اَلْاَذَیٰ ہر اس ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے(1) وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلق سے ہو او رپھر وہ ضرور دنیوی ہو یا اخروی چنانچہ قرآن پاک ہے : (لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِکُمۡ بِالۡمَنِّ وَ الۡاَذٰی ) (۲:۲۶۴) اپنے صدقات (و خیرات) کو احسان جتا کر او رایذا دے کر برباد نہ کرو۔ اور آیت کریمہ : (فَاٰذُوۡہُمَا) (۴:۱۶) میں مار پٹائی (سزا) کی طرف اشارہ ہے اسی طرح سورۃ توبہ میں فرمایا : (وَ مِنۡہُمُ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوۡلُوۡنَ ہُوَ اُذُنٌ ) (۹:۶۱) اور ان میں بعض ایسے ہیں جو خدا کے پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے۔ (وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ) (۹:۶۱) اور جو لوگ رسولِ خدا کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لیے عذاب الیم (تیار) ہے۔ (لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اٰذَوۡا مُوۡسٰی ) (۳۳:۶۹) تم ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی (عیب لگاکر) رنج پہنچایا۔ (وَ اُوۡذُوۡا حَتّٰۤی اَتٰہُمۡ نَصۡرُنَا ) (۶:۳۴) اور ایذا (پر صبر کرتے رہے) یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد پہنچتی رہی۔ (لِمَ تُؤۡذُوۡنَنِیۡ ) (۶۱:۵) تم مجھے کیوں ایذا دیتے ہو؟ اور آیت کریمہ : (وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡمَحِیۡضِ ؕ قُلۡ ہُوَ اَذًی ) (۲:۲۲۲) میں حیض (کے دنوں میں عورت سے جماع کرنے) کو اَذًی کہنا یا تو ازروئے شریعت ہے یا پھر بلحاظ علم طب کے جیساکہ اس فن کے ماہرین بیان کرتے ہیں۔ اٰذَیْتُہٗ (افعال) اِیْذَائً وَاَذِیَّۃً وَاَذًی کسی کو تکلیف دینا۔ اَلْآذِیُّ۔ موج بحر جو بحری مسافروں کے لیے تکلیف دہ ہو۔
Words | Surah_No | Verse_No |
اَدُّوْٓا | سورة الدخان(44) | 18 |
تُؤَدُّوا | سورة النساء(4) | 58 |
فَلْيُؤَدِّ | سورة البقرة(2) | 283 |
وَاَدَاۗءٌ | سورة البقرة(2) | 178 |
يُؤَدِّهٖٓ | سورة آل عمران(3) | 75 |
يُّؤَدِّهٖٓ | سورة آل عمران(3) | 75 |