زید بن خالد ؓ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے آپ سے لقطہ کے بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس (ملنے والی چیز) کی تھیلی اور اسے باندھنے والی رسی کی پہچان رکھ ، پھر ایک سال تک اس کا اعلان کر ، اگر اس کا مالک آ جائے تو ٹھیک ورنہ تو اسے اپنے استعمال میں لے آ ۔‘‘ اس نے گم شدہ بکری کے بارے میں مسئلہ دریافت کیا تو فرمایا :’’ (اسے پکڑ لے) وہ تیرے لیے ہے یا تیرے کسی بھائی کے لیے یا پھر بھیڑیے کے لیے ۔‘‘ اس نے گم شدہ اونٹ کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تجھے اس سے کیا سروکار ؟ (پانی کا) مشکیزہ اس کے پاس اور پاؤں اس کے مضبوط ہیں (پیاس لگنے پر) گھاٹ پر آئے گا اور درخت کے پتے کھائے گا حتی کہ اس کا مالک اس تک پہنچ جائے گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
اور مسلم کی روایت میں ہے :’’ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ایک سال تک اس کا اعلان کر ۔ پھر اس چیز کو باندھنے والی رسی اور اس کی تھیلی کی پہچان رکھ ، پھر اسے استعمال میں لا ۔ البتہ اگر اس کا مالک آ جائے تو پھر اسے اتنی قیمت ادا کر ۔‘‘
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا کہ آپ سے درخت پر لٹکے ہوئے پھل کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر کوئی ضرورت مند شخص ، جو کہ کپڑے میں ڈال کر لے جانے والا نہ ہو ، وہاں سے کھا لے تو اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ، اور جو شخص وہاں سے کچھ ساتھ لے آئے تو اس پر دو گناہ تاوان اور سزا ہے ، اور جو شخص جنس کے ڈھیر لگ جانے کے بعد وہاں سے ڈھال کی قیمت کے برابر چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا ۔‘‘ اور گم شدہ اونٹ اور گم شدہ بکری کے بارے میں بھی دوسری چیزوں کی طرح ہی ذکر کیا گیا ہے ۔ راوی بیان کرتے ہیں ، آپ سے لقطہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر وہ شارع عام اور بڑی بستی سے ملے تو پھر تو ایک سال تک اس کا اعلان کر ، اگر اس کا مالک آ جائے تو وہ اس کے حوالے کر ، اور اگر کوئی مالک نہ آئے تو پھر وہ تیری ہے ۔ اور اگر وہ کسی بے آباد قدیم جگہ سے ملے تو پھر اس میں اور مدفون خزینے میں پانچواں حصہ ہے ۔‘‘ نسائی ۔ ابوداؤد ؒ نے بھی انہی سے روایت کیا ہے اور وہ حدیث : سُئِلَ عَنِ اللُّقْطَۃِ سے آخر تک مروی ہے ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ النسائی و ابوداؤد ۔
ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ علی بن ابی طالب ؓ کو ایک دینار ملا وہ اسے فاطمہ ؓ کے پاس لے آئے اور اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ تو اللہ کا رزق ہے ۔‘‘ رسول اللہ ﷺ ، علی ؓ اور فاطمہ ؓ نے اس میں سے کھایا ۔ جب اگلا روز ہوا تو ایک عورت دینار کا اعلان کرتی ہوئی آئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ علی ! دینار واپس کرو ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
جارود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مسلمان کی گم شدہ چیز (اگر وہ اعلان کیے بغیر اٹھا لی جائے تو وہ) آگ کا شعلہ ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ الدارمی ۔
