حذیفہ بن اسید غفاری ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم آپس میں بات چیت کر رہے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم کیا باتیں کر رہے ہو ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، ہم قیامت کا تذکرہ کر رہے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ تم اس سے پہلے دس نشانیاں دیکھ لو ، آپ ﷺ نے دھوئیں ، دجال ، جانور کے نکلنے ، سورج کے مغرب سے طلوع ہونے ، عیسیٰ بن مریم ؑ کے تشریف لانے ، یاجوج ماجوج کے نکلنے ، تین بار زمین کے دھنسنے : ایک بار مشرق میں ایک بار مغرب میں اور ایک بار جزیرہ عرب میں دھنسنے کا ذکر فرمایا اور ان (دس) میں سے آخری نشانی کا ذکر فرمایا کہ آگ یمن کی طرف سے نکلے گی وہ لوگوں کو ان کے حشر کے میدان کی طرف ہانک کر لے جائے گی ۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے :’’ عدن کے آخری کنارے سے آگ ظاہر ہو گی ، وہ لوگوں کو حشر کے میدان کی طرف ہانکے گی ۔‘‘ اور دوسری روایت میں دسویں نشانی کے متعلق ہے :’’ وہ ہوا ہو گی جو لوگوں کو سمندر میں پھینک دے گی ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو ، (علامات قیامت کے ظہور سے پہلے جو کہ) چھ ہیں ، دھواں ، دجال ، دابۃ الارض اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ، نیز وہ عام فتنہ (موت) جو عام لوگوں کو ہلاک کر دے گا اور خاص فتنہ جو تمہارے خاص کو فنا کر دے گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ علامات قیامت میں سے پہلی (سماوی) علامت سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے ، اور چاشت کے وقت دابہ (حیوان) کا لوگوں کے سامنے نکلنا ہے ، ان دونوں میں سے جو بھی اپنے ساتھ والے سے پہلے نکل آیا تو دوسرا اس کے پیچھے قریب ہی ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تین نشانیاں ، جب ان کا ظہور ہو جائے گا تو ’’ اس وقت کسی شخص کا ایمان لانا اس کے لیے نفع مند نہیں ہو گا بشرطیکہ وہ اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہو یا اس نے حالت ایمان میں نیک کام نہ کیے ہوں ۔‘‘ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ، دجال اور دابۃ الارض کا نکلنا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم جانتے ہو کہ سورج غروب ہونے کے بعد کہاں جاتا ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ جاتا ہے حتیٰ کہ عرش کے نیچے سجدہ ریز ہو کر (مشرق سے طلوع ہونے کی) اجازت طلب کرتا ہے ، اسے اجازت دے دی جاتی ہے ، اور قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے اور وہ اس سے قبول نہ کیا جائے ، وہ اجازت طلب کرے اور اسے اجازت نہ دی جائے ، اور اسے کہا جائے ، جہاں سے آئے ہو وہیں چلے جاؤ ، وہ مغرب سے طلوع ہو گا ، اور یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :’’ سورج اپنی قرار گاہ کی طرف چل رہا ہے ۔‘‘ فرمایا :’’ اس کی قرار گاہ عرش کے نیچے ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عمران بن حصین ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ آدم ؑ کی تخلیق اور قیام قیامت کے درمیان دجال سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک اللہ تم پر مخفی نہیں ، بلاشبہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ، جبکہ مسیح دجال کی دائیں آنکھ کانی ہو گی ، گویا اس کی آنکھ ایسی ہو گی کہ انگور کا اٹھا ہوا دانہ ہو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ہر نبی نے اپنی امت کو کانے کذاب (دجال) سے ڈرایا اور آگاہ فرمایا ، سن لو ! وہ کانا ہے ، جبکہ تمہارا رب کانا نہیں ، اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ک ۔ ف ۔ ر (کافر) لکھا ہوا ہو گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ سنو ! میں دجال کے متعلق تمہیں ایک بات بتاتا ہوں ، جو کسی نبی نے اپنی قوم کو بیان نہیں کی کہ وہ (دجال) کانا ہو گا ، وہ آئے گا تو اس کے ساتھ جنت کے مثل ہو گی اور آگ کے مثل ہو گی ، وہ جس کے متعلق یہ کہے گا کہ یہ جنت ہے تو وہ آگ ہو گی اور میں تمہیں اس (کے فتنے) سے اسی طرح ڈراتا ہوں ، جس طرح نوح ؑ نے اس کے متعلق اپنی قوم کو ڈرایا تھا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
حذیفہ ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک دجال کا ظہور ہو گا اور اس کے ساتھ پانی اور آگ ہو گی ، جسے لوگ پانی سمجھیں گے وہ آگ ہو گی وہ جلائے گی ، اور جسے لوگ آگ سمجھیں گے وہ ٹھنڈا شیریں پانی ہو گا ، تم میں سے جو ایسی صورت دیکھے تو وہ اس چیز میں واقع ہو جسے وہ آگ سمجھتا ہو ، کیونکہ وہ تو شیریں خوشگوار پانی ہے ۔‘‘ اور امام مسلم نے یہ الفاظ نقل کئے ہیں :’’ بے شک دجال کی ایک آنکھ نہیں ہو گی ، اس کی (آنکھ) پر موٹا ناخن ہو گا ، اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہو گا ، اور اسے ہر مومن پڑھ لے گا خواہ لکھنا پڑھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ دجال بائیں آنکھ سے کانا ہو گا ، اس کے (جسم پر) بال گھنے ہوں گے ، اس کے ساتھ اس کی جنت اور اس کی آگ ہو گی ، اس کی آگ جنت ہو گی اور اس کی جنت حقیقت میں آگ ہو گی ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
نواس بن سمعان ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے دجال کا ذکر کیا تو فرمایا :’’ اگر وہ میری موجودگی میں نکل آیا تو پھر میں تمہاری طرف سے اس سے جھگڑا کروں گا ، اور اگر وہ اس وقت نکلے جب کہ میں تم میں نہ ہوں تو پھر ہر شخص اپنی خاطر اس سے جھگڑا کرے گا ، اور اللہ ہر ایک مسلمان پر محافظ و معاون ہے ، بے شک وہ (دجال) جوان ہو گا ، اس کے بال گھونگریالے ہوں گے ، اس کی آنکھ اٹھی ہوئی ہو گی گویا میں اسے عبدالعزی بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں ، تم میں سے جو شخص اسے پا لے تو وہ اس پر سورۂ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے ، کیونکہ وہ تمہارے لیے اس کے فتنے سے امان ہیں ، وہ شام اور عراق کے درمیان ایک راہ پر نکلنے والا ہے ، وہ دائیں بائیں فساد مچائے گا ، اللہ کے بندو ! ثابت رہنا ۔‘‘ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! وہ زمین میں کتنی مدت ٹھہرے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ چالیس دن ، ایک دن سال کی طرح ، ایک (دوسرا) دن مہینے کی طرح ، اور ایک (تیسرا) دن جمعہ (سات دن) کی طرح ہو گا ، جبکہ اس کے باقی ایام تمہارے ایام کی طرح ہوں گے ۔‘‘ ہم نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کیا وہ دن جو سال کی طرح ہو گا تو کیا اس میں ایک دن کی نماز پڑھنا ہمارے لیے کافی ہو گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ نہیں ، بلکہ تم اس کے لیے اس کا اندازہ کر لینا ۔