Blog
Books
Search Hadith

{اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ} کی تفسیر

14 Hadiths Found

۔ (۸۶۰۸)۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ قَالَ: نَظَرَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی أَصْحَابِہِ وَہُمْ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَنَیِّفٌ، وَنَظَرَ إِلَی الْمُشْرِکِینَ فَإِذَا ہُمْ أَ لْفٌ وَزِیَادَۃٌ، فَاسْتَقْبَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْقِبْلَۃَ ثُمَّ مَدَّ یَدَہُ وَعَلَیْہِ رِدَاؤُہُ وَإِزَارُہُ ثُمَّ قَالَ: ((اللّٰہُمَّ أَ یْنَ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ أَ نْجِزْ مَا وَعَدْتَنِی، اللّٰہُمَّ إِنْ تُہْلِکْ ہٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ أَ ہْلِ الْإِسْلَامِ، فَلَا تُعْبَدْ فِی الْأَ رْضِ أَ بَدًا۔)) قَالَ: فَمَا زَالَ یَسْتَغِیثُ رَبَّہُ وَیَدْعُوہُ حَتّٰی سَقَطَ رِدَاؤُہُ فَأَ تَاہُ أَ بُو بَکْرٍ فَأَ خَذَ رِدَائَ ہُ فَرَدَّاہُ، ثُمَّ الْتَزَمَہُ مِنْ وَرَائِہِ ثُمَّ قَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! کَفَاکَ مُنَاشَدَتُکَ رَبَّکَ، فَإِنَّہُ سَیُنْجِزُ لَکَ مَا وَعَدَکَ وَأَ نْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی: {إِذْ تَسْتَغِیثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَ نِّی مُمِدُّکُمْ بِأَ لْفٍ مِنْ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ۔} [الأنفال: ۹] فَلَمَّا کَانَ یَوْمَئِذٍ وَالْتَقَوْا فَہَزَمَ اللّٰہُ الْمُشْرِکِینَ فَقُتِلَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا وَأُسِرَ مِنْہُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا۔ الحدیث۔ (مسند احمد: ۲۰۸)

۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے بدر کے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ کی جانب دیکھا، وہ تین سو سے کچھ اوپر تھے، پھرمشرکوں کی طرف دیکھا اور وہ ایک ہزار سے کچھ زیادہ تھے،پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبلہ رخ ہوگئے اور ہاتھ اٹھا لئے، آپ نے تہبند باندھا ہوا تھا اور چادر اوڑھی ہوئیتھی، پھر یہ دعا کی: میرے اللہ! جو تو نے مجھ سے مدد کا وعدہ کیا تھا، وہ کہاں ہے، اے میرے اللہ! جو تونے مجھ سے وعدہ کیا ہے، وہ پورا کردے، اے میرے اللہ! اگر اسلام والوں کییہ جماعت تو نے ہلاک کر دی تو زمین میں کبھی بھی تیری عبادت نہیں کی جائے گا۔آپ اپنے رب سے مدد طلب کرتے رہے اور اسے پکارتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی چادر گر پڑی۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگے آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چادر پکڑ کر اوپر اوڑھائی اورکمر کی جانب سے ساتھ چمٹ گئے اور پھر کہا: اے اللہ کے نبی! اپنے رب سے جو آپ نے التجاء کی ہے، یہ کافی ہے، اللہ تعالی نے آپ سے جو وعدہ کیا ہوا ہے، وہ اسے پورا کرے گا، اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری: {إِذْ تَسْتَغِیثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَ نِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنْ الْمَلَائِکَۃِ مُرْدِفِینَ۔} … جب تم اپنے رب سے مدد طلب کر رہے تھے، پس اس نے تمہاری دعا قبول فرمائی اور کہا: میںتمہارے لئے پے در پے ایک ہزار فرشتے نازل کرنے والا ہوں۔ پھر جب اس دن جنگ ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو شکست دی، ان میں سے ستر (۷۰) آدمی مارے گئے اور ستر (۷۰) ہی قیدی بن گئے۔

