفْسِی، فَجِئْتُکَ أَسْتَعِینُکَ عَلٰی کِتَابَتِی، قَالَ: ((فَہَلْ لَکِ فِی خَیْرٍ مِنْ ذٰلِکَ؟)) قَالَتْ: وَمَا ہُوَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((أَقْضِی کِتَابَتَکِ وَأَتَزَوَّجُکِ۔)) قَالَتْ: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: ((قَدْ فَعَلْتُ۔)) قَالَتْ: وَخَرَجَ الْخَبَرُ إِلَی النَّاسِ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَزَوَّجَ جُوَیْرِیَۃَ بِنْتَ الْحَارِثِ، فَقَالَ النَّاسُ: أَصْہَارُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَأَرْسَلُوْا مَا بِأَیْدِیہِمْ، قَالَتْ: فَلَقَدْ أَعْتَقَ بِتَزْوِیجِہِ إِیَّاہَا مِائَۃَ أَہْلِ بَیْتٍ مِنْ بَنِی الْمُصْطَلِقِ، فَمَا أَعْلَمُ امْرَأَۃً کَانَتْ أَعْظَمَ بَرَکَۃً عَلَی قَوْمِہَا مِنْہَا۔ (مسند أحمد: ۲۶۸۹۷)

۔ ام المومنین سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو مصطلق کے قیدی تقسیم کیے تو جویریہ بنت حارث، سیدنا ثابت بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصے میں آئی اور پھر اس نے ان سے مکاتبت بھی کر لی، یہ بڑی ہی خوب رو خاتون تھی، کوئی بھی اسے دیکھتا تو وہ اسے اپنی طرف مائل کر لیتی، پس وہ اپنی مکاتبت میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مدد لینے کے لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پاس آئی، اللہ کی قسم! جب میں (عائشہ) نے اس کو اپنے حجرے کے دروازے پر دیکھا تو میں نے اس کے آنے کو ناپسند کیا اور میں جان گئی کہ جو چیز میں دیکھ رہی ہوں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نظر بھی اسی چیز پر پڑے گی، پس جب وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں جویریہ بنت حارث بن ابی ضرار ہوں، میرے باپ اپنی قوم کے سردار ہیں اور میں ایسی آزمائش میں پھنس گئی ہوں کہ اس کا معاملہ آپ پر بھی واضح ہے، میں سیدنا ثابت بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا ان کے چچا زاد بھائی حصے میں آئی ہوں اور میں نے ان سے مکاتبت کر لی ہے، اب میں آپ کے پاس آئی ہوں، تاکہ آپ مکاتبت پر میرا تعاون کریں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اچھا یہ بتاؤ کہ کیا تمہیں اس سے بہتر چیز کی رغبت ہے؟ اس نے کہا: جی وہ کیا؟ اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہاری مکاتبت کی قیمت ادا کر کے تم سے شادی کر لیتا ہوں۔ اس نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تحقیق میں نے ایسے ہی کر دیا ہے۔ اتنے میں لوگوں تک یہ خبر پہنچ گئی کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ جویریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے شادی کر لی ہے، لوگوں نے کہا: بنو مصطلق، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سسرال بن گئے ہیں، پس اس وجہ سے انھوں نے وہ غلام اور لونڈیاں آزاد کر دیں، جو ان کے ہاتھ میں تھے، سیدہ جویریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی اس شادی کی وجہ سے بنو مصطلق کے سو گھرانوں کے افراد کو آزاد کیا گیا، میں ایسی کوئی خاتون نہیں جانتی جو اپنی قوم کے لیے سب سے زیادہ برکت والی ثابت ہوئی ہو، ما سوائے سیدہ جویریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے۔

Haidth Number: 5115
۔ سیدنا ابو رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے (زخمی ہونے کے بعد) سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ ٹیک لگائی ہوئی تھی اور ان کے پاس سیدنا ابن عمر اور سیدنا سعید بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بھی بیٹھے ہوئے تھے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم سب لوگ جان لو کہ میں نے کلالہ کے بارے میں کوئی رائے نہیں دی، اپنے بعد کسی ایک کو خلیفہ مقرر نہیں کیا اور عرب کے جو قیدی میری ملکیت میں میری وفات پا لیں، وہ اللہ تعالیٰ کے لیے آزاد ہوں گے۔

Haidth Number: 5116

۔ (۸۵۶۵)۔ عَنْ أَ بِیْ عَیَّاشٍ الزُّرْقِی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِعُسْفَانَ فَاسْتَقْبَلَنَا الْمُشْرِکُوْنَ عَلَیْہٖمْ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیْدِ وَہُمْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ فَصَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الظُّہْرَ فَقَالُوْا: قَدْ کَانُوْا عَلٰی حَالٍ لَوْ أَ صَبْنَا غِرَّتَہُمْ، قَالُوْا: تَأْتِیْ عَلَیْہِمُ الْآنَ صَلَاۃٌ ہِیَ أَ حَبُّ إِلَیْہِمْ مِنْ أَ بْنَائِہِمْ وَأَ نْفُسِہِمْ، ثُمَّ قَالَ: فَنَزَلَ جِبْرَئیِْلُ علیہ السلام بِہٰذِہِ الْآیَاتِ بَیْنَ الظَّہْرِ وَالْعَصْرِ {وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَأَ قَمْتَ لَہُمْ الصَّلَاۃَ…} قَالَ: فَحَضَرَتْ فَأَ مَرَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأخَذُوْا السَّلَاحَ، قَالَ: فَصَفَفْنَا خَلْفَہُ صَفَّیْنِ، قَالَ: ثُمَّ رَکَعَ فَرَکَعْنَا جَمِیْعًا، ثُمَّ رَفَعَ فَرَفَعْنَا جَمِیْعًا، ثُمَّ سَجَدَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالصَّفِّ الَّذِیْیَلِیْہِ وَالآخَرُوْنَ قِیَامٌیحرُسُوْنَھُمْ فَلَمَّا سَجَدُو وَقَامُوْا جَلَسَ اْلآخَرُوْنَ فَسَجَدُوْا فِی مَکَانِھِمْ ثُمَّ تَقَدَّمَ ھٰؤُلَائِ إِلٰی مَصَافِّ ھٰؤُلَائِ وَجَائَ ھٰؤُلَائِ إِلٰی مَصَافِّ ھٰؤُلَائِ، قَالَ: ثُمَّ رَکَعَ فَرَکَعُوا جَمِیْعًا، ثُمَّ رَفَعَ فَرَفَعُوْا جَمِیْعًا، ثُمَّ سَجَدَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالصَّفُّ الَّذِییَلِیْہِ، وَالآخَرُوْنََ قِیَامٌیَحْرُسُوْنَھُمْ، فَلَمَّا جَلَسَ جَلَسَ الآخَرُوْنَ فَسَجَدُوْ فَسَلَّمَ عَلَیْھِمْ ثُمَّ انْصَرَفَ، قَالَ: فَصَلَّاھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَرَّتَیْنِ، مَرَّۃً بِعُسْفَانَ، وَمَرَّۃً بَأَرْضِ بَنِی سُلَیْم۔ (مسند احمد: ۱۶۶۹۶)

