عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گذرے جو اپنی ٹانگ ایک بکری کے اوپر رکھے چھری تیز کر رہا تھا۔ بکری اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس سے پہلے چھری تیز نہیں کر سکتے تھے؟ کیا تم چاہتے ہو کہ اسے دو مرتبہ مارو؟
فضالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ایک آدمی آیا اور کہا:اے اللہ کے رسول!آپ پر اللہ کی رحمت ہو، جہاد کے برابر کونسا عمل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے اور اس کے برابر کوئی عمل نہیں سوائے اس جیسے شخص کے( اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے قیام کرنے والے کی طرف اشارہ کیا)، جو قیام اور روزے میں وقفہ نہ کرے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فوعاً بیان کرتے ہیں اور کبھی کبھی اسے مرفوعاً بیان نہیں کرتے : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں لیلۃ القدر سے افضل رات نہ بتاؤں؟ خوف کے علاقے میں پہرہ دینے والا(جسے یہ خدشہ ہو کہ) شاید وہ اپنے گھر والوں کی طرف واپس لوٹ کر نہ جا سکے۔
ابو طفیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا حتی کہ آپ کھل کھلاکرہنسنےلگے۔ پھر فرمایا: کیا تم مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ میں کس وجہ سے ہنسا ہوں؟ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کس وجہ سے ہنسے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنی امت کے کچھ لوگوں کو دیکھا جو زنجیروں میں جکڑ کر جنت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں، انہیں یہ بہت ناپسندیدہ اور ناگوار ہے۔ہم نے کہا:یہ کون لوگ ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عجمی لوگ ہیں جنہیں مہاجرین قیدی بنائیں گے، اور انہیں اسلام میں داخل کریں گے ۔
سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا جب لشکر واپس چلے گئے( یعنی خندق کے موقع پر)۔ اب (اور ایک روایت میں ہے: آج کے بعد) ہم ان سے جہاد کریں گے، (یعنی مشرکین مکہ سے جوغزوہ خندق میں شکست کھا گئے) اور یہ ہم سے لڑائی نہیں کرسکیں گے (یعنی ہم ان کی طرف چڑھائی کریں گے)۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے ایک آدمی کو حکم دیا، جب تم اپنے بستر پر آؤ تو کہو: اللهُمَّ خَلَقْتَ نَفْسِي وَأَنْتَ تَوَفَّاهَا لَكَ مَمَاتُهَا وَمَحْيَاهَا إِنْ أَحْيَيْتَهَا فَاحْفَظْهَا وَإِنْ أَمَتَّهَا فَاغْفِرْ لَهَا اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ،” اے اللہ (تو نے) مجھےپیدا کیا اور تو ہی فوت کرے گا۔ تیرے لئے ہی مرنا ہے، اور تیرے لئے ہی زندہ رہنا، اگر تو اسے زندہ رکھے تو اس کی حفاظت فرما، اور اگر اسے فوت کردے تو اس کی بخشش فرما، اے اللہ! میں تجھ سے عافیت کا سوال کرتا ہوں“۔ اس آدمی نے ان سے کہا: کیا آپ نے یہ بات عمر رضی اللہ عنہ سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: عمر رضی اللہ عنہ سے بہتر شخص، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (سنی ہے)۔
