[٧٩] بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے سرداروں میں کوئی دو چار دفعہ ایسے مکالمے اور بحثیں ہوئی ہوں گی۔ لیکن واقعہ ایسا نہیں۔ پورے ساڑھے نو سو سال نوح اور ان کی قوم میں ایسے مکالمے اور بحث و تکرار ہوتی رہی۔ اور جب حضرت نوح اس قوم میں سے کسی نئے فرد کے ایمان لانے سے قطعاً مایوس ہوگئے تو اس وقت آپ نے یہ دعا کی تھی۔ اس دعا کی تفصیلی ذکر سورة نوح میں آئے گا۔
فَافْتَحْ بَيْنِيْ وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا ۔۔ : اس فیصلے سے مراد انھیں نیست و نابود کردینے والا عذاب ہے، جو ” وَّنَجِّـنِيْ وَمَنْ مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ “ سے سمجھ میں آ رہا ہے۔
فَافْتَحْ بَيْنِيْ وَبَيْنَہُمْ فَتْحًا وَّنَجِّـنِيْ وَمَنْ مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ١١٨- فتح - الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65]- ( ف ت ح )- الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔- نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔- وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے
آیت ١١٨ (فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُمْ فَتْحًا) ” - یعنی ایسا کھلا فیصلہ جس کے بعد حق کے احقاق اور باطل کے ابطال میں کوئی شک یا ابہام نہ رہ جائے۔ - (وَّنَجِّنِیْ وَمَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ) ” - اہل ایمان میں سے۔ “
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :86 یعنی صرف یہی فیصلہ نہ کر دے کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون ، بلکہ وہ فیصلہ اس شکل میں نافذ فرما کہ باطل پرست تباہ کر یئے جائیں اور حق پرست بچا لیے جائیں ۔ یہ الفاظ کہ مجھے اور میرے مومن ساتھیوں کو بچا لے خود بخود اپنے اندر یہ مفہوم رکھتے ہیں کہ باقی لوگوں پر عذاب نازل کر اور انہیں حرف غلط کی طرح مٹا کر رکھ دے ۔