عیاض بن حمار ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص گری پڑی چیز پا لے تو وہ ایک یا دو عادل شخص گواہ بنا لے ۔ اور وہ اسے چھپائے نہ اسے غائب کرے ، اگر اس کا مالک پا لے تو وہ چیز اسے واپس کرے ورنہ وہ اللہ کا مال ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ احمد و ابوداؤد و الدارمی ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے لاٹھی ، کوڑے ، رسی اور اس سے ملتی جلتی چیزوں کے بارے میں ہمیں رخصت عنایت فرمائی کہ آدمی اس طرح کی گری پڑی چیز کو اٹھا کر استعمال کر لے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
وَذْکِرَ حَدِیْثُ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِیْ کَرِبَ : ((اَلَا لَا یَحِلُّ)) فِیْ بَابِ الاعْعِصَامِ
اور مقدام بن معدی کرب ؓ سے مروی حدیث ((اَلَا لَا یَحِلُّ .....)) باب الاعتصام میں ذکر کی گئی ہے ۔
ابوہریرہ ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں مومنوں کا ان کے نفسوں سے بھی زیادہ حقدار ہوں ، جو شخص فوت ہو جائے اور اس پر قرض ہو اور اس نے قرض کی ادائیگی کے لیے کوئی چیز بھی نہ چھوڑی ہو تو اس کی ادائیگی میرے ذمے ہے اور جس نے کوئی مال چھوڑا ہو تو وہ اس کے وارثوں کا ہے ۔‘‘
اور ایک دوسری روایت میں ہے :’’ جو شخص قرض یا پسماندگان چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آئیں میں ان کا حامی و مددگار ہوں ۔‘‘ اور ایک دوسری روایت میں ہے :’’ جس نے مال چھوڑا تو اس کے وارثوں کے لیے ہے اور جو شخص بوجھ (یعنی قرض یا اولاد) چھوڑ جائے تو وہ ہماری طرف آئیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مقررہ حصے ان کے مستحقین کو دو اور جو باقی بچے وہ (میت کے) قریب ترین مرد (رشتے دار) کا حصہ ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ قوم کا بھانجا انہی میں شمار ہوتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
وَذْکِرَ حَدِیثُ عَائِشَۃَ : ((اِنَّمَا الْوَلَاءُ .....)) فِیْ بَابِ قَبْلَ بَابِ السَّلَمِ وَ سَنَذْکُرُ حَدِیْثَ الْبَرَاءِ : ((الْخَالَۃُ بِمَنْزِلَۃِ الْاُمِّ)) فِیْ بَابِ بُلُوْعِ الصَّغِیْرِ وَ حَضَانَتِہِ اِنْ شَاءَ اللہُ تَعَالیٰ ۔
عائشہ ؓ سے مروی حدیث : ((اِنَّمَا الْوَلَاءُ .....)) باب السلم سے پہلے باب میں ذکر ہو چکی ہے ، اور براء ؓ سے مروی حدیث :’’ خالہ ، ماں کے مقام پر ہوتی ہے ۔‘‘ ہم باب بلوغ الصغیر و حضانتہ میں ان شاء اللہ تعالیٰ ذکر کریں گے ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ دو مختلف دین کے حامل افراد باہم وارث نہیں ہو سکتے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بچہ پیدائش کے وقت آواز نکالے (چیخے اور پھر فوت ہو جائے) تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کی وراثت بھی تقسیم ہو گی ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا و الحدیث ضعیف ، رواہ ابن ماجہ و الدارمی ۔
کثیر بن عبداللہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ قوم کا آزاد کردہ غلام انہیں میں سے ہے ، قوم کا حلیف انہی میں سے ہے اور قوم کا بھانجا انہی میں سے ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ الدارمی ۔
