Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلْجَلْوُ: (ن) کے اصل معنی کسی چیز کے نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں۔ چنانچہ محاورہ ہے: اَجْلَیْتُ الْقَوْمَ عَنْ مَنَازِلِھِمْ فَجَلَوْا عَنْھَا (یعنی) میں نے انہیں لاوطن کیا تو وہ چلے گئے اور جَلَاہُ (متعدی) بھی استعمال ہوتا ہے۔ (1) جیساکہ شاعر نے کہا ہے (2) ع (۹۲) فَلَمَّا جَلَاھَا بِالْاُیَامِ تَحَیَّرتْ ثُبَاتٍ عَلَیْھَا ذُلُّھَا وَاکْتِئَابُھَا۔ جب انگبین گیرندہ نے شہد کی مکھیوں کو دھواں کے ذریعہ سے دور ہٹایا تو وہ ٹکڑیاں ہوکر غم و اندوہ کے ساتھ ایک طرف سکڑ گئیں۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ کَتَبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمُ الۡجَلَآءَ لَعَذَّبَہُمۡ فِی الدُّنۡیَا) (۵۹:۳) اور اگر خدا نے ان کے بارے میں لاوطن کرنا نہ لکھ دیا ہوتا تو ان کو دنیا میں بھی عذاب دے دیتا۔ اسی سے جَلَالِیَ خَبَرٌ (کسی خبر کا ظاہر ہونا) وخَبَرٌ جَلِیٌّ (واضح خبر) وَقِیَاسٌ جَلِیٌّ (اور واضح قیاس) کے محاورات ہیں اور صیغہ صفت (فاعل) جَالٍ مسموع نہیں ہے۔ جَلَوْتُ الْعَرُوْسَ جُلْوَۃً (وَجِلَائً) دلہن کو بناؤ سنگھار کر کے پیش کرنا۔ جَلَوْتُ السَّیْفَ جِلَائٌ تلوار کو صیقل کیا۔ اَلسَّمَائُ جَلْوَائُ: آسمان بے ابر اور صاف ہے۔ رَجُلٌ اَجْلٰی وہ شخص جس کے سر کے بال اڑ گئے ہوں۔ اَلتَّجَلِّیْ کے معنی ہیں ظاہر ہونا اور ہویدا ہونا اور جلوہ بار ہونا اور یہ (تجلی) کبھی بالذات ہوتی ہے، جیسے: (وَ النَّہَارِ اِذَا تَجَلّٰی ۙ) (۹۲:۲) اور دن کی جب نمایاں طور پر روشنی ہوجائے۔ اور کبھی بذریعہ امر اور فعل کے ہوتی ہے۔ (3) جیسے فرمایا: (فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ) (۷:۱۴۳) جب ان کا پروردگار پہاڑ پر جلوہ افروز ہوا۔ کہا جاتا ہے: فُلَانٌ ابْنُ جَلَا … یعنی فلاں مشہور و معروف ہے (4) اَجْلَوْا عَنْ قَتِیْلٍ: وہ مقتول سے الگ ہوگئے اسے چھوڑ کر بھاگ گئے۔

Words
Words Surah_No Verse_No
الْجَلَاۗءَ سورة الحشر(59) 3
تَجَلّٰى سورة الأعراف(7) 143
تَجَلّٰى سورة الليل(92) 2
جَلّٰىهَا سورة الشمس(91) 3
يُجَلِّيْهَا سورة الأعراف(7) 187