Blog
Books
Search Hadith

ڈرانے اور نصیحت کرنے کا بیان

بَاب الْإِنْذَار والتحذير

39 Hadiths Found

عَن عِيَاض بن حمَار الْمُجَاشِعِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَاتَ يَوْمٍ فِي خُطْبَتِهِ: أَلَا إِنَّ رَبِّي أَمَرَنِي أَنْ أُعَلِّمَكُمْ مَا جَهِلْتُمْ مِمَّا عَلَّمَنِي يَوْمِي هَذَا: كُلُّ مَالٍ نَحَلْتُهُ عَبْدًا حلالٌ وإِني خلقت عبَادي حنفَاء كلهم وَإنَّهُ أَتَتْهُمُ الشَّيَاطِينُ فَاجْتَالَتْهُمْ عَنْ دِينِهِمْ وَحَرَّمَتْ عَلَيْهِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَهُمْ وَأَمَرَتْهُمْ أَنْ يُشْرِكُوا بِي مَا لَمْ أُنْزِلْ بِهِ سُلْطَانًا وَإِنَّ اللَّهَ نَظَرَ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ فَمَقَتَهُمْ عَرَبَهُمْ وَعَجَمَهُمْ إِلَّا بَقَايَا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَقَالَ: إِنَّمَا بَعَثْتُكَ لِأَبْتَلِيَكَ وَأَبْتَلِيَ بِكَ وَأَنْزَلَتُ عَلَيْكَ كِتَابًا لَا يَغْسِلُهُ الْمَاءُ تَقْرَؤُهُ نَائِمًا وَيَقْظَانَ وَإِنَّ الله أَمرنِي أَن أحرقَ قُريْشًا فَقلت: يَا رَبِّ إِذًا يَثْلَغُوا رَأْسِي فَيَدَعُوهُ خُبْزَةً قَالَ: اسْتَخْرِجْهُمْ كَمَا أَخْرَجُوكَ وَاغْزُهُمْ نُغْزِكَ وَأَنْفِقْ فَسَنُنْفِقُ عَلَيْكَ وَابْعَثْ جَيْشًا نَبْعَثْ خَمْسَةً مِثْلَهُ وَقَاتِلْ بِمن أطاعك من عصاك . رَوَاهُ مُسلم

عیاض بن حمار مجاشعی ؓ سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا :’’ سن لو ! میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اس سے ، جو اس نے مجھے آج تعلیم دی ہے ، وہ چیزیں سکھاؤں جو تم نہیں جانتے ، وہ تمام مال جو میں نے کسی بندے کو عطا کیا ہے وہ حلال ہے ، میں نے اپنے تمام بندوں کو حنفا (باطل سے دور رہنے والے اور حق قبول کرنے کے لیے تیار رہنے والے) پیدا کیا ہے ، بے شک شیاطین ان کے پاس آتے ہیں اور وہ انہیں ان کے دین سے دور کر دیتے ہیں ، اور میں نے ان کے لیے جو حلال کیا تھا وہ ان چیزوں کو ان پر حرام کر دیتے ہیں ، اور وہ انہیں حکم دیتے ہیں کہ وہ میرے ساتھ شریک کریں جس کی میں نے کوئی دلیل نہیں اتاری ، بے شک اللہ نے اہل زمین کی طرف دیکھا تو اس نے اہل کتاب کے کچھ لوگوں کے سوا ان کے عرب و عجم کو مبغوض ٹھہرا دیا ، اور فرمایا : میں نے آپ کو صرف اس لیے مبعوث کیا ہے تا کہ میں آپ کو آزماؤں اور آپ کے ذریعے (آپ کی قوم کو) آزماؤں ، میں نے آپ پر کتاب اتاری جسے پانی نہیں دھو سکتا (ناقابل تنسیخ ہے) ، آپ اسے سوتے جاگتے پڑھیں گے ، بے شک اللہ نے مجھے قریش کو ہلاک کرنے کا حکم فرمایا تو میں نے عرض کیا : میرے پروردگار ! وہ میرا سر کچل دیں گے اور اسے روٹی بنا دیں گے ، فرمایا : آپ انہیں نکال دیں جیسے انہوں نے آپ کو نکال دیا تھا آپ ان سے جہاد کریں ، ہم آپ کو تیار کریں گے ، آپ خرچ کریں ، آپ پر خرچ کیا جائے گا ، آپ لشکر بھیجیں ، ہم بھی اس کی مثل (فرشتوں کے) پانچ لشکر بھیجیں گے ، اور آپ ﷺ اپنے اطاعت گزاروں کے ساتھ نافرمانوں کے خلاف قتال کریں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

Haidth Number: 5371

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ (وَأَنْذِرْ عشيرتك الْأَقْرَبين) صَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّفَا فَجَعَلَ يُنَادِي: «يَا بَنِي فِهْرٍ يَا بَنِي عَدِيٍّ» لِبُطُونِ قُرَيْشٍ حَتَّى اجْتَمَعُوا فَقَالَ: «أَرَأَيْتَكُمْ لَوْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا بِالْوَادِي تُرِيدُ أَنْ تُغِيرَ عَلَيْكُمْ أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟ » قَالُوا: نَعَمْ مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا. قَالَ: «فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٌ شَدِيدٌ» . فَقَالَ أَبُو لَهَبٍ: تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمَ أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا؟ فَنَزَلَتْ: (تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ) مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ نَادَى: «يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَمَثَلِ رَجُلٍ رَأَى الْعَدُوَّ فَانْطَلَقَ يَرْبَأُ أَهْلَهُ فَخَشِيَ أَنْ يسبقوه فَجعل يَهْتِف يَا صَبَاحَاه»

ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، جب یہ آیت :’’ اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈرائیں ۔‘‘ نازل ہوئی تو نبی ﷺ صفا پہاڑی پر چڑھ کر آواز دینے لگے : بنو فہر ! بنو عدی ! (جو کہ قریش کے قبیلے ہیں) حتیٰ کہ وہ اکٹھے ہو گئے ، تو فرمایا :’’ مجھے بتاؤ اگر میں تمہیں خبر دوں کہ وادی میں ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری تصدیق کرو گے ؟‘‘ انہوں نے کہا : جی ، ہم نے آپ کو سچا ہی پایا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں عذاب شدید سے پہلے تمہیں آگاہ کرنے والا ہوں ۔‘‘ ابولہب نے کہا : باقی ایام میں تیرے لیے ہلاکت ہو ، کیا تم نے اس لیے ہمیں جمع کیا تھا ، تب سورت (تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ وَّتَبَّ ) ’’ ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ و برباد ہو جائے ۔‘‘ نازل ہوئی ۔ ایک دوسری روایت میں ہے ، آپ نے آواز دی ’’ بنو عبد مناف ! میری اور تمہاری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے دشمن کو دیکھا تو وہ اپنے اہل و عیال کو بچانے چلا تو اسے اندیشہ ہوا کہ وہ (دشمن) اس پر سبقت لے جائیں گے تو وہ (دشمن کی اطلاع دینے کے لیے) زور زور سے کہتا ہے : یا صبا حاہ ۔‘‘ متفق علیہ ۔

Haidth Number: 5372

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ (وَأَنْذِرْ عشيرتك الْأَقْرَبين) دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُرَيْشًا فَاجْتَمَعُوا فَعَمَّ وَخَصَّ فَقَالَ: «يَا بَنِي كَعْبِ بْنِ لُؤَيٍّ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ يَا بَنِي مُرَّةَ بْنِ كَعْبٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ. يَا بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ من النَّار يَا بني عبد منَاف أَنْقِذُوا أَنفسكُم من النَّار. با بَنِي هَاشِمٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ. يَا بني عبد الْمطلب أَنْقِذُوا أَنفسكُم من النَّار. يَا فَاطِمَةُ أَنْقِذِي نَفْسَكِ مِنَ النَّارِ فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّ لَكُمْ رَحِمًا سَأَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَفَى الْمُتَّفَقِ عَلَيْهِ قَالَ: «يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا. وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا»

ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، جب یہ آیت :’’ اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈراؤ ۔‘‘ نازل ہوئی تو نبی ﷺ نے قریش کو آواز دی ، وہ سب جمع ہو گئے تو آپ ﷺ نے عام و خاص سبھی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : اے بنی کعب بن لؤی ! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے آزاد کرا لو ، اے بنو مرہ بن کعب ! اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ ، اے بنو عبد شمس ! اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ ، بنو عبد المطلب ! اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ ، فاطمہ ! اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ ۔ میں اللہ کے ہاں تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا ، البتہ جو حق قرابت ہے میں اسے احسان کے ساتھ نبھاؤں گا ۔‘‘ اور صحیح بخاری و صحیح مسلم کی روایت میں ہے : آپ ﷺ نے فرمایا :’’ قریش کی جماعت ! اپنی جانوں کو (ایمان کے ساتھ آگ سے) بچاؤ ، میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا ، بنو عبد مناف ! میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا ، عباس بن عبد المطلب ! میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا ، رسول اللہ کی پھوپھی صفیہ ! میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا ، فاطمہ بنت محمد ! میرے مال میں سے جو چاہو لے لو ، میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا ۔‘‘ رواہ مسلم و البخاری ۔

Haidth Number: 5373
ابوموسیٰ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میری یہ امت ، امت مرحومہ (جس پر رحم کیا گیا) ہے ، اس پر آخرت میں (شدید) عذاب نہیں ، دنیا میں اس کا عذاب فتنوں ، زلزلوں اور قتل کی صورت میں ہو گا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔

Haidth Number: 5374
ابو عبیدہ اور معاذ بن جبل ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس دین کا آغاز نبوت و رحمت سے ہوا ، پھر خلافت و رحمت ہو گی ، پھر ظالم بادشاہ ہوں گے ، پھر زمین میں جبر ، زیادتی اور فساد ہو گا ، وہ ریشم ، شرم گاہوں (زنا) اور شراب کو حلال سمجھیں گے ، انہیں اسی حالت پر رزق دیا جائے گا اور ان کی مدد کی جاتی رہے گی حتیٰ کہ وہ اللہ سے جا ملیں گے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔

Haidth Number: 5375
ابو عبیدہ اور معاذ بن جبل ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس دین کا آغاز نبوت و رحمت سے ہوا ، پھر خلافت و رحمت ہو گی ، پھر ظالم بادشاہ ہوں گے ، پھر زمین میں جبر ، زیادتی اور فساد ہو گا ، وہ ریشم ، شرم گاہوں (زنا) اور شراب کو حلال سمجھیں گے ، انہیں اسی حالت پر رزق دیا جائے گا اور ان کی مدد کی جاتی رہے گی حتیٰ کہ وہ اللہ سے جا ملیں گے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔

