عبداللہ بن عمرو ؓ اور ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب حاکم فیصلہ کرتے وقت کوشش کرے اور درست فیصلہ کرے تو اس کے لیے دو اجر ہیں ، اور جب فیصلہ کرے اور کوشش کے باوجود غلطی ہو جائے تو اس کے لیے ایک اجر ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص کو لوگوں کا قاضی بنا دیا گیا گویا وہ چھری کے بغیر ذبح کر دیا گیا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص قضا کا خواہشمند ہو اور وہ مطالبہ کرے تو اسے اس کی ذات کے سپرد کر دیا جاتا ہے ، اور جسے اس پر مجبور کر دیا جائے تو اللہ اس پر ایک فرشتہ نازل فرما دیتا ہے جو اس کو درست رکھتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ ۔
بریدہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ قاضی تین قسم کے ہیں ، ان میں سے ایک جنتی اور دو جہنمی ہیں ، وہ قاضی جنتی ہے جس نے حق پہچان کر اس کے مطابق فیصلہ کیا ، اور وہ قاضی جس نے حق پہچان کر فیصلہ میں ظلم کیا تو وہ جہنمی ہے ، اور وہ آدمی جس نے جہالت کی بنا پر لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا تو وہ بھی جہنمی ہے ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے مسلمانوں کی قضاء طلب کی اور وہ اسے میسر آ گئی ، پھر اس کا عدل اس کے ظلم پر غالب رہا تو اس کے لیے جنت ہے ، اور جس شخص کے عدل پر اس کا ظلم غالب رہا تو اس کے لیے جہنم ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب انہیں یمن بھیجا تو فرمایا :’’ جب کوئی مقدمہ تمہارے سامنے پیش آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : میں اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر تم اللہ کی کتاب میں نہ پاؤ ؟‘‘ عرض کیا : پھر رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق ، فرمایا :’’ اگر تم رسول اللہ (ﷺ) کی سنت میں نہ پاؤ ؟‘‘ عرض کیا : میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا ، اور کوئی کسر نہیں اٹھا رکھوں گا ، وہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے (ازراہِ مسرت) میرے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا :’’ ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے رسول اللہ (ﷺ) کے قاصد کو اس چیز کی توفیق عطا فرمائی جسے اللہ کے رسول (ﷺ) پسند فرماتے ہیں ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و الدارمی ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے مجھے یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تو میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! آپ مجھے بھیج رہے ہیں ، جبکہ میں نوعمر ہوں اور مجھے قضا کے بارے میں علم بھی نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک عنقریب اللہ تیرے دل کی راہنمائی کرے گا اور تیری زبان کو استقامت عطا فرمائے گا ، جب دو آدمی تیرے پاس مقدمہ لے کر آئیں تو دوسرے فریق کی بات سنے بغیر پہلے فریق کے حق میں فیصلہ نہ کرنا کیونکہ یہ لائق تر ہے کہ تیرے لیے قضا واضح ہو جائے ۔‘‘ علی ؓ بیان کرتے ہیں ، اس کے بعد مجھے قضا میں شک نہیں ہوا ۔
اور ام سلمہ ؓ سے مروی حدیث :’’ میں تمہارے درمیان اپنی رائے سے فیصلہ کروں گا ۔‘‘ کو ہم ’’باب الاقضیۃ و الشھادات ‘‘ میں ان شاء اللہ تعالیٰ ذکر کریں گے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ ۔
