Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلدَّرْئُ: (ف) کے معنیٰ (نیزہ وغیرہ) کے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں کہا جاتا ہے۔ قَوَّمْتُ دَرْئَہٗ: میں نے اس کی کجی کو درست کردیا۔ دَرَئْتُ عَنہٗ: میں نے اس سے دفع کیا۔قرآن پاک میں ہے: (وَّ یَدۡرَءُوۡنَ بِالۡحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ ) (۱۳۔۲۲) اور نیکی کے ذریعہ برائیوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ (وَ یَدۡرَؤُا عَنۡہَا الۡعَذَابَ ) (۲۴۔۸) اور عورت سے سزا کو یہ بات ٹال سکتی ہے۔حدیث میں ہے: (۱۲۶) اِدْرَؤٌ الْحُدُودَ بِالشُّبُھَاتِ شرعی حدود کو شبہات سے دفع کرو اس میں متنبہ کیا گیا ہے حدود کو دفع کرنے کے لئیے حیلہ کرنا چاہیئے قرآن پاک میں ہے: (فَادۡرَءُوۡا عَنۡ اَنۡفُسِکُمُ الۡمَوۡتَ ) (۳۔۱۶۸) تو اپنے اوپر سے موت کو ٹال دینا۔اور آیت کریمہ: (فَادّٰرَأتْمْ فِیْھَا) (۲۔۷۲) تو اس میں تم باہم جھگڑنے لگے۔ میں اِدَّرَأْتُمْ اصل میں تَدَارَأْتُمْ ہے تخفیف کے لئے تاء کودال سے بدل کر ادغام کردیا گیا ہے اور شروع میں ابتدائے سکون کی وجہ سے ہمزہ وصلی لایا گیا ہے لہذا یہ اِفَّاعَلْتُمْ کے وزن پر ہے۔ (1) بعض ادباء نے کہا ہے کہ اِدَّرَأْتُمْ بروزن اِفْتَعَلْتُمْ ہے مگر یہ چند وجوہ کی بنا پر صحیح نہیں ہے۔اَوَّل یہ کہ اِدَّرَأْتُمْ کے آٹھ حروف ہیں اور اِفْتَعَلْتُمْ کے صرف سات حروف ہیں۔(2) دوم یہ کہ اس میں ہمزہ وصلی کے بعد حرف تاء ہے جسے دال سے تبدیل کیا گیا ہے اور اِفْتَعَلْتُمْ (میں ایسے نہیں ہے) سوم یہ کہ اگر افْتَعَلْتُمْ کے وزن پر ہوتا ہے تو دوسرے حرف کے بعد دال کوتاء سے تبدیل کرنا چاہیئے تھا۔چہارم یہ کہ جس فعل کا عین کلمہ حروف صحیح ہو اس میں تاء افتعال کا مابعد ہمیشہ متحرک رہتا ہے مگر یہاں اسے ساکن بنالیا گیا ہے۔پنجم یہ کہ یہاں تاء اور دال کے درمیان حرف زائد لایا گیا ہے حالانکہ باب افتعال میں یہ نہیں ہوتا۔ ششم یہ کہ اسے باب افتعال سے ماننے کی صورت میں الف کو عین کلمہ ماننا پڑے گا۔حالانکہ وہ موضع عین میں نہیں ہے۔ہفتم یہ کہ دو حروف افْتَعَلَ کی تاء سے قبل ہیں اور اس کے بعد بھی دو ہی ہیں۔مگر ادَّرَأْتُمْ میں تاء کے بعد تین حروف ہیں۔

Words
Words Surah_No Verse_No
فَادّٰرَءْتُمْ سورة البقرة(2) 72
فَادْرَءُوْا سورة آل عمران(3) 168
وَيَدْرَءُوْنَ سورة القصص(28) 54
وَيَدْرَؤُا سورة النور(24) 8
وَّيَدْرَءُوْنَ سورة الرعد(13) 22