Blog
Books
Search Hadith

{وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا …} کی تفسیر

14 Hadiths Found

۔ (۸۶۱۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِیْ قَوْلِہِ تَعَالٰی: {وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ} قَالَ: تَشَاوَرَتْ قُرَیْشٌ لَیْلَۃً بِمَکَّۃَ فَقَالَ بَعْضُھُمْ: اِذَا أَ صْبَحَ فَأَ ثْبِتُوْہُ بِالْوَثَاقِ یُرِیْدُوْنَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَقَالَ بَعْضُھُمْ: بَلِ اقْتُلُوْہُ، وَقَالَ بَعْضُھُمْ: بَلْ أَ خْرِجُوْہُ، فَأَطْلَعَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ نَبِیَّہُ عَلٰی ذٰلِکَ فَبَاتَ عَلِیٌّ عَلٰی فِرَاشِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تِلْکَ اللَّیْلَۃَ، وَخَرَجَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی لَحِقَ بِالْغَارِ، وَبَاتَ الْمُشْرِکُوْنَ یَحْرُسُوْنَ عَلِیًّایَحْسِبُوْنَہُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا أَ صْبَحُوْا ثَارُوْا اِلَیْہِ فَلَمَّا رَأَوْا عَلِیًّا رَدَّ اللّٰہُ مَکْرَھُمْ، فَقَالُوْا: أَ یْنَ صَاحِبُکَ ھٰذَا؟ قَالَ: لَا أَ دْرِیْ، فَاقْتَصُّوْا اَثَرَہُ، فَلَمَّا بَلَغُوْا الْجَبَلَ خَلَطَ عَلَیْھِمْ، فَصََعِدُوْا فِی الْجَبَلِ فَمَرُّوْا بِالْغَارِ فَرَأَ وْا عَلٰی بَابِہٖنَسْجَالْعَنْکَبُوْتِ،فَقَالُوْا: لَوْدَخَلَ ھَاھُنَا لَمْ یَکُنْ نَسْجُ الْعَنْکَبُوْتِ عَلٰی بَابِہٖفَمَکَثَفِیْہِ ثَـلَاثَ لَیَالٍ۔ (مسند احمد: ۳۲۵۱)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے اس آیت {وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ}کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: قریشیوں نے مکہ میں ایک رات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بارے میں آپس میں مشورہ کیا، کسی نے کہا: جب صبح ہو تو اس (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کو بیڑیوں سے باندھ دو، کسی نے کہا: نہیں، بلکہ اس کو قتل کردو، کسی نے کہا: بلکہ اس کو نکال دو، اُدھر اللہ تعالی نے اپنے نبی کو ان باتوں پر مطلع کر دیا، پس سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بستر پر وہ رات گزاری اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں سے نکل کر غارِ ثور میں پناہ گزیں ہوگئے، مشرکوں نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر پہرہ دیتے ہوئے رات گزاری، ان کا خیال تھا کہ وہ نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر پہرہ دے رہے ہیں، جب صبح ہوئی تو وہ ٹوٹ پڑے، لیکن انھوں نے دیکھا کہ یہ تو علی ہیں، اس طرح اللہ تعالی نے ان کا مکر ردّ کر دیا، انھوں نے کہا: علی! تیرا ساتھی کہاں ہے؟ انھوں نے کہا: میں تو نہیں جانتا، پس وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قدموں کے نشانات کی تلاش میں چل پڑے، جب اُس پہاڑ تک پہنچے تو معاملہ ان پر مشتبہ ہوگیا، پس یہ پہاڑ پر چڑھے اور غارِ ثور کے پاس سے گزرے، لیکن جب انھوں نے اس کے دروازے پر مکڑی کا جالہ دیکھا تو انھوں نے کہا: اگر وہ (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) اس غار میں داخل ہوا ہوتا تو مکڑی کا یہ جالہ تو نہ ہوتا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی غار میں تین دن تک ٹھہرے رہے۔

