وَسَطْ الشَّیْئِ:ہر چیز کی درمیانی جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے اس کے دونوں اطراف کا فاصلہ مساوی ہو اور اس کا استعمال کمیتہ متصلہ یعنی ایک جسم پر ہوتا ہے جیسے وَسَطَہٗ صُلْبٌ (اس کا درمیان سخت ہے) ۔ضَرَبْتُہٗ وَسَطَ رَاْسِہ:لیکن وَسْطٌ (بالسکون) کمیت منفصلہ پر بولا جاتا ہے۔یعنی دو چیزوں کے درمیان فاصل کو وَسْطٌ کہا جاتا ہے جیسے وَسْطٌ الْقَوْمِ کَذَا کہ وہ لوگوں کے درمیان فاصل ہے۔نیز اَلْوَسَطَ: (بفتح السین) اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو دو مذموم اطراف کے درمیان واقع ہو یعنی معتدل جو افراط و تفریط کے بالکل درمیان ہوتا ہے۔مثلاً جود کہ بخل اور اسراف کے درمیانی درجہ کا نام ہے اور معنی اعتدال کی مناسبت سے یہ لفظ عَدْلٌ۔نَصَفَۃ سَوَائٌ کی طرح ہر عمدہ اور بہترین چیز کے لئے بولا جاتا ہے مثلاً جو شخص اپنی قوم میں بلحاظِ حسب سب سے بہتر اور اونچے درجہ کا ہو اس کے متعلق ’’ھٰذَا أَوْسَطُھُمْ حَسْبًاٗٗکہا جاتا ہے چنانچہ اسی معنی میں (امت مسلمہ کے متعلق ) فرمایا۔ (وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا) (۲۔۱۴۳) اور اس طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا۔اسی طرح آیت:۔ (قَالَ اَوۡسَطُہُمۡ ) (۶۸۔۲۸) ایک جوان جواَن میں فرزانہ تھا بولا۔میں بھی اوسط کا لفظ اسی معنی پر محمول ہے اور کبھی (۳) کنایۃ رذیل چیز پر بھی بولا جاتا ہے جسے کہا جاتا ہے۔فُلَانٌ وَسَطٌ مِنَ الرِّجَال کہ فلاں کم درجے کا آدمی ہے یعنی درجہ خیر سے گرا ہوا ہے اور آیت کریمہ: (حٰفِظُوۡا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوۃِ الۡوُسۡطٰی) (۲۔۲۳۸) مسلمانوں سب نمازیں خصوصاً بیچ کی نماز (یعنی) عصر پورے التزام کے ساتھ ادا کرتے رہو۔میں بعض نے کہا ہے کہ وسطی سے مراد صلوۃ ظہر ہے کیونکہ وہ دن کے درمیانی حصہ میں ادا کی جاتی ہے اور بعض اس سے صلوۃ مغرب مراد لیتے ہیں کیونکہ وہ تعداد رکعات کے لحاظ سے ثنائی اور رباعی نمازوں کے درمیان میں ہے اور بعض نے صلوۃ فجر مراد لی ہے کیونکہ وہ دن اور رات کی نمازوں کے درمیان میں ہے جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا: (اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوۡکِ الشَّمۡسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیۡلِ وَ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ) (۱۷۔۷۸) (اے محمدﷺ) سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک (ظہر) عصر، مغرب،عشاء کی نمازیں اور صبح کو قرآن پاک پڑھا کرو۔اور صلوہ وسطیٰ کو خاص کر الگ ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ صبح کا وقت سستی اور غفلت کا وقت ہوتا ہے کیونکہ اس وقت اٹھنے کے لئے نیند کی لذت کو چھوڑنا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ صبح کی اذان میں اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ (1) (۱۴۵) اور جو لوگ اس سے صلوۃ عصر مراد لیتے ہیں۔ (2) جیسا کہ آنحضرتﷺ سے ایک حدیث میں بھی مروی ہے تو وہ اس کے علیحدہ ذکر کرنے کی وجہ سے یہ بیان کرتے ہیں کہ عصر کا وقت عوام کے کاروبار کا وقت ہوتا ہے اس لئے نماز میں سستی ہوجاتی ہے بخلاف دوسری نمازوں کے کہ ان کے اول یا آخر میں فرصت کا وقت مل جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے زجرا فرمایا: (3) (۱۴۶) (مَنْ فَاتَنْہُ صَلٰوَۃُ الْعَصْرِ فَکَاَنَّمَا وُتِرَاھْلُہٗ وَمَالُہ) کہ جس نے عصر کی نماز ضائع کردی گویا اس نے اپنے اہل و عیال اور مال کو برباد کردیا۔
Words | Surah_No | Verse_No |
الْوُسْطٰى | سورة البقرة(2) | 238 |
اَوْسَطُهُمْ | سورة القلم(68) | 28 |
اَوْسَطِ | سورة المائدة(5) | 89 |
فَوَسَطْنَ | سورة العاديات(100) | 5 |
وَّسَطًا | سورة البقرة(2) | 143 |