انس ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم رسول اللہ ﷺ کی معیت میں ابوسیف حداد جو کہ (نبی ﷺ کے بیٹے) ابراہیم کے رضاعی باپ تھے ، کے پاس گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ابراہیم کو لے لیا ، اسے چوما اور سونگھا ، ہم اس کے بعد پھر ان کے پاس گئے تو ابراہیم آخری سانسوں پر تھے ، رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں تو عبدالرحمن بن عوف ؓ نے آپ سے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! آپ (بھی روتے ہیں) ، آپ نے فرمایا :’’ ابن عوف ! یہ تو رحمت ہے ۔‘‘ اور پھر آپ دوبارہ روئے اور فرمایا بے شک آنکھیں اشکبار اور دل غمگین ہے ، لیکن ہم صرف وہی بات کریں گے جس سے ہمارا پروردگار راضی ہو ۔ اے ابراہیم ! ہم تیری جدائی پر یقیناً غمگین ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
اسامہ بن زید ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ کی لخت جگر نے آپ کی طرف پیغام بھیجا کہ میرا بیٹا قریب المرگ ہے ، لہذا آپ تشریف لائیں ، آپ ﷺ نے سلام بھیجا اور یہ پیغام دیا :’’ یقیناً اللہ کا ہے جو اس نے لے لیا ، اور جو اس نے دے رکھا ہے ، اس کے ہاں ہر چیز کا وقت مقرر ہے ، پس صبر کریں اور ثواب پائیں ۔‘‘ انہوں نے دوبارا پیغام بھیجا اور قسم دے کر عرض کیا کہ آپ ضرور تشریف لائیں ، آپ کھڑے ہوئے اور سعد بن عبادہ ؓ ، معاذ بن جبل ؓ ، ابی بن کعب ؓ ، زید بن ثابت ؓ ، اور کچھ اور لوگ آپ کے ساتھ تشریف لائے ، بچے کو رسول اللہ ﷺ کی گود میں دے دیا گیا ، جب کہ اس کے سانسوں کا ربط ٹوٹ رہا تھا ، آپ کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں تو سعد ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! یہ کیا ہوا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ (آنسو) تو اللہ کی رحمت ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا فرمائی ، اللہ بھی اپنے رحم کرنے والے بندوں پر ہی رحم فرماتاہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، سعد بن عبادہ ؓ کسی بیماری میں مبتلا ہوئے تو نبی ﷺ ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے جبکہ عبدالرحمن بن عوف ؓ ، سعد بن ابی وقاص ؓ اور عبداللہ بن مسعود ؓ بھی آپ کے ساتھ تھے ، جب آپ ان کے پاس پہنچے تو آپ نے انہیں بیہوشی کے عالم میں پایا تو فرمایا :’’ کیا یہ فوت ہو چکے ؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! نہیں ، پس نبی ﷺ رونے لگے ، جب لوگوں نے آپ کو روتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی رو دئیے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم سنتے نہیں کہ اللہ آنکھوں کے رونے اور دل کے غمگین ہونے پر عذاب نہیں دیتا ، لیکن وہ تو اس زبان کی وجہ سے عذاب دیتا ہے یا رحم کرتا ہے ، اور بے شک میت کو ، اس کے اہل خانہ کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص رخسار پیٹے ، گریبان چاک کرے اور جاہلیت کی سی باتیں کرے تو وہ ہم میں سے نہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ابوموسی ؓ پر بے ہوشی طاری ہو گئی تو ان کی اہلیہ ام عبداللہ نے زور سے رونا شروع کر دیا ، پھر انہیں افاقہ ہو گیا تو فرمایا :’’ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں ایسے شخص سے بری ہوں جو مصیبت کے وقت سر منڈائے ، اونچی آواز سے روئے اور کپڑے چاک کرے ۔‘‘ بخاری ، مسلم اور حدیث کے الفاظ صحیح مسلم کے ہیں ۔ متفق علیہ ۔
