Blog
Books
Search Hadith

{یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَسْاَلُوْا عَنْ اَشْیَائَ …الخ} کی تفسیر

15 Hadiths Found
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی {وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیلًا} … لوگوں پر اللہ کے لیے حج فرض ہے جو اس کی طرف راستہ کی طاقت رکھتا ہے۔ تو لوگوں نے کہا: ا ے اللہ کے رسول! کیا حج ہر سال فرض ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے۔ انہوں نے پھر کہا: کیا حج ہر سال فرض ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہرسال فرض ہو جاتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئــَـلُوْا عَنْ اَشْیَاء َ اِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ وَاِنْ تَسْئــَـلُوْا عَنْہَا حِیْنَیُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَکُمْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہَا وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۔}… اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان چیزوں کے بارے میں سوال مت کرو جو اگر تمھارے لیے ظاہر کر دی جائیں تو تمھیں بری لگیں اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جب قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو تمھارے لیے ظاہر کر دی جائیں گی۔ اللہ نے ان سے در گزر فرمایا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت برد بار ہے۔

Haidth Number: 8587
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا باپ کون ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیرا باپ فلاں ہے۔ پس یہ آیت نازل ہوئی: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَـلُوْا عَنْ اَشْیَائَ اِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ وَاِنْ تَسْئَـلُوْا عَنْہَا حِیْنَیُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَکُمْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہَا وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۔}… اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان چیزوں کے بارے میں سوال مت کرو جو اگر تمھارے لیے ظاہر کر دی جائیں تو تمھیں بری لگیں اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جب قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو تمھارے لیے ظاہر کر دی جائیں گی۔ اللہ نے ان سے در گزر فرمایا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت برد بار ہے۔

Haidth Number: 8588

۔ (۱۰۸۴۲)۔ عن خَالِدِ بْنِ شُمَیْرٍ قَالَ: قَدِمَ عَلَیْنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَبَاحٍ فَوَجَدْتُہُ قَدِ اجْتَمَعَ إِلَیْہِ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو قَتَادَۃَ فَارِسُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَیْشَ الْأُمَرَائِ وَقَالَ: ((عَلَیْکُمْ زَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ فَإِنْ أُصِیبَ زَیْدٌ فجَعْفَرٌ فَإِنْ أُصِیبَ جَعْفَرٌ فعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ الْأَنْصَارِیُّ۔)) فَوَثَبَ جَعْفَرٌ فَقَالَ: بِأَبِی أَنْتَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ وَأُمِّی مَا کُنْتُ أَرْہَبُ أَنْ تَسْتَعْمِلَ عَلَیَّ زَیْدًا، قَالَ: ((امْضُوا فَإِنَّکَ لَا تَدْرِی أَیُّ ذٰلِکَ خَیْرٌ۔)) قَالَ: فَانْطَلَقَ الْجَیْشُ فَلَبِثُوا مَا شَائَ اللَّہُ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَعِدَ الْمِنْبَرَ وَأَمَرَ أَنْ یُنَادَی الصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((نَابَ خَیْرٌ أَوْ ثَابَ خَیْرٌ (شَکَّ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ) أَلَا أُخْبِرُکُمْ عَنْ جَیْشِکُمْ ہٰذَا الْغَازِی! إِنَّہُمْ انْطَلَقُوا حَتّٰی لَقُوا الْعَدُوَّ فَأُصِیبَ زَیْدٌ شَہِیدًا فَاسْتَغْفِرُوا لَہُ۔)) فَاسْتَغْفَرَ لَہُ النَّاسُ، ((ثُمَّ أَخَذَ اللِّوَائَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ فَشَدَّ عَلَی الْقَوْمِ حَتّٰی قُتِلَ شَہِیدًا أَشْہَدُ لَہُ بِالشَّہَادَۃِ فَاسْتَغْفِرُوا لَہُ، ثُمَّ أَخَذَ اللِّوَائَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ فَأَثْبَتَ قَدَمَیْہِ حَتّٰی أُصِیبَ شَہِیدًا فَاسْتَغْفِرُوا لَہُ، ثُمَّ أَخَذَ اللِّوَائَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ۔)) وَلَمْ یَکُنْ مِنَ الْأُمَرَائِ ہُوَ أَمَّرَ نَفْسَہُ فَرَفَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُصْبُعَیْہِ وَقَالَ: ((اللَّہُمَّ ہُوَ سَیْفٌ مِنْ سُیُوفِکَ فَانْصُرْہُ۔)) وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ مَرَّۃً: فَانْتَصِرْ بِہِ، فَیَوْمَئِذٍ سُمِّیَ خَالِدٌ سَیْفَ اللّٰہِ ثُمَّ قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((انْفِرُوا فَأَمِدُّوا إِخْوَانَکُمْ وَلَا یَتَخَلَّفَنَّ أَحَدٌ۔)) فَنَفَرَ النَّاسُ فِی حَرٍّ شَدِیدٍ مُشَاۃً وَرُکْبَانًا۔ (مسند احمد: ۲۲۹۱۸)