Haidth Number: 8608

۔ (۱۰۸۹۷)۔ عَنْ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْفِہْرِیِّ قَالَ: کُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزْوَۃِ حُنَیْنٍ، فَسِرْنَا فِییَوْمٍ قَائِظٍ شَدِیدِ الْحَرِّ، فَنَزَلْنَا تَحْتَ ظِلَالِ الشَّجَرِ، فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ لَبِسْتُ لَأْمَتِی وَرَکِبْتُ فَرَسِی فَانْطَلَقْتُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ فِی فُسْطَاطِہِ، فَقُلْتُ: السَّلَامُ عَلَیْکَیَا رَسُولَ اللّٰہِ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ حَانَ الرَّوَاحُ، فَقَالَ: ((أَجَلْ۔)) فَقَالَ: ((یَا بِلَالُ!)) فَثَارَ مِنْ تَحْتِ سَمُرَۃٍ کَأَنَّ ظِلَّہُ ظِلُّ طَائِرٍ، فَقَالَ: لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ، وَأَنَا فِدَاؤُکَ فَقَالَ: ((أَسْرِجْ لِی فَرَسِی۔)) فَأَخْرَجَ سَرْجًا دَفَّتَاہُ مِنْ لِیفٍ لَیْسَ فِیہِمَا أَشَرٌ وَلَا بَطَرٌ، قَالَ: فَأَسْرَجَ قَالَ: فَرَکِبَ وَرَکِبْنَا فَصَافَفْنَاہُمْ عَشِیَّتَنَا وَلَیْلَتَنَا فَتَشَامَّتِ الْخَیْلَانِ فَوَلَّی الْمُسْلِمُونَ مُدْبِرِینَ کَمَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا عِبَادَ اللّٰہِ أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُولُہُ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((یَا مَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ! أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُولُہُ۔)) قَالَ: ثُمَّ اقْتَحَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ فَرَسِہِ فَأَخَذَ کَفًّا مِنْ تُرَابٍ فَأَخْبَرَنِی الَّذِی کَانَ أَدْنَی إِلَیْہِ مِنِّی ضَرَبَ بِہِ وُجُوہَہُمْ، وَقَالَ: ((شَاہَتِ الْوُجُوہُ۔)) فَہَزَمَہُمُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ یَعْلَی بْنُ عَطَائٍ: فَحَدَّثَنِی أَبْنَاؤُہُمْ عَنْ آبَائِہِمْ أَنَّہُمْ قَالُوا: لَمْ یَبْقَ مِنَّا أَحَدٌ إِلَّا امْتَلَأَتْ عَیْنَاہُ وَفَمُہُ تُرَابًا، وَسَمِعْنَا صَلْصَلَۃً بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ کَإِمْرَارِ الْحَدِیدِ عَلَی الطَّسْتِ الْحَدِیدِ۔ (مسند احمد: ۲۲۸۳۴)

سیدنا ابو عبدالرحمن فہری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں غزوۂ حنین میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، ہم شدید گرمی والے ایک دن میں چلتے رہے، ہم نے درختوں کے سائے کے نیچے قیام کیا، جب سورج ڈھل گیا تو میں نے اپنے ہتھیار سجا لیے اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف روانہ ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک خیمہ میں تھے، میں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ پر سلام اور اللہ کی رحمت ہو، روانگی کا وقت ہو چکا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں،پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو آواز دی، وہ ایک کیکریا ببول کے نیچے سے جلدی سے اُٹھ کر آئے، اس کا سایہ پرندے کے سائے کی طرح تھا، انہوں نے کہا: میں آپ پر قربان جاؤں، میں حاضر ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے گھوڑے پر زین کسو۔ انہوں نے زین نکالی، جس کے دونوں پہلو کھجور کی جالی دار جھلی کے تھے، جن میں فخروغرور کا کوئی عنصر نہ تھا، پس انہوں نے زین کس دی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھوڑے پر سوار ہو گئے اور ہم بھی اپنی اپنی سواریوں پر سوار ہو گئے، جب ہم دن کے پچھلے پہر اور ساری رات دشمن کے بالمقابل صف آراء رہے۔ دونوں گروہوں کی انتہائی کوشش تھی کہ وہ اپنے فریق مخالف پر غالب رہے، مسلمان پیٹھ دے کر ہٹ آئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا قرآن کریممیں تذکرہ کیا ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کے بندو! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: اے مہاجرین کی جماعت ! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے گھوڑے سے اتر آئے اور جو آدمی میری نسبت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب تر تھا، اس نے بتایا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مٹھی بھر مٹی لے کر ان کے چہروں کی طرف پھینکی اور فرمایا: یہ چہرے رسوا اور ذلیل ہو گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کفار کو ہزیمت دی۔ یحییٰ بن عطاء نے حماد بن سلمہ کو بیان کیا کہ کفار کی اولاد نے اپنے آباء سے روایت کیا کہ انہوں نے بتایا کہ ہم میں سے ہر ایک کی آنکھیں اور منہ مٹی سے بھر گئے اور ہم نے آسمان اور زمین کے درمیان ایسی آواز سنی، جیسے لوہے کے تھال پر لوہا گھسیٹنے سے پیدا ہوتی ہے۔