۔ سیّدنا ابو عیاش زرقی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ عسفان کے مقام پر تھے، مشرکین ہمارے مدمقابل آ گئے، ان کی قیادت خالد بن ولید کر رہے تھے، وہ لوگ ہمارے اور قبلہ کے درمیان تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی، وہ لوگ آپس میں کہنے لگے:یہ مسلمان نماز میں مشغول تھے، کاش کہ ہم ان کی غفلت سے فائدہ اٹھا لیتے۔ پھر انھوں نے کہا: ابھی کچھ دیر بعد ان کی ایک اور نماز کاوقت ہونے والا ہے، وہ ان کو اپنی جانوں اور اولادوں سے بھی زیادہ عزیز ہے۔اسی وقت ظہر اور عصر کے درمیان جبریل علیہ السلام یہ آیات لے کر نازل ہوئے: {وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَأَ قَمْتَ لَہُمُ الـصَّـلٰـوۃَ فَلْتَقُمْ طَائِفَۃٌ مِّـنْـہُمْ مَّعَکَ وَ لْیَأْخُذُوْا اَسْلِحَتَہُمْ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَائِکُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَۃٌ أُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ}… جب تم ان میں ہو اور ان کے لیے نماز کھڑی کرو تو چاہیے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لیے کھڑی ہو، پھر جب یہ سجدہ کر چکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آ جائیں اور وہ دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی وہ آ جائے اور تیرے ساتھ نماز ادا کرے۔ (النسائ: ۱۰۲)جب عصر کاوقت ہوا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا کہ صحابہ کرام اسلحہ لے کر کھڑے ہوں، ہم نے آپ کے پیچھے دو صفیں بنا لیں، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رکوع کیا تو ہم سب نے رکوع کیا اور جب آپ رکوع سے اٹھے تو ہم بھی اٹھ گئے۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سجدہ کیا تو صرف آپ کے پیچھے والی پہلی صف والوں نے سجدہ کیا اور دوسری صف والے کھڑے ہو کر پہرہ دیتے رہے۔ جب وہ لوگ سجدے کرکے کھڑے ہوئے تو دوسری صف والوں نے بیٹھ کر اپنی اپنی جگہ سجدہ کیا، پھر (دوسری رکعت کے شروع میں) اگلی صف والے پیچھے اور پچھلی صف والے آ گئے۔ پھر اسی طرح سب نمازیوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رکوع کیا اور رکوع سے سر اٹھایا، پھر جب آپ نے سجدہ کیا تو پہلی صف والوں نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا اور دوسری صف والے کھڑے ہو کر پہرہ دیتے رہے، جب آپ اور پہلی صف والے لوگ سجدہ کرکے بیٹھ گئے تو دوسری صف والوں نے بیٹھ کر سجدہ کر لیا (اور سب تشہد میں بیٹھ گئے، پھر) سب نے مل کر سلام پھیر ا اور نماز سے فارغ ہوئے۔رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس انداز میں دو دفعہ نماز پڑھائی، ایک دفعہ عسفان میں اور دوسری دفعہ بنو سلیم کے علاقہ میں۔

Haidth Number: 8565
۔ سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دیہات میںرہنے کی اجازت طلب کی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو اجازت دے دی۔

Haidth Number: 10645
۔ سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ مدینہ منورہ آئے اور سیدنا بریدہ بن حصیب کو ملے، انھوں نے کہا: اے سلمہ! کیا تم نے اپنی ہجرت کو چھوڑ دیا ہے؟ انھوں نے کہا: اللہ کی پناہ! میں تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اجازت لے کر آیا ہوں اور میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اے بنو اسلم! تم دیہات میں رہو، ہواؤں کی بو سوسنگھ کر لطف اٹھاؤ اور گھاٹیوں میں رہو۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم ڈرتے ہیں کہ اس سے ہماری ہجرت کا نقصان نہ ہو جائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب تم جہاں بھی ہو، مہاجر ہی رہو گے۔

Haidth Number: 10646
۔ عمر بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ میں سے کون کون سے افراد اب تمہارے ساتھ باقی ہیں؟ انھوں نے کہا: سیدنا انس بن مالک اور سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ، اس آدمی نے کہا: سلمہ تو اپنی ہجرت سے واپس پلٹ گیا ہے، سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اس طرح نہ کہو، کیونکہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اے بنو اسلم! تم دیہات میں رہ سکتے ہو۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم اس بات سے ڈر رہے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اپنی ہجرت کو چھوڑ بیٹھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب تم جہاں بھی ہو، مہاجر ہی رہو گے۔