خالد بن شمیر سے مروی ہے کہ عبداللہ بن رباح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمارے ہاں تشریف لائے۔ تو میں نے ان کو اس حال میں پایا کہ لوگ ان کے اردگرد جمع تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے شہسوار ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جیش الامراء بھیجا اور فرمایا تمہارے اوپر زید بن حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ امیر ہیں۔ اگر وہ شہید ہو جائیں تو ان کے بعد جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ امیر ہوں گے۔ وہ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ امیر ہوں گے۔ یہ سن کر جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اچھل کر بولے اے اللہ کے نبی میرا والد آپ پر فدا ہو مجھے یہ توقع نہ تھی کہ آپ زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو مجھ پر امیر مقرر فرمائیں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تم روانہ ہو جاؤ۔ تم نہیں جانتے کہ کونسی بات زیادہ بہتر ہے۔ لشکر روانہ ہو گیا۔ جب تک اللہ کو منظور تھا وہ لوگ سفر میں رہے پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تشریف لائے۔ اور آپ نے حکم دیا کہ نماز ہونے کا اعلان کیا جائے۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ ایک خبر پھیلی ہے۔ کیا میں تمہیں غزوہ میں مصروف اس لشکر کے متعلق نہ بتلاؤں؟ یہ لوگ گئے ان کی دشمن سے مڈبھیڑ ہوئی۔ اور زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہو گئے۔ تم ان کی مغفرت کی دعاء کرو۔ تو لوگوں نے ان کے حق میں دعائے مغفرت کی۔ ان کے بعد جعفر بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا تھام لیا۔ وہ دشمن پر حملہ آور ہوئے۔ یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہو گئے۔ تم ان کی شہادت کی گواہی دو۔ لوگوں نے ان کے حق میں بھی مغفرت کی دعا کی۔ پھر عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا اُٹھا لیا۔ وہ بھی دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہے یہاں تک کہ وہ بھی شہادت سے سرفراز ہوئے۔ صحابہ نے ان کے حق میں بھی دعائے مغفرت کی۔ ان کے بعد خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا اُٹھایا۔ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مقرر کردہ امیروں میں سے نہ تھے۔ پیش آمدہ حالات کے پیش ِنظر وہ از خود امیر بن گئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی انگلیاں اُٹھا کر فرمایا: یا اللہ ! یہ تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ تو اس کی مدد فرما۔ عبدالرحمن راوی نے ایک دفعہ کہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعا کی برکت سے وہ فتح یاب ہوئے۔ اس روز سے خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سیف اللہ کہلائے۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تم روانہ ہو جاؤ اور جا کر اپنے بھائیوں کی مدد کرو۔ اور تم میں سے کوئی پیچھے نہ رہے۔ لوگ شدید گرمی میں پیدل اور سوار روانہ ہو گئے۔