مقدام ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں ہر مومن سے خود اس سے بھی زیادہ تعلق رکھتا ہوں ، جو شخص قرض یا پسماندگان چھوڑ جائے تو ان کا خیال رکھنا ہماری ذمہ داری ہے ، اور جو شخص مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے وارثوں کے لیے ہے ۔ اور جس کا کوئی مولیٰ (حمایتی و مددگار) نہ ہو ۔ اس کا میں مولیٰ ہوں ، اس کے مال کا میں وارث بنوں گا ، اس کے قیدی کو میں چھڑاؤں گا ، جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کا وارث ماموں ہے ، وہ اس کے مال کا وارث ہو گا اور اس کے قیدی کو چھڑائے گا ۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے :’’ جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کا میں وارث ہوں ، اس کی طرف سے دیت بھی دوں گا اور اس کا وارث بھی بنوں گا ، اور جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کا ماموں وارث ہے ، وہ اس کی طرف سے دیت دے گا اور اس کا وارث بنے گا ۔‘‘ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
واثلہ بن اسقع ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ عورت تین وراثتیں پا سکتی ہے ، اپنے آزاد کیے ہوئے غلام کی ، اپنے پالے ہوئے بچے کی اور اپنے اس بچے کی جس کے متعلق اس نے لعان کیا ہو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے کسی آزاد یا غلام عورت سے زنا کیا ، (اور بچہ پیدا ہوا) تو وہ بچہ ، ولد زنا ہے ، وہ (اپنے زانی باپ کا) وارث ہو گا نہ اس کا باپ اس کا وارث ہو گا ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا آزاد کردہ غلام فوت ہو گیا ، اور اس نے کچھ مال چھوڑا ، اور اس نے کوئی قریبی رشہ دار چھوڑا نہ اولاد ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اس کی میراث اس کی بستی کے کسی آدمی کو دے دو ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد و الترمذی ۔
بریدہ ؓ بیان کرتے ہیں ، خزاعہ قبیلے کا ایک آدمی فوت ہو گیا تو اس کی میراث نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کی گئی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس کا کوئی وارث یا کوئی رشتہ دار تلاش کرو ۔‘‘ انہوں نے اس کا کوئی وارث پایا نہ کوئی رشتہ دار ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ خزاعہ قبیلے کے کسی عمر رسیدہ شخص کو دے دو ۔‘‘ ابوداؤد ، اور ابوداؤد ہی کی روایت میں ہے ، فرمایا :’’ خزاعہ قبیلے کا کوئی بڑا آدمی دیکھو ۔‘‘ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، تم یہ آیت تلاوت کرتے ہو :’’ وصیت پوری کرنے کے بعد جو تم وصیت کرتے ہو یا قرض کی ادائیگی کے بعد ۔‘‘ بے شک رسول اللہ ﷺ نے قرض کو وصیت سے پہلے ادا کرنے کا فیصلہ فرمایا ، اور سگے بھائی وارث ہوتے ہیں ، سوتیلے بھائی وارث نہیں ہوتے ، آدمی اپنے سگے بھائی کا وارث ہو گا سوتیلے بھائی کا وارث نہیں ہو گا ۔‘‘ ترمذی ، ابن ماجہ ۔ اور دارمی کی روایت میں ہے ، فرمایا :’’ سگے بھائی (ایک ہی ماں کی اولاد) وارث ہوں گے اور مختلف ماؤں کی اولاد (یعنی سوتیلے بھائی) وارث نہیں ہوں گے ۔‘‘ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ و الدارمی ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، سعد بن ربیع ؓ کی اہلیہ سعد بن ربیع سے اپنی دونوں بیٹیاں لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئی تو عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ دونوں سعد بن ربیع ؓ کی بیٹیاں ہیں ، ان کا والد غزوہ احد میں آپ کے ساتھ شریک ہو کر شہید ہو گیا ۔ ان دونوں کے چچا نے ان کا مال لے لیا ہے اور ان کے لیے کوئی مال نہیں چھوڑا ، اگر مال ہو گا تو ان کی شادی ہو جائے گی ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس کے متعلق اللہ فیصلہ فرمائے گا ۔‘‘ پس آیتِ میراث نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے چچا کو پیغام بھیجا کہ سعد ؓ کی دونوں بیٹیوں کو دو تہائی دو اور ان دونوں کی والدہ کو آٹھواں حصہ دو ، اور جو باقی بچے وہ تمہارا ہے ۔‘‘ احمد ، ترمذی ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ۔ اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ ۔
