ذَمَّہٗ (ن) ذَمًّا کے معنیٰ مذمت کرنے کے ہیں۔اس سے صیغۂ صفت مفعولی مَذْمُوْمٌ وَّذَمِیْمٌ آتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرَا) (۱۷۔۱۸) نفرین سنکر اور (درگاہ خدا سے) راندہ ہوکر۔ اور بعض ذُمَمْتُہ‘ صیغۂ واحد متکلم میں دوسری میم کو تاء سے بدل کر ذَمَتُّہٗ بھی کہہ دیتے ہیں۔ اَلذِّمَامُ: وہ عہد وغیرہ جس کا ضائع کرنا باعث مذمت ہو۔ یہی معنیٰ ذِمّۃٌ وَمَذِمَّۃٌ کے ہیں۔کہا گیا ہے لِیْ مُذَمَّۃٌ فُلَا تَھْتَکْھَا کہ میرے عہد یا حرمت کا پاس کیجئے توڑیئے نہیں۔ اَذْھِبْ مَذَمَّتَھُمْ بِشَیئٍ یعنی ان کے حق احترام کا بدلہ اتاریئے۔ اَذَمَّ بِکَذَا: اس کی حرکت کو ضائع کردیا۔ تہاون سے کام لیا۔رَجُلٌ مِذَمٌّ: بے حس و حرکت(1) بِئْرٌ ذَمَّۃٌ: کم پانی والا کنواں (2) چیونٹی کے انڈوں کی طرح سفید سا مادہ جو ناک پر ظاہر ہوجاتا ہے اسے اَلذَّمِیمُ کہا جاتا ہے۔ شاعر نے کہا ہے۔ (3) (۱۶۵) یَومَ الْھِیَاجِ کَمَازِنِ النَّمْلِ لڑائی کے دن ان کی ناک پر چیونٹی کے انڈوں کی طرح سفیدی پھنسیاں نظر آتی ہیں۔
Words | Surah_No | Verse_No |
ذِمَّةً | سورة التوبة(9) | 8 |
ذِمَّةً | سورة التوبة(9) | 10 |
مَذْمُوْمًا | سورة بنی اسراءیل(17) | 18 |
مَذْمُوْمًا | سورة بنی اسراءیل(17) | 22 |
مَذْمُوْمٌ | سورة القلم(68) | 49 |