Haidth Number: 10842

۔ (۱۰۸۴۳)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَیْشًا اسْتَعْمَلَ عَلَیْہِمْ زَیْدَ بْنَ حَارِثَۃَ، وَقَالَ: ((فَإِنْ قُتِلَ زَیْدٌ أَوِ اسْتُشْہِدَ فَأَمِیرُکُمْ جَعْفَرٌ فَإِنْ قُتِلَ أَوِ اسْتُشْہِدَ فَأَمِیرُکُمْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ۔)) فَلَقُوا الْعَدُوَّ فَأَخَذَ الرَّایَۃَ زَیْدٌ فَقَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَۃَ جَعْفَرٌ فَقَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ، ثُمَّ أَخَذَہَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ فَقَاتَلَ حَتّٰیقُتِلَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَۃَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فَفَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، وَأَتٰی خَبَرُہُمْ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَخَرَجَ إِلَی النَّاسِ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ وَقَالَ: ((إِنَّ إِخْوَانَکُمْ لَقُوا الْعَدُوَّ وَإِنَّ زَیْدًا أَخَذَ الرَّایَۃَ فَقَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ أَوِ اسْتُشْہِدَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَۃَ بَعْدَہُ جَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ فَقَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ اَوِ اسْتُشْہِدَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَۃَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ فَقَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ اَوِ اسْتُشْہِدَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّایَۃَ سَیْفٌ مِنْ سُیُوفِ اللّٰہِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فَفَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْہِ۔)) فَأَمْہَلَ ثُمَّ أَمْہَلَ آلَ جَعْفَرٍ ثَلَاثًا أَنْ یَأْتِیَہُمْ ثُمَّ أَتَاہُمْ فَقَالَ: ((لَا تَبْکُوا عَلٰی أَخِی بَعْدَ الْیَوْمِ أَوْ غَدٍ ادْعُوا لِی ابْنَیْ أَخِی۔)) قَالَ، فَجِیئَ بِنَا کَأَنَّا أَفْرُخٌ، فَقَالَ: ((ادْعُوا إِلَیَّ الْحَلَّاقَ۔)) فَجِیئَ بِالْحَلَّاقِ فَحَلَقَ رُئُ وْسَنَا، ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا مُحَمَّدٌ فَشَبِیہُ عَمِّنَا أَبِی طَالِبٍ وَأَمَّا عَبْدُ اللّٰہِ فَشَبِیہُ خَلْقِی وَخُلُقِی۔)) ثُمَّ أَخَذَ بِیَدِی فَأَشَالَہَا فَقَالَ: ((اللَّہُمَّ اخْلُفْ جَعْفَرًا فِی أَہْلِہِ وَبَارِکْ لِعَبْدِ اللّٰہِ فِی صَفْقَۃِیَمِینِہِ۔)) قَالَہَا ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: فَجَاء َتْ أُمُّنَا فَذَکَرَتْ لَہُ یُتْمَنَا وَجَعَلَتْ تُفْرِحُ لَہُ، فَقَالَ: ((الْعَیْلَۃَ تَخَافِینَ عَلَیْہِمْ وَأَنَا وَلِیُّہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔))۔ (مسند احمد: ۱۷۵۰)

عبداللہ بن جعفر سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور ان پر زید بن حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو امیر مقرر کیا۔ اور فرمایا اگر زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہو جائیں تو جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بن ابی طالب تمہارے امیر ہوں گے۔ اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تمہارے امیر ہوں گے۔ مسلمانوں کا دشمن سے مقابلہ ہوا۔ تو جھنڈا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اُٹھایا۔ وہ دشمن سے لڑتے رہے بالآخر شہید ہو گئے۔ ان کے بعد جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا تھام لیا۔ وہ بھی دشمن سے لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ ان کے بعد عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا سنبھالا۔ وہ بھی دشمن سے لڑتے لڑتے شہادت سے سرفراز ہوگئے۔ ان کے بعد خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا سنبھال لیا۔ اور اللہ نے ان کے ہاتھوں فتح نصیب فرمائی۔ ان کی اطلاع نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی۔ آپ لوگوں کی طرف باہر تشریف لائے۔ اور اللہ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا کہ تمہارے بھائیوں کا دشمن سے مقابلہ ہوا۔ سب سے پہلے زید نے جھنڈا اُٹھایا۔ وہ لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ ان کے بعد جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بن ابی طالب نے جھنڈا اُٹھایا وہ بھی لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ ان کے بعد عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا سنبھالا لیا۔ وہ بھی لڑتے لڑتے شہادت کے رتبہ پر فائز ہو گئے۔ ان کے بعد اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جھنڈا سنبھالا اور ان کے ہاتھوں اللہ نے فتح نصیب فرمائی۔ آل جعفر تین روز تک اس انتظار میں رہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں تشریف لے جائیں تیسرے دن کے بعد آپ ان کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا تم آج کے بعد میرے بھائی پر مت رونا، میرے بھتیجوں کوبلاؤ ہمیں لایا گیا تو ہم چوزوں کی طرح بالکل چھوٹے چھوٹے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا نائی کو بلاؤ اسے بلایا گیا تو اس نے ہمارے سر مونڈ دئیے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایایہ محمد تو ہمارے چچا ابو طالب کے مشابہ ہے۔ اور عبداللہ شکل وصورت اور مزاج میں میرے ساتھ مشابہت رکھتا ہے۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر اوپر کو اُٹھا کر فرمایایا اللہ جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے اہل وعیال میں اس کا نائب بنا اور عبداللہ کی تجارت میں برکت فرما۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ دعا تین مرتبہ کی۔ ہماری والدہ آپ کے پاس آئی اور اس نے اس قسم کا اظہار کیاکہیہ بچے اب بے آسرا ہیں۔ تو آپ نے فرمایا کیا تم ان کے بارے میں فقروفاقہ کا اندیشہ کرتی ہو؟ دنیا اور آخرت میں میں ان کا سرپرست ہوں۔

