Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلطَّمْسُ کے معنی کسی چیز کا نام و نشان مٹادینے کے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (فَاِذَا النُّجُوۡمُ طُمِسَتۡ ) (۷۷:۸) جب ستاروں کی روشنی جاتی رہے گی۔ (رَبَّنَا اطۡمِسۡ عَلٰۤی اَمۡوَالِہِمۡ ) (۱۰:۸۸) اے پروردگار! ان کے مال و دولت کو تباہ و برباد کردے۔ یعنی ان کا نام و نشان مٹادے۔ (وَ لَوۡ نَشَآءُ لَطَمَسۡنَا عَلٰۤی اَعۡیُنِہِمۡ ) (۳۶:۶۶) اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھوں کو مٹاکر اندھا کردیں۔ یعنی آنکھوں کی روشنی سلب کرلیں اوران کا نشان مٹادیں جس طرح کہ کسی نشان کو مٹادیا جاتا ہے۔ اور آیت کریمہ: (مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّطۡمِسَ وُجُوۡہًا) (۴:۴۷) قبل اس کے کہ ہم ان کے چہروں کو بگاڑ کر۔ میں بعض نے کہا ہے کہ دنیا میں ان کے چہروں کو بگاڑنا مراد ہے۔ مثلاً ان کے چہروں پر بال اُگادیں۔ ان کی صورتیں بندروں اور کتوں جیسی کردی جائیں۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ آخرت میں ہوگا جس کی طرف کہ آیت: (وَ اَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ وَرَآءَ ظَہۡرِہٖ ) (۸۴:۱۰) اور جس کا نامۂ اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے اور چہروں کو مٹانے کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان کی آنکھیں گدی پر لگادی جائیں اور یا ہدایت سے گمراہی کی طرف لوٹا دینا مراد ہے جیساکہ دوسری جگہ فرمایا: (وَ اَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلۡمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰی سَمۡعِہٖ وَ قَلۡبِہٖ) (۴۵:۲۳) اور باوجود جاننے بوجھنے کے گمراہ ہورہا ہے۔ (تو) خدا نے بھی اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگادی۔ بعض نے کہا ہے کہ وجوہ سے قوم کے اعیان و اکابر مراد ہیں اور معنی یہ ہیں کہ ہم بڑے بڑے سرداروں کو رعیت اور محکوم بنادیں، اس سے بڑھ کر اور کون سی ہلاکت ہوسکتی ہے۔

Words
Words Surah_No Verse_No
اطْمِسْ سورة يونس(10) 88
طُمِسَتْ سورة المرسلات(77) 8
فَطَمَسْـنَآ سورة القمر(54) 37
لَطَمَسْنَا سورة يس(36) 66
نَّطْمِسَ سورة النساء(4) 47