Blog
Books
Search Hadith

{وَاَقِمِ الصَّلاۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ…} کی تفسیر

8 Hadiths Found

۔ (۸۶۳۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَ نَّ امْرَأَ ۃً مُغِیبًا أَتَتْ رَجُلًا تَشْتَرِی مِنْہُ شَیْئًا فَقَالَ: ادْخُلِی الدَّوْلَجَ حَتّٰی أُعْطِیَکِ، فَدَخَلَتْ فَقَبَّلَہَا وَغَمَزَہَا فَقَالَتْ: وَیْحَکَ إِنِّی مُغِیبٌ فَتَرَکَہَا وَنَدِمَ عَلٰی مَا کَانَ مِنْہُ، فَأَ تَی عُمَرَ فَأَ خْبَرَہُ بِالَّذِی صَنَعَ، فَقَالَ: وَیْحَکَ فَلَعَلَّہَا مُغِیبٌ، قَالَ: فَإِنَّہَا مُغِیبٌ، قَالَ: فَأْتِ أَبَابَکْرٍ فَاسْأَ لْہُ، فَأَتٰی أَ بَابَکْرٍ فَأَ خْبَرَہُ، فَقَالَ أَ بُو بَکْرٍ: وَیْحَکَ لَعَلَّہَا مُغِیبٌ، قَالَ: فَإِنَّہَا مُغِیبٌ، قَالَ: فَأْتِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَ خْبِرْہُ، فَأَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَ خْبَرَہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَعَلَّہَا مُغِیبٌ۔)) قَالَ: فَإِنَّہَا مُغِیبٌ، فَسَکَتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَنَزَلَ الْقُرْآنُ: {وَأَقِمْ الصَّلَاۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ} إِلٰی قَوْلِہِ: {لِلذَّاکِرِینَ} قَالَ: فَقَالَ الرَّجُلُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَ ہِیَ فِیَّ خَاصَّۃً أَ وْ فِی النَّاسِ عَامَّۃً؟ قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: لَا، وَلَا نَعْمَۃَ عَیْنٍ لَکَ بَلْ ہِیَ لِلنَّاسِ عَامَّۃً، قَالَ: فَضَحِکَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ: ((صَدَقَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ۔)) (مسند احمد: ۲۴۳۰)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، ایک عورت جس کا خاوند گھر سے باہر تھا، وہ ایک آدمی کے پاس کچھ خریدنے آئی۔ اس نے کہا: اس حجرہ میں اندر چلی جاؤ، تاکہ میں تمہیں تمہاری چیز دے سکوں، جب وہ داخل ہوئی تو اس آدمی نے اس سے بوس و کنار کیا، اس عورت نے کہا: بڑا افسوس ہے، میرا خاوند گھر سے باہر تھا تونے یہ کیا کیا، اس آدمی نے اسے چھوڑ دیا اور نادم ہوا، پھر وہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آیا اور جو کیا تھا انہیں بتا دیا، انہوں نے کہا: لگتا ہے اس عورت کا خاوند گھر پر نہ ہو گا، تب وہ سودا خریدنے آئی ہو گی؟ اس نے کہا: جی ہاں وہ گھر سے باہر تھا۔ انہوں نے کہا؛ تو سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس چلا جا اور ان سے پوچھ لے، پس وہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آیا انہیں ساری بات بتائی، انھوں نے کہا: تو ہلاک ہو جائے، شاید اس کا خاوند گھر پر نہ ہو، اس نے کہا: جی ہاں، اس پر خاوند گھر پر نہیں تھا، پھرسیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جا اور آپ کو ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ تفصیل بتا، پس وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا تو آپ کو واقعہ بتایا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لگتا ہے کہ اس عورت کا خاوند گھر سے باہر تھا؟ اس آدمی نے کہا: جی ہاں، واقعی وہ گھر پر نہ تھا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش ہو گئے اوریہ قرآن مجید نازل ہوا: {وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّـیِّاٰتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ۔} … اور دن کے دونوں کناروں میں نماز قائم کر اور رات کی کچھ گھڑیوں میں بھی، بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔ یہیاد کرنے والوں کے لیےیاد دہانی ہے۔ اس آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول! کیایہ حکم میرے لئے خاص ہے یا لوگوں کے عام ہے؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: نہیں، اس سے صرف تیری ہی آنکھیں ٹھنڈی نہیںہوں گی، بلکہ یہ تمام لوگوں کے لئے خوشبخری ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرا کرفرمایا: عمر نے سچ کہا ہے۔