Haidth Number: 10647

۔ (۱۰۶۴۸)۔ عَنِ الْفَرَزْدَقِ بْنِ حَنَّانَ الْقَاصِّ، قَالَ: اَلَا اُحَدِّثُکُمْ حَدِیْثًا سَمِعَتْہُ اُذُنَایَ وَوَعَاہُ قَلْبِیْ لَمْ اَنْسَہُ بْعَدُ، خَرَجْتُ اَنَا وَعَبْدُاللّٰہِ بْنُ حِیْدَۃَ فِیْ طَرِیْقِ الشَّامِ فَمَرَرْنَا بِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ، فَقَالَ: جَائَ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِکُمَا اَعْرَابِیٌّ جَافٍ جَرِیْیئٌ فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَیْنَ الْھِجْرَۃُ اِلَیْکَ حَیْثُمَا کُنْتَ اَمْ اِلٰی أَرْضٍ مَعْلُوْمَۃٍ أَوَ لِقَوْمٍ خَاصَّۃً اَمْ اِذَا مِتَّ انْقَطَعَتْ؟ قَالَ: فَسَکَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَاعَۃً ثُمَّّ قَالَ: ((أَیْنَ السَّائِلُ عَنِ الْھِجْرَۃِ؟)) قَالَ: ھَا أَنَا ذَا، یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((اِذَا قُمْتَ اِلَی الصَّلَاۃِ وَآتَیْتَ الزَّکَاۃَ فَأَنْتَ مُھَاجِرٌ وَاِنْ مِتَّ بِالْحَضْرَمَۃِ۔)) یَعْنِیْ أَرْضًا بِالْیَمَانِیَّۃِ۔ (مسند احمد: ۶۸۹۰)

۔ فرزدق بن حنان قاص کہتے ہیں: کیا تم کو ایسی حدیث بیان کروں، جس کو میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے، میرے دل نے اس کو یاد کیا ہے اور میں ابھی تک اس کو نہیں بھولا، میں اور عبد اللہ بن حِیدہ شام کے راستے پر نکلے اور سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس سے گزرے، … … باقی حدیث ذکر کی، پھر کہا تمہاری قوم کا ایک سخت اور جری بدو آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہجرت آپ کی طرف ہو گی، آپ جہاں کہیں بھی ہوں، یا کسی خاص زمین کی طرف ہو گی،یا کسی خاص قوم کی طرف ہو گی اور جب آپ وفات پا جائیں گے تو کیا ہجرت منقطع ہو جائے گی؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئے اور پھر فرمایا: ہجرت کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟ جی میں ہوں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تو نماز قائم کرے اور زکوۃ ادا کرے تو تو مہاجر ہی ہو گا، اگرچہ تو حضرمہ میں فوت ہو جائے۔ یہ مقامیمانیہ کے علاقے میں ہے۔

Haidth Number: 10648
۔ سیدنا زبیر بن عوام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمام علاقے اللہ تعالیٰ کے علاقے ہیں اور تمام بندے اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں، لہٰذا جہاں بھی تجھے خیر ملے، تو وہیں اقامت اختیار کر۔

Haidth Number: 10649
۔ قلوص کہتے ہیں: سیدنا شہاب بن مدلج نے ایک دیہات میں اقامت اختیار کی، جب اس کے بیٹے نے ایک آدمی کو برا بھلا کہا تو اس آدمی نے آگے سے کہا: اے اس باپ کے بیٹے، جس نے ہجرت ِ مدینہ کو باطل کر کے دیہات میں سکونت اختیار کر لی،یہ سن کر شہاب مدینہ میں آیا اور سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ملا اور ان کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں میں سب سے افضل دو آدمی ہیں، ایک وہ آدمی جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میںجہاد کیا،یہاں تک کہ وہ ایسے مقام پر اترا کہ جس سے دشمن کو تکلیف ہوئی اور دوسرا وہ آدمی جو کسی دیہات کے کونے میںمقیم ہے، پانچ نمازیں ادا کرتا ہے ، اپنے مال کا حق ادا کرتا ہے اور اپنے ربّ کی عبادت کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ فوت ہو جاتا ہے۔ یہ سن کر سیدنا شہاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھے اور کہا: اے ابو ہریرہ! کیا تم نے یہ حدیث رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، پس وہ اپنے دیہات کی طرف لوٹ آئے اور وہاں سکونت اختیار کی۔

Haidth Number: 10650

۔ (۱۰۸۱۲)۔ حَدَّثَنَا عِکْرِمَۃُ قَالَ: حَدَّثَنِی إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ، قَالَ: أَخْبَرَنِی أَبِی، قَالَ:بَارَزَ عَمِّییَوْمَ خَیْبَرَ مَرْحَبٌ الْیَہُودِیُّ، فَقَالَ مَرْحَبٌ: قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی مَرْحَبُ، شَاکِی السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ، إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَہَّبُ، فَقَالَ عَمِّی عَامِرٌ: قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی عَامِرُ، شَاکِی السِّلَاحِ بَطَلٌ مُغَامِرُ، فَاخْتَلَفَا ضَرْبَتَیْنِ فَوَقَعَ سَیْفُ مَرْحَبٍ فِی تُرْسِ عَامِرٍ، وَذَہَبَ یَسْفُلُ لَہُ، فَرَجَعَ السَّیْفُ عَلٰی سَاقِہِ، قَطَعَ أَکْحَلَہُ، فَکَانَتْ فِیہَا نَفْسُہُ، قَالَ سَلَمَۃُ بْنُ الْأَکْوَعِ: لَقِیتُ نَاسًا مِنْ صَحَابَۃِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوا: بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ قَتَلَ نَفْسَہُ، قَالَ سَلَمَۃُ: فَجِئْتُ إِلٰی نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبْکِی، قُلْتُ: یَارَسُولَ اللّٰہِ! بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ، قَالَ: ((مَنْ قَالَ ذَاکَ؟)) قُلْتُ: نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِکَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((کَذَبَ مَنْ قَالَ ذَاکَ، بَلْ لَہُ أَجْرُہُ مَرَّتَیْنِ۔)) إِنَّہُ حِینَ خَرَجَ إِلٰی خَیْبَرَ جَعَلَ یَرْجُزُ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَفِیہِمُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَسُوقُ الرِّکَابَ، وَہُوَیَقُولُ: ((تَالَلَّہِ! لَوْلَا اللّٰہُ مَا اہْتَدَیْنَا، وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا، إِنَّ الَّذِینَ قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا، إِذَا أَرَادُوا فِتْنَۃً أَبَیْنَا، وَنَحْنُ عَنْ فَضْلِکَ مَا اسْتَغْنَیْنَا، فَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَیْنَا، وَأَنْزِلَنْ سَکِینَۃً عَلَیْنَا۔)) فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَنْ ہٰذَا؟)) قَالَ: عَامِرٌ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: ((غَفَرَ لَکَ رَبُّکَ۔)) قَالَ: وَمَا اسْتَغْفَرَ لِإِنْسَانٍ قَطُّ یَخُصُّہُ إِلَّا اسْتُشْہِدَ، فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِکَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لَوْ مَتَّعْتَنَا بِعَامِرٍ فَقَدِمَ فَاسْتُشْہِدَ، قَالَ سَلَمَۃُ: ثُمَّ إِنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَرْسَلَنِی إِلٰی عَلِیٍّ، فَقَالَ: ((لَأُعْطِیَنَّ الرَّایَۃَ الْیَوْمَ رَجُلًا یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ، أَوَیُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ۔)) قَالَ: فَجِئْتُ بِہِ أَقُودُہُ أَرْمَدَ فَبَصَقَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی عَیْنِہِ، ثُمَّ أَعْطَاہُ الرَّایَۃَ، فَخَرَجَ مَرْحَبٌ یَخْطِرُ بِسَیْفِہِ، فَقَالَ: قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی مَرْحَبُ، شَاکِی السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ، إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَہَّبُ، فَقَالَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ کَرَّمَ اللّٰہُ وَجْہَہُ: أَنَا الَّذِی سَمَّتْنِی أُمِّی حَیْدَرَہْ، کَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیہِ الْمَنْظَرَہْ، أُوفِیہِمُ بِالصَّاعِ کَیْلَ السَّنْدَرَہْ، فَفَلَقَ رَأْسَ مَرْحَبٍ بِالسَّیْفِ، وَکَانَ الْفَتْحُ عَلَییَدَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۶۶۵۳)

سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ مرحب یہودی نے خیبر کے دن میرے چچا ( سیدنا عامر ) کو قابلہ کا چیلنج دیتے ہوئے کہا: قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ اَنِّيْ مَرْحَبٗ شَاکِيْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبٗ اِذَا الْحُرُوْبُ اَقْبَلَتْ تَلَھَّبٗ خیبر بخوبی جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں۔ ہتھیار بند، سورما اور منجھا ہوا ہوں۔ جب لڑائیاں بھڑک اٹھتی ہیں تو میں متوجہ ہوتا ہوں اس کے مقابلے کے لیے میرے چچا عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نکلے اور کہا: قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ اَنِّيْ عَامِرٗ شَاکِيْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُغَامِرٗ خیبر اچھی طرح جانتا ہے کہ میں عامر ہوں۔ مکمل طور پر تیار ہوں، دلیر ہوں، جان کی بازی لگانے والا ہوں دونوں نے ایک دوسرے پر ایک ایک وار کیا، مرحب کی تلوار عامر کی ڈھال پر جا لگی اور عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نیچے جھک کر اس پر حملہ آور ہوا، لیکن ان کی اپنی ڈھال اپنی پنڈلی کی بڑی رگ پر جا لگی، جس سے رگ کٹ گئی اور اسی کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا۔ سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میری بعض لوگوں سے ملاقات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے اعمال ضائع ہو گئے، اس نے خود کشی کی ہے، یہ سن کر میں روتا ہوا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! عامر کے اعمال تو ضائع ہو گئے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کس نے کہا؟ میں نے عرض کیا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعض صحابہ نے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے بھییہ کہا غلط کہا، بلکہ اس کے لیے تو دو گنا اجر ہے۔ ( سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ) عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب خیبر کی طرف روانہ ہوئے تو وہ اصحابِ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مل کر رجز پڑھتے جاتے تھے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی ساتھ تھے اور عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ حدی خوانی کرتے ہوئے یوں کہہ رہے تھے۔ تَالَلَّہِ! لَوْلَا اللّٰہُ مَا اہْتَدَیْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا إِنَّ الَّذِینَ قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا إِذَا أَرَادُوا فِتْنَۃً أَبَیْنَا وَنَحْنُ عَنْ فَضْلِکَ مَا اسْتَغْنَیْنَا فَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَیْنَا وَأَنْزِلَنْ سَکِینَۃً عَلَیْنَا اللہ کی قسم! اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم نہ صدقے کرتے اور نہ نمازیں پڑھتے، بے شک جن لوگوں نے ہم پر زیادتی کی جب انہوں نے سرکشی کا ارادہ کیا تو ہم نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور ہم تیرے فضل سے مستغنی نہیں۔ اگر ہماری دشمن سے مڈ بھیڑ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھنا، اور ہم پر سکون نازل فرمانا۔ یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کون ہے؟ اس نے کہ: اللہ کے رسول! میں عامر ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارا رب تمہاری مغفرت فرمائے۔ سیدنا سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ایسے مواقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جس کسی کو مخصوص طور پر دعائے مغفرت دی، وہ ضرور ہی شہید ہوا۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات سنی تو عرض کیا: اللہ کے رسول ! کاش آپ ہمیں عامر سے مزید متمتع ہونے دیتے،یہ آگے بڑھے اور شہادت سے ہم کنار ہو گئے، سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے، پھر اللہ کی نبی نے مجھے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف بھیجا اور فرمایا: آج میں یہ جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا، جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتا ہے۔ ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں، میں انہیں ساتھ لے کر آیا، اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی آنکھ میں لعاب مبارک لگایا تو وہ اسی وقت ٹھیک ہو گئے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو جھنڈا تھمایا،مرحبیہودی تلوار لہراتا ہوا اور یہ رجز پڑھتا ہوا سامنے آیا۔ فَقَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّیْ مَرْحَبٗ شَاکِیْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبٗ إِذَا الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلَھَّبٗ خیبر بخوبی جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں ہتھیار بندہوں، سورماہوں اور منجھا ہوا ہوں جب لڑائیاں بھڑک اٹھتی ہیں تو میں متوجہ ہوتا ہوں اس کے جواب میں سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فرمایا: أَنَا الَّذِیْ سَمَّتْنِیْ أُمِّیْ حَیْدَرَہ کَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیْہِ الْمَنْظَرَہ أُوْفِیْھِمْ بِالصَّاعِ کَیْلَ السَّنْدَرَہ میں وہ ہوں جس کا نام میری ماں نے حیدر رکھا جنگلوں کا شیر ہوں، ہولناک منظر والا ہوں میں انہیں صاع کے بدلے نیزے کی ناپ پوری کر دوں گا۔ چنانچہ انہوں نے تلوار سے مرحب کا سر پھوڑ ڈالا اور انہی کے ہاتھوں خیبر فتح ہوا۔