Haidth Number: 10843
سیدنا عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدناعبد اللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ایک لشکر میں بھیجا،یہ جمعہ کا دن تھا، انھوں نے اپنے ساتھیوں کو بھیج دیا اور اپنے بارے میں کہا: میں پیچھے رہ جاتا ہوں، تاکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نمازِ جمعہ ادا کر لوں، پھر ان کو جا ملوں گا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو دیکھا تو فرمایا: کس چیز نے تجھے صبح کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ نکل جانے سے روک لیا؟ انھوں نے کہا: جی میرا ارادہ یہ تھا کہ آپ کے ساتھ نمازِ جمعہ ادا کر کے ان کو جا ملوں گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زمین میں جو کچھ ہے، اگر تو وہ سارا کچھ خرچ کر دے تو ان کے صبح کو روانہ ہو جانے کے اجر کو نہیں پا سکتا۔

Haidth Number: 10844
سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: طلحہ نے رسول اللہ کے ساتھ جو کچھ کیا ہے، اس وجہ سے اس نے اپنے حق میں (جنت کو) ثابت کر لیا ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سیدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے بیٹھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی پشت پر چڑھ گئے۔

Haidth Number: 11753
قیس کہتے ہیں: میں نے سیدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا کہ ان کا ہاتھ شل ہو چکا تھا، انہوںنے اس کے ذریعے احد کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف آنے والے تیروں کو روکا تھا۔

Haidth Number: 11754

۔ (۱۲۳۱۲)۔ وَعَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ: قُلْتُ لِسَعْدِ بْنِ مَالِکٍ: إِنِّی أُرِیدُ أَنْ أَسْأَلَکَ عَنْ حَدِیثٍ، وَأَنَا أَہَابُکَ أَنْ أَسْأَلَکَ عَنْہُ، فَقَالَ: لَا تَفْعَلْ یَا ابْنَ أَخِی! إِذَا عَلِمْتَ أَنَّ عِنْدِی عِلْمًا فَسَلْنِی عَنْہُ وَلَا تَہَبْنِی، قَالَ: فَقُلْتُ: قَوْلُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِعَلِیٍّ حِینَ خَلَّفَہُ بِالْمَدِینَۃِ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ، فَقَالَ سَعْدٌ: خَلَّفَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِیًّا بِالْمَدِینَۃِ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَتُخَلِّفُنِی فِی الْخَالِفَۃِ فِی النِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ؟ فَقَالَ: ((أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُونَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُوسٰی؟)) قَالَ: بَلٰی،یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ: فَأَدْبَرَ عَلِیٌّ مُسْرِعًا کَأَنِّی أَنْظُرُ إِلٰی غُبَارِ قَدَمَیْہِیَسْطَعُ، وَقَدْ قَالَ حَمَّادٌ: فَرَجَعَ عَلِیٌّ مُسْرِعًا۔ (مسند احمد: ۱۴۹۰)