‘‘ ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس کی زمین پر رفتار کیا ہو گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بارش کی طرح جس کے پیچھے ہوا آتی ہے ، وہ لوگوں کے پاس آئے گا ، انہیں دعوت دے گا تو وہ اس پر ایمان لے آئیں گے ، وہ آسمان کو حکم دے گا تو وہ بارش برسائے گا اور زمین کو حکم دے گا تو وہ اناج اگائے گی ، ان کے چرنے والے جانور شام کو واپس آئیں گے تو ان کی کوہانیں پہلے سے زیادہ لمبی ، ان کے تھن دودھ سے بھرے ہوں گے اور ان کی کوکھیں باہر نکلی ہوں گی ، پھر وہ کچھ لوگوں کے پاس آئے گا ، وہ انہیں دعوت دے گا ، وہ اس کی بات قبول نہیں کریں گے ، وہ ان کے پاس سے چلا جائے گا تو وہ قحط سالی کا شکار ہو جائیں گے : ان کے ہاتھ اموال سے خالی ہو جائیں گے ، اور وہ ایک ویرانے سے گزرے گا تو اسے کہے گا ، اپنے خزانے نکالو ، تو اس (ویرانے) کے خزانے اس (دجال) کے پیچھے اس طرح چلیں گے جس طرح شہد کی مکھیاں اپنے سرداروں کے پیچھے چلتی ہیں ، پھر وہ بھرپور جوان آدمی کو بلائے گا ، اور تلوار مار کر اس کے دو ٹکڑے کر دے گا ، جس طرح ہدف پر نشانہ بازی کی جاتی ہے ، پھر وہ اس کو بلائے گا تو وہ اس کی طرف متوجہ ہو گا اور چمکتے چہرے کے ساتھ مسکراتا ہوا اپنی اسی پہلی حالت پر ہو جائے گا ۔ اچانک اللہ مسیح بن مریم کو مبعوث فرمائے گا تو وہ زعفران رنگ کے جوڑے میں دمشق کے مشرق میں منارہ بیضاء پر نزول فرمائیں گے ، وہ دو فرشتوں کے پروں پر ہاتھ رکھے ہوں گے ، جب وہ اپنا سر جھکائیں گے تو اس سے قطرے گریں گے ، اور جب وہ اسے اٹھائیں گے تو اس سے موتی کے دانے ٹپکیں گے ، اور جو کافر ان کے سانس کی ہوا پائے گا تو وہ ہلاک ہو جائے گا ، اور ان کا سانس حد نگاہ تک پہنچے گا ، وہ (عیسیٰ ؑ) اسے تلاش کریں گے حتیٰ کہ وہ اسے باب لد پر پائیں گے اور اسے قتل کر دیں گے ، پھر عیسیٰ ؑ کے پاس وہ لوگ آئیں گے جنہیں اللہ نے اس سے بچا لیا ہو گا ، چنانچہ وہ ان کے چہرے صاف کریں گے اور وہ ان کے جنت میں درجات کے متعلق انہیں بتائیں گے ، وہ اسی اثنا میں ہوں گے جب اللہ تعالیٰ عیسیٰ ؑ کی طرف وحی بھیجے گا کہ میں نے اپنے ایسے بندے ظاہر کیے ہیں ، ان سے قتال کی کسی میں طاقت نہیں ، آپ میرے بندوں کو طور کی طرف لے جائیں ۔ چنانچہ اللہ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا ، وہ ہر بلند جگہ سے دوڑے آئیں گے ان کے پہلے لوگ بحیرۂ طبریہ پر گزریں گے تو تو اس کا سارا پانی پی جائیں گے ، جب ان کا آخری آدمی وہاں سے گزرے گا تو وہ کہے گا : یہاں کسی وقت پانی ہوتا تھا ! پھر وہ چلتے جائیں گے حتیٰ کہ وہ جبل خمر یعنی جبل بیت المقدس تک پہنچیں گے تو وہ کہیں گے : ہم زمین والوں کو تو قتل کر چکے آؤ ! اب ہم آسمان والوں کو قتل کریں ، وہ آسمان کی طرف تیر چلائیں گے ، تو اللہ ان کے تیروں کو خون آلودہ حالت میں ان پر لوٹا دے گا ، اللہ کے نبی اور اس کے ساتھی روک لیے جائیں گے حتی کہ اس روز بیل کا سر ان کے ہاں سو دینار سے بہتر ہو گا ، اللہ کے نبی عیسیٰ ؑ اور ان کے ساتھی (اللہ کی طرف) رغبت کریں گے ۔ تو اللہ ان کی گردنوں میں کیڑا پیدا کر دے گا تو وہ ایک جان کی موت کی طرح سب ہلاک ہو جائیں گے ، پھر اللہ کے نبی عیسیٰ ؑ اور ان کے ساتھی (پہاڑ سے) نیچے اتریں گے ، وہ زمین پر بالشت برابر جگہ نہیں پائیں گے مگر وہ ان کی چربی اور بدبو سے بھرپور ہو گی ، پھر اللہ کے نبی ؑ اور ان کے ساتھی اللہ کے حضور دعا کریں گے تو وہ بختی اونٹ کی کوہانوں کی طرح پرندے ان پر بھیجے گا تو وہ انہیں اٹھا کر جہاں اللہ چاہے گا ، پھینک آئیں گے ۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے :’’ وہ انہیں نہبل کے مقام پر پھینک آئیں گے ، مسلمان ان کی کمانوں ، ان کے تیروں اور ان کے ترکشوں کو سات سال جلاتے رہیں گے ، پھر اللہ تعالیٰ بارش برسائیں گے کہ وہ ہر گھر پر برسے گی (خواہ وہ پتھر سے بنایا گیا ہو یا کوئی خیمہ ہو)، وہ (بارش) زمین کو دھو ڈالے گی ، حتیٰ کہ اسے شیشے کی طرح کر دے گی ، پھر زمین سے کہا جائے گا ، اپنے ثمرات اگاؤ ! اور اپنی برکات لوٹا دو ! ، اس دن پوری جماعت فقط ایک انار سے سیر ہو جائے گی اور اس کے چھلکے سے سایہ حاصل کریں گے ، اور دودھ میں برکت ڈال دی جائے گی ، حتی کہ اونٹنی کا دودھ لوگوں کی ایک جماعت کے لیے کافی ہو گا ، گائے کا دودھ لوگوں کے قبیلے کے لیے کافی ہو گا ، بکری کا دودھ چھوٹے قبیلے کے لیے کافی ہو گا ، وہ اسی حالت میں ہوں گے کہ اللہ پاکیزہ ہوا بھیجے گا وہ ان کی بغلوں کے نیچے لگے گی اور وہ ہر مومن اور ہر مسلمان کی روح قبض کر لے گی ، اور شریر لوگ باقی رہ جائیں گے ، وہ اس وقت گدھوں کی طرح علانیہ زنا کریں گے ، اور ایسے لوگوں پر قیامت قائم ہو گی ۔