Haidth Number: 5376
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ بے شک سب سے پہلے الٹا دیا جائے گا ، زید بن یحیی راوی نے بیان کیا ، یعنی اسلام ، جیسے برتن الٹا دیا جاتا ہے ، یعنی شراب ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! اللہ نے اس کے متعلق تو وضاحت فرما دی ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا : وہ اس کا نام بدل لیں گے اور پھر اسے حلال جانیں گے ۔‘‘ حسن ، رواہ الدارمی ۔

Haidth Number: 5377

عَن النُّعْمَان بن بشير عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا اللَّهُ تَعَالَى ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ» ثُمَّ سَكَتَ قَالَ حَبِيبٌ: فَلَمَّا قَامَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ كَتَبْتُ إِلَيْهِ بِهَذَا الْحَدِيثِ أُذَكِّرُهُ إِيَّاهُ وَقُلْتُ: أَرْجُو أَنْ تَكُونَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بَعْدَ الْمُلْكِ الْعَاضِّ وَالْجَبْرِيَّةِ فَسُرَّ بِهِ وَأَعْجَبَهُ يَعْنِي عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ. رَوَاهُ أَحْمد وَالْبَيْهَقِيّ فِي «دَلَائِل النُّبُوَّة»

نعمان بن بشیر ، حذیفہ ؓ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تک اللہ چاہے گا تم میں نبوت (کے اثرات) باقی رکھے گا ، پھر اللہ تعالیٰ اسے اٹھا لے گا ، پھر جب تک اللہ چاہے گا ، خلافت نبوت کے انداز پر ہو گی ، پھر اللہ تعالیٰ اسے بھی اٹھا لے گا ، پھر جس قدر اللہ چاہے گا کاٹنے والے بادشاہ ہوں گے پھر اللہ تعالیٰ اسے بھی اٹھا لے گا ، پھر جبریہ بادشاہت ہو گی اور یہ بھی جب تک اللہ چاہے گا رہے گی ، پھر اللہ تعالیٰ اسے بھی اٹھا لے گا ، پھر خلافت نبوت کی طرز پر ہو گی ۔‘‘ پھر آپ ﷺ خاموش ہو گئے ۔ حبیب بیان کرتے ہیں ، جب عمر بن عبد العزیز ؒ نے خلافت سنبھالی تو میں نے ان کی یاد دہانی کے لیے انہیں یہ حدیث لکھی ، اور کہا : میں امید کرتا ہوں کہ ظالم بادشاہ اور جبریہ بادشاہت کے بعد آپ امیر المومنین ہیں ۔ وہ اس سے خوش ہوئے اور انہیں اچھا لگا ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ احمد و البیھقی فی دلائل النبوۃ ۔

Haidth Number: 5378
حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ ہمیں خطاب فرمانے کے لیے ایک جگہ کھڑے ہوئے تو آپ نے اس وقت سے لے کر قیام قیامت تک ہونے والے تمام واقعات بیان فرمائے ، یاد رکھنے والوں نے اسے یاد رکھا ، اور بھولنے والے نے اسے بھلا دیا ، اور میرے یہ ساتھی اس سے خوب آگاہ ہیں ، اور ان (مذکورہ چیزوں) میں سے جب وہ چیز رونما ہوتی ہے جسے میں بھول چکا تھا تو اسے دیکھ کر میری یاد تازہ ہو جاتی ہے ، جس طرح آدمی کسی غائب ہو جانے والے آدمی کے چہرے کو یاد کرتا ہے ، پھر جب وہ اسے دیکھتا ہے تو وہ اسے پہچان لیتا ہے ۔ متفق علیہ ۔

Haidth Number: 5379
حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ دلوں پر فتنے اس طرح مسلسل پیش کیے جائیں گے جس طرح چٹائی کے تنکے مسلسل ہوتے ہیں ، جس میں وہ پیوست کر دیا گیا ، اس پر ایک سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے ، اور جس دل نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا ، اس پر ایک سفید نکتہ لگا دیا جاتا ہے حتیٰ کہ دل دو قسم کے ہو جائیں گے ، ان میں سے ایک دل سفید پتھر کی طرح چمک دار ہو جائے گا جسے قیام قیامت تک کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکتا ، جبکہ دوسرا دل سیاہ راکھ کی مانند ہو گا جیسے الٹا برتن ہو ، وہ نہ تو نیکی کو پہچانتا ہے اور نہ برائی کو ، وہ صرف وہی جانتا ہے جو اس کی خواہشات سے اس میں پیوست کر دیا جائے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

Haidth Number: 5380

وَعَنْهُ قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَيْنِ رَأَيْتُ أَحَدَهُمَا وَأَنَا أَنْتَظِرُ الْآخَرَ: حَدَّثَنَا: «إِنَّ الْأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ ثُمَّ عَلِمُوا مِنَ الْقُرْآنِ ثُمَّ عَلِمُوا مِنَ السُّنَّةِ» . وَحَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِهَا قَالَ: يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ فَتُقْبَضُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ أَثَرُهَا مِثْلُ أَثَرِ الْوَكْتِ ثُمَّ يَنَامُ النَّوْمَةَ قتقبض فَيَبْقَى أَثَرُهَا مِثْلَ أَثَرِ الْمَجْلِ كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلَى رِجْلِكَ فَنَفِطَ فَتَرَاهُ مُنْتَبِرًا وَلَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ وَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ وَلَا يَكَادُ أَحَدٌ يُؤَدِّي الْأَمَانَةَ فَيُقَالُ: إِنَّ فِي بَنِي فُلَانٍ رَجُلًا أَمِينًا وَيُقَالُ لِلرَّجُلِ: مَا أَعْقَلَهُ وَمَا أَظْرَفَهُ وَمَا أَجْلَدُهُ وَمَا فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ

حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دو حدیثیں بیان کیں ، میں نے ان میں سے ایک تو دیکھ لی جبکہ دوسری کا انتظار ہے ، آپ ﷺ نے ہمیں حدیث بیان کی کہ امانت (ایمان داری) آدمیوں کے دلوں کی جڑ (فطرت) میں اتری ، پھر انہوں نے قرآن سے سیکھا ، پھر سنت سے ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے اس (ایمان) کے اٹھ جانے کے متعلق ہمیں حدیث بیان کی ، فرمایا :’’ آدمی غافل ہو گا تو ایمان اس کے دل سے اٹھا لیا جائے گا ، اس کا نشان نقطے کی طرح رہ جائے گا ، پھر وہ دوبارہ غافل ہو گا تو اس (ایمان) کو اٹھا لیا جائے گا تو آبلے کی طرح اس پر نشان رہ جائے گا جیسے تو نے اپنے پاؤں پر انگارہ لڑھکایا ہو ، وہ آبلہ بن جائے اور تو اسے پھولا ہوا دیکھے حالانکہ اس میں کوئی چیز نہیں ، اور لوگ صبح کریں گے اور کوئی ایک بھی امانت ادا نہیں کرے گا ، کہا جائے گا کہ فلاں قبیلے میں ایک امانت دار شخص ہے ، اور کسی اور آدمی کے متعلق کہا جائے گا کہ وہ کس قدر عقل مند ہے ، اس کا کتنا ظرف ہے اور وہ کس قدر برداشت والا ہے ، حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہو گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔

Haidth Number: 5381

وَعَنْهُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَن الْخَيْرِ وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: «نَعَمْ» قُلْتُ: وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟ قَالَ: «نَعَمْ وَفِيهِ دَخَنٌ» . قُلْتُ: وَمَا دَخَنُهُ؟ قَالَ: «قَوْمٌ يَسْتَنُّونَ بِغَيْرِ سُنَّتِي وَيَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ» . قُلْتُ: فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ: «نَعَمْ دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا» . قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا. قَالَ: «هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا» . قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟ قَالَ: «تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ» . قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ؟ قَالَ: «فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ: قَالَ: «يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهُدَايَ وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَتِي وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ» . قَالَ حُذَيْفَةُ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟ قَالَ: تَسْمَعُ وَتُطِيعُ الْأَمِيرَ وَإِنْ ضَرَبَ ظهرك وَأخذ مَالك فاسمع وأطع

حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے متعلق دریافت کیا کرتے تھے جبکہ میں آپ سے شر کے متعلق ، اس اندیشے کے پیش نظر پوچھا کرتا تھا کہ وہ کہیں مجھے اپنی گرفت میں نہ لے لے ، وہ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم جاہلیت اور شر میں مبتلا تھے ، اللہ نے ہمیں اس خیر سے نواز دیا ، تو کیا اس خیر کے بعد کوئی شر بھی آئے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں ۔‘‘ میں نے عرض کیا اس شر کے بعد کوئی خیر بھی آئے گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں ! لیکن اس میں کمزوری ہو گی ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اس کی کمزوری کیا ہو گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کچھ لوگ میری سنت اور میرے طریق کے خلاف چلیں گے ، ان کی بعض باتوں کو تم اچھا سمجھو گے اور بعض کو برا ۔‘‘ میں نے عرض کیا : کیا اس خیر کے بعد شر ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں ، ابواب جہنم پر دعوت دینے والے ہوں گے ، جس نے ان کی دعوت کو قبول کر لیا تو وہ اس کو اس میں پھینک دیں گے ۔‘‘ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ان کا تعارف کرا دیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ ہمارے ہی قبیلے سے ہوں گے اور وہ ہماری زبان میں کلام کریں گے ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اگر اس (زمانے) نے مجھے پا لیا تو آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امیر کے ساتھ لگ جانا ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اگر ان کی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا امام (تو پھر کیا کروں ؟) آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ان تمام فرقوں سے الگ ہو جانا خواہ تمہیں درخت کی جڑیں چبانی پڑیں حتیٰ کہ تمہیں اسی حالت میں موت آ جائے ۔‘‘ اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے ، فرمایا :’’ میرے بعد حکمران ہوں گے جو نہ تو میری ہدایت و طریق سے راہنمائی لیں گے اور نہ میری سنت کے مطابق عمل کریں گے اور ان میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے ، جن کے ڈھانچے انسانی اور دل شیطان ہوں گے ۔‘‘ حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اگر میں یہ صورت حال دیکھوں تو میں کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ، اگرچہ تجھے مارا جائے اور تمہارا مال لے لیا جائے ، تم سنو اور اطاعت کرو ۔‘‘ متفق علیہ ۔

