نافع بن عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم جزیرة العرب میں جہاد کرو گے اور اللہ تعالیٰ فتح عطا کرے گا۔ پھر فارس سے جہاد کرو گے اللہ تعالیٰ فتح عطا کرے گا، پھر روم سے جہاد کرو گے اللہ تعالیٰ فتح عطا کرے گا۔ پھر تم دجال سے جہاد کرو گے اللہ تعالیٰ اس کے خلاف بھی فتح عطا کرے گا ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین دعائیں مقبول ہیں ان میں کوئی شک نہیں: باپ کی دعا، مسافر کی دعا اور مظلوم کی دعا(بددعا)۔
ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے، ان کی طرف دیکھ کر مسکراتا ہے، اور انہیں خوشخبری دیتا ہے۔ وہ شخص کہ جب کوئی لشکر اس کے سامنے آیا تو اس نے اپنی جان سے اللہ کے لئے ان سے قتال کیا۔ یا تو وہ قتل کر دیا گیا یا اللہ تعالیٰ نے اسے فتح دے دی اور اس کی حفاظت کی، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے اس بندے کی طرف دیکھو اس نے کس طرح میرے لئے اپنے آپ کو روکا؟ اور وہ شخص جس کی حسین و جمیل بیوی، اور نرم بستر ہے اور وہ رات کو قیام کرتا اور اپنی شہوت چھوڑدیتا ہے، میرا ذکر کرتا ہے اور مجھ سے سرگوشی کرتا ہے۔ اگر چاہتا تو سویا رہتا۔ اور وہ شخص جو کسی سفر میں ہو، اس کے ساتھ قافلہ بھی ہو، وہ رات گئے سفر کر کے تھک جائیں پھر سو جائیں اور یہ شخص آسانی یا تکلیف میں سحری کے وقت قیام کرے
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ایک آدمی خیبر سے نکلا، اس کے پیچھے دو آدمی لگے، اور ایک آدمی ان دونوں کے پیچھے لگا اور ان دونوں سے کہہ رہا تھا:واپس جاؤ، حتی کہ ان دونوں تک پہنچ گیا اور دونوں کو واپس لوٹا دیا، پھر (پہلے شخص سے جا ملا) اور کہنے لگا:یہ دونوں شیطان تھے(میں ان کے ساتھ ساتھ رہا اور انہیں واپس بھیج دیا، جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچو تو )رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہنا، اور انہیں بتانا کہ میں زکاة جمع کر رہا ہوں، اگر وہ آپ کے لئے درست ہے تو ہم اسے آپ کے پاس بھیج دیں۔ جب (وہ آدمی)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور آپ کو واقعہ بیان کیا تو اس وقت آپ نے تنہائی سے منع فرما دیا۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے کہ: بہترین ساتھی چار ہیں(تعداد میں)بہترین سریہ چار سو کا ہے۔ بہترین لشکر چار ہزار کا ہے۔ اور بارہ ہزار کا لشکر قلت کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوگا۔
ا بن عبا س رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ:فتنوں کے دور میں بہترین شخص وہ ہےجو اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے اللہ کے دشمنوں کےپیچھےانہیں خوف میں مبتلاکئےہوئےہواور دشمن اسےخوفزدہ کریں،یا وہ شخص جوکسی وادی میں تنہاہواوراپنےذمےاللہ کاحق اداکرتا ہو۔
ام مبشر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:درجے کے لحاظ سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر سوار (اللہ کے) دشمنوں کو خوف میں مبتلا کئے ہوئے ہو۔ اور وہ اسے خوفزدہ کر رہے ہوں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سفر کرو تندرست رہو گے، جہاد کرو غنی ہو جاؤ گے۔ یہ حدیث سیدنا ابوہریرہ، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس اور ابوسعید رضی اللہ عنہم سے اور زید بن اسلم سے مرسلا مروی ہے۔
طلق بن حبیب بصری سے مروی ہے کہ ابوطليق رضی اللہ عنہ نے انہیں بیان کیا کہ اس کی بیوی ام طلیق اس کے پاس آئی اور اس سے کہا: ابو طليق حج کا موسم آگیا، ابو طليق کی ایک اونٹنی اور ایک اونٹ تھا۔ اونٹنی پر حج کرتا اور اونٹ پر جہاد کرتا، امطليقنے اس سے کہا کہ اسے اونٹ دے دے جس پر وہ حج کر سکے؟ابوطليقنے کہا:کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں نے اسے اللہ کے راستے میں روکا ہوا ہے؟ اس نے کہا:حج بھی اللہ کے راستے میں ہے۔ مجھے اونٹ دے دو اللہ تم پر رحم کرے، ابوطليقنے کہا:میں تمہیں اونٹ نہیں دیناچاہتا، اس نے کہا:اونٹنی مجھے دے دو اور تم اونٹ پر حج کرو۔ ابوطليق نے کہا:میں خود پر تمہیں ترجیح نہیں دوں گا، وہ کہنے لگی :تو مجھے خرچہ دے دو، اس نے کہا:میرے پاس اپنے اور بال بچوں کے خرچ سے زیادہ نہیں جو میں تمہارے لئے نکالوں ۔کہنے لگی: اگر تم مجھے دے دو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بدلہ عطا فرمائے گا، جب میں نے انکار کیا تو کہنے لگی: جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ تو انہیں میرا سلام کہنا اور جو میں نے تم سے کہا ہے انہیں بتانا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا میں نے ام طليقکا سلام آپ کو کہا اور جو ام طلیق نے کہا تھا انہیں بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امطليق نے سچ کہا:اگر تم اسے اونٹ دے دیتے تو وہ اللہ کے راستے میں تھا، اگر تم اپنی اونٹنی اسے دے دیتے تو وہ اور تم اللہ کے راستے میں تھے، اگر تم اسے خرچہ دے دیتے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بدلہ عطا کرتا۔ ابوطليقنے کہا: اے اللہ کے رسول!وہ آپ سے پوچھ رہی تھی کہ حج کے برابر کونسا عمل ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان میں عمرہ کرنا۔
عثمان بن ارقم بن ابی الارقم اپنے والد رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن فرمایا: تمہارے پاس جو غنیمتیں ہیں وہ رکھ دو، ابو اسید ساعدی نے ابن عائذ مرزبان کی تلوار بلند کی تو ارقم بن ابی ارقم نے پہچان لی، کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! یہ مجھے دے دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار اسے دے دی۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سےمرفوعامروی ہےکہ:ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا ۔اس عورت نے اس بلی کو قید کر لیا،حتی کہ وہ مر گئی اس وجہ سے عورت آگ میں داخل ہوگئی۔جب قیدکیا تھانہ اس نےاسےکھاناکھلایانہ پانی پلایانہ اسےآزادچھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے سامنے وہ چیزیں پیش کی گئیں جو میرے بعد میری امت کے لئے کھول دی جائیں گی۔ یہ بات مجھے اچھی لگی، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں (الضحیٰ:۴،۵)آخرت آپ کے لئے دنیا سے بہتر ہے تک، اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت میں یاقوت کے بنے ایک ہزار محلات دیئے جن کی مٹی کستوری کی اور ہر محل میں ہر وہ چیز و اس کے لئے مناسب ہے۔
ابو فاطمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پر ہجرت لازم ہے کیوں کہ اس جیسا کوئی عمل نہیں تم پر روزہ لازم ہے کیوں کہ اس جیسا کوئی عمل نہیں، تم پر سجدے لازم ہیں کیوں کہ جب تم اللہ کے لئے کوئی سجدہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے تمہارا درجہ بلند کرے گا اور تم سے ایک غلطی ختم کرےگا۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کو لازم پکڑو، کیوں کہ یہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے پریشانی او رغم دور کر دیتا ہے
جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پیدل چلنے میں تھکاوٹ کی شکایت کی ۔آپ نے انہیں بلایا اور فرمایا: تیز چلا کرو۔ ہم نے تیز چلنا شروع کردیا تو وہ ہم نے آسان پایا۔( )
براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ(ایک انصاری)آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، جس نے زرہ پہنی ہوئی تھی ۔کہنے لگا:اے اللہ کے رسول! میں قتال کروں یا اسلام لاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(نہیں، بلکہ)پہلے اسلام لاؤ پھر قتال کرو، وہ مسلمان ہوگیا، پھر لڑتے لڑتے شہید ہوگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس نے عمل تھوڑا کیا لیکن اجر بہت زیادہ لے گیا۔
اسلم ابو عمران رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: ہم مدینے سے جہاد کے ارادے سے نکلے،قسطنطنیہ کا ارادہ تھا(اہل مصر پر عقبہ بن عامر نگران تھے)اور لشکر کے نگران عبدالرحمن بن خالد بن ولید تھے۔ رومی مدینے سے پشت لگائے بیٹھے تھے۔ ہم میں سے ایک شخص نے دشمن پر حملہ کیا، لوگوں نے کہا: رکو، رکو، لا الہ الا اللہ، یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔ ابو ایوب انصاری نے کہا:(تم اس آیت کی تشریح اس انداز میں کر رہے ہو کہ ایک شخص نے حملہ کیا جو شہادت کا متلاشی ہے یا اپنے آپ کو خطرے میں ڈال رہا ہے؟)یہ آیت ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی مدد کی، اور اسلام کو غلبہ دے د یا، تو ہم کہنے لگے:(ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوشیدہ یہ بات کر رہے تھے)۔آؤ اپنے مال مویشیوں کی دیکھ بھال کریں ۔تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی۔ (البقرة: ١٩٥)”اللہ کے راستے میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو“۔ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے مال کی دیکھ بھال کریں اور جہاد چھوڑ دیں۔ابو عمران کہتے ہیں: ابو ایوب رضی اللہ عنہ ہمیشہ جہاد کرتے رہے حتی کہ قسطنطنیہ میں دفن ہوئے
معاذ بن جبلرضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ:جہاد دو طرح کا ہے جس شخص نے اللہ کی رضا کے لئے جہاد کیا، امیر کی اطاعت کی، اور فساد سے بچا تو اس کا سونا، جاگنا، سب کاسب اجر کا باعث ہے۔ اور جس شخص نے فخر، ریا کاری، اور شہرت کے لئے جہاد کیا، امیر کی نافرمانی کی ،زمین میں فساد کیا تو وہ برابر ؟؟؟ نہیں لوٹے گا۔ (یعنی اجر کی بجائے گناہ کا بوجھ لے کر لوٹے گا)۔
رباح بن ربیعرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ:ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں تھے آپ نے کچھ لوگوں کو ایک چیز کے گرد جمع دیکھا تو ایک آدمی کو بھیجا کہ دیکھو یہ کس چیز پر جمع ہیں؟ وہ واپس آکر کہنے لگا:ایک مقتولہ عورت ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ تو لڑ نہیں سکتی تھی، مقدمۃ الجیش پر خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ مقرر تھے آپ نے ایک آدمی بھیجا اور فرمایا کہ :خالد سے کہو:کسی عورت اور مزدورکو قتل نہ کرے
جندب بن سفیانرضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوے میں تھے کہ آپ کی انگلی سے خون بہنے لگا(انگلی زخمی ہوگئی)آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: تم تو ایک انگلی ہو جس سے خون بہہ رہا ہے۔تمہیں جو بھی تکلیف پہنچی ہے وہ اللہ کے راستے میں ہے
عقبہ بن مغیرہ، اپنے والد کے دادا اسحاق سے بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ: جنگ جمل کے موقع پر میں عماررضی اللہ عنہ سے ملا وہ سینگ (یا ترکش) میں پیشاب کر رہے تھے، میں نے کہا: میں آپ کے ساتھ مل کر لڑ رہا ہوں تو میں آپ کے ساتھ ہی جاؤں؟ انہوں نے کہا: اپنی قوم کے جھنڈے کے نیچے لڑو، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی آدمی کے لےک اس بات کو پسند کرتے تھے کہ وہ اپنی قوم کے جھنڈے کے نیچے لڑے ۔( )