عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میرے ہاتھ میں ریشم کا ایک ٹکڑا ہے ، میں جنت میں جس جگہ جانے کا قصد کرتا ہوں تو وہ مجھے اڑا کر وہاں لے جاتا ہے ، میں نے حفصہ ؓ سے اس کا ذکر کیا تو حفصہ ؓ نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تمہارا بھائی نیک آدمی ہے ۔‘‘ یا فرمایا :’’ عبداللہ نیک آدمی ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، چال ڈھال اور سیرت و ہدایات میں رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ ابن ام عبد (عبداللہ بن مسعود ؓ) ہیں ، اور ان کے گھر سے نکلنے سے لے کر واپس گھر جانے تک یہی صورت رہتی ہے ، جب وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ خلوت میں ہوتے ہیں تو معلوم نہیں وہ کیا کرتے ہیں ۔ رواہ البخاری ۔
ابوموسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں ، میں اور میرا بھائی یمن سے واپس آئے تو کچھ مدت تک ہم یہی سمجھتے رہے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نبی ﷺ کے اہل بیت کے ایک فرد ہیں ۔ وہ اس لیے کہ ان کا اور ان کی والدہ کا بکثرت نبی ﷺ کے پاس آنا جانا ہم دیکھا کرتے تھے ۔ متفق علیہ ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ چار حضرات ، عبداللہ بن مسعود ، ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم ، ابی بن کعب اور معاذ بن جبل سے قرآن کی تعلیم حاصل کرو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
علقمہ ؒ بیان کرتے ہیں ، میں شام پہنچا تو میں نے دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کی : اے اللہ ! مجھے کسی صالح ساتھی کی ہم نشینی نصیب فرما ، میں لوگوں کے پاس آیا اور ان کے پاس بیٹھ گیا ، چنانچہ ایک بزرگ آئے اور وہ میرے پہلو میں بیٹھ گئے ، میں نے کہا : یہ کون صاحب ہیں ؟ انہوں نے بتایا : ابودرداء ہیں ، میں نے کہا : میں نے اللہ سے دعا کی تھی کہ وہ مجھے کسی صالح شخص کی ہم نشینی نصیب فرمائے تو اس نے مجھے آپ کی ہم نشینی عطا فرمائی ۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا : آپ کون ہیں ؟ میں نے کہا : کوفی ہوں ، انہوں نے کہا : کیا تمہارے ہاں ابن ام عبد (عبداللہ بن مسعود ؓ) صاحب النعلین صاحب و سادہ و مطہرہ (نبی ﷺ کے نعلین اٹھانے والے ، آپ کا بستر درست کرنے والے اور آپ کے وضو کے لیے پانی کا اہتمام کرنے والے) نہیں ہیں ؟ اور تم میں وہ بھی ہیں جنہیں اللہ نے اپنے نبی کی دعا کے ذریعے شیطان سے پناہ دے دی ہے یعنی عمار بن یاسر ، کیا تم میں راز دان نہیں ہیں ؟ ان رازوں کو ان کے سوا کوئی نہیں جانتا یعنی حذیفہ ؓ ۔ رواہ البخاری ۔
جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھے جنت دکھائی گئی ، میں نے ابوطلحہ ؓ کی اہلیہ دیکھیں ، اور اپنے آگے بلال کے جوتوں کی آواز سنی ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
سعد ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم چھ افراد نبی ﷺ کے ساتھ تھے ، مشرکین نے نبی ﷺ سے کہا کہ ان لوگوں کو یہاں سے دور کر دو اور یہ ہماری موجودگی میں آنے کی جرأت نہ کریں ، راوی بیان کرتے ہیں (ان میں) میں ، ابن مسعود ، ہذیل قبیلے کا ایک آدمی ، بلال اور دو آدمی اور تھے جن کا میں نام نہیں لیتا ، اللہ نے جو چاہا رسول اللہ ﷺ کے دل میں خیال آیا اور آپ نے اپنے دل میں کوئی بات سوچی تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی :’’ آپ ان لوگوں کو دور نہ کریں جو صبح و شام اپنے رب کو ، اس کی رضا مندی کے حصول کے لیے پکارتے رہتے ہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے عہد میں چار افراد نے قرآن کو جمع کر لیا تھا : ابی بن کعب ، معاذ بن جبل ، زید بن ثابت اور ابوزید ؓ ، انس ؓ سے پوچھا گیا : ابوزید کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : میرے ایک چچا ہیں ۔ متفق علیہ ۔