Haidth Number: 8610
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ حنین کے موقع پر فرمایا: جو آدمی جس کو قتل کرنے میں اکیلا ہو گا، تو اس سے چھینا ہوا مال اسی کے لیے ہو گا۔ اس دن سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اکیس افراد کا سلب لے کر آئے۔

Haidth Number: 10906
۔(دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ حنین کے موقع پر فرمایا: جس نے کسی کافر کو قتل کیا، اسی کے لیے اس کا سلب ہو گا۔ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیس کافر قتل کیے تھے۔

Haidth Number: 10907

۔ (۱۰۹۰۸)۔ وَعَنْہٗاَیْضًا، قَالَ: وَقَالَ أَبُوقَتَادَۃَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی ضَرَبْتُ رَجُلًا عَلَی حَبْلِ الْعَاتِقِ، وَعَلَیْہِ دِرْعٌ لَہُ: وَأُجْہِضْتُ عَنْہُ، وَقَدْ قَالَ حَمَّادٌ أَیْضًا: فَأُعْجِلْتُ عَنْہُ، فَانْظُرْ مَنْ أَخَذَہَا، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: أَنَا أَخَذْتُہَا فَأَرْضِہِ مِنْہَا وَأَعْطِنِیہَا، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا یُسْأَلُ شَیْئًا إِلَّا أَعْطَاہُ أَوْ سَکَتَ، قَالَ فَسَکَتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: وَاللّٰہِ لَا یُفِیئُہَا اللّٰہُ عَلٰی أَسَدٍ مِنْ أُسْدِہِ وَیُعْطِیکَہَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((صَدَقَ عُمَرُ۔)) فَضَحِکَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ: ((صَدَقَ عُمَرُ۔)) وَلَقِیَ أَبُو طَلْحَۃَ أُمَّ سُلَیْمٍ وَمَعَہَا خَنْجَرٌ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَۃَ: مَا ہٰذَا مَعَکِ؟ قَالَتْ: أَرَدْتُ إِنْ دَنَا مِنِّی بَعْضُ الْمُشْرِکِینَ أَنْ أَبْعَجَ بِہِ بَطْنَہُ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَۃَ: أَلَا تَسْمَعُ؟ مَا تَقُولُ أُمُّ سُلَیْمٍ؟ قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ اقْتُلْ مَنْ بَعْدَنَا مِنَ الطُّلَقَائِ انْہَزَمُوا بِکَ، فَقَالَ: ((إِنَّ اللّٰہَ قَدْ کَفٰی وَأَحْسَنَ یَا أُمَّ سُلَیْمٍ!)) (مسند احمد: ۱۴۰۲۰)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ غزوۂ حنین کے دن سیدنا ابوقتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میں نے ایک کافر کی گردن پر وار کر کے اس کی گردن کاٹی ہے، وہ مقتول ایک زرہ پہنے ہوئے تھا، میں وہ نہیں اتار سکا، آپ ذرا دیکھیں کہ کس آدمی نے وہ زرہ اتار لی ہے، ( وہ تو میرا حق تھا)۔ایک آدمی نے کہا: وہ زرہ میرے پاس ہے، لیکن اے اللہ کے رسول! اس زرہ کے متعلق آپ اسے راضی کریں اور یہ میرے پاس ہی رہنے دیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عادت ِ مبارکہ تھی کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کوئی چیز مانگی جاتی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہ دے دیتےیا خاموش رہتے۔ اس آدمی کییہ بات سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے، لیکن سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ نہیں ہو گا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ کے ایک شیر سے یہ زرہ لے کر تمہیں دے دیں۔ یہ بات سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہنس دئیے اور فرمایا: عمر نے ٹھیک کہا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:اس روز سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاتھ میں خنجر تھا، ان کے شوہر سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پوچھا: تمہارے پاس یہ کیا ہے؟ انہوں نے بتلایا کہ میں نے اسے اپنے پاس رکھا ہوا ہے کہ اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو میں اس کے ساتھ اس کا پیٹ چیر ڈالوں گی۔ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ ام سلیم کی بات سن رہے ہیں ؟ اتنے میں سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بولیں: اللہ کے رسول! آپ پیچھے رہ جانے والے ان طلقاء کو قتل کر دیں، جو آپ کے ساتھ شکست کھا گے۔ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ام سلیم! اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کی اور کیا خوب مدد کی۔