ہُذیل بن شرحبیل بیان کرتے ہیں ، ابوموسیٰ اشعری ؓ سے بیٹی ، پوتی اور بہن کے حصے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : بیٹی کے لیے نصف ، بہن کے لیے نصف ، اور تم ابن مسعود ؓ کے پاس جاؤ وہ بھی میرے موافق فتویٰ دیں گے ، عبداللہ بن مسعود ؓ سے مسئلہ دریافت کیا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ ابوموسی ؓ نے یہ فتوی دیا ہے ، تو انہوں نے فرمایا : تب تو میں گمراہ ہو گیا ، اور میں ہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہیں ہوں ، میں اس کے متعلق وہی فیصلہ کروں گا جو نبی ﷺ نے کیا تھا ، بیٹی کے لیے نصف ، پوتی کے لیے چھٹا حصہ اسی طرح دو تہائی مکمل ہوا اور جو باقی بچے وہ بہن کے لیے ہے ، ہم ابوموسی ؓ کے پاس آئے تو انہیں ابن مسعود ؓ کے فتویٰ کے بارے میں بتایا تو انہوں نے فرمایا : جب تک یہ علاّمہ تم میں موجود ہے مجھ سے مسئلہ نہ پوچھا کرو ۔ رواہ البخاری ۔
عمران بن حصین ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا ، میرا پوتا فوت ہو گیا ہے ، اس کی میراث میں میرا کتنا حصہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تمہارے لیے چھٹا حصہ ہے ۔‘‘ جب وہ واپس مڑا تو آپ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا :’’ تمہارے لیے ایک اور چھٹا حصہ ہے ۔‘‘ جب وہ واپس مڑا تو آپ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا :’’ دوسرا چھٹا حصہ (زیادہ حق دار نہ ہونے کی وجہ سے) تمہارے لیے رزق ہے ۔‘‘ احمد ، ترمذی ، ابوداؤد ۔ اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد ۔
قبیصہ بن ذُویب بیان کرتے ہیں ، دادی ، نانی ، ابوبکر ؓ کے پاس آئی اور اس نے اپنی میراث کے بارے میں آپ سے مسئلہ دریافت کیا ، تو انہوں نے اس سے کہا : تمہارے لیے اللہ کی کتاب میں کوئی حصہ ہے نہ رسول اللہ ﷺ کی سنت میں ، آپ جائیں حتی کہ میں لوگوں سے پوچھ لوں : انہوں نے پوچھا تو مغیرہ بن شعبہ ؓ نے فرمایا : میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ نے اسے (یعنی دادی / نانی کو) چھٹا حصہ دیا ، ابوبکر ؓ نے فرمایا : کیا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے ؟ تو محمد بن مسلمہ نے بھی ویسے ہی کہا جیسے مغیرہ نے کہا تھا ، تو ابوبکر ؓ نے اس (دادی / نانی) کے متعلق اسے نافذ کر دیا ، پھر ایک اور دادی / نانی عمر ؓ کے پاس آئی اور اپنی میراث کے متعلق دریافت کیا ، تو انہوں نے فرمایا : وہ چھٹا حصہ ہی ہے ، اگر تم دونوں اکٹھی ہوں تو وہ تم دونوں کے درمیان تقسیم ہو گا ، اور تم دونوں میں سے جو بھی اکیلی ہو گی تو وہ حصہ اسے ملے گا ۔‘‘ صحیح ، رواہ مالک و احمد و الترمذی و ابوداؤد و الدارمی و ابن ماجہ ۔
ابن مسعود ؓ اس دادی کے بارے میں جسے اپنے بیٹے کے ساتھ حصہ ملا ، فرمایا : وہ پہلی دادی ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے بیٹے کی موجودگی میں چھٹا حصہ عطا کیا جبکہ اس کا بیٹا زندہ تھا ۔ ترمذی ، دارمی ۔ امام ترمذی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و الدارمی ۔