خباب بن ارت ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہجرت کی ، ہم اللہ کی رضا مندی چاہتے تھے ، چنانچہ ہمارا اجر اللہ کے ہاں ثابت ہو گیا ، ہم میں سے کچھ (جلد) وفات پا گئے اور انہوں نے اپنے (دنیوی) اجر (مال غنیمت وغیرہ) سے کچھ نہ پایا ، مصعب بن عمیر ؓ بھی انہی میں سے ہیں ، وہ غزوۂ احد میں شہید ہو گئے تھے ، انہیں کفن دینے کے لیے صرف ایک دھاری دار چادر میسر آئی ، جب ہم ان کا سر ڈھانپتے تو ان کے دونوں پاؤں ننگے ہو جاتے اور جب ہم ان کے دونوں پاؤں ڈھانپتے تو ان کا سر ننگا ہو جاتا ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اس سے ان کا سر ڈھانپ دو اور ان کے پاؤں پر گھاس ڈال دو ۔‘‘ اور ہم میں سے وہ بھی ہیں کہ ان کے لیے پھل پک چکے ہیں اور وہ انہیں چن رہے ہیں ۔ (قتوحات کے بعد دنیوی فوائد بھی حاصل کر رہے ہیں) متفق علیہ ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ سعد بن معاذ ؓ کی وفات پر عرش ہل گیا تھا ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے :’’ سعد بن معاذ ؓ کی موت پر رحمن کا عرش ہل گیا تھا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
براء ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ریشمی جوڑا بطور ہدیہ پیش کیا گیا تو صحابہ اسے چھونے لگے اور اس کی ملائمیت پر تعجب کرنے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم اس کی ملائمیت پر تعجب کرتے ہو ۔ سعد بن معاذ کے جنت میں رومال اس سے زیادہ بہتر ہیں اور زیادہ ملائم ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ام سلیم ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! انس ؓ آپ کا خادم ہے ، اس کے لیے اللہ سے دعا فرمائیں : آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اے اللہ ! اس کے مال و اولاد میں اضافہ فرما ، اور تو نے جو اسے عطا فرمایا ہے اس میں برکت فرما ۔‘‘ انس ؓ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میرا مال بہت زیادہ ہے ، اور آج میرے بیٹے اور میرے پوتے سو سے زیادہ ہیں ۔ متفق علیہ ۔
سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عبداللہ بن سلام ؓ کے علاوہ روئے زمین پر چلنے والے کسی اور شخص کے بارے میں نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ ’’ وہ اہل جنت میں سے ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
قیس بن عباد ؓ بیان کرتے ہیں ، میں مدینہ کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا اس کے چہرے پر خشوع کے آثار تھے ۔ حاضرین نے کہا : یہ آدمی اہل جنت میں سے ہے ، چنانچہ اس نے اختصار کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں ، پھر وہ چلا گیا ۔ میں اس کے پیچھے پیچھے گیا ، تو میں نے کہا : جس وقت آپ مسجد میں تشریف لائے تھے تو لوگوں نے کہا تھا کہ یہ آدمی اہل جنت میں سے ہے ۔ اس آدمی نے کہا : اللہ کی قسم ! کسی شخص کے لیے مناسب نہیں کہ وہ ایسی بات کہے جسے وہ جانتا نہیں ، میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ایسے کیوں ہے میں نے رسول اللہ ﷺ کے دور میں خواب دیکھا تو میں نے اسے آپ سے بیان کیا : میں نے دیکھا کہ گویا میں ایک باغ میں ہوں ، انہوں نے اس کی وسعت اور اس کی شادابی کا ذکر کیا ، اس کے وسط میں لوہے کا ستون ہے ، اس کا نچلا حصہ زمین میں ہے اور اس کا اوپر والا حصہ آسمان میں ہے ، اس کی چوٹی پر ایک حلقہ (کڑا) ہے ، مجھے کہا گیا : اس پر چڑھو ، میں نے کہا : میں استطاعت نہیں رکھتا ، میرے پاس ایک خادم آیا اس نے پیچھے سے میرے کپڑے اٹھائے تو میں اوپر چڑھ گیا ، حتیٰ کہ میں نے اس کی چوٹی پر پہنچ کر حلقے (کڑے) کو پکڑ لیا ، مجھے کہا گیا : مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو ، میں اسے پکڑے ہوئے تھا کہ میں بیدار ہو گیا ، میں نے اسے نبی ﷺ سے بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ باغ اسلام ہے ، اور وہ ستون اسلام کا ستون ہے اور وہ حلقہ مضبوط حلقہ ہے تم تا دم مرگ اسلام پر رہو گے ۔‘‘ اور وہ آدمی عبداللہ بن سلام ؓ تھے ۔ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، جب سورۂ جمعہ نازل ہوئی تو ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، جب یہ آیت (وَاخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ) نازل ہوئی تو ہم نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ان سے کون لوگ مراد ہیں ؟ راوی بیان کرتے ہیں ، سلمان فارسی ؓ ہمارے درمیان موجود تھے ، نبی ﷺ نے سلمان ؓ پر اپنا دست مبارک رکھ کر فرمایا :’’ اگر ایمان ثریا پر بھی ہو گا تو تب بھی ان لوگوں میں سے کچھ حضرات اس تک پہنچ جائیں گے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اے اللہ ! اپنے اس بندے یعنی ابوہریرہ اور ان کی والدہ کو اپنے مومن بندوں کا محبوب بنا دے اور مومنوں کو ان کا محبوب بنا دے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
عائذ بن عمرو سے روایت ہے کہ ابوسفیان سلمان ، صہیب اور بلال ؓ کے پاس سے گزرے اس وقت اور صحابہ کرام بھی موجود تھے ، انہوں نے کہا : اللہ کی تلواروں نے اللہ کے دشمن کی گردن سے اپنا حق وصول نہیں کیا ۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا : کیا تم ایسی بات قریش کے معتبر اور سردار شخص کے بارے میں کہتے ہو ؟ ابوبکر ؓ نبی ﷺ کے پاس آئے اور انہیں بتایا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ابوبکر ! شاید کہ تم نے انہیں ناراض کر دیا ہے ، اگر تم نے انہیں ناراض کیا تو تم نے اپنے رب کو ناراض کر دیا ۔‘‘ وہ ان کے پاس آئے اور کہا : بھائیو ! کیا میں نے تمہیں ناراض کر دیا ہے ؟ انہوں نے کہا : نہیں ، بھائی ! اللہ آپ کی مغفرت فرمائے ۔ رواہ مسلم ۔
براء ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ انصار سے صرف مومن شخص ہی محبت کرتا ہے جبکہ انصار سے صرف منافق شخص ہی عداوت رکھتا ہے ، چنانچہ جس نے ان سے محبت کی تو اللہ اس سے محبت کرے گا اور جس نے ان سے عداوت کی تو اللہ اس سے عداوت کرے گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، جب اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو ہوازن قبیلے کے اموال میں سے غنیمت عطا فرمائی اور آپ قریش کے (نو مسلم) افراد کو سو اونٹ دینے لگے تو انصار کے کچھ لوگوں نے کہا : اللہ رسول اللہ ﷺ کی مغفرت فرمائے ، آپ قریشیوں کو تو عطا فرما رہے ہیں جبکہ ہمیں چھوڑ رہے ہیں ، اور صورت حال یہ ہے کہ ہماری تلواروں سے ان کا خون ابھی تک ٹپک رہا ہے ، ان کی یہ گفتگو رسول اللہ ﷺ کو بتائی گئی تو آپ نے انصار کو بلا بھیجا اور انہیں چمڑے کے ایک خیمے میں جمع کیا اور آپ نے ان کے علاوہ کسی اور کو وہاں نہ بلایا ، جب وہ اکٹھے ہو گئے تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا :’’ تمہارے متعلق مجھے کیا خبر پہنچی ہے ؟