Haidth Number: 8637

۔ (۸۶۳۸)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! إِنِّی أَ خَذْتُ امْرَأَ ۃً فِی الْبُسْتَانِ فَفَعَلْتُ بِہَا کُلَّ شَیْئٍ غَیْرَ أَ نِّی لَمْ أُجَامِعْہَا، قَبَّلْتُہَا وَلَزِمْتُہَا، وَلَمْ أَ فْعَلْ غَیْرَ ذٰلِکَ، فَافْعَلْ بِی مَا شِئْتَ، فَلَمْ یَقُلْ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَیْئًا، فَذَہَبَ الرَّجُلُ فَقَالَ عُمَرُ: لَقَدْ سَتَرَ اللّٰہُ عَلَیْہِ لَوْ سَتَرَ عَلٰی نَفْسِہِ، قَالَ: فَأَ تْبَعَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَصَرَہُ فَقَالَ: ((رُدُّوہُ عَلَیَّ۔)) فَرَدُّوہُ عَلَیْہِ فَقَرَأَ عَلَیْہِ: {وَأَ قِمِ الصَّلَاۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ} إِلَی {الذَّاکِرِینَ} فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: أَ لَہُ وَحْدَہُ أَ مْ لِلنَّاسِ کَافَّۃًیَا نَبِیَّ اللّٰہِ! فَقَالَ: ((بَلْ لِلنَّاسِ کَافَّۃً۔)) (مسند احمد: ۴۲۹۰)

۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں نے باغ میں ایک عورت کو پکڑ لیا اور میں نے اس کے ساتھ ہر کام کیا ہے، بس صرف زنا نہیں کیا، میں نے اسے بوسہ دیا اور اس کے ساتھ چمٹا، اس کے علاوہ کچھ نہیں کیا، اب میں حاضر ہوں، آپ جو چاہیں، مجھے سزا دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے کچھ نہ کہا اور وہ چلا بھی گیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کے بارے میںکہا: اللہ تعالیٰ نے تو اس پر پردہ ڈالا تھا، اگر وہ خود بھی پردہ ڈال لیتا،اُدھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس جانے والے کو پیچھے سے تک رہے تھے اور بالآخر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے واپس بلاؤ۔ پس جب اس کو لوٹایا گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس پر یہ آیت تلاوت کی: {وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّـیِّاٰتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ۔} … اور دن کے دونوں کناروں میں نماز قائم کر اور رات کی کچھ گھڑیوں میں بھی، بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔ یہیاد کرنے والوں کے لیےیاد دہانی ہے۔ سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیایہ اس اکیلے کے لئے ہے یا سب لوگوں کے لئے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سب لوگوں کے لئے ہے۔

Haidth Number: 8638
۔ (دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش ہو گئے، پس یہ آیت نازل ہوئی: {وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّـیِّاٰتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ۔} … اور دن کے دونوں کناروں میں نماز قائم کر اور رات کیکچھ گھڑیوں میں بھی، بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔ یہیاد کرنے والوں کے لیےیاد دہانی ہے۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو بلایا اور اس پر اس آیت کیتلاوت کی، سیدنا عمر نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیایہ اس کے لئے خاص ہے یا سب لوگوں کے لئے ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سب لوگوں کے لئے عام ہے۔

Haidth Number: 8638
سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میںیمن کی طرف ایک غزوہ میں گیا، میں نے ان کے رویہ میں سختی دیکھی، سو جب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا تو میں نے آپ کے سامنے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ذکر کر کے ان کی شان میں کچھ نازیبا الفاظ کہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ متغیر ہو نے لگا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے بریدہ! کیا میں مومنین پر ان کی جانوں سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں جس کامولیٰ ہوں، علی بھی اس کا مولیٰ ہے۔ دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: میں جس کا دوست ہوں، علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی اس کا دوست ہے۔