ابومالک اشعری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میری امت میں جاہلیت کی چار خصلتیں ایسی ہیں جنہیں وہ نہیں چھوڑیں گے ، حسب پر فخر کرنا ، نسب پر طعن کرنا ، ستاروں کے ذریعے بارش طلب کرنا اور نوحہ کرنا ‘‘ اور فرمایا :’’ جو نوحہ کرنے والی موت سے پہلے توبہ نہ کرے تو روز قیامت اس پر گندھک کی قمیض ہو گی اور خارش کا کرتہ ہو گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ کا ایک عورت کے پاس سے گزر ہوا جو ایک قبر کے پاس رو رہی تھی ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ سے ڈر اور صبر کر ۔‘‘ اس نے کہا : مجھ سے دور رہو ، کیونکہ تم میری مصیبت سے دوچار نہیں ہوئے ، اس نے آپ کو دیکھ کر نہ پہچانا تو اسے بتایا گیا کہ وہ نبی ﷺ ہیں ، پس وہ نبی ﷺ کے دروازے پر حاضر ہوئی تو اس نے دیکھا کہ وہاں کوئی دربان نہیں تھا ، اس نے عرض کیا : میں آپ کو پہچان نہیں سکی ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ صبر تو ابتدائے صدمہ کے وقت ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس مسلمان کے تین بچے فوت ہو جائیں تو وہ صرف قسم پوری کرنے کی خاطر ہی جہنم میں جائے گا (وہ بھی پل صراط سے گزرتے وقت) ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے انصار کی خواتین سے فرمایا :’’ تم میں سے کسی کے تین بچے فوت ہو جائیں اور وہ اس سے ثواب طلب کرے تو وہ جنت میں داخل ہو گی ، ان میں سے کسی عورت نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کیا دو پر بھی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ دو پر بھی ۔‘‘ مسلم ، اور صحیحین کی روایت میں ہے :’’ تین نابالغ بچے ۔‘‘ رواہ مسلم و البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جب میں اپنے مومن بندے کی اہل دنیا سے کسی محبوب چیز کو اٹھاتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اس کی میرے ہاں جزا جنت کے سوا اور کچھ نہیں ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مومن کی عجیب شان ہے ، اگر اسے کوئی خیرو بھلائی نصیب ہوتی ہے تو اللہ کی حمد بیان کرتا اور شکر کرتا ہے ، اور اگر اسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو بھی اللہ کی حمد بیان کرتا ہے اور صبر کرتا ہے ، پس مومن اپنے (شکر و صبر کے) ہر معاملے میں اجر پاتا ہے ، حتیٰ کہ اس لقمہ پر بھی جو وہ اپنی اہلیہ کے منہ میں ڈالتا ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ہر مومن کے لیے دو دروازے ہیں ، ایک دروازے سے اس کے اعمال اوپر چڑھتے ہیں اور ایک دروازے سے اس کا رزق نازل ہوتا ہے ، جب وہ فوت ہو جاتا ہے تو وہ دونوں اس پر روتے ہیں ، پس یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :’’ ان پر آسمان رویا نہ زمین ۔‘‘ ضعیف ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میری امت میں سے جس شخص کے دو بچے پیش رو ہوں (یعنی فوت ہو جائیں) تو اللہ ان کی وجہ سے اسے جنت میں داخل فرمائے گا ۔‘‘ عائشہ ؓ نے عرض کیا ، آپ کی امت میں سے جس کا ایک پیش رو ہو ؟ آپ نے فرمایا :’’ موفّقہ (جس کو توفیق دی گئی ہو) ! جس کا ایک پیش رو ہو (وہ بھی جنتی ہے) ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا ، آپ کی امت میں سے جس کا ایک بھی پیش رو نہ ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں اپنی امت کا پیش رو ہوں گا ، انہیں میری مثل کوئی تکلیف نہیں پہنچائی گئی ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے کہا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