زیاد بن جبیر بن حیہسے مروی ہے کہتے ہیں:مجھے میرے والد نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ہرمزان سے کہا:جب تم میرے پاس سےجاہی رہےہوتومیرےلئےایک نیکی کردو،عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا تھا کہ:ڈرو مت اور اسے امان دے دی۔ ہرمزان نے کہا: ٹھیک ہے،آج کے فارس کا ایک سر اور دو بازو ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:سر کہاں ہے؟ ہر مزان نے کہا:نہاوند، بندار کے ساتھ ۔کیوں کہ اس کے ساتھ کسریٰ کے ستون اور اہل اصفہان ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:بازو کہاں ہیں؟ ہر مزان نے ایک جگہ کا ذکر کیا جو مجھے بھول گئی۔ ہرمزان نے کہا: دونوں بازو کاٹ دو، سر کمزور ہو جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: اللہ کے دشمن! تم جھوٹ بولتے ہو، میں سر کی طرف جاؤں گا، اللہ تعالیٰ اسے کاٹ دے گا۔ جب اللہ تعالیٰ سر کاٹ دے گا تو بازوخودبخودختم ہو جائیں گے۔عمر رضی اللہ عنہ نے خود جانے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے کہا: امیر المومنین ہم آپ کو اللہ کا واسطہ دیتے ہیں کہ آپ عجم کی طرف نہ جائیں۔ اگر آپ کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو مسلمانوں کا نظام سنبھالنے والا کوئی نہیں۔آپ لشکر بھیج دیجئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اہل مدینہ کو بھیجا، ان میں عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کو بھی بھیجا۔ مہاجرین و انصار کو بھی بھیجا اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ تم بصرہ والوں )بصرہ کے مجاہدین کا لشکر) کو لے کر آؤ اور حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو خط لکھا تم اہل کفوہ (کوفہ کے مجاہدین کا لشکر) کو لے کر آؤ، اور سب نہاوند میں جمع ہو جاؤ، جب تم جمع ہو جاؤ تو تمہارے امیر نعمان بن مقرن مزنی ہوں گے۔ جب وہ نہاوند میں جمع ہوگئے ۔تو بندار نے ان کی طرف (کافر شخص)بھیجا کہ اے عرب کی جماعت!ہمارے پاس اپنا کوئی آدمی بھیجو، ہم اس سے بات چیت کریں(مذاکرات کریں) لوگوں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو چنا ، میرے والد کہتے ہیں: گویا میں انہیں دیکھ رہا ہوں، لمبے قد، بکھرے بالوں والے، بھینگے، وہ بندار کے پاس گئے، جب وہ ہمارے پاس آئے تو ہم نے ان سے تفصیل پوچھی تو انہوں نے کہا: میں نےایک عجمی کافر کو دیکھاکہ وہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ طلب کر رہا ہے۔ تم نے اس عربی کو کیوں بلایا ہے؟ کیا اسے ہماری شان و شوکت، حسن و جمال اور بادشاہت ہمارے پاس ہے ہم اسے غنیمت جانیں؟ کہنے لگے: کہا نہیں، بلکہ اس سے بھی بلند تر مقصد کے لئے بلایا ہے تاکہ ہم اسے اپنی عسکری قوت اور عددی برتری دکھائیں۔ جب میں نے انہیں دیکھا تو ان کے نیزے بھی دیکھے اور ڈھالیں بھی جن سے آنکھیں خیرہ ہو رہی تھیں۔ انہیں اس کے سر پر کھڑے دیکھا، وہ سونے کے ایک تخت پر بیٹھا تھا۔ اس کے سر پر تاج تھا، میں اپنی اسی کیفیت میں چلتارہا۔ میں نے اس کے ساتھ تخت پر بیٹھنا چاہا تو مجھے (تخت سے) ہٹا دیا گیا، میں نے کہا:قاصدوں کے ساتھ اس طرح نہیں کیا جاتا۔ وہ مجھ سے کہنے لگے: تم کتے ہو کیا تم بادشاہ کے ساتھ بیٹھوگے؟ میں نے کہا: جتنا،توعزت دار ہے اس سے زیادہ میں اپنی قوم میں محترم ہوں،نہاوند نے مجھے ڈانٹ دیا، اور کہا: بیٹھ جاؤ، میں بیٹھ گیا، مجھے اس کی بات ترجمہ کر کے بتائی گئی ۔اس نے کہا: اے عرب کی جماعت! تم لوگوں میں طویل بھوک والے تھے، سب سے زیادہ بدبخت تھے،سب سے گندے لوگ تھے۔ صحراو بیابان میں تمہارا گھر تھا، ہر بھلائی سے دور تھے مجھے اور کسی بات نے نہیں روکا کہ میں اپنے سرداروں کو تمہارا نظم و ضبط بہتر کرنے کا حکم دوں، سوائے تمہاری بدبو دارنجس لاشوں کے کیوں کہ تم پلید ہو۔ اگر تم واپس چلے جاؤ تو تمہارا راستہ چھوڑ دیاجائے گا، اگر انکار کرو گے تو یہ تمہارا قبرستان ہوگا۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: میں نے اللہ کی حمد و ثنا کی اور کہا: واللہ آپ نے ہمارا کوئی وصف اور عادت غلط بیان نہیں کی۔ ہم واقعی بہت دور صحرا بیابان میں تھے ۔اور ستگ بھوک والے تھے، سب سے زیادہ بدبخت تھے۔ بھلائی سے بہت دور تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف ایک رسول بھیجا، اس نے ہمیں دنیا میں مدد کا وعدہ دیا اور آخرت میں جنت کا۔ جب سے اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم آیا ہے ہم اپنے رب کے مدد اور کامیابی کو پرکھتے آرہے ہیں، حتی کہ ہم تمہارے پاس آگئے۔ اللہ کی قسم! ہم تمہاری بادشاہت اور عیش والی زندگی دیکھ رہے ہیں ہم اس بدبختی کی طرف کبھی بھی لوٹ کر نہیں جائیں گے، یہاں تک کہ ہم تمہارے قبضے میں موجود ہر چیز پر غالب نہ آجائیں ۔یا ہم تمہاری زمین میں قتل نہ کردیئے جائیں۔ اس نے کہا: بھینگے آدمی نے اپنے دل کی سچی بات تمہارے سامنے کر دی۔ میں اس کے پاس سے اٹھ گیا، واللہ میں نے علج رضی اللہ عنہ (عجمی کافر)کو اپنی جرأت سے مرعوب کر دیا۔ علج (عجمی کافر)نے ہماری طرف پیغام بھیجا کہ: یا تو تم نہاوند پار کر کے ہمارے پاس آؤ ورنہ ہم آتے ہیں، نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: نہاوند پار کرو، ہم نے نہاوند پار کیا۔ میرے والد کہتے ہیں: میں نے آج کے دن کی طرح کبھی کوئی دن نہیں دیکھا۔ علج (عجمی کافر)اس طرح آرہے تھے گویا وہ لوہے کے پہاڑ ہوں۔ ایک دوسرے سے بندھے ہوئے تھے عرب سے بھاگیں نہیں، اور انہیں آپس میں ملا دیا گیا حتی کہ ایک زنجیر میں سات آدمی تھے۔ انہوں نے اپنے پیچھے لوہے کے آرے ڈال دئیے کہ جو بھاگے گا اسے لوہے کے آرے کاٹ دیں گے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب ان کی کثرت دیکھی تو کہاکہ آج کے دن جتنے مقتول میں نے کبھی نہیں دیکھے۔ہمارے دشمن کی نیندیں اڑی ہوئی تھیں کہ ان پر جلدی نہ کی جائے۔ واللہ معاملہ اگر میرے ہاتھ میں ہوتا تو میں جلدی کرتا، نعمان رضی اللہ عنہ بہت زیادہ رونے والے انسان تھے۔ کہنے لگے: اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایسے کئی مواقع عطا کئے ہیں، اس لئے یہ تمہیں غمزدہ نہ کرے اور تمہارے موقف کو معیوب نہ کرے، اور مجھے ان سے ٹکرانے سے کوئی چیز نہیں روکتی سوائے اس بات کے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن کے ابتدائی حصے میں قتال نہیں کرتے تھے۔ جب تک نماز کا وقت نہ ہو جاتا، اور ہوائیں چلنا شروع نہ ہو جاتیں،جلدی نہ کرتے، اور لڑائی کا بہترین وقت نہ ہو جاتا۔پھر نعمان جلدی نہ کرتے کہنے لگے: اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو ایسی فتح سے جس میں اسلام اور اہل اسلام کی عزت اور کفر اور اہل کفر کی ذلت ہو، میری آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرما۔ پھر اس کے بعد میرا خاتمہ شہادت کی موت پر کر دے۔ پھر کہنے لگے: آمین کہو، اللہ تم پر رحم کرے، ہم نے آمین کہا۔ وہ رونے لگے تو ہم بھی رونے لگے، نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں جھنڈالہراؤں گا ۔اپنا اسلحہ تیار کر لینا، پھر دوسری مرتبہ اسے لہراؤں گا تو اپنے سامنے دشمن سے لڑائی کے لئے تیار ہو جانا، جب میں اسے تیسری مرتبہ لہراؤں گا تو ہر شخص اللہ سے برکت کی امید کرتے ہوئے اپنے سامنے والے دشمن پر حملہ کر دے۔ جب نماز کا وقت ہوگیا۔ اور ہوائیں چل پڑیں تو انہوں نے تکبیر کہی ہم نے بھی تکبیر کہی ۔کہنے لگے: واللہ فتح کی ہوا ہے، ان شاء اللہ اور مجھے امید ہے اللہ تعالیٰ میری دعا قبول کرے گا، اور ہمیں فتح دے گا، انہوں نے جھنڈا لہرایا تو وہ تیار ہوگئے پھر دوسری مرتبہ لہرایا پھر تیسری مرتبہ لہرایا تو ہم سب نے اکھٹے ہو کر اپنے ساتھ والوں پر حملہ کر دیا۔ نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر مجھے کچھ ہو جائے تو امیر حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ہوں گے، اگر حذیفہ کو کچھ ہو جائے تو فلاں، اگر فلاں کو کچھ ہو جائے تو (فلاں)حتی کہ سات نام گنوائے، آخر میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا نام لیا۔ میرے والد کہتے ہیں :واللہ میں مسلمانوں میں سے کسی شخص کو نہیں جانتا جو چاہتا ہو کہ وہ قتل یا کامیاب ہونے سے پہلے گھر واپس پلٹ جائے وہ ثابت قدم رہے۔ ہم صرف تلواروں کی گرج سن رہے تھے۔ حتی کہ مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی، جب انہوں نے دیکھا کہ ہم نے صبر کر لیا ہے(ہم ڈٹ گئے ہیں) اور واپس جانے کا ارادہ نہیں رکھتے تو منتشر ہوگئے۔ ایک آدمی گرتا تو اس پر سات آدمی گرتے اور سب قتل کر دیئے جاتے۔ پیچھے سے لوہے کے آرے انہیں کاٹنے لگے۔ نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا: جھنڈا آگے کرو، ہم جھنڈا آگے کرنے لگے، ہم انہیں قتل کرتے اور شکست دیتے، جب نعمان رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کر لی ہے اور فتح دیکھ لی تو ایک تیرآیا اور ان کی پسلی میں جا گھسا اور وہ شہید ہوگئے ۔ ان کے بھائی معقل بن مقرن آئے اور ان پر کپڑا ڈال دیا، اور جھنڈا پکڑ لیا، آگے بڑھ کر کہنے لگے: آگے بڑھو اللہ تم پر رحم کرے، ہم آگے بڑھتے انہیں شکست دیتے اور قتل کرتے رہے۔ جب ہم فارغ ہوئے اور لوگ جمع ہوگئے، تو کہنے لگے: امیر کہاں ہیں: معقل نے کہا: یہ تمہارا امیر ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں کو فتح دکھا کر ٹھنڈک عطا فرمائی، اور خاتمہ شہادت پر کیا۔ لوگوں نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مدینے میں اللہ سے دعائیں کر رہے تھے اور چیخنے والی حاملہ کی طرح بڑی شدت سے انتظار کر رہے تھے۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو ایک مسلمان شخص کے ہاتھ فتح کا پیغام بھیجا، جب وہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو کہنے لگا: امیر المومنین فتح مبارک ہو، جنگ میں اللہ تعالیٰ نے اسلام اور اہل اسلام کو عزت دی اور شرک اور اہل شرک کو ذلیل کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا نعمان نے تمہیں بھیجا ہے؟ اس آدمی نے کہا: امیر المومنین! نعمان رضی اللہ عنہ اجر پاگئے۔ عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور انہوں نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا، پھر کہنے لگے: اور کون کون لوگ ہیں؟ اس نے کہا: فلاں فلاں، حتی کہ کئی لوگ گنوادیے۔ پھر کہنے لگا: امیر المومنین دوسرے وہ لوگ جنہیں آپ نہیں جانتے ۔عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جبکہ وہ رو رہے تھے: کوئی حرج نہیں اگر عمر انہیں نہیں جانتا لیکن اللہ تو انہیں جانتا ہے۔
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اشعری لوگوں کے پاس جب کسی معرکے میں کھانا کم رہ جاتا ہے یا مدینے میں انکے گھروں میں ذخیرہ تھوڑا رہ جاتا ہے تو جو ان کے پاس ہوتا ہے اسے ایک کپڑے میں جمع کرتے ہیں، پھر آپس میں ایک برتن برابر تقسیم کر لیتے ہیں۔ یہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔
حمید(بن ہلال) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے طفاوہ قبیلے کا کہ ایک آدمی تھا جو ہمارے پاس سے گزراکرتا تھا وہ قبیلے والوں کے پاس آیا اور انہیں بتانے لگا کہ میں اپنے ایک قافلے میں مدینے آیا، ہم نے اپنا سامان بیچ دیا، پھر میں کہنے لگا: میں اس شخص کی طرف جاتا ہوں اور اپنے پیچھے والوں کے لئے اس کی خبر لاتا ہوں۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ مجھے ایک گھر دکھانے لگے، کہےا لگے:ایک عورت اس گھر میں تھی(یعنی مدینے کے ایک گھر میں) وہ مسلمانوں کے ساتھ ایک سریہ (وہ لڑائی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی دوسرے صحابی کو سپہ سالار لشکر بنا کر بھیجیں) میں نکلی، اوراس نے اپنے ریوڑ میں بارہ بکریاں اور تکلا جس سے وہ سوت کاتی تھی یا بننے کا کام کرتی تھی۔ چھوڑا (واپس آئی تو) ان بکریوں میں سے ایک بکری اور تکلا گم پایا۔ وہ کہنے لگی: اے میرے رب تو نے اس شخص کے لئے ضمانت دی ہے جو تیرے راستے میں نکلتا ہے کہ تو اس کے پیچھے گھر بار کی حفاظت کرے گا، میرے ریوڑ میں سے ایک بکری اورکوچ گم ہے۔ میں تجھے واسطہ دیتی ہوں کہ میری بکری اورکوچ واپس لوٹا دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی شدت مناجات کا ذکر کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی بکری اور اس جیسی ایک اوربکری، اورایک تکلا اور اس جیسا دوسرا تکلا واپس مل گیا، اگر چاہو تو اس سے پوچھ لو ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن سب سےپہلےایک شہیدکےمعاملےکافیصلہ کیا جائے گا، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں شمار کروائے گا وہ انہیں تسلیم کرے گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تونے ان کے بدلے میں کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے تیرے راستے میں شہید ہونے تک قتال کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا :تو جھوٹ بولتا ہے، تم نے قتال صرف اس لئے کیا تاکہ لوگ تمہیں بہادر کہیں اور یہ بات کہہ دی گئی۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ دوسرا شخص جس نے علم سیکھا اور سکھایا ہوگا، اور قرآن پڑھا ہوگا، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں شمار کروائے گا، وہ ان کا اعتراف کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا :تو نے میرے لئے کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم سیکھا اور سکھایا اور تیرے لئے قرآن پڑھا ۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بولتا ہے ۔تم نے علم اس لئے حاصل کیا تاکہ لوگ تمہیں عالم کہیں اور قرآن اس لئے پڑھا تاکہ لوگ تمہیں قاری کہیں۔ اور یہ بات کہہ دی گئی، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اسے چہرے کے بل گھسیٹ کرجہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اور تیسرا وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال کی فراوانی دی ہوگی اور ہر قسم کا مال عطا کیا ہوگا، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں گنوائے گا، وہ ان کا اعتراف کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے ان کے بدلے کیا کیا؟ وہ کہے گا: تو جس راستے میں خرچ کرنے کو محبوب سمجھتا تھا میں نے ایسا کوئی راستہ نہیں چھوڑا جس میں خرچ نہ کیا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا :تو جھوٹ بولتا ہے، تم نے یہ کام اس لئے کیا تاکہ لوگ تمہیں سخی کہیں اور یہ بات کہی جا چکی، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہتی ہیں کہ: جب مکہ ہم پر تنگ ہوگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو تکالیف دی جانے لگیں۔ انہیں آزمائش میں مبتلا کر دیا گیا، اور انہوں نے اپنے دین میں آزمائش اور مصیبت دیکھی اور دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دور کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوداپنی قوم اور اپنے چچا کی حفاظت میں تھے۔ آپ کے صحابہ کو جو تکالیف پہنچتیں ہیں وہ آپ کو نہیں پہنچیںا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: حبشہ میں ایک بادشاہ ہے اس کے پاس کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا ، اس تکلیف کی وجہ سے جس میں تم ہو،اس بادشاہ کے ملک میں چلے جاؤ جب تک اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کشادگی اورکوئی راستہ نہ نکال دے، ہم تھوڑے تھوڑے حبشہ کی طرف نکلے حتی کہ ہم وہاں جمع ہوگئے۔ بہترین گھر سے، بہترین پڑوسی کے پاس، اپنے دین کے بارے میں بے خوف ہوگئے اور ظلم کا ڈر نہ رہا۔
براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر رات کے وقت نکلو تو تمہارا شعار (خفیہ لفظ)حم لَا يُنْصَرُونَ ہوناچاہئے
ابو ذر رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: کونسا جہاد افضل ہے؟، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی جان اور خواہش سے اللہ کے لئے جہاد کرو۔
ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے موقع پر نکلے جب ثنیۃ الوداع پار کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک اسلحے سے لیس لشکر آرہا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟، صحابہ نے کہا: یہ عبداللہ بن ابی(ابن)سلول اپنے چھ سو اہل قینقاع کے یہودی دستوں کے ساتھ ہے، اور یہ عبداللہ بن سلام کا قبیلہ ہے، آپ نے پوچھا: کیا یہ مسلمان ہوگئے ہیں؟ صحابہ نے کہا: نہیں اےاللہ کے رسول، آپ نے فرمایا: ان سے کہو: واپس لوٹ جائیں، کیوں کہ ہم مشرکین کے خلاف مشرکین سے مدد نہیں لیں گے
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم شہید کسے کہتے ہو؟ صحابہ نے کہا: وہ شخص جو اللہ کے راستے میں قتال کرتا ہوا قتل کر دیاجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب تو میری امت کے شہید تھوڑے ہوں گے۔ اللہ کے راستے میں قتل کیا جانے والا شہید ہے،اللہ کے راستے میں طاعون سے مرنے والا شہید ہے، اللہ کے راستے میں ڈوبنے والا شہید ہے، اللہ کے راستے میں اپنی سواری سے گرنے والا شہید ہے، اللہ کے راستے میں ذات الجنب (پیٹ کی بیماری) سے مرنے والا شہید ہے۔
بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی غزوے میں نکلے جب واپس آئے تو ایک کالے رنگ کی لڑکی(لونڈی) آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو صحیح سلامت واپس بھیج دیا تو میں آپ کے سامنے دف بجاؤں گی۔ اور اشعار پڑھوں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: اگر واقعی تم نے نذر مانی ہے تو ٹھیک ہے وگرنہ نہیں۔ وہ دف بجانے لگی، ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے وہ دف بجاتی رہی، پھر علی رضی اللہ عنہ آئے وہ دف بجاتی رہی، پھر عثمان رضی اللہ عنہ آئے وہ دف بجاتی رہی، پھر عمر رضی اللہ عنہ آئے تو اس نے دف اپنے نیچے رکھ لی اور اس پر بیٹھ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر !شیطان تم سے ڈرتا ہے، میں بیٹھا تھا یہ دف بجا رہی تھی، ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے یہ دف بجاتی رہی، پھر علی رضی اللہ عنہ آئے یہ دف بجاتی رہی، پھر عثمان رضی اللہ عنہ آئے یہ دف بجاتی رہی، جب تم آئے تو اس نے دف پھینک دی۔