Haidth Number: 5382
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ایسے فتنوں کے آنے سے پہلے ، نیک اعمال کرنے میں جلدی کر لو ، جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے ، آدمی صبح کے وقت مومن ہو گا تو شام کے وقت کافر جبکہ شام کے وقت مومن ہو گا تو صبح کے وقت کافر وہ دنیا کے مال و متاع کے عوض اپنا دین بیچ دے گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

Haidth Number: 5383
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ عنقریب ایسے فتنے پیدا ہوں گے کہ ان میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہو گا ، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہو گا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا ۔ جس نے ان کی طرف جھانک کر دیکھا تو وہ اسے بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے ، جو شخص کوئی پناہ گا یا بچاؤ کی جگہ پائے تو وہ وہاں پناہ حاصل کر لے ۔‘‘ اور مسلم کی روایت میں ہے ، فرمایا :’’ فتنے پیدا ہوں گے ، ان میں سونے والا جاگنے والے سے بہتر ہو گا جبکہ ان میں جاگنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہو گا اور کھڑا ہونے والا ان میں دوڑنے والے سے بہتر ہو گا ، جو شخص کوئی پناہ گاہ یا بچاؤ کی جگہ پائے تو وہ وہاں پناہ حاصل کر لے ۔‘‘ متفق علیہ ۔

Haidth Number: 5384

وَعَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتَنٌ أَلَا ثُمَّ تَكُونُ فِتنٌ أَلا ثمَّ تكونُ فتنةٌ القاعدُ خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي فِيهَا وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي إِلَيْهَا أَلَا فَإِذَا وَقَعَتْ فَمَنْ كَانَ لَهُ إِبل فَلْيَلْحَقْ بِإِبِلِهِ وَمَنْ كَانَ لَهُ غَنَمٌ فَلْيَلْحَقْ بغنمه وَمن كَانَت لَهُ أرضٌ فَلْيَلْحَقْ بِأَرْضِهِ» فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ مَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ إِبِلٌ وَلَا غَنَمٌ وَلَا أَرْضٌ؟ قَالَ: «يَعْمِدُ إِلَى سَيْفِهِ فَيَدُقُّ عَلَى حَدِّهِ بِحَجَرٍ ثُمَّ لِيَنْجُ إِنِ اسْتَطَاعَ النَّجَاءَ اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ؟» ثَلَاثًا فَقَالَ: رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ أُكْرِهْتُ حَتَّى ينْطَلق بِي إِلَى أحدالصفين فَضَرَبَنِي رَجُلٌ بِسَيْفِهِ أَوْ يَجِيءُ سَهْمٌ فَيَقْتُلُنِي؟ قَالَ: «يَبُوءُ بِإِثْمِهِ وَإِثْمِكَ وَيَكُونُ مِنْ أَصْحَابِ النَّار» رَوَاهُ مُسلم

ابوبکرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ عنقریب فتنے برپا ہوں گے ، سن لو ! پھر بڑے فتنے ہوں گے ، سن لو ! پھر ایسے عظیم فتنے ہوں گے کہ ان میں بیٹھنے والا ، چلنے والے سے بہتر ہو گا ، ان میں چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا ، سن لو ! جب یہ واقع ہو جائیں تو جس کے پاس اونٹ ہوں تو وہ اپنے اونٹوں کے ساتھ مشغول ہو جائے ، جس کی بکریاں ہوں وہ اپنی بکریوں کے ساتھ مشغول ہو جائے اور جس کی زمین ہو تو وہ اپنی زمین کے ساتھ مشغول ہو جائے ۔‘‘ ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! بتائیں کہ جس شخص کے پاس اونٹ ہوں نہ بکریاں اور نہ ہی زمین (تو وہ کیا کرے ؟) ، فرمایا :’’ وہ اپنی تلوار کا قصد کرے اور اسے پتھر پر مار کر کند کر دے (اس کی تیزی ختم کر دے)، پھر اگر استطاعت ہو (وہاں سے) بھاگ نکلے (کہ فتنے اسے اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں) تا کہ وہ بچ سکے ، اے اللہ ! کیا میں نے (پیغام الٰہی) پہنچا دیا ؟‘‘ آپ ﷺ نے تین بار فرمایا ، تو ایک آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے بتائیں اگر مجھے مجبور کر دیا جائے حتیٰ کہ مجھے دو صفوں (جماعتوں ، گروہوں) میں سے کسی ایک کے ساتھ لے جایا جائے تو کوئی اپنی تلوار سے مجھے مارے یا کوئی تیر آئے اور وہ مجھے قتل کر دے (تو قاتل و مقتول کے بارے میں کیا حکم ہے ؟) آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ (قاتل) اپنے اور تمہارے گناہ کا (بوجھ) لے کر واپس آئے گا اور وہ جہنمی ہو گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

Haidth Number: 5385
ابوسعید ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں ، وہ فتنوں سے اپنے دین کی حفاظت کے لیے ان بکریوں کو لے کر پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش برسنے کی جگہوں پر بھاگ جائے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔

Haidth Number: 5386
اسامہ بن زید ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ مدینے کے کسی بلند مکان پر چڑھے تو فرمایا :’’ کیا تم دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : نہیں ، فرمایا :’’ بے شک میں فتنے دیکھ رہا ہوں جو تمہارے گھروں میں بارش کے قطروں کی طرح داخل ہو رہے ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔

