اَلْبَرْدُ: (ٹھنڈا) اصل میں یہ حَرٌّ کی ضد ہے۔ محاورہ میں کبھی اس کی ذات کا اعتبار کرکے کہا جاتا ہے۔ بَرَدَ (ن ک) کذا: اس نے ٹھنڈ حاصل کی۔ بَرَدَ (ن) اَلْمَائُ کَذَا: پانی نے اسے ٹھنڈا کردیا۔ جیسے (1) (الطویل) (۴۷) سَتَبْرُدُ اَکْبَادًا وَتُبْکِیْ بَوَاکِیَا۔ تو بہت سے کلیجوں کو ٹھنڈا کیا اور بہت سی رونے والیوں کو ردا ڈالے گی۔ اور بَرَّدَ (تفعیل) بھی اس معنی میں استعمال ہوتا ہے، بعض کے نزدیک اَبْرَدَ (افعال) بھی اس معنی میں آجاتا ہے، مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ اسی سے اَلْبَرَّادَۃُ ہے جس کے معنی پانی ٹھنڈا کرنے والی چیز کے ہیں اور محاورہ میں بَرَدَ کَذَا کے معنی کسی چیز کے البرد اولے کی طرح جامد اور ثابت ہونا بھی آتے ہیں جس طرح حَرٌّ کو حرکت لازم ہے، اسی طرح بَرَدٌ کے ساتھ کسی چیز کا ثبات مختص ہوتا ہے۔ چنانچہ محاورہ ہے: بَرَدَ عَلَیْہِ دَیْنٌ۔ اس پر قرض ٹھہر گیا۔ شاعر نے کہا ہے(2) (رجز) (۴۸) اَلْیَوْمَ بَارِدٌ سُمُومُہٗ۔ آج بادسموم جامد ہے۔اور دوسریے شاعر نے کہا ہے(3) (خفیف) (۴۹) قَدبَرَد الموتُ علی مصطلاہ۔ کہ اس کے ہاتھ اور چہرہ پر موت طاری ہوگئی۔ لَمْ یَبْرُدْ بِیَدِیْ شَیْئٌ میرے ہاتھ میں کوئی چیز قرار نہیں پکڑتی۔ بَرَدَ الْاِنْسَانُ مرجانا، فوت ہوجانا۔ بَرَّدَہٗ اسے قتل کر ڈالا اسی سے سیوف کو بَوَارِدُ کہا جاتا ہے کیونکہ میت بھی فقدان روح سے سرد پڑجاتی ہے اور اسے سکون لاحق ہوتا ہے۔ یا ظاہری طور پر جلد میں خنکی پیدا ہوجاتی ہے۔ اور یہ معلوم ہے کہ نیند بھی ایک طرح کی موت ہے۔ جیساکہ قرآن پاک میں ہے: (اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِہَا وَ الَّتِیۡ لَمۡ تَمُتۡ فِیۡ مَنَامِہَا) (۳۹:۴۲) خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں ان کی (روحیں) سوتے میں (قبض کرلیتا ہے) اور آیت کریمہ: (لَا یَذُوۡقُوۡنَ فِیۡہَا بَرۡدًا وَّ لَا شَرَابًا ) (۷۸:۲۴) میں بھی بَرْد: بمعنی نیند ہے یعنی وہاں کسی قسم کی راحت اور زندگی کی خوشگواری نصیب نہیں ہوگی اور اس اعتبار سے کہ گرمی میں سردی سے راحت اور سکون حاصل ہوتا ہے، خوشگوار زندگی کے لیے عَیْشٌ بَارِدٌ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ اَلْاَبْرَدَان: صبح و شام۔ کیونکہ یہ دونوں وقت ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ اَلْبَرْدُ کے معنی ’’اولے‘‘ کے ہیں اور بَرَدالسَّحَابُ کے معنی ہیں بادل نے ژالہ باری کی۔ سَحَابٌ اَبْرَدُ وَیَرِدٌ اور اولے برسانے والے بادل۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ جِبَالٍ فِیۡہَا مِنۡۢ بَرَدٍ ) (۲۴:۴۳) اور آسمان کے پہاڑوں سے اولے نازل کرتا ہے۔ اَلْبَرْدِیٌّ نرکل کی قسم کا ایک پورا۔ یہ بَرْد کی طرف منسوب ہے کیونکہ یہ بھی پانی میں پید ہوتا ہے مثل مشہور ہے۔ (4) اَصْلُ کُلِّ دَائٍ: الْبَرْدَۃُ کہ بدہضمی ام الامراض ہے، بدہضمی کو بَرْدَۃٌ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اس برودت طبعی کی وجہ سے عارض ہوتی ہے اس سے قوت ہضم ناقابل ہوجاتی ہے۔ اَلْبَرُوْدُ: ٹھنڈ پہنچانے والی چیز کو کہتے ہیں اور کبھی ٹھنڈی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں کیونکہ فُعُوْلٌ کبھی بمعنی فاعل ہوتا ہے اور کبھی بمعنی مفعول آتا ہے۔ جیسے: مَائٌ بَرُوْدٌ (ٹھنڈا پانی) ثَغْرٌ بَرُوْدٌ (خنک دانت) جیساکہ آنکھ کو ٹھنڈک پہنچانے والے سرمہ کو بَرُوْدٌ کہا جاتا ہے(5) بَرَدْتُ الْحَدِیْدَ میں نے لوہے کی ریتی سے رگڑا۔ یہ بَرَدْتُہٗ بمعنی قَتَلْتُہٗ سے مشتق ہے اور لوہ و چون کو بُرَادَۃٌ کہا جاتا ہے۔ اَلْمِبْرَدُ: (آلہ) ریتی جس سے لوہے کو تیتتے ہیں۔ اَلْبُرْد یہ اَلْبَرِیْد کی جمع ہے اور محکمہ مواصلات کی اصطلاح میں بُرُدٌ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو کسی جگہ پر پیغام رسانی کے لیے متعین رہتے ہیں۔ وہ ہر کارے چونکہ سرعت سے پیغام رسانی کا کام کرتے تھے، اس لیے ہر تیز روکے کے لیے ھُوَ یُبْرِدُ کا محاورہ استعمال ہونے لگا ہے۔ اور پرند کے پروں کو بَرِیْدَانِ کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ بھی اسے برید کا کام دیتے ہیں تو یہ بناء الفرع عَلَی الفرع کے قبیل سے ہے، جیساکہ ’’علم الاشتقاق‘‘ میں بیان کیا جاتا ہے۔