Haidth Number: 10812

۔ ٍ(۱۰۸۱۳)۔ عَنْ أَبِیہِ بُرَیْدَۃَ الْأَسْلَمِیِّ قَالَ: لَمَّا نَزَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِحِصْنِ أَہْلِ خَیْبَرَ، أَعْطٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللِّوَائَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، وَنَہَضَ مَعَہُ مَنْ نَہَضَ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، فَلَقُوا أَہْلَ خَیْبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَأُعْطِیَنَّ اللِّوَائَ غَدًا رَجُلًا یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ، وَیُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ۔))، فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ دَعَا عَلِیًّا وَہُوَ أَرْمَدُ، فَتَفَلَ فِی عَیْنَیْہِ وَأَعْطَاہُ اللِّوَائَ، وَنَہَضَ النَّاسُ مَعَہُ فَلَقِیَ أَہْلَ خَیْبَرَ، وَإِذَا مَرْحَبٌ یَرْتَجِزُ بَیْنَ أَیْدِیہِمْ، وَہُوَ یَقُولُ: لَقَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی مَرْحَبُ، شَاکِی السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ، أَطْعَنُ أَحْیَانًا وَحِینًا أَضْرِبُ، إِذَا اللُّیُوثُ أَقْبَلَتْ تَلَہَّبُ، قَالَ: فَاخْتَلَفَ ہُوَ وَعَلِیٌّ ضَرْبَتَیْنِ فَضَرَبَہُ عَلٰی ہَامَتِہِ حَتّٰی عَضَّ السَّیْفُ مِنْہَا بِأَضْرَاسِہِ، وَسَمِعَ أَہْلُ الْعَسْکَرِ صَوْتَ ضَرْبَتِہِ، قَالَ: وَمَا تَتَامَّ آخِرُ النَّاسِ مَعَ عَلِیٍّ حَتّٰی فُتِحَ لَہُ وَلَہُمْ۔ (مسند احمد: ۲۳۴۱۹)

سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب خیبر کے قلعہ کے قریب نزول فرما ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاتھ میں جھنڈا دیا، کچھ مسلمان بھی ان کے ہمراہ گئے، ان کی خیبر والوں کے ساتھ لڑائی ہوئی، لیکن کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں کل یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ جب دوسرا دن ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلوایا، ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی آنکھ میں لعاب مبارک لگایا اور انہیں جھنڈا تھما دیا، لوگ بھی ان کے ساتھ بھی گئے اور اہل خیبر سے ان کی لڑائی ہوئی، مرحب یہودی ان کے آگے آگے یہ رجز پڑھ رہا تھا: فَقَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّیْ مَرْحَبٗ شَاکِیْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبٗ أَطْعَنُ أَحْیَانًا وَحِینًا أَضْرِبُ إِذَا الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلَھَّبٗ خیبر بخوبی جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں ہتھیار بندہوں، سورماہوں اور منجھا ہوا ہوں میں کبھی نیزہ مارتا ہوں تو کبھی ضرب لگاتا ہوں جب لڑائیاں بھڑک اٹھتی ہیں تو میں متوجہ ہوتا ہوں سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور اس نے ایک دوسرے پر ایک ایک وار کیا، سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کی کھوپڑی پر تلوار چلائییہاں تک کہ تلوار اس کے سر کو چیر کر اس کی داڑھوں تک چلی گئی اور سارے اہل ِ لشکر نے اس ضرب کی شدت کی آواز سنی، ابھی سارے لوگ سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تک پہنچے ہی نہیں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح عطا کر دی تھی۔

Haidth Number: 10813
مولائے رسول سیدنا ابو رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اپنا جھنڈا دے کر روانہ فرمایا تو ہم بھی ان کے ہمراہ گئے، جب وہ قلعہ کے قریب پہنچے تو قلعہ کے لوگ مقابلہ کے لیے باہر آئے، سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے قتال کیا، ایکیہودی نے بھی ان پر حملہ کیا اور ہوا یہ کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاتھ سے ڈھال گر گئی، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے قلعہ کے پاس پڑے ہوئے ایک دروازہ کو پکڑ کر اسی کو اپنے لیے ڈھال بنا لیا، فتح ہونے تک آپ یہود سے مقابلہ کرتے رہے اور لڑائی سے فارغ ہونے کے بعد اسے اپنے ہاتھ سے پھینکا، وہ اس قدر ثقیل تھا کہ ہم آٹھ آدمیوں نے اسے الٹنا پلٹنا چاہا تو اسے الٹ بھی نہ سکے۔

Haidth Number: 10814
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب میں نے مرحب کو قتل کیا تو میں اس کا سر لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا۔