سعید بن مسیب ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سعد بن مالک یعنی سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: میں آپ سے ایک حدیث کی بابت دریافت کرنا چاہتا ہوں، لیکن آپ سے ہیبت زدہ بھی ہوں،انہوں نے کہا: بھتیجے! ایسا نہ کرو، اگر تم جانتے ہو کہ میرے پا س کسی چیز کا علم ہے تو پوچھ لو اور مجھ سے مت ڈرو، میں نے کہا: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غزوۂ تبوک کے موقع پر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیچھے مدینہ ـمیں چھوڑ گئے تھے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کیا فرمایا تھا؟ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ تبوک کے موقع پر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیچھے مدینہ میں چھوڑا تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے پیچھے رہ جانے والے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ کر جارہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تمہارا میرے ساتھ وہی تعلق ہو جو ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام سے تھا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسو ل! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات سن کر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خوشی خوشی تیزی سے واپس ہوگئے، گویا کہ اب بھی میں ان کے قدموں سے اڑتا غبار دیکھ رہا ہوں۔ حماد راوی کے الفاظ یہ ہیں:یہ سن کر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تیزی سے واپس ہولیے۔

Haidth Number: 12312
۔ (دوسری سند) سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ نکلے ،یہاں تک کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثنیۂ وداع تک پہنچے تو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے روتے ہوئے کہا: آپ مجھے پیچھے رہ جانے والوں یعنی عورتوں اور بچوں میں چھوڑ ے جارہے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ تمہارا میرے ساتھ وہی تعلق ہو، جو ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام سے تھا، ما سوائے نبوت کے فرق کے؟

Haidth Number: 12313
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ (غزوۂ تبوک کے موقع پر ) جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیچھے چھوڑ جانے کا ارادہ کیا تو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: آپ مجھے یوں پیچھے چھوڑ جائیں گے تو لوگ میرے بارے میں کیا کہیں گے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیاتمہیںیہ پسند نہیں کہ تمہارا تعلق میرے ساتھ وہی ہو، جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام کا تھا، الایہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

Haidth Number: 12314
موسیٰ جہنی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں فاطمہ بنت علی کی خدمت میں گیا،میرے رفیق ابو سہل نے ان سے کہا: آپ کی عمر کتنی ہے؟ انہوںنے کہا: چھیاسی برس، ابو سہل نے کہا: آپ نے اپنے والد (سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) کے بارے میں کیا کچھ سنا ہے؟ انہوں نے کہا: سیدہ اسماء بنت عمیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تمہارا مجھ سے وہی مقام ہے، جو ہارون علیہ السلام کا موسی علیہ السلام سے تھا، الایہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

Haidth Number: 12315
مجاہدسے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے مدینہ منورہ تک سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ سفر کیا، دروانِ سفر میں نے ان سے صرف ایک حدیث سنی، انھوں نے کہا: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس موجود تھے کہ کھجور کے درخت کا گودا پیش کیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: درختوں میں سے ایک درخت کی مثال مسلمان جیسی ہے۔ میں نے کہنا چاہا کہ اس درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے، مگر میں نے دیکھا کہ میں حاضرین مجلس میں سب سے کم سن ہوں، اس لیے میں خاموش رہا، بعدمیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود ہی فرما دیا کہ یہ کھجور کا درخت ہے۔

Haidth Number: 12766
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں ایک ایسا درخت جانتا ہوں کہ جس کی برکت مسلمان کی طرح ہے اور وہ کھجور کا درخت ہے۔

Haidth Number: 12767
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مومن کی مثال ایک ایسے درخت جیسی ہے، جس کے پتے نہیں جھڑتے، وہ کون سا درخت ہوسکتا ہے؟ سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: لوگوں نے مختلف درختوں کے نام لیے، مگر وہ صحیح جواب نہ بتلا سکے، میں نے ارادہ کیا کہ کہہ دوں یہ کھجور کا درخت ہے، مگرمیں جھجک گیا، بالآخر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ کھجور کا درخت ہے۔

Haidth Number: 12768
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اس طرح بھی روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مومن کی مثال ایک ایسے درخت کی مانند ہے، جس کے پتے جھڑتے نہیں ہیں۔ لوگ جنگل کے مختلف درختوں کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنے لگے، میرے دل میں خیال آیا کہ یہ کھجور کا درخت ہے، مگر کم سن ہونے کی وجہ سے بولنے میں جھجکتا رہا، آخر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کھجور کا درخت ہے۔ ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے اس بات کا سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا: بیٹے! تمہیں بات کرنے سے کون سی بات مانع رہی؟ اللہ کی قسم! اگر تم یہ بات وہاںکہہ دیتے تو یہ آج میرے لیے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوتی۔

Haidth Number: 12769