معاذ بن جبلرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو اللہ کے راستے میں کوئی زخم لگتا ہے تو قیامت کے دن وہ آئے گا، اس کےزخم کی خوشبو کستوری کی خوشبو کی طرح ہوگی اور اس کا رنگ زعفرانی ہوگا۔ اس پر شہداء کی مہر لگی ہوگی۔ جس شخص نے اللہ تعالیٰ سے مخلص ہو کر شہادت کا سوال کیا، اللہ تعالیٰ اسے شہید کا اجر عطا کردے گا، اگرچہ وہ اپنے بستر پر فوت ہو۔
زید بن خالد جہنیرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص نے اللہ کے راستے میں کسی غازی کو (یعنی سامان جنگ بہم پہنچایا) اس کے لئے غازی کے اجر کے برابر اجر ہے۔ اور جس شخص نے اللہ کے راستے میں کسی غازی کے گھر والوں کی کفالت کی (اور اس کے گھر والوں پر)خرچ کیا، اس کے لئےغازی کے اجر کے برابر اجرہے۔
زید بن ثابترضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:جس شخص نےاللہ کےراستے میں کسی غازی کو تیار کیا، اس کے لئے غازی کے اجر کے برابر اجرہےاورجس شخص نے غازی کے گھر والوں کی کفالت کی یا اس کے گھر والوں پر خرچ کیا اس کے لئے غازی کے اجر کے برابر اجرہے۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حج کرنے کے ارادے سے نکلا اورفوت ہوگیا، قیامت تک اس کے لئے حج کرنے والے کا ثواب لکھاجائےگا، اور جو شخص عمرہ کر نے کے لئے نکلا اوروفات پا گیا، قیامت تک اس کے لئے عمرہ کرنےکاثواب لکھاجائےگا۔ اور جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کے لئے نکلا اوروفات پاگیا تو قیامت تک اس کے لئے مجاہد کا اجر لکھاجائے گا۔
انس بن مالکرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اللہ کے راستے میں سفر کیا، اس کے لئے قیامت کے دن اتنی کستوری ہوگی جتنا اس پر غبار پڑا ہوگا۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اللہ کے راستے میں ایک تیر پھینکا، قیامت کے دن اس کے لئے روشنی کا باعث ہوگا۔
ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ۔۔۔ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی ! کونسا شہید افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا خون بہا دیا گیا ہو اور اس کے گھوڑے کی کوچیں کاٹ دی گئی ہوں۔
عبدالرحمن بن عبداللہ اپنے والد رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، آپ قضاء حاجت سے گئے، ہم نے سرخ پرند دیکھا جس کے ساتھ اس کے دو بچے بھی تھے۔ ہم نے اس کے دونوں بچوں کو پکڑ لیا۔ وہ پرندہ آیا اور اپنے پر پھڑپھڑانے لگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور فرمایا: اسے کس نے اس کے بچوں کی وجہ سے پریشان کیا ہے؟ اس کے بچے اسے واپس کرو۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چیونٹیوں کی ایک بستی دیکھی جسے ہم نے جلا دیا تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اسے کس نے جلایا ہے؟ ہم نے کہا کہ: ہم نے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ سے عذاب دینا، آگ کے رب کا کام ہے (کسی اور کے لئے جائز نہیں۔)
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے جہاد نہ کیا، یا کسی مجاہد کو تیار نہ کیا، یا غازی کے گھر والوں کی بہتر انداز میں کفالت نہ کی، اللہ تعالیٰ اسےقیامت سے پہلے (مصیبت یا حادثہ) دکھادے گا۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ پہر ہ دے رہے تھے، لوگ گھبرا گئے اور ساحل کی طرف چلے، پھرکہا گیا کہ: کوئی مسئلہ نہیں، لوگ واپس آگئے ۔ ابو ہریرہرضی اللہ عنہ کھڑے رہے۔ ایک آدمی ان کے پاس سے گزرا تو کہنے لگا: ابو ہریرہرضی اللہ عنہ کیوں کھڑے ہیں؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے: اللہ کے راستے میں ایک گھڑی کھڑے رہنا لیلۃ القدر میں حجر اسود کے پاس قیام سے بہتر ہے۔