Haidth Number: 10897

۔ (۱۰۸۹۸)۔ عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ قَالَ: شَہِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حُنَیْنًا، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَا مَعَہُ إِلَّا أَنَا وَأَبُو سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَلَزِمْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمْ نُفَارِقْہُ، وَہُوَ عَلٰی بَغْلَۃٍ شَہْبَائَ، وَرُبَّمَا قَالَ مَعْمَرٌ: بَیْضَائَ، أَہْدَاہَا لَہُ فَرْوَۃُ بْنُ نَعَامَۃَ الْجُذَامِیُّ، فَلَمَّا الْتَقَی الْمُسْلِمُونَ وَالْکُفَّارُ وَلَّی الْمُسْلِمُونَ مُدْبِرِینَ، وَطَفِقَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَرْکُضُ بَغْلَتَہُ قِبَلَ الْکُفَّارِ، قَالَ الْعَبَّاسُ: وَأَنَا آخِذٌ بِلِجَامِ بَغْلَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَکُفُّہَا، وَہُوَ لَا یَأْلُو مَا أَسْرَعَ نَحْوَ الْمُشْرِکِینَ، وَأَبُو سُفْیَانَ بْنُ الْحَارِثِ آخِذٌ بِغَرْزِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا عَبَّاسُ! نَادِ یَا أَصْحَابَ السَّمُرَۃِ۔)) قَالَ وَکُنْتُ رَجُلًا صَیِّتًا فَقُلْتُ بِأَعْلَی صَوْتِی: أَیْنَ أَصْحَابُ السَّمُرَۃِ؟ قَالَ: فَوَاللّٰہِ لَکَأَنَّ عَطْفَتَہُمْ حِینَ سَمِعُوا صَوْتِی عَطْفَۃُ الْبَقَرِ عَلٰی أَوْلَادِہَا، فَقَالُوا: یَا لَبَّیْکَیَا لَبَّیْکَ، وَأَقْبَلَ الْمُسْلِمُونَ فَاقْتَتَلُوا ہُمْ وَالْکُفَّارُ، فَنَادَتِ الْأَنْصَارُ یَقُولُونَ: یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ ثُمَّ قَصَّرَتِ الدَّاعُونَ عَلٰی بَنِی الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ فَنَادَوْا: یَا بَنِی الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، قَالَ: فَنَظَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ عَلٰی بَغْلَتِہِ کَالْمُتَطَاوِلِ عَلَیْہَا إِلٰی قِتَالِہِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((ہٰذَا حِینَ حَمِیَ الْوَطِیسُ۔)) قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَصَیَاتٍ فَرَمٰی بِہِنَّ وُجُوہَ الْکُفَّارِ، ثُمَّ قَالَ: ((انْہَزَمُوا وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ، انْہَزَمُوا وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔)) قَالَ: فَذَہَبْتُ أَنْظُرُ فَإِذَا الْقِتَالُ عَلٰی ہَیْئَتِہِ فِیمَا أَرٰی، قَالَ: فَوَاللّٰہِ! مَا ہُوَ إِلَّا أَنْ رَمَاہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِحَصَیَاتِہِ فَمَا زِلْتُ أَرٰی حَدَّہُمْ کَلِیلًا وَأَمْرَہُمْ مُدْبِرًا حَتّٰی ہَزَمَہُمُ اللّٰہُ، قَالَ: وَکَأَنِّی أَنْظُرُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَرْکُضُ خَلْفَہُمْ عَلٰی بَغْلَتِہِ۔ (مسند احمد: ۱۷۷۵) (۱۰۸۹۹)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ کَثِیرِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کَانَ عَبَّاسٌ وَأَبُو سُفْیَانَ مَعَہُ یَعْنِی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَخَطَبَہُمْ وَقَالَ: ((الْآنَ حَمِیَ الْوَطِیسُ۔)) وَقَالَ: ((نَادِ: یَا أَصْحَابَ سُورَۃِ الْبَقَرَۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۷۶)