Haidth Number: 10815

۔ (۱۰۸۱۶)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیِّ قَالَ: خَرَجَ مَرْحَبٌ الْیَہُودِیُّ مِنْ حِصْنِہِمْ، قَدْ جَمَعَ سِلَاحَہُ یَرْتَجِزُ وَیَقُولُ: قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّی مَرْحَبُ، شَاکِی السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ، أَطْعَنُ أَحْیَانًاوَحِینًا أَضْرِبُ،إِذَا اللُّیُوثُ أَقْبَلَتْ تَلَہَّبُ، کَانَ حِمَایَ لَحِمًی لَا یُقْرَبُ، وَہُوَ یَقُولُ: مَنْ مُبَارِزٌ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَنْ لِہٰذَا؟)) فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ: أَنَا لَہُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَأَنَا وَاللّٰہِ الْمَوْتُورُ الثَّائِرُ، قَتَلُوا أَخِی بِالْأَمْسِ، قَالَ: ((فَقُمْ إِلَیْہِ، اللَّہُمَّ أَعِنْہُ عَلَیْہِ۔)) فَلَمَّا دَنَا أَحَدُہُمَا مِنْ صَاحِبِہِ دَخَلَتْ بَیْنَہُمَا شَجَرَۃٌ عُمْرِیَّۃٌ مِنْ شَجَرِ الْعُشَرِ، فَجَعَلَ أَحَدُہُمَا یَلُوذُ بِہَا مِنْ صَاحِبِہِ، کُلَّمَا لَاذَ بِہَا مِنْہُ اقْتَطَعَ بِسَیْفِہِ مَا دُونَہُ حَتّٰی بَرَزَ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا لِصَاحِبِہِ، وَصَارَتْ بَیْنَہُمَا کَالرَّجُلِ الْقَائِمِ مَا فِیہَا فَنَنٌ، ثُمَّ حَمَلَ مَرْحَبٌ عَلٰی مُحَمَّدٍ فَضَرَبَہُ، فَاتَّقٰی بِالدَّرَقَۃِ فَوَقَعَ سَیْفُہُ فِیہَا فَعَضَّتْ بِہِ فَأَمْسَکَتْہُ، وَضَرَبَہُ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ حَتَّی قَتَلَہُ۔ (مسند احمد: ۱۵۲۰۱)

سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ مرحب یہودی ہتھیاروں سے مسلح ہو کر یہ رجز پڑھتا ہوا قلعہ سے باہر آیا: فَقَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّیْ مَرْحَبٗ شَاکِیْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبٗ أَطْعَنُ أَحْیَانًا وَحِینًا أَضْرِبُ إِذَا الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلَھَّبٗ کَانَ حِمَایَ لَحِمًی لَا یُقْرَبُ خیبر بخوبی جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں۔ ہتھیار بندہوں، سورماہوں اور منجھا ہوا ہوں۔ میں کبھی نیزہ مارتا ہوں تو کبھی ضرب لگاتا ہوں۔ جب لڑائیاں بھڑک اٹھتی ہیں تو میں متوجہ ہوتا ہوں۔ میرا دفاع ایسے لوگوں کے لیے ہے جو میرے قریب بھی نہیں پھٹکتے اور وہ چیلنج دیتا آرہا تھا کہ ہے کوئی میرا مدمقابل جو سامنے آئے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے مقابلے میں کون جائے گا؟ سیدنا محمد بن مسلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس کے مقابلہ میں جا نے کے لیے تیار ہوں۔ اللہ کی قسم! میں ان سے بدلہ لینے کا خواہش مند ہوں، کیوں کہ انہوں نے کل میرے بھائی کو قتل کر دیا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تم ہی اُٹھو، یا اللہ ! اُس کے مقابلے میں اس کی مدد فرما۔ جب وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہوئے تو گونددار ایک بہت پرانا اور بڑا درخت ان کے درمیان حائل ہو گیا، ان میں سے ہر ایک دوسرے کے وارسے بچنے کے لیے درخت کی اوٹ میں ہو جاتا، جب ان میں سے ایک درخت کی اوٹ میں ہوتا تو دوسرا اپنی تلوار چلا کر اس درخت (کی شاخوں کو) کاٹ دیتا،یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے آگئے اور وہ درخت ان دونوں کے درمیانیوں ہو گیا جیسے کوئی آدمی کھڑا ہو اور اس درخت پر کوئی شاخ نہ تھی۔ پھر مرحب، محمد بن مسلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر حملہ آور ہوا اور اس نے تلوار چلائی، سیدنا محمد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ڈھال سے وار کو روکا اور مرحب کی تلوار ان کی ڈھال پر جا لگی اور اس میں دھنس کر رہ گئی پھر محمد بن مسلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس پر وار کر کے اسے قتل کر دیا۔

Haidth Number: 10816
سیدنا عبداللہ بن مغفل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم خیبر کا محاصرہ کئے ہوئے تھے کہ ایک آدمی نے چربی سے بھرا مشکیزہ ہماری طرف پھینکا، میں اسے اُٹھانے لگا، لیکن جب میری نگاہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر پڑی تو میں شرما گیا۔

Haidth Number: 10817

۔ (۱۱۷۲۴)۔ عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: زَارَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی مَنْزِلِنَا، فَقَالَ: ((اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ۔)) قَالَ: فَرَدَّ سَعْدٌ رَدًّا خَفِیًّا، فَرَجَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاتَّبَعَہُ سَعْدٌ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ قَدْ کُنْتُ أَسْمَعُ تَسْلِیمَکَ وَأَرُدُّ عَلَیْکَ رَدًّا خَفِیًّا لِتُکْثِرَ عَلَیْنَا مِنَ السَّلَامِ، قَالَ: فَانْصَرَفَ مَعَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَمَرَ لَہُ سَعْدٌ بِغُسْلٍ فَوُضِعَ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ نَاوَلَہُ أَوْ قَالَ: نَاوَلُوْہُ مِلْحَفَۃً مَصْبُوغَۃً بِزَعْفَرَانٍ وَوَرْسٍ فَاشْتَمَلَ بِہَا، ثُمَّ رَفَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدَیْہِ وَہُوَ یَقُولُ: ((اللَّہُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِکَ وَرَحْمَتَکَ عَلٰی آلِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ۔)) قَالَ: ثُمَّ أَصَابَ مِنَ الطَّعَامِ فَلَمَّا أَرَادَ الِانْصِرَافَ قَرَّبَ إِلَیْہِ سَعْدٌ حِمَارًا قَدْ وَطَّأَ عَلَیْہِ بِقَطِیفَۃٍ، فَرَکِبَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ سَعْدٌ: یَا قَیْسُ! اصْحَبْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ قَیْسٌ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((ارْکَبْ۔)) فَأَبَیْتُ ثُمَّ قَالَ: ((إِمَّا أَنْ تَرْکَبَ وَإِمَّا أَنْ تَنْصَرِفَ۔)) قَالَ: فَانْصَرَفْتُ۔ (مسند احمد: ۱۵۵۵۵)