‘‘ مسلم ۔
البتہ دوسری روایت : وہ ان کا یہ کہنا :’’ وہ ان کو نہبل میں پھینک دے گی ۔‘‘ سے لے کر ’’ سات سال تک ۔‘‘ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے ۔ رواہ مسلم و الترمذی ۔
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ دجال نکلے گا تو مومنوں میں سے ایک آدمی اس کی طرف رخ کرے گا تو دجال کے محافظ و چوکیدار اسے ملیں گے تو وہ اسے کہیں گے ، کہاں کا ارادہ ہے ؟ وہ کہے گا : میں اس کی طرف جا رہا ہوں جس کا ظہور ہوا ہے ، وہ اسے کہیں گے : کیا تم ہمارے رب پر ایمان نہیں رکھتے ؟ وہ کہے گا : ہمارے رب کے براہین و دلائل مخفی نہیں ، وہ کہیں گے : اسے قتل کر دو ، پھر وہ ایک دوسرے سے کہیں گے : کیا تمہارے رب نے تمہیں منع نہیں کیا کہ تم نے اس کی غیر موجودگی میں کسی کو قتل نہیں کرنا ؟ لہذا وہ اسے دجال کے پاس لے چلیں گے ، چنانچہ جب وہ مومن شخص اسے دیکھے گا تو وہ کہے گا : لوگو ! یہ وہی دجال ہے جس کا رسول اللہ ﷺ نے ذکر کیا تھا ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ دجال اس کے متعلق حکم دے گا تو اس کا سر پھوڑ دیا جائے گا ، وہ کہے گا : اسے پکڑو اور اس کا سر پھوڑ دو (ایک دوسری روایت میں ہے : اسے چت لٹا دو)، اور اس کی پشت اور پیٹ پر بہت زیادہ مارا جائے گا ۔‘‘ فرمایا :’’ وہ کہے گا : کیا تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے ؟‘‘ فرمایا :’’ وہ شخص کہے گا : تو مسیح کذاب ہے ۔‘‘ فرمایا :’’ اس شخص کے متعلق حکم دیا جائے گا تو اس کے سر پر آری چلا دی جائے گی حتی کہ اس کے دو ٹکڑے کر دیے جائیں گے ۔‘‘ فرمایا :’’ پھر دجال ان دو ٹکڑوں کے مابین چلے گا ، پھر اسے کہے گا : کھڑے ہو جاؤ تو وہ صحیح سلامت کھڑا ہو جائے گا ، وہ پھر اس سے پوچھے گا : کیا تم مجھ پر ایمان لاتے ہو ؟ وہ جواب دے گا : تمہارے متعلق میری بصیرت میں اضافہ ہی ہوا ہے ۔‘‘ فرمایا :’’ پھر وہ (آدمی) کہے گا : لوگو ! وہ میرے بعد کسی شخص کے ساتھ ایسے نہیں کرے گا ۔‘‘ فرمایا :’’ دجال اسے ذبح کرنے کے لیے پکڑے گا ، تو اس کی گردن اور ہنسلی کے درمیان تانبا بنا دیا جائے گا ، لہذا وہ اسے قتل نہیں کر سکے گا ۔‘‘ فرمایا :’’ وہ اسے دونوں ہاتھوں اور اس کی دونوں ٹانگوں سے پکڑ کر اسے پھینک دے گا ، لوگ سمجھیں گے کہ اس نے اسے آگ کی طرف پھینکا ہے ، حالانکہ اسے تو جنت میں ڈال دیا گیا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ رب العالمین کے نزدیک یہ شخص شہادت کے سب سے عظیم مرتبے پر فائز ہو گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ام شریک ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ لوگ دجال سے بھاگ کر پہاڑوں پر جا پہنچیں گے ۔‘‘ ام شریک ؓ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس وقت عرب کہاں ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ (اس وقت) قلیل ہوں گے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ دجال آئے گا اور اس کے لیے مدینہ کی گھاٹیوں میں داخل ہونا حرام ہے ، چنانچہ وہ مدینہ کے قریب شور والی زمین پر پڑاؤ ڈالے گا ، پھر ایک آدمی اس کے پاس جائے گا جو کہ (اس وقت) سب سے بہترین شخص ہو گا ، وہ کہے گا : میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بیان فرمایا تھا ۔ دجال کہے گا : مجھے بتاؤ اگر میں اس کو قتل کر دوں ، پھر اسے زندہ کر دوں تو کیا تم میرے معاملے میں شک کرو گے ؟ وہ کہیں گے نہیں ، وہ اس کو قتل کرے گا ، پھر اسے زندہ کر دے گا تو وہ کہے گا : اللہ کی قسم ! تیرے متعلق مجھے آج پہلے سے زیادہ بصیرت حاصل ہو گئی ہے ، پھر دجال اسے قتل کرنا چاہے گا ، لیکن وہ اس (کے قتل کرنے) پر قادر نہیں ہو سکے گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ ، رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ دجال مدینے کے ارادے سے مشرق کی طرف سے آئے گا حتی کہ وہ احد پہاڑ کے پیچھے قیام کرے گا ، پھر فرشتے اس کا چہرہ شام کی طرف پھیر دیں گے ، اور وہ وہیں ہلاک ہو گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوبکرہ ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مدینہ (اس کے لوگوں کے دلوں) میں دجال کا رعب داخل نہیں ہو گا ، اس دن اس (مدینے) کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر دو فرشتے مقرر ہوں گے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
فاطمہ بنت قیس ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کے منادی کو یہ اعلان کرتے ہوئے سنا : نماز جمع کرنے والی ہے ، میں مسجد کی طرف گئی اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ، جب آپ نماز پڑھ چکے تو منبر پر بیٹھ گئے اور آپ ﷺ ہنس رہے تھے ، فرمایا :’’ تمام لوگ اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے رہیں ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہیں کس لیے جمع کیا ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ کی قسم ! میں نے تمہیں کسی رغبت (مال غنیمت وغیرہ دینے) کے لیے جمع نہیں کیا ہے نہ کسی خوف کی وجہ سے ، بلکہ میں نے تمہیں اس لیے جمع کیا ہے کہ تمیم داری نصرانی شخص تھا ، وہ آیا اس نے بیعت کی اور مسلمان ہو گیا اس نے مجھے وہ بات بیان کی اور وہ اسی بات کے موافق تھی جو میں تمہیں مسیح دجال کے متعلق بیان کرتا ہوں ، اس نے مجھے بتایا کہ وہ لخم و جذام قبیلے کے تیس افراد کے ساتھ کشتی میں سوار ہوا ، موجیں ایک ماہ تک انہیں سمندر میں لیے پھریں (باہر کنارے پر پہنچنے کا موقع نہ ملا) وہ غروب آفتاب کے وقت ایک جزیرے کے قریب پہنچ گئے ، وہ چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر جزیرہ میں داخل ہوئے تو کثیر بالوں والا ایک حیوان انہیں ملا ، بالوں کی کثرت کی وجہ سے وہ نہیں جانتے تھے کہ اس کا اگلا حصہ کون سا ہے اور پچھلا حصہ کون سا ہے ؟ انہوں نے کہا تیری تباہی ہو ، تو کیا چیز ہے ؟ اس نے عرض کیا : میں (دجال کا) جاسوس ہوں ، ہم نے کہا جاسوس سے کیا مراد ہے ؟ اس نے کہا ، تم گرجا میں اس آدمی کی طرف چلو ، کیونکہ وہ تمہیں ملنے کا مشتاق ہے ، انہوں نے (تمیم داری) نے فرمایا : جب اس نے اس آدمی کے متعلق ہمیں بتایا تو ہم اس (حیوان) سے ڈر گئے کہ یہ کہیں شیطان نہ ہو ، ہم جلدی جلدی چلے حتی کہ ہم گرجے میں داخل ہو گئے ، تو وہاں ایک عظیم جثے والا انسان تھا ، ہم نے تخلیق و مضبوطی کے لحاظ سے اس جیسا انسان پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ، وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا ، اس کے ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ بندھے ہوئے تھے ، اور اس کے گھٹنوں اور ٹخنوں کے مابین لوہے کی زنجیریں تھیں ، ہم نے کہا : تیری تباہی ہو ، تو کون ہے ؟ اس نے کہا : تم میری خبر (معلوم کرنے) پر تو قدرت پا چکے ہو ، مجھے بتاؤ کہ تم کون ہو ؟ انہوں نے کہا : ہم عرب لوگ ہیں ، ہم ایک کشتی میں سوار ہوئے تو سمندر کی موجیں ایک ماہ تک ہمیں ادھر ادھر پھیراتی رہیں ، ہم جزیرے میں داخل ہوئے تو کثیر بالوں والا ایک جانور ہمیں ملا تو اس نے کہا : میں جاسوس ہوں ، تم گرجے میں موجود اس شخص کے پاس جاؤ ، لہذا ہم جلدی جلدی تیرے پاس پہنچ گئے ہیں ، لیکن اس جاسوس سے ہم خوفزدہ ہوئے کہ کہیں وہ شیطان نہ ہو ، اس نے کہا : تم مجھے بیسان کے نخلستان کے بارے میں بتاؤ ، کیا وہ پھل دیتا ہے ؟ ہم نے کہا ، ہاں ، اس نے کہا ، سنو ! قریب ہے کہ وہ پھل نہیں دے گا ، اس نے کہا : بحیرہ طبریہ کے متعلق مجھے بتاؤ ؟ کیا اس میں پانی ہے ؟ ہم نے کہا : اس میں بہت زیادہ پانی ہے ، اس نے کہا : قریب ہے کہ اس کا پانی ختم ہو جائے گا ، اس نے کہا : مجھے چشمہ زغر کے متعلق بتاؤ کیا چشمے میں پانی ہے ، اور کیا وہاں رہنے والے چشمے کے پانی سے زراعت کرتے ہیں ؟ ہم نے کہا : ہاں اس میں پانی بھی بہت ہے ، اور وہاں کے رہنے والے اس پانی سے زراعت بھی کرتے ہیں ، اس نے کہا : مجھے ان پڑھوں (عربوں) کے نبی کے متعلق بتاؤ اس نے کیا کیا ؟ ہم نے اسے بتایا کہ وہ مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لے آئے ہیں ؟ اس نے کہا : کیا عربوں نے اس سے لڑائی کی ہے ؟ ہم نے کہا : ہاں ، اس نے کہا : ان کے ساتھ کیا کیا ؟ ہم نے اسے بتایا کہ وہ اپنے قریب کے عربوں پر غالب آ چکے ہیں ، اور انہوں (عربوں) نے آپ (ﷺ) کی اطاعت اختیار کر لی ہے ۔ اس نے کہا : سنو ! اگر وہ ان کی اطاعت کریں تو ان کے حق میں یہی بہتر ہے اور میں اب تمہیں اپنے متعلق بتاتا ہوں کہ میں مسیح دجال ہوں ، بے شک قریب ہے کہ مجھے نکلنے کی اجازت دی جائے تو میں نکل آؤں گا ، میں زمین پر چلوں گا ، اور میں چالیس روز میں زمین پر مکہ اور طیبہ (مدینہ) کے علاوہ ہر بستی میں اتروں گا ، وہ دونوں مجھ پر حرام ہیں ۔ میں جب بھی ان دونوں میں سے کسی ایک میں داخل ہونے کا ارادہ کروں گا تو ایک فرشتہ ہاتھ میں تلوار سونتے ہوئے میرے سامنے آ جائے گا ، اور وہ اس میں داخل ہونے سے مجھے روکے گا ، اور اس کے ہر راستے اور دروازے پر فرشتے ہیں جو اس کی حفاظت کرتے ہیں ۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور آپ نے منبر پر چھڑی ماری : یہ (یعنی مدینہ) طیبہ ہے ، یہ طیبہ ہے ، یہ طیبہ ہے ۔ سنو ! کیا میں نے تمہیں حدیث سنا دی تھی ؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا : جی ہاں (فرمایا) ’’ سنو ! وہ شام کے سمندر میں ہے یا وہ یمن کے سمندر میں ہے ، نہیں بلکہ وہ مشرق کی طرف سے نکلے گا ۔‘‘ اور آپ ﷺ نے جو اشارہ فرمایا تھا وہ مشرق کی طرف تھا ۔ رواہ مسلم ۔
عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ آج کی رات میں نے اپنے آپ کو (خواب میں) کعبہ کے پاس دیکھا ، میں نے وہاں گندمی رنگ کے ایک آدمی کو دیکھا کہ میں نے گندمی رنگ میں اس سے زیادہ خوبصورت شخص کوئی نہیں دیکھا ، اس کے سر کے بال کانوں کی لو تک تھے ، میں نے کانوں کی لو تک اس سے زیادہ خوبصورت بال نہیں دیکھے ، اس شخص نے ان میں کنگھی بھی کی ہوئی تھی ، اور سر سے پانی کے قطرے گر رہے تھے ، وہ دو آدمیوں کے کندھوں کا سہارا لیے بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا ، میں نے پوچھا ، یہ کون ہے ؟ انہوں نے بتایا : یہ مسیح بن مریم ؑ ہیں ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ پھر میں نے بہت ہی گھونگریالے بالوں والے شخص کو دیکھا ، اس کی دائیں آنکھ کانی تھی ، گویا اس کی آنکھ ابھرے ہوئے انگور کی طرح ہے ، اور وہ ابن قطن کے ساتھ رہنے والے لوگوں کے جنہیں میں نے دیکھا تھا زیادہ مشابہ ہے ، وہ بھی دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا ، میں نے دریافت کیا : یہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا یہ مسیح دجال ہے ۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے ، آپ ﷺ نے دجال کے متعلق فرمایا :’’ وہ سرخ رنگ کا آدمی ہے ، اس کے بال گھونگریالے ہیں ، دائیں آنکھ سے کانا ہے ، اور وہ سب سے زیادہ ابن قطن سے مشابہت رکھتا ہے ۔‘‘ اور ابوہریرہ ؓ سے مروی حدیث :’’ قیامت قائم نہیں ہو گی حتی کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے ۔‘‘ باب الملاحم میں بیان ہو چکی ہے اور ہم عنقریب ابن عمر ؓ سے مروی حدیث :’’ رسول اللہ ﷺ لوگوں کو خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ۔‘‘ ان شاء اللہ تعالیٰ باب قصۃ ابن الصیاد میں ذکر کریں گے ۔ متفق علیہ ۔
فاطمہ بنت قیس ؓ نے ، تمیم داری ؓ سے مروی حدیث کے متعلق بیان کیا کہ انہوں (تمیم داری ؓ) نے فرمایا :’’ میں اچانک ایک ایسی عورت کے پاس سے گزرا جو اپنے بال کھینچ رہی تھی ، انہوں نے پوچھا : تو کون ہے ؟ اس نے کہا : میں جاسوس ہوں ، اس محل کی طرف جاؤ ، میں وہاں گیا تو وہاں ایک آدمی اپنے بال کھینچ رہا ہے ، وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اس کے ساتھ طوق بھی ہیں ، اور وہ زمین و آسمان کے درمیان کود رہا ہے ، میں نے کہا : تو کون ہے ؟ اس نے کہا : میں دجال ہوں ۔‘‘ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
عبادہ بن صامت ؓ ، رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں نے تمہیں دجال کے متعلق حدیث بیان کی حتی کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ تم نہیں سمجھ سکے ہو ، بے شک مسیح دجال چھوٹے قد کا ہے ، اس کے دونوں پاؤں میں اس کے معمول سے زیادہ کشادگی ہو گی ، بال گھونگریالے ، کانا ہو گا ، آنکھ غائب ہو گی ، اس کی (دوسری) آنکھ بلند ہو گی نہ دھنسی ہو گی ، اگر پھر بھی تمہیں مغالطہ ہو جائے تو جان لو کہ تمہارا رب کانا نہیں ۔‘‘ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
ابو عبیدہ بن جراح ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ نوح ؑ کے بعد ہر نبی ؑ نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا ہے ، اور میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں ۔‘‘ اور آپ ﷺ نے ہمیں اس کا تعارف کرایا ، فرمایا :’’ عنقریب کوئی جس نے مجھے دیکھا ہے یا میرا کلام سنا ہے ، اسے پا لے گا ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! اس وقت ہمارے دل کیسے ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جیسے آج ہیں یا (اس سے) بہتر ۔‘‘ حسن ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔
عمرو بن حریث نے ابوبکر صدیق ؓ سے روایت کی ہے ، انہوں نے کہا ، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا :’’ دجال مشرقی سرزمین سے نکلے گا ، جسے خراسان کہا جاتا ہے ، جو لوگ اس کی اتباع کریں گے ان کے چہرے تہ بہ تہ ڈھال جیسے ہوں گے ۔‘‘ حسن ، رواہ الترمذی ۔
عمران بن حصین ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص دجال کے متعلق سنے تو وہ اس سے دور رہے ، اللہ کی قسم ! آدمی اس کے پاس آئے گا جو خود کو مومن سمجھتا ہو گا ، لیکن جن شبہات کے ساتھ دجال بھیجا جائے گا وہ ان کی وجہ سے اس کی اتباع کرے گا ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