سیدنا عباس بن عبدالمطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ غزوۂ حنین میں شریک تھا، میں نے دیکھا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ صرف میں اور سیدنا ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رہ گئے تھے، ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ساتھ رہے اور ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جدا نہیں ہوئے، آپ اپنے سفید خچر پر سوار تھے، یہ خچر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فروہ بن نعامہ جزامی نے بطور ہدیہ بھیجا تھا، جب مسلمانوں اور کفار کا مقابلہ ہوا تو مسلمان پیٹھ دے کر بھاگ اُٹھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے خچر کو ایڑ لگا کر کفار کی طرف بڑھنے لگنے، سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خچر کی باگ کو پکڑے ہوئے تھا، اسے ذرا روکنے کی کوشش کرتا لیکن آپ کو شش کرکے تیزی سے مشرکین کی طرف بڑھتے رہے۔ ابو سفیان بن حارث رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رکاب کو تھامے ہوئے تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عباس! اصحاب سمرہ کو آواز دو۔ ( یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے کیکریا ببول کے درخت کے نیچے بیعت کی تھی) ، وہ بلند آواز والے آدمی تھے، انھوں نے کہا: اصحاب سمرہ کہاں ہیں؟ اللہ کی قسم ان لوگوں نے میری آواز سنی تو فوراً اس طرح واپس آئے، جیسے گائے اپنے بچے کی طرف دوڑ کر آتی ہے اور انہوں نے آتے ہی کہا: جی ہم حاضر ہیں، جی ہم حاضر ہیں، باقی مسلمان بھی لوٹ آئے، ان کے اور کفار کے درمیان لڑائی ہوئی۔ انصار نے ایک دوسرے کو بلایا: اے انصار کی جماعت! پھر بلانے والوں نے اپنے جدااعلیٰ کے نام سے پکارنے پر اکتفا کیا اور کہا: اے حارث بن خزرج کی اولاد! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے خچر کے اوپر سے نظر لمبی کر کے میدانِ قتال کی طرف دیکھا اور فرمایا: اب میدان گرم ہوا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چند کنکریاں لے کر ان کو کفار کے چہروں پر پھینکا اور فرمایا: رب کعبہ کی قسم! رب کعبہ کی قسم! وہ شکست خوردہ ہو کر فرار ہو گئے۔ میں نے دیکھا تو مجھے یوں لگا جیسے لڑائی اسی طرح جا ری ہے، اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کنکریاں پھینکنے کی دیر تھی کہ میں نے ان کی دھار کو کند دیکھا،یعنی ان کے حوصلے پست ہو گئے اور ان کی حالت کمزور ہو گئی،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست سے دو چار کر دیا، گویایہ منظر اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پیچھے اپنے خچر کو ایڑ لگا رہے تھے۔

Haidth Number: 10898
۔( دوسری سند) کثیر بن عباس سے مروی ہے کہ سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا ابو سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رہ گئے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب تنور یعنی میدان گرم ہوا ہے۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم یوں آواز دو: اے سورۂ بقرہ والو!

Haidth Number: 10899

۔ (۱۰۹۰۰)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ کُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ حُنَیْنٍ، قَالَ: فَوَلّٰی عَنْہُ النَّاسُ وَثَبَتَ مَعَہُ ثَمَانُونَ رَجُلًا مِنَ الْمُہَاجِرِین وَالْأَنْصَارِ، فَنَکَصْنَا عَلٰی أَقْدَامِنَا نَحْوًا مِنْ ثَمَانِینَ قَدَمًا وَلَمْ نُوَلِّہِمُ الدُّبُرَ، وَہُمُ الَّذِینَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْہِمُ السَّکِینَۃَ، قَالَ: وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی بَغْلَتِہِ یَمْضِی قُدُمًا فَحَادَتْ بِہِ بَغْلَتُہُ، فَمَالَ عَنِ السَّرْجِ فَقُلْتُ لَہُ: ارْتَفِعْ رَفَعَکَ اللَّہُ، فَقَالَ: ((نَاوِلْنِی کَفًّا مِنْ تُرَابٍ۔)) فَضَرَبَ بِہِ وُجُوہَہُمْ فَامْتَلَأَتْ أَعْیُنُہُمْ تُرَابًا، ثُمَّ قَالَ: ((أَیْنَ الْمُہَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ؟)) قُلْتُ: ہُمْ أُولَائِ قَالَ: ((اہْتِفْ بِہِمْ۔)) فَہَتَفْتُ بِہِمْ فَجَائُ وْا وَسُیُوفُہُمْ بِأَیْمَانِہِمْ کَأَنَّہَا الشُّہُبُ، وَوَلَّی الْمُشْرِکُونَ أَدْبَارَہُمْ۔ (مسند احمد: ۴۳۳۶)

سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ حنین کے دن میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھا، لوگ پیٹھ دے کر اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو میدان میں چھوڑ کر فرار ہو نے لگے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ صرف اسی مہاجرین اور انصار باقی رہ گئے تھے، ہم اپنے قدموں پر تقریباً اسی قدم پیچھے ہٹے تھے اور ہم نے کفار کو پیٹھ نہیں دکھائی تھی، انہی لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے سکینت نازل کی تھی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے خچر پر سوار ہو کر آگے بڑھتے گئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خچر بدکا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی کاٹھی سے ذرا اُچھکے، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا: آپ سیدھے ہو جائیں، اللہ آپ کو مزید بلند کرے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے ایک مٹھی بھر مٹی پکڑاؤ۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ مٹی کفار کے چہروں کی طرف پھینکی، ان کی آنکھیں مٹی سے بھر گئی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مہاجرین اور انصار کہاں ہیں؟ میں نے عرض کیا: وہ لوگ ادھر ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کو آواز دے کر بلاؤ۔ میں نے ان کو آواز دے کر بلایا، وہ سب آگئے، ان کی تلواریں ان کے ہاتھوں میں تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ وہ آگ کے شعلے ہیں، اس کے بعد مشرکین پیٹھ دکھا کر بھاگ گئے۔

Haidth Number: 10900

۔ (۱۰۹۰۱)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: فَتَحْنَا مَکَّۃَ ثُمَّ إِنَّا غَزَوْنَا حُنَیْنًا: فَجَائَ الْمُشْرِکُونَ بِأَحْسَنِ صُفُوفٍ رَأَیْتُ أَوْ رَأَیْتَ، فَصُفَّ الْخَیْلُ، ثُمَّ صُفَّتِ الْمُقَاتِلَۃُ، ثُمَّ صُفَّتِ النِّسَائُ مِنْ وَرَائِ ذٰلِکَ، ثُمَّ صُفَّتِ الْغَنَمُ، ثُمَّ صُفَّتِ النَّعَمُ، قَالَ: وَنَحْنُ بَشَرٌ کَثِیرٌ قَدْ بَلَغْنَا سِتَّۃَ آلَافٍ وَعَلٰی مُجَنِّبَۃِ خَیْلِنَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ، قَالَ: فَجَعَلَتْ خُیُولُنَا تَلُوذُ خَلْفَ ظُہُورِنَا، قَالَ: فَلَمْ نَلْبَثْ أَنِ انْکَشَفَتْ خُیُولُنَا، وَفَرَّتِ الْأَعْرَابُ وَمَنْ نَعْلَمُ مِنَ النَّاسِ، قَالَ: فَنَادٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا لَلْمُہَاجِرِینَ! یَا لَلْمُہَاجِرِینَ!)) ثُمَّ قَالَ: ((یَا لَلْأَنْصَارِ! یَا لَلْأَنْصَارِ!)) قَالَ أَنَسٌ: ہٰذَا حَدِیثُ1 عِمِّیَّۃٍ، قَالَ: قُلْنَا: لَبَّیْکَیَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَیْمُ اللّٰہِ! مَا أَتَیْنَاہُمْ حَتّٰی ہَزَمَہُمُ اللَّہُ، قَالَ: فَقَبَضْنَا ذٰلِکَ الْمَالَ ثُمَّ انْطَلَقْنَا إِلَی الطَّائِفِ فَحَاصَرْنَاہُمْ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً، ثُمَّ رَجَعْنَا إِلٰی مَکَّۃَ، قَالَ: فَنَزَلْنَا فَجَعَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُعْطِی الرَّجُلَ الْمِائَۃَ، وَیُعْطِی الرَّجُلَ الْمِائَۃَ، قَالَ: فَتَحَدَّثَ الْأَنْصَارُ بَیْنَہَا أَمَّا مَنْ قَاتَلَہُ فَیُعْطِیہِ، وَأَمَّا مَنْ لَمْ یُقَاتِلْہُ فَلَا یُعْطِیہِ، قَالَ: فَرُفِعَ الْحَدِیثُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ أَمَرَ بِسَرَاۃِ الْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ أَنْ یَدْخُلُوا عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: ((لَا یَدْخُلْ عَلَیَّ إِلَّا أَنْصَارِیٌّ أَوِ الْأَنْصَارُ۔)) قَالَ: فَدَخَلْنَا الْقُبَّۃَ حَتَّی مَلَأْنَا الْقُبَّۃَ، قَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ! (أَوْ کَمَا قَالَ) مَا حَدِیثٌ أَتَانِی؟)) قَالُوْا: مَا أَتَاکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((مَا