سلیمان بن یسار ؒ ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے فرمایا : میں نے فلاں شخص کے سوا کسی کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی جو رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بہت مشابہ ہو ، سلیمان ؒ بیان کرتے ہیں میں نے اس (فلاں شخص) کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ ظہر کی پہلی دو رکعتیں لمبی اور آخری دو رکعتیں ہلکی پڑھا کرتے تھے ، اور نماز عصر ہلکی پڑھا کرتے تھے جبکہ نماز مغرب میں قصار مفصل (سورۃ البینہ سے آخر تک) عشاء میں اوساط مفصل (البروج سے البینہ تک) اور فجر میں طوال مفصل (سورۃ الحجرات سے البروج تک) پڑھا کرتے تھے ۔ نسائی ، اور ابن ماجہ نے ’’ نماز عصر ہلکی پڑھا کرتے تھے ‘‘ تک روایت کیا ہے ۔ صحیح ۔
عبادہ بن صامت ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم نماز فجر میں نبی ﷺ کے پیچھے تھے ۔ آپ نے قراءت کی تو آپ پر قراءت گراں ہو گئی ، چنانچہ جب آپ ﷺ (نماز سے) فارغ ہو گئے تو فرمایا :’’ شاید کہ تم اپنے امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو ؟‘‘ ہم نے عرض کیا ، جی ہاں ، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا :’’ سورۂ فاتحہ کے علاوہ قراءت نہ کیا کرو ، کیونکہ جو اسے نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی ۔‘‘ ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی بالمعنی ۔ اور ابوداؤد کی روایت میں ہے : آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں بھی (اپنے دل میں) کہتا تھا کہ قرآن پڑھنا مجھ پر دشوار کیوں ہے ، جب میں بلند آواز سے قراءت کروں تو تم سورۂ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد و الترمذی و النسائی ۔
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی کسی جہری قراءت والی نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا :’’ کیا تم میں سے کسی شخص نے ابھی ابھی میرے ساتھ قراءت کی ہے ؟‘‘ تو ایک آدمی نے عرض کیا ، جی ہاں ، اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں بھی (دل میں) کہتا تھا ، مجھے کیا ہوا ہے کہ مجھ سے قرآن چھینا جا رہا ہے ‘‘ روای بیان کرتے ہیں : صحابہ کرام ؓ نے جب رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی تو وہ جہری قراءت والی نمازوں میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قراءت کرنے سے رک گئے ۔ مالک ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، اور ابن ماجہ نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے ۔ صحیح ۔
ابن عمر ؓ اور بیاضی ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ نمازی اپنے رب سے کلام کرتا ہے ، پس اسے غور کرنا چاہیے کہ وہ اس کے ساتھ کیا کلام کر رہا ہے ؟ ایک دوسرے کے پاس بلند آواز سے قرآن نہ پڑھا کرو ۔‘‘ صحیح ، رواہ احمد ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ امام تو اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے ، پس جب وہ اللہ اکبر کہہ چکے تو پھر تم اللہ اکبر کہو ، اور جب وہ قراءت کرے تو تم خاموش رہو ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ ۔
