Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلْبَوَار: (ن) اصل میں بَار الشی یبور، بَوْرًا وَبَوَارًا کے معنی کسی چیز کے بہت زیادہ مندا پڑنے کے ہیں اور چونکہ کسی چیز کی کسادبازاری اس کے فساد کا باعث ہوتی ہے جیساکہ کہا جاتا یہ۔ کَسَدَ حَتّٰی فَسَدَ۔ اس لیے بَوَار بمعنی ہلاکت استعمال ہونے لگا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (تِجَارَۃً لَّنۡ تَبُوۡرَ ) (۳۵:۲۹) اس تجارت (کے فائدے) کے جو کبھی تباہ نہیں ہوگی۔ (وَ مَکۡرُ اُولٰٓئِکَ ہُوَ یَبُوۡرُ ) (۳۵:۱۰) اور ان کا مکر نابود ہوجائے گا۔ ایک روایت میں ہے(1) (۴۳) نَعُوْذُبِاﷲِ مِنْ بَوَارِ الْاَیِّمِ: کہ ہم بیوہ کے منداپن سے پناہ مانگتے ہیں یعنی یہ کہ اس کے لیے کہیں سے پیغام نکاح نہ آئے۔ ( اَحَلُّوۡا قَوۡمَہُمۡ دَارَ الۡبَوَارِ ) (۱۴:۲۸) اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر اتارا۔ رَجُلٌ حَائِرٌ بَائِرٌ مرد سرگشت خودرائے۔ جمع کے لیے حُوْرٌ بُوْرٌ کہا جاتا ہے، چنانچہ آیت کریمہ: (حَتّٰی نَسُوا الذِّکۡرَ ۚ وَ کَانُوۡا قَوۡمًۢا بُوۡرًا ) (۲۵:۱۸) یہاں تک کہ وہ تیری یاد کو بھول گئے اور یہ ہلاک ہونے والے لوگ تھے۔ میں بُورٌ بَائِرٌ کی جمع ہے(2) بعض نے کہا ہے کہ بُور مصدر ہے اور واحد و جمع دونوں کی صفت واقع ہوتا ہے، جیسے: رَجُلٌ بُوْرٌ وَقَوْمٌ بُوْرٌ۔ شاعر نے کہا ہے(3) ع (۷۰) یَا رَسُوْلَ الْمَلِیْکِ اِنَّ لِسَانِیْ، رَاتِقٌ مَا فَتَقْتُ اِذَا اَنَا بُوْرٌ۔ اے اﷲ کے رسول! جو گناہ میں نے کفر کی حالت میں کیے اب ان سے تائب ہوتا ہوں۔ بَارَالْفَحْلُ النَّاقَۃَ کے اصل معنی نرشتر کا مادہ کو یہ معلوم کرنے کے لیے سونگھنا کہ آیا حاملہ ہے یا نہیں اور استعارۃ کسی چیز کا امتحان کرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے۔ چنانچہ محاورہ ہے: بُرْتُ کَذَا میں نے فلاں چیز کو آزما دیکھا۔

Words
Words Surah_No Verse_No
الْبَوَارِ سورة إبراهيم(14) 28
بُوْرًا سورة الفرقان(25) 18
بُوْرًا سورة الفتح(48) 12
تَـبُوْرَ سورة فاطر(35) 29
يَبُوْرُ سورة فاطر(35) 10