Haidth Number: 10908
سیدنا طلحہ بن عبیداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے گھر کے افراد عبداللہ، ابو عبداللہ اور ام عبداللہ سب ہی اچھے لوگ ہیں۔

Haidth Number: 11811

۔ (۱۱۸۱۲)۔ حَدَّثَنَا ھُشَیْمٌ، عَنْ حُصَیْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَمُغِیْرَۃَ الضَّبِّیِّ عَنْ مُجَاھِدٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِوبْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: زَوَّجَنِیْ اَبِیْ امْرَاَۃً مِّنْ قُرَیْشٍ، فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَیَّ جَعَلْتُ لَا اَنْحَاشُ لَھَا عَمَّا بِیْ مِنَ الْقُوَّۃِ عَلَی الْعِبَادَۃِ مِنَ الصَّوْمِ وَالصَّلاۃِ، فَجَائَ عَمْرُوبْنُ الْعَاصِ اِلٰی کَنَّتِہِ حَتّٰی دَخَلَ عَلَیْھَا، فَقَالَ لَھَا: کَیْفَ وَجَدْتِّ بَعْلَکِ؟ قَالَتْ: خَیْرُ الرِّجَالِ، اَوْ کَخَیْرِ الْبُعُوْلَۃِ، مِنْ رَجُلٍ، لَمْ یُفَتِّشْ لَنَا کَنَفًا، وَلَمْ یَعْرِفْ لَنَا فِرَاشًا، فَاَقْبَلَ عَلَیَّ، فَعَذَمَنِیْ، وَعَضَّنِیْ بِلِسَانِہٖ، فَقَالَ: اَنْکَحْتُکَ امْرَاَۃً مِّنْ قُرَیْشٍ ذَاتَ حَسَبٍ فَعَضَلْتَھَا، وَفَعَلْتَ وَفَعَلْتَ! ثُمَّ انْطَلَقَ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَشَکَانِیْ، فَاَرْسَلَ اِلَیَّ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاَتَیْتُہُ، فَقَالَ لِیْ: ((اَتَصُوْمُ النَّھَارَ؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((وَتَقُوْمُ اللَّیْلَ؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((لٰکِنِّیْ اَصُوْمُ وَاُفْطِرُ، وَاُصَلِّیْ وَاَنَامُ، وَاَمَسُّ النِّسَائَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ۔)) قَالَ: ((اقْرَاِ الْقُرْآنَ فِیْ کُلِّ شَہْرٍ۔)) قُلْتُ: اِنِّیْ اَجِدُنِیْ اَقْوٰی مِنْ ذٰلِکَ، قَالَ: ((فَاقْرَاْہُ فِیْ کُلِّ عَشَرَۃِ اَیَّامٍ۔)) قُلْتُ: اِنِّیْ اَجِدُنِیْ اَقْوٰی مِنْ ذٰلِکَ، قَالَ اَحَدُھُمَا اَمَّا حُصِیْنٌ وَاَمَّا مُغِیْرَۃُ، قَالَ: ((فَاقْرَاْہُ فِیْ کُلِّ ثَلاثٍ۔)) وَفِیْ رِوَایَۃٍ قَالَ: ((فَاقْرَاْہُ فِیْ کُلِّ سَبْعٍ لَا تَزِیْدَنَّ عَلٰی ذٰلِکَ۔)) قَالَ: ثُمَّ قَالَ: (( صُمْ فِیْ کُلِّ شَھْرٍ ثَلاثَۃَ اَیَّامٍ۔)) قُلْتُ: اِنِّیْ اَقْوٰی مِنْ ذٰلِکَ، قَالَ: فَلَمْ یَزَلْ یَرْفَعُنِیْ، حَتّٰی قَالَ: ((صُمْ یَوْمًا وَاَفْطِرْ یَوْمًا فَاِنَّہُ اَفْضَلُ الصَّیَامِ، وَھُوَ صِیَامُ اَخَیْ دَاوُدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ۔)) قَالَ: حُصَیْنٌ فِیْ حَدَیْثِہِ ثُمَّ قَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (( فَاِنَّ لِکُلِّ عَابِدٍ شِرَّۃً، وَلِکُلِّ شِرَّۃٍ فَتْرَۃٌ، فَاِمَّا اِلٰی سُنَّۃٍ، وَاِمَّا اِلٰی بِدْعَۃٍ، فَمَنْ کَانَتْ فَتْرَتُہُ اِلٰی سُنَّۃٍ فَقَدِ اھْتَدٰی، وَمَنْ کَانَتْ فَتْرَتُہُ اِلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ فَقَدْ ھَلَکَ۔)) قَالَ مُجَاھِدٌ: فَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو، حَیْثُ قَدْ ضَعُفَ وَکَبِرَ، یَصُوْمُ الْاَیَّامَ کَذٰلِکَ، یَصِلُ بَعْضَھَا اِلٰی بَعْضٍ، لِیَتَقَوّٰی بِذٰلِکَ، ثُمَّ یُفْطِرُ بَعْدَ تِلْکَ الْاَیَّامِ، قَالَ: وَکَانَ یَقْرُاُ فِیْ کِلِّ حِزْبٍ کَذٰلِکَ، یَزِیْدُ اَحْیَانًا، وَیَنْقُصُ اَحْیَانًا، غَیْرَ اَنَّہٗ یُوفِی الْعَدَدَ، اِمَّا فِیْ سَبْعٍ، وَاِمَّا فِیْ ثَلاثٍ، قَالَ: ثُمَّ کَانَ یَقُوْلُ بَعْدَ ذٰلِکَ: لَاَنْ اَکُوْنَ قَبِلْتُ رُخْصَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا عُدِلَ بِہٖ (اَوْ عَدَلَ)، لٰکِنِّیْ فَارَقْتُہُ عَلٰی اَمْرٍ اَکْرَہُ اَنْ اُخَالِفَہُ اِلیٰ غَیْرِہِ۔ (مسند احمد: ۶۴۷۷)

سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: میرے باپ نے ایک قریشی عورت سے میری شادی کر ! جو چیز آدمی کے پاس نہ ہو اس کو بیچنا جائز نہیں۔ اسی طرح کچے پھل کی بیع بھی درست نہیں البتہ بیع سلم میں معاملہ طے کرتے وقت بائع کے پاس چیز کا موجود ہونا شرط نہیں امام بخاری نے اس حوالہ سے باب قائم کیا ہے۔ تفصیل دیکھیں، صحیح بخاری: ۲۲۴۴ اور اس کا باب۔ (عبداللہ رفیق) دی، جب میں اس پر داخل ہوا تو میں نے اس کا کوئی اہتمام نہ کیا اور نہ اس کو وقت دیا، کیونکہ مجھے روزے اور نماز کی صورت میں عبادت کرنے کی بڑی قوت دی گئی تھی، جب سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی بہو کے پاس آئے اور اس سے پوچھا: تو نے اپنے خاوند کو کیسا پایا ہے؟ اس نے کہا: وہ بہترین آدمی ہے، یا وہ بہترین خاوند ہے، اس نے نہ میرا پہلو تلاش کیا اور نہ میرے بچھونے کو پہچانا (یعنی وہ عبادت میں مصروف رہنے کی وجہ سے اپنی بیوی کے قریب تک نہیں گیا )۔ یہ کچھ سن کر میرا باپ میری طرف متوجہ ہوا اور مجھے بہت ملامت کی اور برا بھلا کہا اور کہا: میں نے حسب و نسب والی قریشی خاتون سے تیری شادی کی ہے اور تو اس سے الگ تھلگ ہو گیا اور تو نے ایسے ایسے کیا ہے، پھر وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف چلے گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے میرا شکوہ کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلایا اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو دن کو روزہ رکھتا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اور رات کو قیام کرتا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لیکن میں تو روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور حق زوجیت بھی ادا کرتا ہوں، جس نے میری سنت سے بے رغبتی اختیار کی، وہ مجھ سے نہیں ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو ایک ماہ میں قرآن مجید کی تلاوت مکمل کیا کر۔ میںنے کہا: میں اپنے آپ کو اس سے زیادہ قوی پاتاہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر دس دنوں میں مکمل کر لیا کرو۔ میں نے کہا: جی میںاپنے آپ کو اس سے زیادہ قوت والا سمجھتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تین دنوں میں ختم کر لیا کرو۔ ایک روایت میں ہے: تو سات دنوں میں تلاوت مکمل کر لیا کر اور ہر گز اس سے زیادہ تلاوت نہ کر۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر ماہ میں تین روزے رکھا کر۔ میں نے کہا: جی میں اس سے زیادہ طاقتور ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے آگے بڑھاتے گئے، یہاں تک کہ فرمایا: ایک دن روزہ رکھ لیا کر اور ایک دن افطار کر لیا کر، یہ افضل روزے ہیں اور یہ میرے بھائی داود علیہ السلام کے روزے ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر عبادت گزار میں حرص اور رغبت پیدا ہوتی ہے، پھر ہر رغبت کے بعد آخر سستی اور کمی ہو تی ہے، اس کا انجام سنت کی طرف ہوتا ہے یا بدعت کی طرف، پس جس کا انجام سنت کی طرف ہوتا ہے، وہ ہدایت پا جائے گا، اور جس کا انجام کسی اور شکل میں ہو گا، وہ ہلاک ہو جائے گا۔ امام مجاہد کہتے ہیں: جب سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کمزور اور بوڑھے ہو گئے تو وہ اسی مقدار کے مطابق روزے رکھتے تھے، بسا اوقات چند روزے لگاتار رکھ لیتے، پھر اتنے ہی دن لگاتار افطار کر لیتے، اس سے ان کا مقصد قوت حاصل کرنا ہوتا تھا، اسی طرح کا معاملہ اپنے قرآنی حزب میں کرتے تھے، کسی رات کو زیادہ حصہ تلاوت کر لیتے اور کسی رات کو کم کر لیتے، البتہ ان کی مقدار وہی ہوتی تھی،یا تو سات دنوں میں قرآن مجید مکمل کر لیتے،یا تین دنوں میں۔ اور سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بعد میں کہا کرتے تھے: اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رخصت قبول کر لی ہوتی تو وہ مجھے دنیا کی ہر اس چیز سے محبوب ہوتی، جس کا بھی اس سے موازنہ کیا جاتا، لیکن میں عمل کی جس روٹین پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جدا ہوا تھا، اب میں ناپسند کرتا ہوں کہ اس کی مخالفت کروں۔

