رَضَعَ الْمَوْلُوْدُ: (ض س) رِضاعًا وَّرَضَاعَۃً: بچے کا دودھ پینا۔ اسی سے استعارہ کے طور پر انتہائی کمینے کو لَئِیْمٌ رَاضعٌ کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ لفظ اس کنجوس شخص پر بولا جاتا ہے جو انتہائی بخل کی وجہ سے رات کے وقت اپنی بکریوں کے پستان سے دودھ چوس لے تاکہ کوئی ضرورت مند دودھ دوہنے کی آواز سن کر سوال نہ کرے۔ پھر اس سے رَضُعَ فُلَانٌ بمعنی لَئُمَ استعمال ہونے لگا ہے۔ رَاضِعَتَانِ: بچے کے اگلے دو دانت جن کے ذریعہ وہ ماں کی چھاتی سے دودھ چُوستا ہے۔ اور اَرْضاع (افعال) کے معنیٰ دودھ پلانا کے ہیں۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (وَ الۡوَالِدٰتُ یُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ حَوۡلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ) (۲:۲۳۳) اور جو شخص پوری مدت تک دودھ پلانا چاہے تو اس کی خاطر مائیں اپنی اولاد کو پورے دو برس دودھ پلائیں۔ نیز فرمایا: (فَاِنۡ اَرۡضَعۡنَ لَکُمۡ فَاٰتُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ) (۶۵:۶) اگر وہ (بچے کو) تمہارے لیے دودھ پلانا چاہیںتو انہیں ان کی دودھ پلائی دو۔ عام محاورہ ہے: (فُلَانٌ اَخُوْہُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ: (بضم الزاء) وہ فلاں کا رضاعی بھائی ہے۔ حدیث میں ہے۔(1) (۱۵۵) یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا یَحْرُمُ مِنَ النَّسَب: جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہ بوجہ رضاعت کے بھی حرام ہوجاتے ہیں۔ اَلاِسْتِرْضاعُ: کسی سے دودھ پلوانا۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ اِنۡ اَرَدۡتُّمۡ اَنۡ تَسۡتَرۡضِعُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ ) (۲:۲۳۳) اگر تم اپنی اولاد کو (کسی دایہ سے) دودھ پلوانا چاہو۔ یعنی انہیں مزدوری دے کر دودھ پلوانے کا ارادہ ہو۔
Words | Surah_No | Verse_No |
الرَّضَاعَةَ | سورة البقرة(2) | 233 |
الرَّضَاعَةِ | سورة النساء(4) | 23 |
الْمَرَاضِعَ | سورة القصص(28) | 12 |
اَرْضَعَتْ | سورة الحج(22) | 2 |
اَرْضَعْنَ | سورة الطلاق(65) | 6 |
اَرْضَعْنَكُمْ | سورة النساء(4) | 23 |
اَرْضِعِيْهِ | سورة القصص(28) | 7 |
تَسْتَرْضِعُوْٓا | سورة البقرة(2) | 233 |
فَسَتُرْضِعُ | سورة الطلاق(65) | 6 |
مُرْضِعَةٍ | سورة الحج(22) | 2 |
يُرْضِعْنَ | سورة البقرة(2) | 233 |