ابوموسی اشعری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب بندے کا بچہ فوت ہو جاتاہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے : کیا تم نے میرے بندے کے بچے (کی روح) کو قبض کر لیا ؟ وہ عرض کرتے ہیں ، جی ہاں ، پھر وہ پوچھتا ہے : کیا تم نے اس کے ثمر قلب (جگر گوشہ کی روح) کو قبض کر لیا ؟ وہ عرض کرتے ہیں ، جی ہاں ، اللہ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے کیا کہا تھا ؟ وہ عرض کرتے ہیں ، اس نے تیری حمد بیان کی اور (انا للہ وانا الیہ راجعون) پڑھا تھا ، پھر اللہ فرماتا ہے : میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد رکھو ۔‘‘ ضعیف ۔
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص کسی مصیبت زدہ شخص کو تسلی دیتا ہے تو اسے بھی اس کی مثل اجر ملتا ہے ۔‘‘ ترمذی ، ابن ماجہ ۔ اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ، اور ہم علی بن عاصم سے مروی حدیث سے اسے مرفوع جانتے ہیں ، اور انہوں نے (امام ترمذی) نے فرمایا : ان میں سے بعض نے اسے محمد بن سوقہ سے اسی سند کے ساتھ موقوف روایت کیا ہے ۔ ضعیف ۔
ابوبرزہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص کسی عورت کو ، جس کا بچہ گم جائے ، تسلی دیتا ہے تو اسے جنت میں ایک قیمتی لباس پہنایا جائے گا ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ ضعیف ۔
عبداللہ بن جعفر ؓ بیان کرتے ہیں ، جب جعفر کی خبر شہادت آئی تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرو ، ان کے پاس ایسی چیز (یعنی خبر) آئی ہے جو انہیں مشغول رکھے گی ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ ۔
مغیرہ بن شعبہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جس شخص پر نوحہ کیا جائے تو اس پر نوحہ کیے جانے کے باعث روز قیامت اسے عذاب دیا جائے گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عمرہ بنت عبدالرحمن ؒ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ، میں نے عائشہ ؓ سے سنا ، اور انہیں بتایا گیا کہ عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میت کو ، اس کے قبیلے کے اس پر رونے کی وجہ سے ، عذاب دیا جاتا ہے ، انہوں نے فرمایا : اللہ ! ابوعبدالرحمن کو معاف فرمائے ، انہوں نے جھوٹ نہیں بولا ، بلکہ وہ بھول گئے یا غلطی کر گئے ، بات صرف اتنی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک یہودی عورت کے پاس سے گزرے جس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک یہ تو اس پر رو رہے ہیں جبکہ اسے اپنی قبر میں عذاب ہو رہا ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عبداللہ بن ابی ملیکہ ؓ بیان کرتے ہیں ، عثمان بن عفان ؓ کی بیٹی مکہ میں وفات پا گئیں تو ہم اس کے جنازہ میں شریک ہونے کے لیے آئے جبکہ ابن عمر ؓ اور ابن عباس ؓ بھی تشریف لائے تھے ، میں ان دونوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا ، عبداللہ بن عمر ؓ نے عمرو بن عثمان سے فرمایا : جبکہ وہ اس کے مقابل تھے ، کیا تم رونے سے منع نہیں کرتے ؟ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میت کو ، اس کے گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے ، عذاب دیا جاتا ہے ۔‘‘ ابن عباس ؓ نے فرمایا : عمر ؓ اس کا بعض حصہ بیان کیا کرتے تھے ، پھر انہوں (ابن عباس ؓ) نے حدیث بیان کی تو فرمایا : میں عمر ؓ کے ساتھ مکہ سے واپس آیا ، حتیٰ کہ جب ہم بیداء کے قریب پہنچے تو انہوں نے کیکر کے سائے تلے ایک قافلہ دیکھا تو فرمایا : جاؤ دیکھو کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ میں نے دیکھا تو وہ صہیب ؓ تھے ، چنانچہ میں نے ان کو بتایا ، تو انہوں نے فرمایا : اس (صہیب ؓ) کو بلاؤ ، میں صہیب ؓ کے پاس گیا تو میں نے کہا : یہاں سے کوچ کرو اور امیرالمؤمنین کے پاس چلو ، پھر جب عمر ؓ کو زخمی کر دیا گیا ، تو صہیب ؓ روتے ہوئے آئے اور کہنے لگے : آہ بھائی پر کتنا افسوس ہے ! آہ بھائی پر کتنا افسوس ہے ! تو عمر ؓ نے فرمایا : صہیب ! کیا تم مجھ پر روتے ہو ؟ جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میت کو اس کے گھر والوں کی طرف سے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے ۔‘‘ ابن عباس ؓ نے فرمایا : جب عمر ؓ فوت ہوئے تو میں نے عائشہ ؓ سے یہ ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا : اللہ عمر ؓ پر رحم فرمائے ، نہیں ، اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ نے یہ حدیث بیان نہیں کی کہ ’’ میت کو اس کے گھر والوں کی طرف سے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے ۔‘‘ بلکہ ’’ اللہ کافر شخص پر ‘ اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب بڑھا دیتا ہے ۔‘‘ اور عائشہ ؓ نے فرمایا : تمہیں قرآن کافی ہونا چاہیے :’’ کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی ۔‘‘ اس پر ابن عباس ؓ نے فرمایا : اللہ ہی ہنساتا اور رلاتا ہے ۔ ابن ابی ملیکہ نے فرمایا : ابن عمر ؓ نے کوئی بات نہ کی ۔ متفق علیہ ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، جب نبی ﷺ کے پاس ابن حارثہ ؓ ، جعفر ؓ اور ابن رواحہ ؓ کی خبر شہادت پہنچی تو آپ (مسجد میں) بیٹھ گئے اور آپ کے چہرے پر غم کے آثار واضح تھے ، اور میں دروازے کی جھری سے دیکھ رہی تھی ، اتنے میں ایک آدمی آپ کے پاس آیا تو اس نے عرض کیا : جعفر ؓ کی خواتین رو رہی ہیں ، آپ ﷺ نے اسے فرمایا کہ :’’ انہیں منع کرو ۔‘‘ وہ چلا گیا (اور انہیں منع کیا لیکن وہ باز نہ آئیں) پھر وہ دوسری مرتبہ آپ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ وہ اس کی بات نہیں مانتیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ انہیں منع کر ۔‘‘ لیکن وہ تیسری مرتبہ پھر آیا اور عرض کیا : اللہ کی قسم ! اللہ کے رسول ! وہ ہم پر غالب آ گئیں ہیں ، (عائشہ ؓ) نے گمان کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ان کے منہ میں مٹی ڈالو ۔‘‘ میں نے کہا : اللہ تیری ناک خاک آلود کرے ، رسول اللہ ﷺ نے جو حکم دیا تو اسے بجا لایا نہ رسول اللہ ﷺ کو تکلیف پہنچانا ترک کیا ۔ متفق علیہ ۔
ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں ، جب ابوسلمہ ؓ فوت ہوئے تو میں نے کہا : پردیسی شخص پردیس میں فوت ہو گیا ، میں اس مرتبہ اس قدر روؤں گی کہ ایک داستان بن جائے گی ، میں اس پر رونے کی پوری تیاری کر چکی تھی کہ ایک عورت آئی وہ رونے میں میرا ساتھ دینا چاہتی تھی ، رسول اللہ ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا :’’ کیا تم ایسے گھر میں شیطان داخل کرنا چاہتی ہو جہاں سے اللہ نے اسے نکال باہر کیا ہے ۔‘‘ آپ نے دو مرتبہ ایسے فرمایا ۔ پس میں رونے سے رک گئی اور میں نہ روئی ۔ رواہ مسلم ۔
نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں ، عبداللہ بن رواحہ ؓ پر بے ہوشی طاری ہوئی تو ان کی بہن عمرہ رونے لگیں اور کہنے لگیں ، آہ پہاڑ پر کتنا افسوس آہ اس طرح اور اس طرح ، وہ ان کے محاسن بیان کرنے لگیں ، جب انہیں ہوش آیا تو انہوں نے فرمایا : آپ نے جو کچھ بھی کہا ، وہ مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا تم اسی طرح ہو ؟ اور ایک روایت میں یہ نقل کیا ہے : جب وہ (عبداللہ بن رواحہ ؓ) شہید ہوئے تو پھر وہ ان پر نہ روئیں ۔ رواہ البخاری ۔
ابوموسی ؓ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جب کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے اور اسے رونے والے کھڑے ہو کر کہتے ہیں : آہ پہاڑ ! آہ سردار ! اور اس طرح کی کوئی بات ، تو اللہ اس (میت) پر دو فرشتے مقرر فرما دیتا ہے جو اسے مارتے ہوئے دھکے دے کر کہتے ہیں : کیا تو ایسے ہی تھا ؟‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ اسنادہ حسن ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کی آل میں سے کوئی شخص فوت ہو گیا ، تو عورتیں جمع ہو کر اس پر رونے لگیں ، جبکہ عمر ؓ انہیں روکنے اور دور ہٹانے کے لیے کھڑے ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ عمر انہیں چھوڑ دو ، کیونکہ آنکھ اشکبار ہے اور دل غمناک ہے اور ابھی صدمہ تازہ ہے ۔‘‘ ضعیف ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی زینب ؓ وفات پا گئیں تو خواتین رونے لگیں ، تو عمر ؓ کوڑے کے ساتھ انہیں مارنے لگے جس پر رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک کے ساتھ انہیں پیچھے کر دیا اور فرمایا :’’ عمر ! کچھ مہلت دو ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ (خواتین کی جماعت) شیطانی آواز سے بچو ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ جہاں تک آنکھ (کے اشکبار ہونے) اور دل (کے غمگین ہونے) کا تعلق ہے تو وہ اللہ عزوجل کی طرف سے ہے اور رحمت ہے ، اور جو ہاتھ اور زبان سے کوئی حرکت ہو تو وہ شیطان کی طرف سے ہے ۔‘‘ ضعیف ۔
امام بخاری ؒ نے معلق روایت بیان کی ہے کہ جب حسن بن حسن بن علی ؒ فوت ہوئے تو ان کی اہلیہ نے سال بھر کے لیے ان کی قبر پر خیمہ لگا لیا ، پھر انہوں نے اٹھا لیا تو انہوں نے کسی پکارنے والے کو سنا : کیا انہوں نے اپنی مفقود چیز کو پا لیا ؟ دوسرے نے جواب دیا ، نہیں بلکہ مایوس ہو گئے تو واپس چلے گئے ۔ ضعیف ، رواہ البخاری تعلیقاً ۔
عمران بن حصین ؓ اور ابوبرزہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک جنازے میں شریک ہوئے تو آپ نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی اوپر والی چادریں اتار پھینکی ہیں اور صرف قمیض پہن کر چل رہے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے (یہ منظر دیکھ کر) فرمایا :’’ کیا تم جاہلیت کا سا کام کر رہے ہو یا جاہلیت کے کام سے مشابہت اختیار کر رہے ہو ؟ میں نے ارادہ کیا کہ تمہارے لیے بددعا کروں کہ تمہاری صورتیں مسخ ہو جائیں ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، انہوں نے اپنی چادریں لے لیں اور پھر دوبارہ ایسے نہیں کیا ۔ اسنادہ موضوع ۔