سیدنا قیس بن سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِکہا۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پست آواز سے سلام کا جواب دیا، (آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ سلام تین بار کہا تھا اور سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے تین بار ہی اتنی پست آواز میں جواب دیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نہیں سنا) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس چل دیئے۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے چلے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں آپ کے سلام کی آواز سن رہا تھا اور آہستہ آواز سے جواب دے رہا تھا تا کہ آپ ہم پر زیادہ سے زیادہ سلام کہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ساتھ واپس تشریف لے آئے۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ کے غسل کے لیے پانی رکھوایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غسل کیا، اس کے بعد انہوںنے زعفران یا ورس سے رنگا ہوا ایک خوشبودار کپڑا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ کپڑا اپنے اوپر لے لیا، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی: یا اللہ! سعد بن عبادہ کی آل کو اپنی رحمتوں اور برکتوں سے مالا مال فرما۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھانا تناول فرمایا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے واپسی کا ارادہ کیا تو سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سواری کے لیے گدھا پیش کیا، جس کے اوپر ایکموٹی چادر رکھ دی تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گدھے پر سوار ہوگئے۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ جائے، سو سیدنا قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ساتھ چل دیئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم بھی سوار ہو جائو۔ انہوںنے تو (احتراماً) سوار ہونے سے انکار کر دیا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم یاتو سوار ہو جائو یا پھر واپس چلے جائو۔ چنانچہ میں واپس چلا آیا۔

Haidth Number: 11724

۔ (۱۲۲۶۱)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَوْھَبٍ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ مِنْ مِصْرَ یَحُجُّ الْبَیْتَ، قَالَ: فَرَاٰی قَوْمًا جُلُوْسًا، فَقَالَ: مَنْ ھٰوُلائِ الْقَوْمُ؟ فَقَالَ مَنْ ہٰؤُلَائِ الْقَوْمُ؟ فَقَالُوْا: قُرَیْشٌ، قَالَ: فَمَنِ الشَّیْخُ فِیہِمْ؟ قَالُوْا: عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: یَا ابْنَ عُمَرَ؟ إِنِّی سَائِلُکَ عَنْ شَیْئٍ أَوْ أَنْشُدُکَ أَوْ نَشَدْتُکَ بِحُرْمَۃِ ہٰذَا الْبَیْتِ، أَتَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ فَرَّ یَوْمَ أُحُدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَتَعْلَمُ أَنَّہُ غَابَ عَنْ بَدْرٍ فَلَمْ یَشْہَدْہُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَتَعْلَمُ أَنَّہُ تَغَیَّبَ عَنْ بَیْعَۃِ الرِّضْوَانِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَکَبَّرَ الْمِصْرِیُّ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: تَعَالَ أُبَیِّنْ لَکَ مَا سَأَلْتَنِی عَنْہُ، أَمَّا فِرَارُہُ یَوْمَ أُحُدٍ فَأَشْہَدُ أَنَّ اللّٰہَ قَدْ عَفَا عَنْہُ وَغَفَرَ لَہُ، وَأَمَّا تَغَیُّبُہُ عَنْ بَدْرٍ فَإِنَّہُ کَانَتْ تَحْتَہُ ابْنَۃُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَإِنَّہَا مَرِضَتْ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((لَکَ أَجْرُ رَجُلٍ شَہِدَ بَدْرًا وَسَہْمُہُ۔)) وَأَمَّا تَغَیُّبُہُ عَنْ بَیْعَۃِ الرِّضْوَانِ فَلَوْ کَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَکَّۃَ مِنْ عُثْمَانَ لَبَعَثَہُ، بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عُثْمَانَ، وَکَانَتْ بَیْعَۃُ الرِّضْوَانِ بَعْدَ مَا ذَہَبَ عُثْمَانُ، فَضَرَبَ بِہَا یَدَہُ عَلٰییَدِہِ وَقَالَ: ((ہَذِہِ لِعُثْمَانَ۔)) قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: اذْہَبْ بِہٰذَا الْآنَ مَعَکَ۔ (مسند احمد: ۵۷۷۲)

عبداللہ بن موہب سے مروی ہے کہ ایک آدمی مصر سے بیت اللہ کا حج کرنے کے لیے آیا، اس نے کچھ لوگوں کو بیٹھے دیکھا اور ان کے بارے میں پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے بتلایا کہ یہ قریشی ہیں، اس نے پوچھا کہ ان میںسب سے بزرگ شخص کا کیا نام ہے؟ لوگوں نے بتلایا کہ وہ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔ اس آدمی نے کہا: اے عبداللہ بن عمر! میں آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں، یا اس نے یوں کہا میں آپ کو بیت اللہ کی حرمت کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ جانتے ہیں کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غزوۂ احد کے دن میدان جنگ سے فرار ہوگئے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، اس نے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غزوہ ٔ بدرمیں شریک نہیں ہوئے تھے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، اس نے مزید پوچھا: کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیعت ِ رضوان میں بھی شامل نہیں تھے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔یہ باتیں سن کر اس مصری نے خوشی کے طور پر اللہ اکبر کہا، اس کے اس انداز کو دیکھ کر سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ادھر آؤ ذرا،تونے مجھ سے جو باتیں پوچھی ہیں، میں تجھ پر ان کی حقیقت واضح کرتا ہوں، جہاں تک احد کے دن ان کے فرار ہونے کی بات ہے تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ نے ان کو معاف کر دیا ہے، جہاں تک غزوۂ بدر میں شامل نہ ہونے کی بات ہے تو تجھے معلوم ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیٹی ان کے نکاح میں تھیں، ان دنوںوہ مریض تھیں،تو اللہ کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا تھا: تمہیں شرکائے بدر کے برابر ثواب اور حصہ ملے گا۔ باقی رہی ان کے بیعت رضوان سے غیر حاضر ی تو تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت وادی ٔ مکہ میں سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بڑھ کر اگر کوئی دوسر ا آدمی معتبر ہوتا تو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی کو اہل مکہ کی طرف نمائندہ بنا کر روانہ فرماتے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اپنا نمائندہ بنا کر مکہ والوں کی طرف بھیجا تھا او ربیعت رضوان سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے جانے کے بعد ہوئی تھی، یہ وضاحت کر کے سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنا ہاتھ اس آدمی کے ہاتھ پر مارا اور کہا: یہ ہے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر اعتراضات کی حقیقت، اب اس کو اپنے ساتھ لے اور چلا جا۔