Haidth Number: 11812

۔ (۱۱۸۱۳)۔ عَنْ اَبِی سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو (بْنِ الْعَاصِ) ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَقَدْ اُخْبِرْتُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اللَّیْلَ وَتَصُوْمُ النَّہَارَ؟)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! نَعَمْ، قَالَ: ((فَصُمْ وَاَفْطِرْ وَصَلِّ وَنَمْ، فَإِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَیْکَ حَقَّا، وَإِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقَّا، وَإِنَّ لِزَوْْرِکَ عَلَیْکَ حَقَّا، وَإِنَّ بِحَسْبِکَ اَنْ تَصُوْمَ مِنْ کُلِّ شَہْرِ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ۔)) قَالَ: فَشَدَّدْتُّ فَشَدَّدَ عَلَیَّ، قَالَ: فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنِّی اَجِدُ قُوَّۃً، قَالَ: ((فَصُمْ مِنْ کُلِّ جُمُعَۃٍ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ۔)) قَالَ: فَشَدَّدْتُّ فَشَدَّدَ عَلَیَّ، قَالَ: فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنِّی اَجِدُ قُوَّۃً، قَالَ: ((صُمْ صَوْمَ نَبِیِّ اللّٰہِ دَاوُدَ وَلَا تَزِدْ عَلَیْہِ۔)) قَالَ: فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَمَا کَانَ صِیَامُ دَاوُدَ (عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ) قَالَ: ((کَانَ یَصُوْمُ یَوْمًا وَیُفْطِرُ یَوْمًا۔)) (مسند احمد: ۶۸۶۷)