حَدِیثٌ أَتَانِی؟)) قَالُوا: مَا أَتَاکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((أَلَا تَرْضَوْنَ أَنْ یَذْہَبَ النَّاسُ بِالْأَمْوَالِ، وَتَذْہَبُونَ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی تَدْخُلُوا بُیُوتَکُمْ؟)) قَالُوْا: رَضِینَایَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَوْ أَخَذَ النَّاسُ شِعْبًا وَأَخَذَتِ الْأَنْصَارُ شِعْبًا لَأَخَذْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ۔)) قَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! رَضِینَا، قَالَ: ((فَارْضَوْا۔)) أَوْ کَمَا قَالَ۔ (مسند احمد: ۱۲۶۳۵)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے مکہ مکرمہ کو فتح کر لیا، پھر ہم نے حنین پر چڑھائی کی، اس موقع پر مشرکین اس قدر عمدہ صف بندی کر کے آئے کہ میں نے اور تم نے اس سے بہتر صف بندی نہیں دیکھی ہو گی۔ سب سے پہلے گھوڑوں کی قطار بنائی گئی، پھر پیدل جنگ جو لوگوں کی قطار تھی، ان کے پیچھے عورتوں کی قطار تھی، ان کے پیچھے بکریوں کی اور ان سے پیچھے اونٹوں کی، ہماری بھی بہت تعداد تھی، ہم چھ ہزار کی تعداد کو پہنچ رہے تھے اور ہمارے گھڑ سواروں کے جو دستے لشکر کے دونوں پہلوؤں میں تھے، ان کے سربراہ سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، ہمارے گھوڑے ہماری سواریوں اونٹوں کی پناہ ڈھونڈنے لگے، تھوڑی دیر گزری تھی کہ ہمارے گھوڑے بھاگ اُٹھے اور دیہاتی لوگ اور جن لوگوں کو ہم پہنچانتے تھے، وہ سب فرار ہونے لگے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آوازیں دیں: او مہاجرو! او مہاجرو! پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انصار کو آواز دی اور فرمایا: او انصاریو! او انصاریو! سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث ان احادیث میں سے ہے جو مجھے میرے چچا نے بیان کی ہیں، (اور قاضی عیاض نے لکھا ہے کہ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ یہ حدیث ان احادیث میں سے ہے جو مجھے بہت سے لوگوں نے بیان کی ہے۔) وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پکار پر ہم سب نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!ہم حاضر ہیں، تب اللہ کے رسول آگے بڑھے، اللہ کی قسم! ہمارے ان کے پاس پہنچتے ہی اللہ تعالیٰ نے ان دشمنوں کو شکست سے دو چار کر دیا۔ ہم نے وہ سارا مال اپنے قبضے میں لے لیا، پھر ہم طائف کی طرف چل دئیے، ہم نے چالیس دن تک ان کا محاصرہ کئے رکھا، اس کے بعد ہم مکہ مکرمہ کی طرف واپس لوٹ آئے، ہم یہاں پہنچے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک ایک آدمی کو سو سو (اونٹ) دینا شروع کیے، انصار آپس میں کچھ ایسی باتیں کرنے لگے کہ جن لوگوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے لڑائیاں کیں،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان ہی کو دے رہے ہیں اور جن لوگوں نے آپ سے کبھی لڑائی نہیں کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو نہیں دے ! حَدِیثُ عِمِّیَّۃٍ کے حوالے سے مختلف وجوہات کے لیے شرح النووی ملاحظہ فرمائیں۔ (عبداللہ رفیق) رہے۔ جب یہ بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک جا پہنچی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مہاجرین اور انصار کے سرکردہ لوگوں کو اپنے پاس بلوا کر فرمایا: انصار کے سوا کوئی دوسرا آدمی میرے پاس نہ آئے۔ ہم خیمہ کے اندر چلے گئے، خیمہ بھر گیا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے انصار کی جماعت! یہ مجھ تک کیا بات پہنچی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ تک کون سی بات پہنچی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ اموال لے کر جائیں اور تم اللہ کے رسول کو اپنے گھروں میں ساتھ لے کر جاؤ؟ وہ سب کہنے لگے: اے اللہ کے رسول ! ہم راضی ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تم اسی پر راضی رہو۔

