عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے :کہ جو شخص اللہ کے نام پر پناہ مانگے اسے پناہ دو، اور جو اللہ کے نام پر سوال کرے اسے عطاکرو، اور جو تمہیں دعوت دے اس کی دعوت قبول کرو(اور جو اللہ کے نام پر پناہ مانگے اسے پناہ دو)اور جو شخص تم سے بھلائی کرے اسے بدلہ دو، اگر کوئی چیز نہ ملے تو اس کے لئے اتنی دعا کرو کہ تمہیں اطمینان ہو جائے کہ تم نے اس کا بدلہ دے دیا ہے
سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے تنگدست کو مہلت دی اس کے لئے ہر دن کے بدلے اسی کے مثل صدقہ کا ثواب ہے۔ اس کے بعد آپ کو فرماتے سنا کہ جس شخص نے تنگدست کو مہلت دی اس کے لئے ہر دن کے بدلے دو گنا صدقہ ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ فرمارہے تھے : جس شخص نے کسی تنگدست کو مہلت دی اس کے لئے ہر دن کے بدلے صدقہ ہے، پھر میں نے سنا آپ نے فرمایا: جس شخص نے کسی تنگدست کو مہلت دی اس کے لئے ہر دن کے بدلے دوگنا صدقہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرض کی مقررہ مدت آنے سے پہلے اس کے لئے ایک صدقہ ہے اور جب مدت پوری ہو جائے پھر اسے مہلت دے تو اس کے لئے دو گنا صدقہ ہے
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص نے اللہ کے راستے میں کسی چیز کی جوڑی خرچ کی اسے جنت (کے دروازوں) سے آواز لگائی جائے گی: اے اللہ کے بندے یہ بہتر ہے۔ پس جو شخص نمازی ہو گا تو باب الصلاۃ سے بلایا جائے گا، اگر اہل جہاد سے ہوگا تو باب الجہاد سے بلایا جائے گا، اگر صدقہ دینے والا ہوگا تو باب الصدقہ سے بلایا جائے گا۔ اگر روزے دار ہوگا تو باب الریان سے بلایا جائے گا۔ ابو بکر صدیقرضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کسی کو اس بات کی ضرورت تو نہیں ہے تو (پھر بھی)، کیا کوئی ایسا شخص بھی ہوگا جسے ان تمام دروازوں سے بلایا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اور مجھے امید ہے کہ تم ان میں سے ہوگے
خالد بن عدی جہنی سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے: جس شخص کے پاس اس کے بھائی کی طرف سے کوئی بھلائی (رقم تحفہ وغیرہ)بغیر سوال کئے آئے، اس میں کوئی حرص نہ ہو تو اسے قبول کر لے، اسے واپس نہ کرے، کیوں کہ یہ ایسا رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کیا ہے
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کے مرض الموت میں آیا، میں نے دیکھا آپ بیٹھنا چاہ رہےتھے،علی رضی اللہ عنہ ، آپ کے پاس موجود تھے اور نیند کی وجہ سے ان کی آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول میرا خیال ہے علی آپ کے پاس ساری رات جاگتے رہے ہیں، کیا اب میں (آپ کو سہارا دینے کے لئے) آپ کے قریب ہوجاؤں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی تم سے زیادہ حقدار ہے، علیرضی اللہ عنہ آپ کے قریب ہو گئےاورآپ کو سہارادیا۔میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے: جس شخص کا خاتمہ کسی مسکین کو اجر کی نیت سے کھانا کھلانے پر ہوا وہ جنت میں داخل ہوگا، جس شخص کا خاتمہ لا الہ الااللہ کے قول پر ہوا وہ جنت میں داخل ہوگا۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے ایک نگران کی طرف خط لکھا جو زمینوں کی نگرانی کرتا تھا کہ تم زائد پانی مت روکو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے: جس شخص نے اپنا زائد پانی روکایا زائد گھاس/ چارہ تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے اپنا فضل روک لیں گے
انسرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سعدرضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! میری والدہ فوت ہو گئیں لیکن کوئی وصیت نہیں کرسکیں۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے فائدہ پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جی ہاں،تم لوگوں کے لئے ]انی کا انتظام کردو
ابو سعید خدریرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: مال جمع کرنے والوں کے لئے ہلاکت ہے، لیکن جس شخص نے اپنے مال کو اس طرح اس طرح، اس طرح، اس طرح چاروں طرف دائیں بائیں آگے پیچھے خرچ کیا۔