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو حاکم بھی لوگوں کے درمیان فیصلے کرتا ہے وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ ایک فرشتہ اسے گدی سے پکڑے ہو گا ، پھر وہ اپنا سر آسمان کی طرف اٹھائے گا اگر اللہ تعالیٰ نے کہا : اسے پھینک دو ، وہ اسے چالیس سال (کی مسافت کی گہرائی) کے گڑھے میں پھینک دے گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد و ابن ماجہ و البیھقی فی شعب الایمان ۔
عائشہ ؓ ، رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتی ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ روز قیامت عادل قاضی بھی یہ آرزو کرے گا کہ کاش اس نے دو آدمیوں کے درمیان کبھی ایک کھجور کا بھی فیصلہ نہ کیا ہوتا ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ احمد ۔
عبداللہ بن ابی اوفی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تک قاضی ظلم نہ کرے تو اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے ، جب وہ ظلم کرتا ہے تو وہ اس سے الگ ہو جاتا ہے اور شیطان اس کے ساتھ لگ جاتا ہے ۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے :’’ جب وہ ظلم کرتا ہے تو اللہ اسے اس کے نفس کے سپرد کر دیتا ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ ۔
سعید بن مسیّب ؒ سے روایت ہے کہ ایک مسلمان اور ایک یہودی عمر ؓ کے پاس مقدمہ لے کر آئے تو حضرت عمر ؓ نے محسوس کیا کہ یہودی حق پر ہے اس لیے انہوں نے یہودی کے حق میں فیصلہ کر دیا تو یہودی نے انہیں کہا : اللہ کی قسم ! آپ نے حق کے مطابق فیصلہ کیا ، عمر ؓ نے اسے درہ مارا اور فرمایا : تجھے کیسے پتہ چلا ؟ یہودی نے کہا : اللہ کی قسم ! ہم تورات میں (لکھا ہوا) پاتے ہیں کہ جو قاضی حق کے مطابق فیصلہ کرتا ہے تو اس کے دائیں بائیں ایک ایک فرشتہ ہوتا ہے ، وہ دونوں اسے حق کے لیے درست رکھتے ہیں ، اور اسے حق دینے کی کوشش کرتے ہیں ، جب وہ حق چھوڑ دیتا ہے تو وہ دونوں (آسمان کی طرف) اوپر چڑھ جاتے ہیں ، اور اسے چھوڑ دیتے ہیں ۔‘‘ صحیح ، رواہ مالک ۔
ابن موہب سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان ؓ نے ابن عمر ؓ سے فرمایا :’’ لوگوں کے درمیان قاضی بننا قبول کرو ۔ انہوں نے کہا : امیر المومنین ! آپ مجھے معاف نہیں فرما دیتے ؟ انہوں نے فرمایا : آپ اسے ناپسند کیوں کرتے ہیں ، جبکہ آپ کے والد فیصلے کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جو شخص قاضی ہو اور وہ انصاف سے فیصلے کرے تو یہ زیادہ لائق ہے کہ وہ (قاضی) سے برابر برابر رہ جائے ۔‘‘ عثمان ؓ نے اس کے بعد انہیں نہیں کہا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
رزین کی نافع کی سند سے مروی روایت میں ہے کہ ابن عمر ؓ نے عثمان ؓ سے فرمایا : امیر المومنین ! میں دو آدمیوں کے درمیان بھی فیصلہ نہیں کروں گا ، انہوں نے فرمایا : آپ کے والد تو فیصلہ کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے کہا : میرے والد کو کسی مسئلہ میں اشکال ہوتا تو وہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھ لیا کرتے تھے ، اگر رسول اللہ ﷺ کو کسی مسئلہ میں الجھن ہوتی تو وہ جبریل سے پوچھ لیتے تھے ، جبکہ میں ایسا کوئی شخص نہیں پاتا جس سے میں پوچھ لوں اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جس نے اللہ کی پناہ حاصل کی تو اس نے ایک عظیم ذات کی پناہ حاصل کی ۔‘‘ اور میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جو شخص اللہ کے واسطے سے پناہ طلب کر لے تو اسے پناہ دے دو ۔‘‘ اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ تم مجھے قاضی بناؤ ۔ انہوں نے اس سے درگزر کیا اور فرمایا : کسی کو نہ بتانا ۔ ضعیف ، رواہ رزین ۔