ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لئے کمزور لوگوں کو تلاش کرو، کیوں کہ تمہیں تمہارے کمزور لوگوں کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے
رفاعہ بن رافع زرقی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: تم اہل بدر کو اپنے لوگوں کے مقابلے میں کیا حیثیت دیتے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: افضل مسلمان ۔جبریل کہنے لگے: اسی طرح ہم میں سے جو فرشتے بدر میں شریک ہوئے (ہم انہیں افضل شمار کرتے ہیں)۔
سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے جس کا پیٹ کمر سے لگا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، اچھے طریقے سے ان پر سوار ی کرو، اور ان کی صحت کی حالت میں ہی ان کا گوشت کھالیا کرو۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ حسان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف دیکھ (کر ٹوکا) تو حسان رضی اللہ عنہ کہنے لگے: میں مسجد میں شعر پڑھا کرتا تھا اور اس مسجد میں تم سے بہتر شخص (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) موجود تھا۔ پھر حسان رضی اللہ عنہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور کہنے لگے: میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فرمایا:(اے حسان) میری طرف سے جواب دو، اے اللہ(حسان کی) روح القدس کے ساتھ مدد فرما۔
ام کبشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ وہ آپ کے ساتھ جہاد میں شریک ہونا چاہتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں وہ کہنے لگیں: اے اللہ کے رسول! میں زخمیوں کا علاج کروں گی، اور مریضوں کی تیمار داری کروں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹھ جاؤ لوگ کہیں یہ بات نہ کرنے لگ جائیں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) عورت کو لے کر جہاد کر رہے ہیں
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین وصیتیں کیں۔ آپ نے فرمایا: مشرکین کو جزیرة العرب سے نکال دو، وفد کا اسی طرح اکرام کرو جس طرح میں ان کا اکرام کرتا ہوں۔ پھر فرمایا: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: تیسری چیز سے خاموشی اختیار کی یا فرمایا کہ تیسری وصیت مجھے بھول گئی۔
ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ آخری بات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی وہ یہ تھی کہ: اہل حجاز اور اہل نجران کے یہودیوں کو جزیرة العرب سے نکال دو ۔اور یاد رکھو ! کہ بدترین لوگ وہ ہیں جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب زمین سرسبز زمین آجائے تو اور جب زمین بے آباد (بنجرو خشک)ہو جائے تو وہاں سے چلے جاؤ، اور اندھیرے(میں سفر) کو لازم کرو، کیوں کہ رات میں زمین لپیٹ دی جاتی ہے ۔
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم جہاد کا ارادہ کرو تو ایک سیاہ رنگ کا گھوڑا خریدو، جس کی پیچانی اور پاؤں سفید چمکدار ہوں۔ جس کے دائیں پاؤں میں سفیدی نہ ہوتو تم غنیمت سمیٹو گے اور سلامت رہو گے
صخر بن عیلہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب اسلام کا ظہورہوا تو بنی سلیم کی ایک قوم اپنے علاقے سے بھاگ گئی، میں نے وہ زمین اپنے قبضے میں کر لی، پھر وہ مسلمان ہو گئے اور زمین کے لئے مجھ سے جھگڑا کرنے لگے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے ۔آپ نے وہ زمین انہیں واپس لوٹا دی اور فرمایا: جب آدمی مسلمان ہو جاتا ہے تو وہ اپنی زمین اور مال کا زیادہ حق دار ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اپنے گھر سے نکلو تو دو رکعتیں پڑھ لو۔ یہ دو رکعتیں تمہیں (سفر کی) تکلیف سے بچائیں گی۔ اور جب تم اپنے گھر میں داخل ہو تو دو رکعتیں پڑھ لو یہ دو رکعتیں تمہیں (گھر میں برائی یا) تکلیف سے بچائیں گی
سوادہ بن ربیعرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے کچھ مانگا تو آپ نے مجےں کچھ اونٹنیاں دیں پھر فرمایا: جب تم اپنے گھر واپس جاؤ تو اپنے (گھروالوں کو)حکم دو کہ اپنے جانوروں کی خوراک اچھی رکھیں اور انہیں حکم دو کہ وہ اپنے ناخن کاٹ کر رکھیں اور ان ناخنوں کے ذریعے اپنے جانوروں کے تھنوں کو دودھ دوہتے وقت تکلیف نہ دیں۔
عبداللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب فارس اور روم کے(خزانے) تم پر کھول دیئے جائیں گے، تو اس وقت تم کس طرح کے بن جاؤ گے؟ عبدالرحمن بن عوفرضی اللہ عنہ نے کہا: ہم وہی بات کہیں گے جو اللہ تعالیٰ ہمیں حکم دیا ہے۔ (یعنی شکر کریں گے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے علاوہ بھی، تم ایک دوسرے سے رشک کرو گے، پھر حسد کرنے لگو گے، پھر ایک دوسرے سےپیٹھ پھیرو گے، پھر آپس میں بغض رکھو گے، یا اسی طرح کچھ کرو گے، پھر تم مہاجرین کے گھروں کی طرف جاؤ گے اور انہیں ایک دوسرے کی گردنوں پر رکھو گے(ایک دوسرے کا حکم بناؤ گے)۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب (کسی سفر میں )تین آدمی ہوں تو ان میں سے ایک شخص ان کی امامت کروائے اور امامت کا زیادہ حقدار قرآن کریم کا زیادہ علم والا ہے۔
ابو امامہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کسی ایسی زمین کے پاس سے گزرو جس میں کسی امت کو ہلاک کیا گیا ہو تو تیزی سے گزروجاؤ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب خونخوار جنگیں چھڑ جائیں گی تو اللہ تعالیٰ (دمشق) سے مدد گاروں کا ایک لشکر بھیجے گا جو عرب کے بہترین شہہ سوار اور ہتھیار چلانے میں انتہائی ماہر ہوں گے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے دین کی مدد کرے گا ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک قوم کے پاس سے گزرے جو تیراندازی کر رہے تھے، آپ نے فرمایا: (اسماعیل علیہ السلام کی اولاد )تیر اندازی کرو کیوں کہ تمہارے والد بھی تیر انداز تھے
جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال نکلے تو آپ کے گرد آپ کے پیدل چلنے والے صحابہ جمع ہو گئے۔ اور صف بنا کر کہنے لگے: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں چاہتے ہیں، اور کہنےلگے: ہم پر سفر بھاری ہو گیا ہے، مشقت طویل ہوگئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا:تیز چلنے میں مدد طلب کرو جو (تیز چلنا) تمہارا سفر بھی کٹوا دے گا اور تم آسانی بھی محسوس کرو گے۔ ہم نے ایسا ہی کیا ہم ہلکے پھلکے بھی ہوگئے اور ہماری تھکاوٹ بھی ختم ہوگئی۔
سہل بن حنظلیہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ حنین کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے،اور چلتے ہی رہے حتی کہ رات ہو گئی، نماز کا وقت ہوا۔ ایک گھڑ سوارآیا اور کہنے لگا:اے اللہ کے رسول!میں آپ کے آگے گیا تھا حتی کہ میں فلاں فلاں پہاڑ پر چڑھ گیا، میں نے دیکھا کہ میں ہوازن میں ان کی بھیڑ وں، اونٹوں اوربکریوں کے ساتھ کھڑا ہوں ، وہ حنین کی طرف جمع ہو رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: یہ مال اللہ کے حکم سے کل مسلمانوں کا مال غنیمت ہوگا۔ پھر فرمایا:آج رات کون ہمارا پہرہ دے گا؟ انس بن ابی مرثد غنویرضی اللہ عنہ نے کہا:اے اللہ کے رسول میں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سوار ہوجاؤ، وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس گھاٹی پر چڑھ جاؤ، اور رات کو تمہاری طرف سے غفلت نہ ہو۔ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لےر نکلے اور دو رکعت ادا کی، پھر فرمایا:کیا تم نے اپنے گھڑ سوار کو دیکھا؟ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے اسے نہیں دیکھا۔ پھر نماز کے لئے اقامت کہی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے لگے اور (نماز ہی میں) گھاٹی کی طرف دیکھنے لگے۔ جب آپ نے نماز مکمل کر لی اور سلام پھیر لیا تو فرمایا: خوش ہو جاؤ، تمہارا شسواار آگیا، ہم گھاٹی کی طرف درختوں کے جھنڈ میں دیکھنے لگے، اچانک وہ نمودار ہوگیا، اورآکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ اس نے سلام کیا اور کہنے لگا: میں یہاں سے چلتا ہوا اس گھاٹی کی چوٹی پر پہنچ گیا جہاں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا۔ جب صبح ہوئی تو میں دونوں گھاٹیوں پر چڑھا لیکن مجھے کوئی نظر نہیں آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: کیا رات کو تم گھوڑے سے اترے تھے؟ کہنے لگا:نہیں سوائے نماز اور قضائے حاجت کے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:تم نے (جنت) واجب کر لی، اب اس کے بعد تم کوئی عمل نہ بھی کرو تب بھی تم پر کوئی حرج نہیں۔