بنو اسد کے ایک شخص سے مروی ہے کہ: میں اور میرے گھر والے بقیع الغرقد میں آئے تو مجھے گھر والوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور ہمارے لئے کھانے والی کوئی چیز لے کر آؤ، اور سب اپنی ضروریات بیان کرنے لگے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو دیکھا ایک آدمی آپ کے پاس موجود ہے اور آپ سے کچھ مانگ رہا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ میرے پاس تمہیں دینے کے لئے کچھ نہیں ،وہ شخص غصے کی حالت میں یہ کہتا ہوا واپس چلا گیا کہ قسم سے آپ اپنے من پسند لوگوں کو دیتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی مجھ پر اس وجہ سے غصے ہوتا ہے کہ میرے پاس اسے دینے کے لئے کچھ نہیں، تم میں سے جس شخص نے سوال کیا اور اس کے پاس ایک اوقیہ یا اس کے برابر چاندی ہےتواس نے چمٹ کر سوال کیا اس اسدی شخص نے کہا: ہماری اونٹنی تو ایک اوقیہ چاندی سے بہتر ہے۔ مالک نے کہا: اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہوتی ہے، میں واپس آگیا اور آپ سے کوئی سوال نہیں کیا، اس کےبعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو اور منقہ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے تقسیم کرکے ہمیں بھی دیا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں غنی کر دیا۔
ابو جری الہجیمی سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہم دیہاتی لوگ ہیں، ہمیں ایسی بات بتائیے جس سے ہمیں اللہ تعالٰی نفع دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی نیکی کو حقیر مت سمجھو، اگرچہ تم اپنے ڈول سے پانی طلب کرنے والے کے برتن میں کچھ ڈال دو، اگرچہ تم اپنے بھائی سے مسکراتے ہوئے چہرے سے ملو، اور تہہ بند لٹکانے سے بچو، کیوں کہ یہ تکبر کی علامت ہے، اور تکبر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا، اگر کوئی آدمی تم میں موجود (کسی) عیب کا طعنہ دے تو تم اس میں موجود عیب کا طعنہ مت دو، کیوں کہ اس کا اجر تمہارے لئے اور اس کا وبال اس کے لئے ہے جس نے طعنہ دیا
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک گوہ آپ کی طرف ہدیا کی گئی لیکن آپ نے اسے نہیں کھایا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم اسے مساکین کو نہ کھلادیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے تم خود نہیں کاےتے اسے دوسروں کو بھی مت کھلایا کرو۔
بھز بن حکیم اپنے والد سے وہ ان کے دادا سے مرفوعا بیان کرتے ہیں کہ: کوئی غلام اپنے مالک کے پاس آتا ہے اور اس کے پاس موجود زائد چیز کا سوال کرتا ہے لیکن وہ اسے نہیں دیتا تو قیامت کے دن اس کے لئے ایک سانپ لایا جائے گا جو اس زائد سامان کے ساتھ پھنکار رہا ہوگاجو اس نے روک کے رکھا
)ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو انسان خود پر سوال کا دروازہ کھولتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر محتاجی کا دروازہ کھول دیتاہے۔ اس سے بہتر ہے کہ آدمی رسی لے کر پہاڑوں میں چلا جائے اور اپنی کمر پر لکڑیوں کا گٹھڑا لاد کر لائے (اور اسے بیچ کر) کھانا کھائے۔بجائے اس کے کہ وہ لوگوں سے سوال کرتا پھرے، اسے دیا جائے یا نہ دیا جائے
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکررضی اللہ عنہ سے عائشہ رضی اللہ عنہا کی شکایت کی ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گمان تک نہ تھا کہ ابو بکررضی اللہ عنہ اس حد تک چلے جائیں گے، ابو بکررضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور عائشہ رضی اللہ عنہا کو تھپڑ رسید کر دیا۔ اور سینے پر بھی مارا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے غصہ آگیا اور فرمانے لگے: ابو بکر! آج کے بعد میں کبھی بھی تم سے اس کی شکایت نہیں کروں گا
عبیداللہ بن عباسرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے ابو ذررضی اللہ عنہ نے کہا: بھتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھا، آپ نے فرمایا: ابو ذر! مجھے پسند نہیں کہ جو سونا اور چاندی احد کے برابر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کروں، جس دن میں مروں تو اس میں سے ایک قیراط بھی چھوڑ دوں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا خزانہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابو ذر !میں کم کی طرف جا رہا ہوں اور تم زیادہ کی طرف، میں آخرت چاہتا ہوں اور تم دنیا؟، ایک قیراط‘‘ آپ نے تین مرتبہ دہرایا۔
ابو قتادہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: اے لوگو! اللہ کے مال سے اللہ سے اپنے آپ کو خرید لو، اگر کوئی شخص اپنا مال لوگوں کو دینے میں بخل کرے تو وہ اپنے آپ سے شروع کرے اور خود پر صدقہ کرے، وہ کھائے اور جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس سے پہنے