Haidth Number: 5387
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میری امت کی ہلاکت و تباہی قریش کے چند نوجوان لڑکوں کے ہاتھوں ہو گی ۔‘‘ رواہ البخاری ۔

Haidth Number: 5388
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ زمانہ (قیامت کے) قریب ہوتا جائے گا ، علم ختم کر دیا جائے گا ، فتنے ظاہر ہوں گے ، (دلوں میں) بخل ڈال دیا جائے گا اور ہرج زیادہ ہو جائے گا ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا ، ہرج کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ قتل ۔‘‘ متفق علیہ ۔

Haidth Number: 5389
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! دنیا ختم نہیں ہو گی حتیٰ کہ لوگوں پر ایک ایسا دن بھی آئے گا کہ قاتل کو معلوم نہیں ہو گا کہ اس نے کس وجہ سے قتل کیا اور مقتول کو معلوم نہیں ہو گا کہ اسے کس وجہ سے قتل کیا گیا ؟‘‘ عرض کیا گیا ، یہ کس وجہ سے ہو گا ؟ فرمایا :’’ فتنے کی وجہ سے ، قاتل اور مقتول (دونوں) جہنمی ہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

Haidth Number: 5390
معقل بن یسار ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ فتنے کے (زمانے) میں عبادت کرنا میری طرف ہجرت کرنے کی طرح ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

Haidth Number: 5391
زبیر بن عدی بیان کرتے ہیں ، ہم انس بن مالک ؓ کے پاس آئے تو ہم نے حجاج کی طرف سے ہم پر ہونے والے ظلم کے متعلق ان سے شکایت کی تو انہوں نے فرمایا : صبر کرو ، کیونکہ تم پر جو وقت بھی آ رہا ہے ، اس کے بعد آنے والا وقت اس سے بھی زیادہ برا ہو گا حتیٰ کہ تم اپنے رب سے جا ملو ۔‘‘ میں نے یہ بات تمہارے نبی ﷺ سے سنی ہے ۔ رواہ البخاری ۔

Haidth Number: 5392
حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھی بھول گئے یا انہوں نے نسیان کا اظہار کیا ، اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ نے انتہائے دنیا تک ہونے والے داعیان فتنہ ، جن کی تعداد تین سو سے زائد تک پہنچے گی ، کے متعلق بتایا ، آپ ﷺ نے اس کا نام ، اس کے والد کا نام اور اس کے قبیلے کے نام کے متعلق ہمیں بتایا ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔

Haidth Number: 5393
ثوبان ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھے اپنی امت کے متعلق گمراہ حکمرانوں کا اندیشہ ہے ، جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو وہ روز قیامت تک ان سے نہیں اٹھائی جائے گی ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد و الترمذی ۔

Haidth Number: 5394
سفینہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ خلافت تیس سال تک ہو گی ، پھر بادشاہت ہو گی ۔‘‘ پھر سفینہ بیان کرتے ہیں : ابوبکر ؓ کی خلافت دو سال شمار کر ، عمر ؓ کی دس سال ، عثمان ؓ کی بارہ سال اور علی ؓ کی خلافت چھ سال شمار کر ۔ اسنادہ حسن ، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد ۔

Haidth Number: 5395

وَعَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيَكُونُ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ كَمَا كَانَ قَبْلَهُ شَرٌّ؟ قَالَ: «نَعَمْ» قُلْتُ: فَمَا الْعِصْمَةُ؟ قَالَ: «السَّيْفُ» قُلْتُ: وَهَلْ بَعْدَ السَّيْفِ بَقِيَّةٌ؟ قَالَ: «نعمْ تكونُ إِمارةٌ على أَقْذَاءٍ وَهُدْنَةٌ عَلَى دَخَنٍ» . قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: «ثُمَّ يَنْشَأُ دُعَاةُ الضَّلَالِ فَإِنْ كَانَ لِلَّهِ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةٌ جَلَدَ ظَهْرَكَ وَأَخَذَ مَالَكَ فَأَطِعْهُ وَإِلَّا فَمُتْ وَأَنْتَ عَاضٌّ عَلَى جَذْلِ شَجَرَةٍ» . قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: «ثُمَّ يَخْرُجُ الدَّجَّالُ بَعْدَ ذَلِكَ مَعَهُ نَهْرٌ وَنَارٌ فَمَنْ وَقَعَ فِي نَارِهِ وَجَبَ أَجْرُهُ وَحُطَّ وِزْرُهُ وَمَنْ وَقَعَ فِي نَهْرِهِ وَجَبَ وِزْرُهُ وحظ أَجْرُهُ» . قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: «ثُمَّ يُنْتَجُ الْمُهْرُ فَلَا يُرْكَبُ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ» وَفِي رِوَايَة: «هُدْنَةٌ عَلَى دَخَنٍ وَجَمَاعَةٌ عَلَى أَقْذَاءٍ» . قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ الْهُدْنَةُ عَلَى الدَّخَنِ مَا هِيَ؟ قَالَ: «لَا ترجع قُلُوب أَقوام كَمَا كَانَتْ عَلَيْهِ» . قُلْتُ: بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: «فِتْنَةٌ عَمْيَاءُ صَمَّاءُ عَلَيْهَا دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ النَّارِ فَإِنْ مُتَّ يَا حُذَيْفَةُ وَأَنْتَ عَاضٌّ عَلَى جَذْلٍ خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تتبع أحدا مِنْهُم» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد

حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! کیا اس خیر (یعنی اسلام) کے بعد شر ہو گا جس طرح اس سے پہلے شر (یعنی کفر) تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں !‘‘ میں نے عرض کیا : بچاؤ کا کوئی راستہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تلوار ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، کیا تلوار کے بعد (اہل اسلام میں سے) کوئی باقی ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ امارت کے نتیجہ میں فساد ہو گا ، صلح نفاق پر ہو گی اور اتحاد مفاد پرستی پر ہو گا ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، پھر کیا ہو گا ؟ فرمایا :’’ داعیان گمراہی ظاہر ہوں گے ، اگر اللہ کے لیے زمین پر کوئی خلیفہ ہو وہ (از راہ ظلم) تیری پشت پر مارے اور تیرا مال لے لے تو تو اس کی اطاعت کر ، بصورت دیگر (اگر خلیفہ نہ ہو) تو اس طرح فوت ہو کہ تو درخت کی جڑ پکڑے ہوئے ہو ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، پھر کیا ہو گا ؟ فرمایا :’’ پھر اس کے بعد دجال کا ظہور ہو گا اس کے ساتھ نہر اور آگ ہو گی ، جو شخص اس کی آگ میں داخل ہو گیا تو اس کا اجر واجب ہو گیا اور اس کے گناہ مٹا دیے گئے ، اور جو شخص اس کی نہر میں داخل ہو گیا تو اس کا گناہ واجب ہو گیا اور اس کا اجر ختم کر دیا گیا ۔‘‘ حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، پھر کیا ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ پھر گھوڑے کا بچہ پیدا ہو گا اور وہ ابھی سواری کے قابل نہیں ہو گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی ۔‘‘ ایک روایت میں ہے ، فرمایا :’’ کدورت پر صلح ، اور مفاد پر اعتماد ہو گا ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کدورت پر صلح سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ لوگوں کے دل (محبت کی) اس حالت پر نہیں آئیں گے جس پر وہ پہلے تھے ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اس خیر کے بعد شر ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اندھا بہرا فتنہ ، اس (فتنے) پر داعیان ہوں گے (گویا) وہ ابواب جہنم پر (کھڑے) ہیں ، حذیفہ ! اگر تم درخت کی جڑ کو پکڑے ہوئے فوت ہوئے تو وہ تیرے لیے اس سے بہتر ہے کہ تو ان میں سے کسی (فتنے) کی اتباع کرے ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔

Haidth Number: 5396

وَعَن أبي ذَر قَالَ: كُنْتُ رَدِيفًا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا علىحمار فَلَمَّا جَاوَزْنَا بُيُوتَ الْمَدِينَةِ قَالَ: «كَيْفَ بِكَ يَا أَبَا ذَرٍّ إِذَا كَانَ بِالْمَدِينَةِ جُوعٌ تَقُومُ عَنْ فِرَاشِكَ وَلَا تَبْلُغُ مَسْجِدَكَ حَتَّى يُجْهِدَكَ الْجُوعُ؟» قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «تَعَفَّفْ يَا أَبَا ذَرٍّ» . قَالَ: «كَيْفَ بِكَ يَا أَبَا ذَرٍّ إِذَا كَانَ بِالْمَدِينَةِ مَوْتٌ يَبْلُغُ الْبَيْتَ الْعَبْدُ حَتَّى إِنَّهُ يُبَاعُ الْقَبْرُ بِالْعَبْدِ؟» . قَالَ: قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «تَصْبِرُ يَا أَبَا ذَرٍّ» . قَالَ: «كَيْفَ بِكَ يَا أَبَا ذَرٍّ إِذَا كَانَ بِالْمَدِينَةِ قَتْلٌ تَغْمُرُ الدِّمَاءُ أَحْجَارَ الزَّيْتِ؟» قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «تَأْتِي مَنْ أَنْتَ مِنْهُ» . قَالَ: قُلْتُ: وَأَلْبَسُ السِّلَاحَ؟ قَالَ: «شَارَكْتَ الْقَوْمَ إِذًا» . قُلْتُ: فَكَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «إِنْ خَشِيتَ أَنْ يَبْهَرَكَ شُعَاعُ السَّيْفِ فَأَلْقِ نَاحِيَةَ ثَوْبِكَ عَلَى وَجْهِكَ لِيَبُوءَ بإِثمك وإِثمه» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد

ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں ایک روز رسول اللہ ﷺ کے پیچھے گدھے پر سوار تھا ، جب ہم مدینہ کے گھروں سے آگے نکل گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ابوذر ! اس وقت تمہاری کیا کیفیت ہو گی جب مدینہ میں بھوک ہو گی ، تم اپنے بستر سے اٹھو گے اور اپنی نماز کی جگہ تک نہیں پہنچ سکو گے حتیٰ کہ بھوک تمہیں مشقت میں مبتلا کر دے گی ۔‘‘ وہ کہتے ہیں ، میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ابوذر ! سوال کرنے سے بچنا ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ابوذر ! تمہاری کیا کیفیت ہو گی جب مدینہ میں موت عام ہو گی حتیٰ کہ قبر کی جگہ غلام کی قیمت کو پہنچ جائے گی ؟‘‘ وہ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ابوذر ! تم صبر کرنا ۔‘‘ فرمایا :’’ ابوذر ! تمہاری کیا کیفیت ہو گی جب مدینہ میں قتل عام ہو گا خون احجارزیت (مدینہ میں ایک محلے یا جگہ کا نام ہے) تک پھیل جائے گا ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم ان کے پاس چلے جانا جن کے ساتھ تیرا (دینی یا خونی) تعلق ہے ۔‘‘ وہ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، میں مسلح ہو جاؤں گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تب تو آپ ان کے ساتھ شریک ہو جاؤ گے ۔‘‘ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تلوار کی تیزی تم پر غالب آ جائے گی تو پھر تم اپنے کپڑے کا کنارہ اپنے چہرے پر ڈال لینا تا کہ وہ (قاتل) تیرے اور اپنے گناہ کے ساتھ لوٹے ۔‘‘ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔

Haidth Number: 5397
عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ تمہاری اس وقت کیا حالت ہو گی جب تم نکمے لوگوں میں باقی رہ جاؤ گے ، ان کے وعدے اور ان کی امانتیں خراب ہو جائیں گی اور وہ اختلاف کا شکار ہو جائیں گے ، وہ اس طرح ہو جائیں گے ۔‘‘ آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالیں ، انہوں نے عرض کیا ، آپ مجھے کس چیز کا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم جس چیز کو جانتے ہو اسے لازم پکڑو اور جسے نہیں جانتے اسے چھوڑ دو ، اور تم اپنا خیال رکھو اور عام لوگوں (کے عمل) کو چھوڑ دو ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے :’’ اپنے گھر میں رہو ، اپنی زبان پر قابو رکھو ، جو چیز پہچانتے ہو اسے پکڑو ، جسے نہیں پہچانتے اسے چھوڑ دو ، تم اپنی فکر کرو اور عام لوگوں کے معاملے کو ترک کر دو ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔

Haidth Number: 5398

وَعَنْ أَبِي مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «إِنَّ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا وَيُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا الْقَاعِد خير من الْقَائِم والماشي خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي فَكَسِّرُوا فِيهَا قِسِيَّكُمْ وَقَطِّعُوا فِيهَا أَوْتَارَكُمْ وَاضْرِبُوا سُيُوفَكُمْ بِالْحِجَارَةِ فَإِنْ دُخِلَ عَلَى أَحَدٍ مِنْكُمْ فَلْيَكُنْ كَخَيْرِ ابْنَيْ آدَمَ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد. وَفِي رِوَايَة لَهُ (ضَعِيف) : «ذَكَرَ إِلَى قَوْلِهِ» خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي ثُمَّ قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: كُونُوا أَحْلَاسَ بُيُوتِكُمْ . وَفِي رِوَايَةِ التِّرْمِذِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي الْفِتْنَةِ: «كَسِّرُوا فِيهَا قِسِيَّكُمْ وَقَطِّعُوا فِيهَا أَوْتَارَكُمْ وَالْزَمُوا فِيهَا أَجْوَافَ بُيُوتِكُمْ وَكُونُوا كَابْنِ آدَمَ» . وَقَالَ: هَذَا حديثٌ صحيحٌ غريبٌ

ابوموسی ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ قیامت سے پہلے شب تاریک کے ٹکڑوں کی طرح (لگاتار) فتنے ہوں گے ، ان میں آدمی صبح کے وقت مومن ہو گا تو شام کے وقت کافر اور شام کے وقت مومن ہو گا تو صبح کے وقت کافر ، ان میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہو گا ، اور ان میں چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا ، تم ان میں اپنی کمانیں توڑ ڈالو اور (اپنی کمانوں کے) تانت کاٹ ڈالو اور اپنی تلواروں کو پتھر پر دے مارو ، اور اگر وہ (فتنہ) تم میں سے کسی پر داخل ہو گیا تو اسے چاہیے کہ وہ آدم ؑ کے دو بیٹوں میں سے بہتر بیٹے (ہابیل) کی طرح ہو جائے ۔‘‘ اور ابوداؤد کی انہی سے مروی حدیث میں :’’ بہتر ہے دوڑنے والے سے ‘‘ تک مروی ہے ، پھر انہوں نے عرض کیا ، آپ ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم اپنے گھروں میں جم جانا ۔‘‘ اور ترمذی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتنے کے دور کے متعلق فرمایا :’’ ان میں اپنی کمانوں کو توڑ دینا ، ان میں اپنے تانت کاٹ ڈالنا اور ان فتنوں کے وقت اپنے گھر کی چار دیواری کو لازم پکڑنا ، اور ابن آدم (ہابیل) کی طرح ہو جانا ۔‘‘ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث صحیح غریب ہے ۔ سنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد و الترمذی ۔

Haidth Number: 5399
ام مالک بہزیہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فتنے کا ذکر کیا تو آپ نے اسے قریب قرار دیا ، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس (فتنے) میں بہترین شخص کون ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ آدمی جو اپنے مویشیوں میں ہے وہ ان کا بھی حق (یعنی زکوۃ) ادا کرتا ہے اور اپنے رب کی عبادت بھی کرتا ہے ، اور وہ آدمی جو اپنے گھوڑے کا سر پکڑتا ہے اور وہ اپنے دشمن (کافروں) کو ڈراتا ہے اور وہ اسے ڈراتے ہیں ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔

Haidth Number: 5400