قزعہ رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے ایک کام سے بھیجا تو کہنے لگے:آؤ تاکہ میں تمہیں الوداع کر سکوں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے الوداع کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھی ایک کام سے بھیجا تو فرمایا: أَسْتَوْدِعُ اللهَ دِينَكَ وَأَمَانَتَكَ وَخَوَاتِيمَ عَمَلِكَ، ”میں تمہارا دین، تمہاری امانت اور تمہارے اعمال کا خاتمہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں“۔
عبداللہ خطمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر کو الوداع کرتے تو فرماتے : أَسْتَوْدِعُ اللهَ دِينَكَ وَأَمَانَتَكَ وَخَوَاتِيمَ عَمَلِكَ، ”میں تمہارا دین، تمہاری امانت اور تمہارے اعمال کا خاتمہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں“۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی شخص کو الوداع کرتے تو فرماتے : أَسْتَوْدِعُ اللهَ دِينَكَ وَأَمَانَتَكَ وَخَوَاتِيمَ عَمَلِكَ، ”میں تمہارا دین، تمہاری امانت اور تمہارے اعمال کا خاتمہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں “۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ: اس قوم پر اللہ کا غصہ شدید ہوجاتا ہے جو ایسا کام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کرتی ہے، آپ اس وقت اپنے رباعی دانتوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ اس آدمی پر اللہ کا غصہ شدید ہوجاتا ہے جسے اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی راہ میں (لڑائی کرتے ہوگے) قتل کردے۔
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں جمعہ کے دن شام سے مدینے کی طرف چلا، جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا: تم نے اپنے موزے کب پہنے تھے؟ میں نے کہا: جمعہ کے دن، انہوں نے کہا: کیا تم نے ان دونوں کو اتارا ہے؟ میں نے کہا:نہیں عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: تم نے سنت پر عمل کیا ۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ: قیامت کے دن اللہ کے ہاں افضل جہاد (کرنے والے) وہ لوگ ہوں گے جو پہلی صف میں ٹکراتے ہیں اور قتل ہونے تک مڑ کر نہیں دیکھتے۔ یہی لوگ ہیں جو جنت میں بلند محلات میں دوڑتے پھریں گے تمہارا رب ان کی طرف دیکھ رہا ہوگا یقیناً تمہارا رب جب کسی قوم کی طرف دیکھ کر مسکراتا ہے تو ان پر کوئی حساب نہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:افضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے انصاف (اور ایک روایت میں ہے: حق)کا کلمہ کہنا ہے ۔ یہ حدیث سیدنا ابوسعید خدری، ابوامامہ، طارق بن شہاب اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے اور امام زھری سے مرسلا مروی ہے۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: کونسا شخص افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: افضل شخص (اور ایک روایت میں ہے: بہترین شخص ) وہ آدمی ہے جو اللہ کے راستے میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کرتا ہے ۔پھر وہ مومن ہے جو کسی گھاٹی میں اللہ کی عبادت کرتا ہے، اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھتا ہے
عبداللہ بن جعفررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے سوار کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے راز داری میں مجھ سے کوئی بات کیھ جو میں لوگوں سے بیان نہیں کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی ضرورت کے لئے سب سے پسندیدہ جگہ کوئی ٹیلہ یا کھجوروں کا جھنڈ ہوا کرتا تھا۔آپ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے، کیا دیکھتے ہیں سامنے ایک اونٹ کھڑا ہے(جب اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ بلبلا یا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور اس کے کان کی کی پشت سے لے کر کوہان تک ہاتھ پھیرا تو وہ پر سکون ہوگیا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ یہ اونٹ کس کا ہے؟ ایک انصاری نوجوان آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول میرا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا تم ان جانوروں کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتے جن کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے؟ اس اونٹ نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس پر بوجھ لاد کر تھکاتے ہو۔