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہتی ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک طوق لائی اس میں ستر مثقال سونا تھا، میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ نے اس میں جو زکاۃ فرض کی ہے وہ لے لیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے ایک مثقال اور تین چوتھائی لے لیا، اگلا سال آیا تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس میں سے جو اللہ تعالیٰ نے فرض کیا ہے وہ لے لیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ان چھ اور ان کے علاوہ اقسام پر تقسیم کیا، اور فرمایا: فاطمہ! حق( عزوجل) نے تمہارے لئے کوئی چیز نہیں بچائی، میں نے کہا: اے للہ کے رسول! میں اپنے لئے اس پر راضی ہو گئی ہوں جس پر اللہ اور اس کا رسول راضی ہو گئے ہیں
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے: اے مہاجرین کی جماعت! پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو جاؤ گے اور میں اللہ سے پناہ طلب کرتا ہوں کہ تم ان میں مبتلاہوجاؤ، کسی بھی قوم میں جب کھلے عام گناہ ہوتا ہے تو ان میں طاعون اور بھوک کی ایسی بیماریاں جنم لیتی ہیں جو ان کے پہلے لوگوں میں نہیں ہوئی ہوتیں، اور جب کوئی قو م پیمانہ اور تول کم کر دیتی ہے تو انہیں قحط،سخت مشقت اور ظالم بادشاہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور جب کوئی قوم اپنے مال کی زکاۃ روک لیتی ہے تو آسمان سے بارش رک جاتی ہے، اگر جانور نہ ہوں تو انہیں پانی کا ایک قطرہ نہ ملے، اور جب کوئی قوم اللہ اور اس کے رسول کا عہد توڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ کوئی دوسرا دشمن مسلط کر دیتا ہے، تو وہ ان کے ہاتھوں میں جو کچھ ہوتا اس میں سے کچھ چھین لیتے ہیں۔ اور جب کسی قوم کے حکمران اللہ کی کتاب سے فیصلے نہیں کرتے اور اللہ کی نازل کردہ شریعت کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ انہیں آپس کے اختلافات میں مبتلا کر دیتا ہے۔( )
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غزوے کا ارادہ فرمایا تو فرمانے لگے: اے مہاجرین اور انصار کی جماعت! تمہارے کچھ بھائی ایسے ہیں جن کا نہ مال ہے اور نہ خاندان، اس لئےہر شخص دو یا تین کو اپنے ساتھ ملا لے، جابر رضی اللہ عنہ نےفرمایا: ہم میں سے جن کے پاس بھی سواری تھی تو وہ بھی اس پر انہی کی طرح باری باری ہی سوار ہوتا تھا۔ جابررضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اپنے ساتھ دو یا تین آدمی ملا لئے، میرے لئے بھی میرے اونٹ میں ایک دوسرے کے بعد ایک باری تھی۔( )
بسر بن جاںش قرشی سےمروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:فَمَالِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا قِبَلَکَ مُہۡطِعِیۡنَ ﴿ۙ۳۶﴾ عَنِ الۡیَمِیۡنِ وَ عَنِ الشِّمَالِ عِزِیۡنَ ﴿۳۷﴾ اَیَطۡمَعُ کُلُّ امۡرِیًٔ مِّنۡہُمۡ اَنۡ یُّدۡخَلَ جَنَّۃَ نَعِیۡمٍ ﴿ۙ۳۸﴾ کَلَّا ؕ اِنَّا خَلَقۡنٰہُمۡ مِّمَّا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۳۹﴾ ترجمہ:”تو ان کافروں کو کیا ہوا ہے کہ تمہاری طرف دوڑے چلے آتے ہیں۔اور دائیں بائیں سے گروہ گروہ ہو کر (جمع ہوتے جاتے ہیں)۔کیا ان میں سے ہر شخص یہ توقع رکھتا ہے کہ نعمت والی جنتوں میں داخل کیا جائے گا؟ہرگز نہیں،ہم نے ان کو اس چیز سے پیدا کیا ہے جسے وہ جانتے ہیں“۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی پر لعاب مبارک ڈالا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے ابن آدم!تم مجھے عاجز سمجھتے ہو حالانکہ میں نے تمہیں اسی چیز سے پیدا کیا، پھر تمہیں برابر کیا تمہاراجوڑ جوڑ درست مقام پر لگایا۔ (اور جب) تم دو دھاری دار چادروں میں چلتے ہو اور زمین تم سے شکوہ کرتی ہے، پھر تم نے(مال) جمع کیا اور روک کر رکھ لیا، حتی کہ جب تمہاری جان نکلنے لگی تو تم کہنے لگے: میں صدقہ کرتا ہوں، اب صدقے کا وقت کہاں ؟
)ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا خزانہ (جمع کیا ہوا) قیامت کے دن ایک گنجے سانپ کی صورت میں آئے گا اس کا مالک اس سے بھاگے گا اور وہ اس کا تعاقب کرے گا، اور کہے گا: میں تیرا خزانہ ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واللہ وہ اس کے پیچھے لگا رہے گا حتی کہ وہ اپنا ہاتھ آگے کرے گا تو اسے منہ میں لقمہ بنا کر چبا ڈالے گا