Haidth Number: 10901
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: میں نے ایک خواب دیکھا کہ گویا میرے ہاتھ میں ریشم کا ایک قیمتی ٹکڑا ہے اور میں جنت میں جس طرف بھی اس سے اشار ہ کرتا ہوں وہ مجھے اپنے ساتھ اڑا کر ادھر ہی لے جاتا ہے۔ میری بہن ام المومنین سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان کا یہ خواب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بیان کیا تو آپ نے فرمایا: تمہارا بھائی عبد اللہ نیک اور صالح آدمی ہے۔

Haidth Number: 11804

۔ (۱۱۸۰۵)۔ عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: کَانَ الرَّجُلُ فِی حَیَاۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا رَأَی رُؤْیَا قَصَّہَا عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَتَمَنَّیْتُ أَنْ أَرٰی رُؤْیَا فَأَقُصَّہَا عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: وَکُنْتُ غُلَامًا شَابًّا عَزَبًا فَکُنْتُ أَنَامُ فِی الْمَسْجِدِ عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَرَأَیْتُ فِی النَّوْمِ کَأَنَّ مَلَکَیْنِ أَخَذَانِی فَذَہَبَا بِی إِلَی النَّارِ، فَإِذَا ہِیَ مَطْوِیَّۃٌ کَطَیِّ الْبِئْرِ، وَإِذَا لَہَا قَرْنَانِ وَإِذَا فِیہَا نَاسٌ قَدْ عَرَفْتُہُمْ، فَجَعَلْتُ أَقُولُ: أَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ النَّارِ، أَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ النَّارِ، فَلَقِیَہُمَا مَلَکٌ آخَرُ فَقَالَ لِی: لَنْ تُرَاعَ، فَقَصَصْتُہَا عَلٰی حَفْصَۃَ، فَقَصَّتْہَا حَفْصَۃُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((نِعْمَ الرَّجُلُ عَبْدُاللّٰہِ لَوْ کَانَ یُصَلِّی مِنَ اللَّیْلِ۔)) قَالَ سَالِمٌ: فَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ لَا یَنَامُ مِنَ اللَّیْلِ إِلَّا قَلِیلًا۔ (مسند احمد: ۶۳۳۰)

سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زندگی میں جو بھی آدمی کوئی خواب دیکھتا، وہ اسے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیان کرتا۔ میری بھی خواہش تھی کہ میں بھی کوئی خواب دیکھوں اور اسے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیان کروں، میں کنوارا نوجوان تھا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانہ میں مسجد میں سویا کرتا تھا، میں نے خواب دیکھا گویا کہ دو فرشتوں نے مجھے پکڑا اور مجھے جہنم کی طرف لے گئے، وہ اس طرح چنی گئی تھی جیسے کنواں چنا جاتا ہے اور اس کے اوپر (کنویں کی طرح کے) دو ستون تھے، جب میں نے اس میں دیکھا تومجھے اس میں ایسے لوگ دکھائیدیئے جن کو میں پہنچانتا تھا۔ میں ڈر کر کہنے لگا: اُعوذُ باللّٰہِ مِنَ النَّار،اُعوذُ باللّٰہِ مِنَ النَّار (میں جہنم سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں، میں جہنم سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔) ایک فرشتہ ان دونوں فرشتوں سے آ ملا، اس نے مجھ سے کہا: تم مت گھبرائو۔ میں نے یہ خواب اپنی ہمشیرہ سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو بیان کیا، جب انہوںنے یہ خواب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیان کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عبداللہ اچھا آدمی ہے، کاش کہ وہ رات کو نمازپڑھا کرے۔ سالم کہتے ہیں: اس کے بعد سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رات کو کم ہی سویا کرتے تھے۔

Haidth Number: 11805
مجاہد سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ موجود تھے اور ان کی عمر بیس سال تھی، ان کے پاس ایک شاندار گھوڑا اور ایک خاصا وزنی نیزہ تھا۔ ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے گھوڑے کے لیے گھاس کاٹنے گئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک عبداللہ (صالح آدمی ہے)، بے شک عبداللہ (صالح آدمی ہے)۔

Haidth Number: 11806
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے غزوۂ احد کے موقع پیش ہوئے، اس وقت ان کی عمر چودہ برس تھی، آپ نے ان کو جنگ میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی، پھر وہ خندق کے موقع پر پیش ہوئے،تب ان کی عمر پندرہ برس تھی، تونبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی۔

Haidth Number: 11807

۔ (۱۲۳۸۱)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا غَالِبٍ یَقُولُ: لَمَّا أُتِیَ بِرُئُ وْسِ الْأزَارِقَۃِ، فَنُصِبَتْ عَلٰی دَرَجِ دِمَشْقَ، جَائَ أَبُو أُمَامَۃَ فَلَمَّا رَآہُمْ دَمَعَتْ عَیْنَاہُ، فَقَالَ: کِلَابُ النَّارِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ہٰؤُلَائِ شَرُّ قَتْلٰی قُتِلُوْا تَحْتَ أَدِیمِ السَّمَائِ، وَخَیْرُ قَتْلٰی قُتِلُوْا تَحْتَ أَدِیمِ السَّمَائِ الَّذِینَ قَتَلَہُمْ ہٰؤُلَائِ، قَالَ: فَقُلْتُ: فَمَا شَأْنُکَ دَمَعَتْ عَیْنَاکَ؟ قَالَ: رَحْمَۃً لَہُمْ إِنَّہُمْ کَانُوْا مِنْ أَہْلِ الْإِسْلَامِ، قَالَ: قُلْنَا: أَبِرَأْیِکَ؟ قُلْتَ: ہٰؤُلَائِ کِلَابُ النَّارِ، أَوْ شَیْئٌ سَمِعْتَہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ: إِنِّی لَجَرِیئٌ، بَلْ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَیْرَ مَرَّۃٍ وَلَا ثِنْتَیْنِ وَلَا ثَلَاثٍ، قَالَ: فَعَدَّ مِرَارًا۔ (مسند احمد: ۲۲۵۳۶)