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ تم ساری رات قیام کرتے ہو اور ہر روز روزہ رکھتے ہو۔ میں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: روزہ رکھا کروا ور ناغہ بھی کیا کرو اوررات کو قیام بھی کیا کر اور سویا بھی کر، کیونکہ تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے، تیری اہلیہ کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے مہمان کا تجھ پر حق ہے، مہینہ میں تین روزے رکھ لیا کر،اتنے ہی تیرے لیے کافی ہیں۔ لیکن ہوا یوں کہ میں نے سختی کی،اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی مجھ پر سختی فرمائی۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے اندر اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تو ہر ہفتہ میں تین دن روزے رکھ لیا کر۔ لیکن میں نے سختی کی اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی مجھ پر سختی کی اور میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے اندر اس سے زیادہ روزے رکھنے کی قوت ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تو اللہ کے نبی دائود علیہ السلام کی طرح روزے رکھ لیا کر اور ان پر اضافہ نہ کر۔ میں نے کہا:اے اللہ کے رسول! دائود علیہ السلام کیسے روزے رکھتے تھے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن ناغہ کرتے تھے۔

Haidth Number: 11813
یحییٰ بن حکیم بن صفوان بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص نے فرمایا کہ میں نے پورا قرآن مجید حفظ کیا اور پھر ایک ہی رات میں اسے پڑھا۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے خطرہ ہے کہ زمانہ تجھ پر لمبا ہو جائے گا اور تو اکتاہٹ کا شکار ہو جائے گا، اس لیے ایک ماہ میں قرآن مجید مکمل کر۔ وہ کہتے ہیں میں نے کہا اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں، میں اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھائوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیس دن میں قرآن مکمل پڑھ لو، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں، میں اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھائوں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دس دن میں پڑھ لو۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں میں اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھائوں۔ آپ نے فرمایا: سات دن میں قرآن مکمل کرلو۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں کہ میں اپنی قوت اور جوانی سے فائدہ اٹھائوں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے کم مدت میں قرآنِ مجید ختم کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

Haidth Number: 11814
سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اللہ کے رسول سے جو کچھ سنتا،اسے حفظ کرنے کی غرض سے لکھ لیتا تھا،لیکن قریش نے مجھے اس سے منع کیا اور کہا: تم اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جو کچھ سنتے ہو لکھ لیتے ہو، حالانکہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بشر ہیں، آپ کبھی غصے کی حالت میں بات کر رہے ہوتے ہیں اور کبھی معمول کی حالت میں۔ چنانچہ میں نے آپ کیباتیں لکھنا چھوڑ دیں، لیکن جب میں نے اس بات کا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم لکھ لیا کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میرے منہ سے حق کے سوا کوئی بات ادا نہیں ہوتی۔

Haidth Number: 11815
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سوا کوئی صحابی احادیث رسول کے بارے میں مجھ سے زیادہ علم نہیں رکھتا تھا، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ احادیث لکھ کر زبانییاد کرتے تھے اور میں محض زبانی طور پر یاد کرتا تھا، لکھتا نہیں تھا، انہوںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے احادیث لکھنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے ان کو اجازت دے دی تھی۔

Haidth Number: 11816
۔ (دوسری سند) سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سوا کوئی آدمی احادیث کا علم مجھ سے زیادہ نہیں رکھتا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ احادیث کو لکھ لیتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔

Haidth Number: 11817
حنظلہ بن خویلد عنبری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں حاضر تھا کہ دو آدمیوں نے ان کے ہاں آکر سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سر کے بارے میں جھگڑنا شروع کر دیا، ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ اس نے ان کو قتل کیا ہے،ان کی باتیں سن کر سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم میں سے ہر ایک اپنے اس کارنامے پر اپنا دل خوش کر لے، میں نے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا ہے کہ باغی گروہ اسے قتل کرے گا۔ ان سے یہ حدیث سن کر سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر یہ بات ہے توپھر آپ ہمارا ساتھ کیوں دیتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: میرے والد نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے میری شکایت کی تھی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایاتھا: تمہارا والد جب تک زندہ ہے، تم اس کی اطاعت کرتے رہو۔ اس حدیث کی وجہ سے میں آپ لوگوں کے ساتھ ہوں، لیکن پھر بھی لڑائی میں حصہ نہیں لیتا۔

Haidth Number: 11818
عبداللہ بن ابی ہذیل سے روایت ہے، وہ قبیلہ نخع کے ایک شیخ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں نے ایلیا کی مسجد (یعنی بیت المقدس) میں داخل ہوا اور میں نے ایک ستون کے پیچھے دو رکعت نماز ادا کی، ایک اور آدمی نے بھی آکر میرے قریب نماز ادا کی، لوگ اس کی طرف امڈ کر گئے۔ وہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ یزید بن معاویہ کا قاصد ان کو بلانے آیا تو وہ کہنے لگے: وہ مجھے احادیث بیان کرنے سے منع کرتا ہے، جیسا کہ اس کا والد بھی مجھے رو کا کرتا تھا۔ میں تمہارے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ دعائیں کرتے سن چکا ہوں: أَعُوذُ بِکَ مِنْ نَفْسٍ لَّا تَشْبَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لَّا یَخْشَعُ، وَمِنْ دُعَائٍ لَا یُسْمَعُ، وَمِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ۔ (اے اللہ! میں تجھ سے پناہ چاہتا ہوں، ایسے نفس سے جو سیر نہیں ہوتا، ایسے دل سے جو ڈرتا نہ ہو، ایسی دعا سے جو سنی نہ جاتی ہو اور ایسے علم سے جو نفع بخش نہ ہو۔)

Haidth Number: 11819
عبداللہ بن سبع سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے ! حدیث ضعیف ہے اور آگ کے ساتھ کسی ذی روح کو عذاب دینا یا جلانا منع ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ النَّارَ لَا یُعَذِّبُ بِھَا اَحَدٌ اِلاَّ اللّٰہُ)) (صحیح بخاری: ۲۹۵۴) آگ کے ساتھ اللہ کے سوا کوئی عذاب نہیں دیتا (یعنی کوئی عذاب نہ دے)۔ (عبداللہ رفیق) سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: میری یہ داڑھی میرے سر کے خون سے رنگین ہوگی اور انتہائی بدبخت آدمی میرے ساتھ ایسا سلوک کرنے کا منتظر ہے۔ لوگوںنے کہا: اے امیر المومنین! آپ ہمیںاس کے متعلق بتلا دیں تو ہم اس کی اولاد تک کا نام و نشان نہ چھوڑیں، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر میں ایسا کروں تو تم میرے اصل قاتل کے علاوہ کسی دوسرے کو قتل کر دو گے۔ لوگوں نے کہا: اچھاآپ کسی کو ہمارے اوپر خلیفہ نامزد کردیں، انھوں نے اس سے بھی انکار کر دیا اور کہا: میں تمہیں اسی طرح چھوڑ کر جاؤں گا، جس طرح اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تمہیں چھوڑگئے تھے، یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کیا تھا، لوگوں نے کہا: آپ اپنے رب کے ہاں جا کر کیا کہیں گے؟ انھوں نے کہا: میں کہوں گا: یاا للہ! جب تک تجھے منظور تھا تو نے مجھے ان کے درمیان باقی رکھا، پھر تو نے مجھے اپنی طرف بلالیا اور ان لوگوں میں میرے بعد تو ہی تھا، تو چاہتا ہے تو ان کی اصلاح کردے اور اگر چاہتا ہے تو ان میں فساد برپا کر دے۔

Haidth Number: 12389