اسماؑ بنت یزید بن سکن ؓ بیان کرتی ہیں ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ دجال زمین پر چالیس سال رہے گا ، سال مہینے کی طرح ، مہینہ جمعے (ہفتے یعنی سات دن) کی طرح ، جمعہ (یعنی ہفتہ) دن کی طرح اور دن آگ میں تنکے کے جل جانے کی مانند ہو گا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ فی شرح السنہ ۔
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میری امت کے ستر ہزار افراد دجال کی اتباع کریں گے ، ان کے سروں پر سبز سیاہ رنگ کے کپڑے ہوں گے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ فی شرح السنہ ۔
اسماء بنت یزید ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ میرے گھر میں تھے ، آپ نے دجال کا ذکر کیا تو فرمایا :’’ اس سے پہلے تین قسم کے قحط ہوں گے ، ایک قحط یہ ہو گا کہ اس میں آسمان تہائی بارش روک لے گا ، زمین اپنی تہائی نباتات روک لے گی ، دوسرے میں یہ ہو گا کہ آسمان اپنی دو تہائی بارش روک لے گا ، زمین اپنی دو تہائی نباتات روک لے گی ، اور تیسرے میں آسمان اپنی ساری بارش روک لے گا ، اور زمین اپنی تمام نباتات روک لے گی چوپاؤں میں سے کوئی کھر والا باقی بچے گا نہ کوئی کچلی والا ، سب ہلاک ہو جائیں گے ، اس کا سب سے شدید فتنہ یہ ہو گا کہ وہ اعرابی کے پاس آئے گا تو کہے گا ، مجھے بتاؤ اگر میں تمہارے اونٹ کو زندہ کر دوں تو کیا تجھے یقین نہیں آئے گا کہ میں تمہارا رب ہوں ؟ وہ کہے گا : کیوں نہیں ، شیطان اس کے لیے اس کے اونٹ کی صورت اختیار کر لے گا ، تو اس کے تھن بہترین ہو جائیں گے اور اس کی کوہان بہت بڑی ہو جائے گی ۔‘‘ فرمایا :’’ وہ (دجال) دوسرے آدمی کے پاس آئے گا جس کا بھائی اور والد وفات پا چکے ہوں گے ، تو وہ (اسے) کہے گا ، مجھے بتاؤ اگر میں تمہارے لیے تمہارے والد اور تمہارے بھائی کو زندہ کر دوں تو کیا تجھے یقین نہیں ہو گا کہ میں تمہارا رب ہوں ؟ وہ کہے گا ، کیوں نہیں ، شیطان اس کے لیے اس کے والد اور اس کے بھائی کی صورت اختیار کر لے گا ۔‘‘ اسماء ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ اپنی کسی ضرورت کی خاطر تشریف لے گئے ، پھر واپس آ گئے ، اور لوگ آپ کے بیان کردہ فرمان میں فکر و غم کی کیفیت میں تھے ، بیان کرتی ہیں ، آپ ﷺ نے دروازے کی دہلیز پکڑ کر فرمایا :’’ اسماء کیا حال ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! آپ نے دجال کے ذکر سے ہمارے دل نکال کر رکھ دیے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر وہ میری زندگی میں نکل آیا تو میں اس کا مقابلہ کروں گا ، ورنہ میرا رب ہر مومن پر میرا خلیفہ ہے ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم اپنا آٹا گوندھتی ہیں اور روٹی پکا کر ابھی فارغ بھی نہیں ہوتیں کہ پھر بھوک لگ جاتی ہے ، تو اس روز مومنوں کی کیا حالت ہو گی ؟ فرمایا :’’ تسبیح و تقدیس جو آسمان والوں کے لیے کافی ہوتی ہے وہی ان کے لیے کافی ہو گی ۔‘‘ حسن ، رواہ احمد ۔
مغیرہ بن شعبہ ؓ بیان کرتے ہیں ، دجال کے متعلق ، رسول اللہ ﷺ سے ، مجھ سے زیادہ کسی نے دریافت نہیں کیا ، کیونکہ آپ ﷺ نے مجھے فرمایا :’’ وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گا ۔‘‘ میں نے عرض کیا : وہ (لوگ یا یہود و نصاریٰ) کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ روٹیوں کا پہاڑ اور پانی کی نہر ہو گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ (دجال) اللہ کے نزدیک ان اشیاء کی وجہ سے مزید ذلیل ہو گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ دجال ایک نہایت سفید گدھے پر سوار ہو کر نکلے گا ، اس کے دونوں کانوں کے مابین ستر باع (ایک باع دو ہاتھوں کی لمبائی کے برابر ہوتا ہے) فاصلہ ہو گا ۔‘‘ لم اجدہ ، رواہ البیھقی فی البعث و النشور ۔