ابو غالب کہتے ہیں: خارجیوں کے قتل کیے جانے کے بعد ان کے لا کر دمشق کی سیڑھی پر رکھ دئیے گئے، سیدنا ابو امامہ باہلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے، انہوںنے ان کو دیکھا تو ان کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں، وہ کہنے لگے:یہ لوگ جہنم کے کتے ہیں، آسمان کے نیچے قتل ہونے والوں میں سے یہ بد ترین مقتول ہیں اور اِنہوں نے جن لوگوں کو قتل کیا،وہ آسمان کے نیچے قتل ہونے والوں میں سے بہترین مقتول ہیں۔ ابو غالب کہتے ہیں: میںنے ان سے کہا: تو پھر آپ کی آنکھوں میں آنسو کیوں آگئے ہیں؟ انھوں نے کہا: ان لوگوں پر ترس آجانے کی وجہ سے، کیونکہ یہ لوگ بنیادی طور پر اہل اسلام ہیں۔ ابو غالب کہتے ہیں: ہم نے کہا: آپ نے ان کے متعلق کہا کہ یہ جہنم کے کتے ہیں، یہ بات آپ نے اپنی طرف سے کہی ہے یا یہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: اگر میں اپنی طرف سے کہوںتو پھر تو میں بڑا جری ہوں، یہ میں نے اپنی طرف سے نہیں کہی، بلکہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک، دو یا تین مرتبہ نہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ مرتبہ سنی ہے۔

Haidth Number: 12381
۔ (دوسری سند) سیدنا ابوامامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ انہوںنے جامع مسجد دمشق کی سیڑھیوں پر نصب شدہ سر دیکھے تو تین مرتبہ کہا: یہ جہنم کے کتے ہیں، یہ جہنم کے کتے ہیں، آسمان کے چھت کے نیچے قتل ہونے والوں میںسے یہ بد ترین مقتول ہیں اور اِنھوں نے جن لوگوں کو قتل کیا وہ آسمان کی چھت کے نیچے قتل ہونے والوں میںسے بہترین مقتول ہیں، پھر انہوں نے یہ دو آیات تلاوت کیںـ: {یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوہٌ} … قیامت کے رو ز بہت سے چہرے روشن اور بہت سے چہرے سیاہ ہوں گے۔ (سورۂ آل عمران:۱۰۶) میں ابو غالب نے سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا:آیا آپ نے یہ بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: اگر میں نے یہ بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دو، تین، چار، پانچ، چھ یا سات مرتبہ بھی نہ سنی ہوتی تو تم سے بیان نہ کرتا۔

Haidth Number: 12382
صفوان بن سلیم سے مروی ہے کہ سیدنا ابو امامہ باہلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دمشق میں داخل ہوئے اورانہوں نے حروری یعنی خارجی لوگوں کے سرلٹکے ہوئے دیکھے تو انھوں نے تین بار کہا: یہ لوگ جہنم کے کتے ہیں، یہ لوگ جہنم کے کتے ہیں، آسمان کی چھت کے نیچے قتل ہونے والوں میںسے یہ بد ترین مقتول ہیں اور اِنہوں نے جن لوگوں کو قتل کیا، وہ آسمان کی چھت کے نیچے قتل ہونے والوں میںسے بہترین مقتول ہیں۔ پھر وہ رونے لگے: ایک آدمی آپ کی طرف اٹھا اور اس نے کہا:اے ابوامامہ آپ ان کو دیکھ کرکیوں روئے؟ انہوںنے کہا:میں اس لیے رو رہا ہوں کہ یہ لوگ دائرہ اسلام سے نکل گئے، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے تفرقہ ڈالا اور دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔

Haidth Number: 12383
سیار سے مروی ہے کہ کچھ لوگوں کے سر عراق سے لا کر اور مسجد کے دروازے کے پاس نصب کر دیئے گئے، سیدنا ابوامامہ آئے اور مسجد میں داخل ہو ئے، دو رکعت نماز ادا کی،پھر ان کی طرف نکلے، ان کو دیکھا اور پھر سر اٹھایا اور کہا: یہ آسمان کے نیچے سب سے برے مقتول ہیں۔ یہ بات تین دفعہ دہرائی، پھر سابق روایت کے طرح آگے بیان کیا۔

Haidth Number: 12384