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اللہ تعالیٰ نے شعر کے بارے میں نازل فرمایا جو نازل فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مومن اپنی تلوار اور زبان سے جہاد کرتا ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم جو اشعار پڑھتے ہو گویا ان کے لئے تیر کی کاٹ ہے۔
جنادہ بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ نے ایک دوسرے سے کہا: ہجرت ختم ہوگئی ہے، وہ آپس میں اختلاف کرنے لگے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، اور کہا: اے اللہ کے رسول! کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہجرت ختم ہوگئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک جہاد ہے ہجرت ختم نہیں ہوگی۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس شخص کا ذمہ اٹھایا ہے جو اس کے راستے میں نکلا ہے۔ وہ صرف اور صرف میرے راستے میں جہاد کے لئے نکلا ہے، میرے ساتھ ایمان رکھتا اور میرے رسول کی تصدیق کرتا ہے۔ تو میرا ذمہ ہے کہ اسے جنت میں داخل کروں یا اسے اس گھر تک واپس لوٹاؤں جس سے وہ نکلا ہے،اجر اور غنیمت دے کر۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اللہ کے راستے میں جو زخم لگتا ہے تو قیامت کے دن وہ اسی شکل میں آئے گا جس شکل میں وہ زخم لگتے وقت تھا۔ اس کا رنگ تو خون جیسا ہوگا لیکن خوشبو کستوری کی ہوگی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، اگر میں اپنی مسلمانوں پر مشقت نہ سمجھتا تو میں کبھی کسی معرکے سے پیچھے نہ رہتا جو اللہ کے راستے میں لڑا جاتا ہے لیکن میں وسعت نہیں پاتا کہ یہ میرے پیچھے آئیں اور نہ ہی یہ خوش ہوتے ہیں کہ میرے بعد اطمینان سے بیٹھےرہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، میں چاہتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں جہاد کروں اور قتل کر دیا جاؤں، پھر جہاد کروں پھر قتل کر دیا جاؤں، پھر جہاد کروں پھر قتل کر دیا جاؤں۔
عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ ایک سرخ خیمے میں تھے۔ عبدالملک نے کہا: چمڑے کا بنا ہوا تھا تقریباً چالیس آدمیوں کے درمیان بیٹھے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں فتح دی جائے گی، تمہاری مدد کی جائے گی، اور تمہیں مال غنیمت ملے گا۔ جس شخص کو ایسا دور ملے وہ اللہ سے ڈر جائے، نیکی کا حکم کرے، برائی سے منع کرے، صلہ رحمی کرے، اور جس شخص نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ منسوب کیا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے، اور اس شخص کی مثال جو ناحق پر اپنی قوم کی مدد کرتا ہے اس اونٹ کی طرح ہے جسے کسی کنویں میں پھینک کر دم سے کھینچا جائے۔
یحیی بن سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا گیا کہ آپ اپنے گھوڑے کا چہرہ چادر سے صاف کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج رات مجھے گھوڑوں کے بارے میں تنبیہ کی گئی ہے۔
ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قریش نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجا جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو میرے دل میں اسلام ڈال دیا گیا (یعنی اسلام کی محبت ڈال دی گئی)۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! واللہ میں کبھی بھی ان کی طرف نہیں جاؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں عہد نہیں توڑتا، اور قاصد کو نہیں روکتا، ابھی واپس چلے جاؤ اگر تمہارے دل کی یہی کیفیت رہے جو اب ہے تو پھر واپس آجانا۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہنے لگا:مجھے نصیحت کیجیئے۔ ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا:تم نے مجھ سے وہی سوال کیاہےجو میں نےتم سےپہلےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےکیا تھا۔میں تمہیں اللہ کےتقویٰ کی نصیحت کرتاہوں کیوں کہ یہ ہرمعاملےکی بنیاد یا چوٹی ہے۔ اور جہاد کو لازم کر لو کیوں کہ یہ اسلام کی رہبانیت ہے۔ اللہ کا ذکر اور تلاوتِ قرآن لازم کر لو کیوں کہ یہ آسمان میں اور زمین میں تمہارا ذکر ہے۔
حمزہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر میں روزے کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کام آسان لگے کر لو۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہےکہ:جانوروں کی پشتوں کو منبر بنانے سے بچواللہ تعالیٰ نےانہیں تمہارے لئےاس وجہ سےمطیع کیا ہےکہ یہ تمہیں کسی ایسےشہرتک (باآسانی)پہنچا دیں،جس تک تم بہت مشقت سے پہنچتےاورتمہارےلئےزمین بنائی، اس پراپنی ضرورتیں پوری کرو۔
ابو طیبہ سے مروی ہے کہ شرحبیل بن مسط نے عمرو بن عبسہ سلمیرضی اللہ عنہ کو بلایا اور کہا: ابن عبسہ کیا تم مجھے کوئی ایسی حدیث بیان کرو گے جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو، نہ اس میں زیادتی کرو نہ جھوٹ بولو؟ کسی ایسے شخص سے بیان نہ کرنا جس نے تمہارے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے: جس شخص نے اللہ کے راستے میں ایک تیر پھینکا وہ خطا ہوگیا یا نشانے پر لگا، اس کے لئے اولاد اسماعیل میں سے ایک گرد ن آزاد کرنے کے برابر ثواب ہے۔ ۲۔ جو آدمی اللہ کے راستے میں بوڑھا ہوگیا وہ (بڑھاپا یا سفید بال)اس کے لئے نور کا باعث ہوگا۔۳۔ وہ شخص جس نے کسی مسلمان شخص کو آزاد کیا، تو آزاد کئے جانے والے کا ہر عضو، آزاد کرنے والے کے ہر عضو کا جہنم سے بدلہ ہوگا۔۴۔ جس مسلمان عورت نے کوئی مسلمان عورت آزاد کی تو آزاد کی جانے والی عورت کا ہر عضو، آزاد کرنے والی عورت کے ہر عضو کا جہنم سے بدلہ ہوگا۔ ۵۔ اور جس آدمی یا عورت کے تین بچے بالغ ہونے سے پہلے فوت ہوگئے اور انہوں نے صبر کیا،اجر کی امید رکھی، تو وہ قیامت کے دن آگ سے رکاوٹ بن جائیں گے۔۶۔ اور جو شخص نماز پڑھنے کے ارادے سے وضو کے لئے اٹھا اور ہر عضو تک وضو کا پانی اچھی طرح پہنچایا، وہ ہر گناہ یا خطا سے پاک ہوجائےگا، اگر نماز کے لئے کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کر دے گا اگر بیٹھ گیا تو سلامتی کے ساتھ بیٹھے گا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ:ایک آدمی راستے میں جا رہا تھا کہ اسے سخت پیاس لگی، اسے ایک کنواں نظرآیا۔ وہ اس میں اتر گیا، پانی پیا اور باہرآگیا۔کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتاپیاس کی وجہ سے ہانپ رہا ہے اور گیلی مٹی چاٹ رہا ہے۔ اس آدمی نے کہا:اس کتے کو بھی اسی طرح پیاس لگی ہے جس طرح مجھے لگی تھی۔ وہ کنویں میں اترااپناجوتاپانی سےبھرا، پھراسےمنہ میں پکڑ کر اوپر چڑھ آیا اور کتے کو پانی پلایا، اللہ تعالیٰ نے اس کی قدرکی اوراسےبخش دیا۔صحابہ نےکہا:اےاللہ کےرسول!کیاہمارےلئےچوپایوں میں بھی اجر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:ہر ذی روح میں اجر ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ:ایک کتا چکر کاٹ رہا تھا،اورپیاس کی وجہ سے مرنے کے قریب پہنچ گیا تھا، اچانک بنی اسرائیل کی ایک بدکار عورت نے اسے دیکھا اس نے اپنا دوپٹہ اتار کر اسے پانی میں ڈالا اور اسے پانی پلایا (اس کے اس کام کی وجہ سے) اسے بخش دیا گیا۔