عبداللہ بن ابی اوفی ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا : میں قرآن سے کچھ بھی یاد نہیں کر سکتا ، لہذا مجھے آپ کچھ سکھا دیں جو میرے لیے کافی ہو ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کہو ((سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ و اللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ)) ’’ اللہ پاک ہے ، ہر قسم کی حمدو ستائش اسی کے لیے ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اللہ سب سے بڑا ہے ، اور گناہ سے بچنا اور نیکی کرنا محض اللہ کی توفیق سے ہے ۔‘‘ اس شخص نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ تو اللہ کے لیے مختص ہے ، تو میرے لیے کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کہو : ((اللھم ارحمنی و عافنی و اھدنی و ارزقنی)) ’’ اے اللہ ! مجھ پر رحم فرما ، مجھے عافیت عطا فرما ، مجھے ہدایت نصیب فرما اور مجھے رزق عطا فرما ۔‘‘ پس اس شخص نے اپنے ہاتھوں سے اشارہ کیا اور انہیں بند کیا ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جہاں تک اس آدمی کا تعلق ہے تو اس نے اپنے ہاتھ خیر سے بھر لیے ۔‘‘ ابوداؤد ۔ اور امام نسائی ؒ کی روایت : ((الا باللہ)) تک ہے ۔ حسن ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے جو شخص سورۃ التین کی تلاوت کرے اور جب وہ سورت کی آخری آیات (الیس اللہ باحکم الحاکمین) پر پہنچے تو وہ کہے : ((بلیٰ : وانا علیٰ ذلک من الشاھدین ))’’ ’’ کیوں نہیں ‘‘ ایسے ہی ہے ، اور میں اس پر گواہ ہوں ۔‘‘ اور جو شخص سورۃ القیامہ کی تلاوت کرے اور آخری آیت (الیس ذلک بقادر علیٰ ان یحی الموتیٰ) ’’ کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ وہ مردوں کو زندہ کرے ۔‘‘ پر پہنچے تو وہ کہے : ((بلیٰ))’’ کیوں نہیں ، وہ ضرور قادر ہے ۔‘‘ اور جو شخص المرسلات کی تلاوت کرے ، اور وہ : (فبای حدیث بعدہ یومنون) ’’ اس کے بعد وہ کس حدیث پر ایمان لائیں گے ‘‘۔ پر پہنچے تو وہ کہے : ((امنا باللہ)) ’’ ہم اللہ پر ایمان لائے ۔‘‘ ابوداؤد ، اور امام ترمذی نے : ((وانا علیٰ ذلک من الشاھدین)) تک روایت کیا ہے ۔ ضعیف ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے پاس تشریف لائے اور انہیں پوری سورۂ رحمن سنائی تو وہ خاموش رہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جس رات جن آئے ، میں نے جب (فبای الاء ربکما تکذبن) ’’ تم اپنے رب کی کون کون سے نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔‘‘ پڑھا ، تو انہوں نے بہت اچھا جواب دیا تھا ، کہا : ہمارے رب ! ہم تیری نعمتوں میں سے کسی چیز کو بھی نہیں جھٹلاتے ، اور ہر قسم کی حمد تیرے لیے ہے ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ حسن ، رواہ الترمذی ۔
معاذ بن جہنی ؒ بیان کرتے ہیں کہ جہینہ قبیلے کے ایک آدمی نے انہیں بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا کہ آپ نے فجر کی دو رکعتوں میں سورۃ الزلزال تلاوت فرمائی ۔ میں نہیں جانتا کہ آپ ﷺ نے بھول کر ایسے کیا یا عمداً ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
فرافصہ بن عمیر حنفی ؒ بیان کرتے ہیں ، میں نے سورۂ یوسف ، عثمان بن عفان ؓ کی قراءت سے یاد کی کہ وہ نماز فجر میں کثرت کے ساتھ اس کی تلاوت کیا کرتے تھے ۔ صحیح ، رواہ مالک ۔
عامر بن ربیعہ ؒ بیان کرتے ہیں ، ہم نے عمر بن خطاب ؓ کے پیچھے نماز فجر پڑھی تو انہوں نے دونوں رکعتوں میں تجوید کے ساتھ سورۂ یوسف اور سورۂ حج تلاوت فرمائی ، ان سے پوچھا گیا کہ تب تو وہ طلوع فجر کے ساتھ ہی نماز شروع کرتے ہوں گے ، انہوں نے کہا : ہاں ! صحیح ، رواہ مالک ۔
عمرو بن شعیب ؒ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : میں نے مفصل سورتوں (یعنی الحجرات سے آخر تک) میں سے ہر چھوٹی بڑی سورت کو رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے سنا کہ آپ فرض نمازوں کی امامت کراتے ہوئے ان کی تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔ ضعیف ۔
عبداللہ بن عتبہ بن مسعود بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے نماز مغرب میں سورۃ الدخان تلاوت فرمائی ۔ امام نسائی نے اسے مرسل روایت کیا ہے ۔ صحیح ، رواہ النسائی ۔