‘‘ ان (انصار) کے سمجھ دار لوگوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہمارے سنجیدہ لوگوں نے تو کوئی بات نہیں کی ، البتہ ہمارے چند نو عمر لڑکوں نے کہا ہے : اللہ ، رسول اللہ ﷺ کو معاف فرمائے کہ وہ قریشیوں کو دے رہے ہیں اور انصار کو چھوڑ رہے ہیں ، جبکہ ہماری تلواروں سے ان (قریشیوں) کا خون ٹپک رہا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں نے نو مسلموں کو ان کی تالیف قلبی کے لیے دیا ہے ، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ لوگ تو مال و دولت لے کر واپس جائیں اور تم رسول اللہ ﷺ کو ساتھ لے کر اپنے گھروں کو واپس جاؤ ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا ، کیوں نہیں ، اللہ کے رسول ! ہم اس پر راضی ہیں ۔ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار میں سے ایک آدمی ہوتا ، اگر سارے لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار ایک وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں بھی انصار کی وادی اور گھاٹی میں چلوں گا ، انصار استر ہیں جبکہ باقی لوگ اوپر کا کپڑا ہیں ، بے شک تم لوگ میرے بعد ترجیح دیکھو گے (کہ تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی) تم صبر کرنا حتیٰ کہ تم حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرو ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، فتح مکہ کے روز ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص ابوسفیان کے گھر داخل ہو جائے تو وہ امن میں ہے ، جو ہتھیار ڈال دے وہ امن میں ہے ۔‘‘ انصار نے کہا : اس آدمی کو اپنے رشتہ داروں سے رحمت اور اپنے شہر کی محبت نے پکڑ لیا ، (ان کی اس بات کے متعلق) رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم نے کہا ہے کہ اس آدمی کو اپنے کنبے سے شفقت اور اپنے شہر سے محبت نے پکڑ لیا ہے ، سن لو ، ایسے نہیں ، میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ، میں نے اللہ اور تمہاری طرف ہجرت کی ، میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہے ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا ، اللہ کی قسم ! ہم نے تو محض اللہ اور اس کے رسول کی رفاقت کے حصول کے لیے ایسے کہا تھا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ اور اس کا رسول تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے رہیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے (انصار کے) کچھ بچوں اور خواتین کو کسی شادی کی تقریب سے واپس آتے ہوئے دیکھا تو نبی ﷺ نے کھڑے ہو کر فرمایا :’’ اے اللہ ! (تو جانتا ہے) تم تمام لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب ہو ، اے اللہ ! (تو جانتا ہے) تم یعنی انصار تمام لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب ہو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، ابوبکر اور عباس ؓ انصار کی ایک مجلس کے پاس سے گزرے تو وہ اس وقت رو رہے تھے ۔ انہوں نے پوچھا : تم کیوں رو رہے ہو ؟ انہوں نے کہا : ہم نے نبی ﷺ کی مجلس کو یاد کیا جس میں ہم (بیٹھا کرتے) تھے ، ان دونوں میں سے ایک نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے اس کے متعلق آپ کو بتایا ، نبی ﷺ اپنے سر مبارک پر کپڑے کی پٹی باندھے ہوئے باہر تشریف لائے اور منبر پر جلوہ افروز ہوئے ، اور اس روز کے بعد آپ منبر پر تشریف نہ لا سکے ، آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی ، پھر فرمایا :’’ میں انصار کے بارے میں تمہیں وصیت کرتا ہوں ، وہ میرے جسم و جان (دست و بازو) ہیں ، وہ اپنی ذمہ داریاں نبھا چکے ، اب ان کے حقوق باقی ہیں ، تم ان کے نیکوکاروں کی طرف سے (عذر) قبول کرنا اور ان کے خطاکاروں سے درگزر کرنا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ اپنے مرض وفات میں باہر تشریف لائے اور منبر پر جلوہ افروز ہوئے ، آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی ، پھر فرمایا :’’ امابعد ! باقی لوگ تو بہت زیادہ ہو جائیں گے جبکہ انصار کم ہو جائیں گے حتیٰ کہ وہ لوگوں میں نمک کے تناسب سے ہو جائیں گے ، تم میں سے جو شخص کسی ایسی چیز کا ذمہ دار و سرپرست ہو جس میں وہ کسی نقصان اور کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہو تو وہ ان (انصار) کے نیکوکاروں کے نیک کاموں کو قبول کرے اور ان کے خطاکاروں سے درگزر کرے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابواُسید ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ انصار کا سب سے بہترین قبیلہ بنو نجار کا قبیلہ ہے ، پھر بنو عبدالاشہل ، بنو حارث بن خزرج ، پھر بنو ساعدہ اور انصار کے ہر قبیلے میں خیر ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو ، زبیر اور مقداد ؓ کو ، ایک دوسری روایت میں مقداد کے بجائے ابومرثد ؓ کا نام ہے ، کسی کام پر روانہ فرمایا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم چلتے جانا حتیٰ کہ تم روضہ خاخ پر پہنچ جاؤ ، وہاں ایک عورت ہو گی اس کے پاس ایک خط ہو گا تم وہ اس سے لے لینا ۔‘‘ ہم روانہ ہوئے ، ہم اپنے گھوڑے دوڑاتے رہے حتیٰ کہ ہم روضہ خاخ پر پہنچ گئے ، اور وہاں ہمیں وہ عورت مل گئی ۔ ہم نے کہا : خط نکالو ، اس نے کہا : میرے پاس کوئی خط نہیں ، ہم نے کہا : خط نکال دو ورنہ ہم تیرے کپڑے اتار دیں گے ، چنانچہ اس نے وہ خط اپنی چوٹی سے نکال دیا ، ہم وہ خط لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس میں لکھا ہوا تھا ، حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے اہل مکہ کے چند مشرکین کے نام ، انہوں نے اس میں رسول اللہ ﷺ کے بعض امور کے متعلق انہیں خبر دی تھی ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ حاطب یہ کیا (ماجرا) ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے متعلق جلدی نہ فرمانا ، میں ایک ایسا شخص ہوں کہ میں قریش کا حلیف ہوں ، میں ان کے خاندان میں سے نہیں ہوں ، اور آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں ، ان کی تو (ان سے) قرابت ہے جس کی وجہ سے وہ مکہ میں ان کے اموال اور اہل و عیال کی حفاظت کر رہے ہیں ، میں نے ان سے نسبی رشتہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ پسند کیا کہ میں ان سے کوئی احسان کروں ، جس کی وجہ سے وہ میرے قرابت داروں کی حفاظت کریں گے ۔ میں نے یہ کفر کی وجہ سے کیا ہے نہ اپنے دین سے ارتداد کی وجہ سے کیا ہے اور نہ ہی اسلام کے بعد کفر کو پسند کر کے کیا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اس نے تم سے سچی بات کی ہے ۔‘‘ عمر ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! مجھے اجازت فرمائیں میں اس منافق کی گردن اڑا دوں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اس شخص نے غزوۂ بدر میں شرکت کی ہے ، اور تم نہیں جانتے کہ اللہ نے اہل بدر کے احوال پہلے سے جان لیے تھے ، اس لیے اس نے فرمایا :’’ جو چاہو سو کرو ، تمہارے لیے جنت واجب ہو چکی ہے ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے :’’ میں تمہیں معاف کر چکا ۔‘‘ تب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی :’’ ایمان والو ! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ ۔‘‘ متفق علیہ ۔