زبیر بن عوامرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ خالد بن حزام نے حبشہ کی طرف ہجرت کی، راستے میں ایک سانپ نے انہیں ڈسا تو وہ فوت ہوگئے۔ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی غرض سے نکلا، پھر اسے موت نے آلیا، تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہوگیا اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والاہے“۔ میں ان کی آمدکا انتظار کر رہا تھا۔ میں حبشہ کے علاقے میں تھا۔ جب مجھےان کی وفات کی خبر ملی تو جتنا غمگین مجھے ان کی وفات نے کیا کسی اور چیز نے اتنا غمگین نہیں کیا۔ کیوں کہ قریش میں کم ہی ایسے لوگ تھے جنہوں نے ہجرت کی ہو اور اس کے ساتھ گھر کا کوئی فرد یا رشتہ دار نہ ہو، لیکن میرے ساتھ بنو اسد بن عبدالعزی میں سے کوئی نہیں تھا اور نہ ان کے علاوہ کسی اور کے آنے کی امید تھی۔
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم اشعار کہتے ہو تو ایسا لگتا ہے گویا تم انہیں تیروں سے چھلنی کر رہے ہو
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اچانک گھاٹی سے ایک نوجوان نمودار ہوا۔ جب ہم نے اسے دیکھا تو اپنی نظریں اس پرجمالیں ۔ہم کہنے لگے: اگر یہ نوجوان اپنی جوانی، توانائی اور اپنی قوت، اللہ کے راستے میں صرف کرتا تو کتنا اچھا ہوتا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری بات سنی تو فرمایا: کیا یہی اللہ کا راستہ ہے،کہ کوئی شخص قتل کر دیا جائے(شہید ہوجائے)؟جس شخص نے اپنے والدین کی خدمت کی وہ اللہ کے راستے میں ہے، جس نے اپنے گھر والوں پر خرچ کیا وہ اللہ کے راستے میں ہے،(جس شخص نے اپنے آپ کو پاک رکھنے کی کوشش کی وہ اللہ کے راستے میں ہے)جس شخص نے زیادہ مال طلب کرنے کی جستجو کی وہ طاغوت کے راستے میں ہے، ایک روایت میں ہے: شیطان کے راستے میں ہے
انس بن مالکرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:لوگوں کے(سیاسی)معاملات نمٹانےکےلئےکوئی شخص ضرورہونا چاہئے،(لیکن)ایسے لوگ (اپنی ناانصافیوں کی وجہ سے)جہنم میں ہوں گے۔
عبداللہ بن عباس رجی اللہ عنہما سے مروی ہےکہتے ہیں کہ عباسرضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک اونٹ پر سوار جا رہے تھے جس کے چہرے کو آگ سے نشان لگائے گےا تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عباس! یہ نشان کیسے ہیں؟ عباسرضی اللہ عنہ نے کہا: یہ نشان ہم جاہلیت میں لگایا کرتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگ سے نشان مت لگایا کرو۔
ابو بکر بن موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں سالم بن عبداللہ بن عمر کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، ام بنین کاایک قافلہ ہمارے پاس سے گذرا ان کے پاس گھنٹیاں تھی سالم نے اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے نافع کو بیان کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرشتے اس قافلے کے ساتھ نہیں چلتے جن کے پاس گھنگرو ہوں تو آپ اس قافلے میں کتنے گھنگرو دیکھ رہے ہیں؟۔
یحیی بن اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب علیرضی اللہ عنہ کو بھیجا تو ان کے پیچھے ایک آدمی بھیجا اور فرمایا: علی کے پیچھے جاؤ اور اس کا پیچھا نہ چھوڑنا، اس کے پیچھے جاؤ اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جب تک وہ آپ کے پاس نہ آجائیں آپ ٹھہرے رہیں۔ جب تک علیرضی اللہ عنہ کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ پہےچ وہ ٹھہرے رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک کسی قوم کو دعوت نہ دو اس وقت تک ان سے قتال نہ کرو۔
عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفرمیں تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےان سے کہا :اے ابن رواحہ! اترو اورسواریوں کوچلاؤ، ابن رواحہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے یہ کام چھوڑ دیا ہے۔ عمررضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: سنو اور اطاعت کرو، ابن رواحہ نے خودنیچے اچھال دیا اور یہ اشعار پڑھنے لگے: اے اللہ !اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے، نہ صدقہ کرتے نہ نماز پڑھتے، ہم پر سکینت نازل فرما، اور اگر ہم دشمن کے مقابل آئیں تو ہمارے قدم جما دے ۔
انسرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ام سلیم، حنین کے موقع پر ابو طلحہ رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھیں، ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس ایک خنجر بھی تھا، ابو طلحہرضی اللہ عنہ نے کہا: ام سلیم! یہ تمہارے پاس کیا ہے؟ کہنے لگیں: یہ میں نے اس لئے لیا ہے کہ اگر کوئی کافر میرے پاس آئے تو میں اس سے اس کا پیٹ چیر دوں۔ ابو طلحہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! کیا آپ سن رہے ہیں کہ ام سلیم کیا کہہ رہی ہیں؟ یہ فلاں فلاں بات کہہ رہی ہیں۔ ام سلیم نے کہا: اے اللہ کے رسول اہل مکہ میں سے جو لوگ فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے ہیں: وہ آپ سے شکست کھا چکے ہیں، انہیں قتل کردیجئے۔ آپ نے فرمایا: ام سلیم! اللہ تعالیٰ نے ہم سے کفایت کیا ہے اور خوب کفایت کیا ہے۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کی غرض سے نکلے،تو زینب بنت رسول اللہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر ابو العاص سے اجازت طلب کی کہ وہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جائیں گی۔ ابو العاص نے انہیں اجازت دے دی۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئیں۔ پھر ابو العاص بھی مدینے آگئے اور زینب رضی اللہ عنہا کی طرف پیغام بھیجا کہ اپنے والد سے میرے لئے امان طلب کرو۔ وہ باہر نکلیں اور حجر ے کے دروازے سے سر اوناے کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے۔ کہنے لگیں: اے لوگو! میں زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں، میں نے ابو العاص کو پناہ دے دی ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: لوگو! جب تک تم نے یہ آواز نہیں سنی مجھے ابو العاص کے بارے میں علم نہیں تھا، اور مسلمانوں کا عام آدمی بھی پناہ دے سکتا ہے
جابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: جا بر !کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ عزوجل نے تمہارے والد کو زندہ کیا اور اس سے پوچھا: تمنا کرو، تمہارے والد نے کہا: مجھے دنیا میں واپس بھیج دے میں دوبارہ قتل کر دیا جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے فیصلہ کر دیا ہے کہ مرنے کے بعد لوگ دنیا کی طرف واپس نہیں لوٹ سکیں گے۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جد(بن قیس)! کیا تمہیں بنی الاصغر کے لوگوں کے ساتھ لڑائی میں دلچسپی ہے؟ جد نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں؟ میں ایسا آدمی ہوں جو عورتوں کو پسند کرتا ہوں، اور مجھے ڈر ہے کہ اگر میں نے بنو اصرم کی عورتیں دیکھیں تو میں فتنے میں مبتلا ہو جاؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (آپ اس سے منہ موڑے ہوئے تھے) میں نے تمہیں اجازت دے دی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی:(التوبۃ:۴۹) ”ان میں ایسے بھی لوگ ہیں جو کہتے ہیں مجھے اجازت دیجئے اور مجھے فتنے میں مبتلا نہ کیجئے، خبر دار یہ لوگ فتنے میں مبتلا ہو چکےہیں“۔