Haidth Number: 10958

۔ (۱۰۹۵۹)۔ فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ حَدَّثَنِی أَبِی بُرَیْدَۃُ قَالَ أَبْغَضْتُ عَلِیًّا بُغْضًا لَمْ یُبْغِضْہُ أَحَدٌ قَطُّ قَالَ وَأَحْبَبْتُ رَجُلًا مِنْ قُرَیْشٍ لَمْ أُحِبَّہُ إِلَّا عَلٰی بُغْضِہِ عَلِیًّا قَالَ فَبُعِثَ ذٰلِکَ الرَّجُلُ عَلٰی خَیْلٍ فَصَحِبْتُہُ مَا أَصْحَبُہُ إِلَّا عَلٰی بُغْضِہِ عَلِیًّا قَالَ فَأَصَبْنَا سَبْیًا، قَالَ فَکَتَبَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابْعَثْ إِلَیْنَا مَنْ یُخَمِّسُہُ قَالَ فَبَعَثَ إِلَیْنَا عَلِیًّا وَفِی السَّبْیِ وَصِیفَۃٌ ہِیَ أَفْضَلُ مِنَ السَّبْیِ فَخَمَّسَ وَقَسَمَ فَخَرَجَ رَأْسُہُ مُغَطًّی فَقُلْنَا: یَا أَبَا الْحَسَنِ! مَا ہٰذَا؟ قَالَ: أَلَمْ تَرَوْا إِلَی الْوَصِیفَۃِ الَّتِی کَانَتْ فِی السَّبْیِ؟ فَإِنِّی قَسَمْتُ وَخَمَّسْتُ فَصَارَتْ فِی الْخُمُسِ ثُمَّ صَارَتْ فِی أَہْلِ بَیْتِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ صَارَتْ فِی آلِ عَلِیٍّ وَوَقَعْتُ بِہَا، قَالَ فَکَتَبَ الرَّجُلُ إِلٰی نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ ابْعَثْنِی فَبَعَثَنِی مُصَدِّقًا قَالَ فَجَعَلْتُ أَقْرَأُ الْکِتَابَ وَأَقُولُ صَدَقَ قَالَ فَأَمْسَکَ یَدِی وَالْکِتَابَ وَقَالَ أَتُبْغِضُ عَلِیًّا قَالَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَلَا تُبْغِضْہُ وَإِنْ کُنْتَ تُحِبُّہُ فَازْدَدْ لَہُ حُبًّا فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَنَصِیبُ آلِ عَلِیٍّ فِی الْخُمُسِ أَفْضَلُ مِنْ وَصِیفَۃٍ قَالَ فَمَا کَانَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ بَعْدَ قَوْلِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ عَلِیٍّ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ فَوَالَّذِی لَا إِلٰہَ غَیْرُہُ مَا بَیْنِی وَبَیْنَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی ہٰذَا الْحَدِیثِ غَیْرُأَبِی بُرَیْدَۃَ۔ (مسند احمد: ۲۳۳۵۵)

سیدنا عبد اللہ بن بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے میرے باپ سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: مجھے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سخت بغض تھا، اتنا کسی بھی دوسرے سے نہیں تھا حتیٰ کہ مجھے قریش کے ایک آدمی سے بہت زیادہ محبت صرف اس لیے تھی کہ وہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بغض رکھتا تھا، اس آدمی کو امیر کا لشکر بنا کر بھیجا گیا،میں صرف اس لیے اس کا ہمرکاب ہوا کہ اسے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بغض تھا، ہم نے لونڈیاں حاصل کیں، امیر لشکر نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پیغام بھیجا کہ ہمارے پاس وہ آدمی بھیج دیں، جو مال غنیمت کے پانچ حصے کرے اور اسے تقسیم کرے، آپ نے ہمارے پاس سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بھیج دیا، انہوں نے مال تقسیم کیا، قیدی عورتوں میں ایک ایسی لونڈی تھی، جو کہ سب قیدیوں میں سے بہتر تھی، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مال غنیمتکے پانچ حصے کئے اور پھر اسے تقسیم کر دیا۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب باہر آئے تھے تو ان کے سر سے پانی کے قطرے گر رہے تھے اور سر ڈھانپا ہوا تھا۔ ہم نے کہا: اے ابو حسن! یہ کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے کہا: کیا تم نے دیکھا نہیں کہ قیدیوں میں یہ لونڈی میرے حصہ میں آئی ہے، میںنے مال غنیمت پانچ حصے کرکے تقسیم کر دیا ہے، یہ پانچویں حصہ میں آئی ہے جو کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اہل بیت کے لیے ہے اور پھر اہل بیت میں سے ایک حصہ آل علی کا ہے اور یہ لونڈی اس میں سے میرے حصہ میں آئی ہے اور میں نے اس سے جماع کیا ہے، اس آدمی نے جو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بغض رکھتا تھا، اس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جانب خط لکھا، سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے اس سے کہا: یہ خط مجھے دے کر بھیجو، اس نے مجھے ہی بھیج دیا تاکہ اس خط کی تصدیق و تائید کروں، سیدنا بریدہ کہتے ہیں: میں نے وہ خط نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر پڑھنا شروع کر دیا اور میں نے کہا: اس میں جو بھی درج ہے وہ صحیح ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے ہاتھ سے خط پکڑ لیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: کیا تم علی سے بغض رکھتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی سے بغض نہ رکھو اور اگر تم اس سے محبت رکھتے ہو تو اس میں اور اضافہ کرو،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی جان ہے؟ خمس میں آل علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا حصہ تو اس افضل لونڈی سے بھی زیادہ بنتا ہے۔ سیدنا بریدہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس فرمان کے بعد لوگوں میں سے ان سے بڑھ کر مجھے کوئی اور محبوب نہیں تھا۔عبد اللہ بن بریدہ کہتے ہیں: اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! اس حدیث کے بیان کرنے میں اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے درمیان صرف میرے باپ سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا واسطہ ہے۔