Haidth Number: 12261

۔ (۱۲۲۶۲)۔ عَنْ شَقِیقٍ، قَالَ: لَقِیَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ الْوَلِیدَ بْنَ عُقْبَۃَ، فَقَالَ لَہُ الْوَلِیدُ: مَا لِی أَرَاکَ قَدْ جَفَوْتَ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ؟ فَقَالَ لَہُ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ: أَبْلِغْہُ أَنِّی لَمْ أَفِرَّ یَوْمَ عَیْنَیْنِ، قَالَ عَاصِمٌ: یَقُولُ: یَوْمَ أُحُدٍ، وَلَمْ أَتَخَلَّفْ یَوْمَ بَدْرٍ، وَلَمْ أَتْرُکْ سُنَّۃَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: فَانْطَلَقَ فَخَبَّرَ ذٰلِکَ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: فَقَالَ: أَمَّا قَوْلُہُ إِنِّی لَمْ أَفِرَّ یَوْمَ عَیْنَیْنَ، فَکَیْفَیُعَیِّرُنِی بِذَنْبٍ وَقَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہُ؟ فَقَالَ: {إِنَّ الَّذِینَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّہُمُ الشَّیْطَانُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا وَلَقَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہُمْ} وَأَمَّا قَوْلُہُ: إِنِّی تَخَلَّفْتُ یَوْمَ بَدْرٍ، فَإِنِّی کُنْتُ أُمَرِّضُ رُقَیَّۃَ بِنْتَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ مَاتَتْ، وَقَدْ ضَرَبَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَہْمِی، وَمَنْ ضَرَبَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَہْمِہِ فَقَدْ شَہِدَ، وَأَمَّا قَوْلُہُ: إِنِّی لَمْ أَتْرُکْ سُنَّۃَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَإِنِّی لَا أُطِیقُہَا وَلَا ہُوَ فَأْتِہِ فَحَدِّثْہُ بِذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۴۹۰)

شقیق سے مروی ہے کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ولید بن عقبہ سے ملاقات ہوئی، ولید نے ان سے کہا: کیا بات ہے کہ آپ امیر المومنین سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ بے مروتی کا سلوک کرتے ہیں، سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میری یہ بات ان تک پہنچا دو کہ میں یوم عینین یعنی احد کے دن فرار نہیںہوا تھا اور نہ میں غزوۂ بدر میں پیچھے رہا اور نہ میں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے طریقے کو ترک کیا ہے۔ اس کے بعد ولید، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گئے اور ان سے ان امور کا ذکر کیا، انہوں نے جواباً کہا: ان کا کہنا کہ میں(ابن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) عینین یعنی احد کے دن فرار نہیں ہوا تھا، سوال یہ ہے کہ وہ مجھے ایسی کوتاہی پر کیوں عار دلاتے ہیں،جس کو اللہ تعالیٰ معاف کر چکا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {إِنَّ الَّذِینَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّہُمُ الشَّیْطَانُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا وَلَقَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہُمْ} … بے شک وہ لوگ جو تم میں سے اس دن پیٹھ پھیر گئے جب دو جماعتیں بھڑیں، شیطان نے انھیں ان بعض اعمال ہی کی وجہ سے پھسلایا جو انھوں نے کیے تھے اور بلاشبہ یقینا اللہ نے انھیں معاف کر دیا۔ (سورۂ آل عمران: ۱۵۵) ان کا یہ کہنا کہ وہ غزوہ ٔ بدر سے پیچھے نہیں رہے تھے تو میں تو سیدہ رقیہ بنت ِ رسول ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی تیمارداری میں مصروف تھا اور انہیں دنوں وہ انتقال کر گئی تھیں اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اسی قدر حصہ عطافرمایا تھا، جس قدر شرکائے بدر کو دیاتھا، اب جس کو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حصہ دیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حاضر سمجھا گیا اور ان کایہ کہنا کہ انھوں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے طریقے کو ترک نہیں کیا، تو گزارش یہ ہے کہ میں اس کی استطاعت1 نہیں رکھتا، تم جا کر یہ باتیں ان سے بیان کردینا۔ عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے طریقہ کی طاقت نہیں، کا مطلب یہ ہے عمر فاروق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دنیا سے بہت زیادہ بے رغبت، آخرت کی بہت زیادہ فکر کرنے والے، رعایا پر بہت زیادہ مشفق، ان کا بہت زیادہ خیال رکھنے والے، مظلوم کو انصاف دلانے والے، خوف زدہ کو امن مہیا کرنے والے، دیندار اور اہل فضل کے لیے نہایت نرم اور طلم و ستم کرنے والوں پر نہایت سخت تھے۔ عثمان غنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہنا چاہتے ہیں کہ اتنی اعلیٰ صفات اختیار کرنے کی میرے اندر طاقت نہیں ہے۔ [دیکھیں مسند محقق، جلد:۱، ص: ۵۲۶] (عبداللہ رفیق)

Haidth Number: 12262
عرو ہ بن رویم سے روایت ہے کہ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دمشق میں سیدنا معاویہ بن ابی سفیان کی خدمت میں گئے، جب وہ آئے تو سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: آپ ہمیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہوئی کوئی ایسی حدیث بیان کریں، جو آپ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم براہ راست سنی ہو اور آپ کے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے درمیان کوئی واسطہ نہ ہو، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اصل ایمان تو یمنی ہے، اسی طرح لخم اور جذام قبیلوں تک۔

Haidth Number: 12736
سیدنا ابو مسعود انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک سے یمن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اصل ایمان یہاں ہے اور شدت اور دلوں کی سختی اونٹوں کے مالکوںمیں ہے، جہاں شیطان کا سینگ نمودار ہو گا، ربیعہ اور مضر قبائل میں۔

Haidth Number: 12737