Haidth Number: 10959

۔ (۱۰۹۶۰)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ بُرَیْدَۃَ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْثَیْنِ إِلَی الْیَمَنِ عَلٰی اَحَدِھِمَا عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ وَعَلَی الْآخَرِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیْدِ: فَقَالَ: ((إِذَا الْتَقَیْتُمْ فَعَلِیٌّ عَلَی النَّاسِ، وَإِنِ افْتَرَقْتُمَا فَکُلُّ وَاحِدٍ مِنْکُمَا عَلٰی جُنْدِہِ۔)) قَالَ: فَلَقِیْنَا بَنِیْ زَیْدٍ مِنْ اَھْلِ الْیَمَنِ فَاقْتَتَلْنَا، فَظَہَرَ الْمُسْلِمُوْنَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ، فَقَتَلْنَا الْمُقَاتِلَۃَ، وَسَبَیْنَا الذُّرِّّیَّۃَ، فَاصْطَفٰی عَلِیٌّ امْرَاَۃً مِنَ السَّبْیِ لِنَفْسِہٖ،قَالَبُرَیْدَۃُ: فَکَتَبَ مَعِیْ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدُ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُخْبِرُہُ بِذٰلِکَ، فَلَمَّا اَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَفَعْتُ الْکِتَابَ فُقُرِئَ عَلَیہٖ، فَرَاَیْتُ الْغَضَبَ فِیْ وَجْہِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ھٰذَا مَکَانُ الْعَائِذِ بَعَثْتَنِیْ مَعَ رَجُلٍ وَاَمَرْتَنِیْ اَنْ اُطِیْعَہٗ فَفَعَلْتُ مَا اُرْسِلْتُ بِہِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا تَقَعْ فِیْ عَلِیٍّ فَاِنَّہٗمِنِّیْ وَاَنَا مِنْہٗوَھُوَوَلِیُّکُمْ بَعْدِیْ، وَاِنَّہٗمِنِّیْ وَاَنَا مِنْہٗوَھُوَوَلِیُّکُمْ بَعْدِیْ۔)) (مسند احمد: ۲۳۴۰۰)

عبداللہ بن بریدہ اپنے والد سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یمن کی طرف دو دستے روانہ فرمائے تھے ،ایک دستے پر سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اور دوسرے پر سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو امیر مقرر کیا گیا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم آپس میں ملو تو سب لوگوں پر نگران علی ہوں گے اور اگر تم الگ الگ رہو تو تم میں سے ہر ایک اپنے اپنے لشکر پر امیر ہو گا۔ سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ہمارا اہل یمن کے قبیلہ بنو زید سے آمنا سامنا ہوا اور ان سے لڑائی ہوئی، مسلمان مشرکوں پر غالب رہے، ہم نے جنگ جو لوگوں کو قتل کیا اور بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے قیدی عورتوں میں سے ایک کو اپنے لیے چُن لیا۔ سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ اس صورت حال پر سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو خط لکھ کر مطلع کیا، میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر وہ خط آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حوالے کیا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے خط پڑھا گیا تو میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے پر غصے کے آثار دیکھے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ پناہ کے طالب کی جگہ ہے یعنی میں آپ سے گستاخی کی معافی چاہتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ایک شخص کی زیرِ امارت بھیجا اور پابند کیا ہے کہ میں اس کی اطاعت کروں، میں نے تو وہی کام کیا جس کے لیے مجھے بھیجا گیا،یعنی میں نے تو کوئی غلطی نہیں کی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم علی پر کسی قسم کی انگشت نمائی نہ کرو، وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں اور میرے بعد وہی تمہارا دوست ہو گا، وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں اور میرے بعد وہی تمہارا دوست ہو گا۔

Haidth Number: 10960
ابو العلاء بن عمیر سے مروی ہے کہ جب سیدنا قتادہ بن ملحان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو اس وقت میں ان کے ہاں موجود تھا، اتنے میں گھر کے اندر دور سے ایک آدمی گزرا، میں نے اس گزرنے والے کا عکس (آئینے کی مانند) قتادہ بن ملحان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے چہرے پر دیکھا، ابو العلاء کہتے ہیں: میں جب انہیں دیکھا کرتا تھا تو یوں لگتا تھا گویا ان کے چہرے پر تیل لگا ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے چہرے پر اپنا ہاتھ مبارک پھیرا تھا۔

Haidth Number: 11877
سیدہ میمونہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک دن فرمایا: اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا، جب دین میں فساد پیدا ہو جائے گا، خیر کی بجائی شرّ کی رغبت پیدا ہو جائے گی، بھائیوں میں اختلاف پڑ جائے گا اور بیت اللہ کو جلا دیا جائے گا۔

Haidth Number: 12431