Blog
Books
Search Hadith

سورۂ نحل {اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ…}کی تفسیر

10 Hadiths Found

۔ (۸۶۵۰)۔ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبَّاسٍ قَالَ: بَیْنَمَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِفِنَائِ بَیْتِہِ بِمَکَّۃَ جَالِسٌ، إِذْ مَرَّ بِہِ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ فَکَشَرَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَ لَا تَجْلِسُ؟)) قَالَ: بَلٰی، قَالَ: فَجَلَسَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُسْتَقْبِلَہُ فَبَیْنَمَا ہُوَ یُحَدِّثُہُ، إِذْ شَخَصَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِبَصَرِہِ إِلَی السَّمَائِ، فَنَظَرَ سَاعَۃً إِلَی السَّمَائِ، فَأَ خَذَ یَضَعُ بَصَرَہُ حَتّٰی وَضَعَہُ عَلٰییَمِینِہِ فِی الْأَ رْضِ، فَتَحَرَّفَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ جَلِیسِہِ عُثْمَانَ إِلَی حَیْثُ وَضَعَ بَصَرَہُ، وَأَ خَذَ یُنْغِضُ رَأْسَہُ کَأَ نَّہُ یَسْتَفْقِہُ مَا یُقَالُ لَہُ وَابْنُ مَظْعُونٍ یَنْظُرُ، فَلَمَّا قَضٰی حَاجَتَہُ وَاسْتَفْقَہَ مَا یُقَالُ لَہُ، شَخَصَ بَصَرُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی السَّمَائِ کَمَا شَخَصَ أَ وَّلَ مَرَّۃٍ، فَأَ تْبَعَہُ بَصَرَہُ حَتّٰی تَوَارٰی فِی السَّمَائِ، فَأَ قْبَلَ إِلٰی عُثْمَانَ بِجِلْسَتِہِ الْأُولٰی، قَالَ: یَا مُحَمَّدُ! فِیمَ کُنْتُ أُجَالِسُکَ وَآتِیکَ مَا رَأَ یْتُکَ تَفْعَلُ کَفِعْلِکَ الْغَدَاۃَ؟ قَالَ: ((وَمَا رَأَ یْتَنِی فَعَلْتُ؟)) قَالَ: رَأَ یْتُکَ تَشْخَصُ بِبَصَرِکَ إِلَی السَّمَائِ، ثُمَّ وَضَعْتَہُ حَیْثُ وَضَعْتَہُ عَلَییَمِینِکَ، فَتَحَرَّفْتَ إِلَیْہِ وَتَرَکْتَنِی فَأَخَذْتَ تُنْغِضُ رَأْسَکَ کَأَ نَّکَ تَسْتَفْقِہُ شَیْئًایُقَالُ لَکَ۔ قَالَ: ((وَفَطِنْتَ لِذَاکَ؟)) قَالَ عُثْمَانُ: نَعَمْ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَ تَانِی رَسُولُ اللّٰہِ آنِفًا، وَأَ نْتَ جَالِسٌ۔)) قَالَ: رَسُولُ اللّٰہِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا قَالَ لَکَ؟ قَالَ: {إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَائِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِیَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ} [النحل: ۹۰] قَالَ عُثْمَانُ: فَذٰلِکَ حِینَ اسْتَقَرَّ الْإِیمَانُ فِی قَلْبِی وَأَ حْبَبْتُ مُحَمَّدًا۔ (مسند احمد: ۲۹۱۹)

۔ سیدنا عبدا للہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ میں اپنے گھر کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے عثمان بن مظعون کا گزر ہوا اور وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھ کر مذاق سے ہنسے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عثمان! کیا تم ہمارے پاس بیٹھ نہیں جاتے؟ اس نے کہا : جی کیوں نہیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے سامنے بیٹھ گئے اور اس سے باتیں کر نے لگے، اچانک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائی اور کچھ دیر آسمان کی طرف دیکھا، پھر نظر نیچے کی اور دائیں جانب زمین پر دیکھا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ساتھی عثمان کی طرف سے منحرف ہوگئے اور سرجھکائے انداز پر بیٹھ گئے، گویا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی سے کوئی بات سمجھ رہے ہوں۔ ابن مظعون یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا کام پورا کر لیا اور جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا گیا تھا وہ سمجھ لیا، تو پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی نگاہ آسمان کی جانب اٹھائی، جس طرح پہلی مرتبہ اٹھائی تھی، اپنی نظر کو اس چیز کے پیچھے لگایا حتیٰ کہ وہ چھپ گئی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عثمان کی جانب پہلے کی مانند متوجہ ہوئے، انہوں نے کہا: اے محمد! جب بھی میں آپ کے ساتھ بیٹھتا ہوں یا آتا جاتا ہوں، تو جس طرح آپ نے صبح کیا تھا، اس طرح آپ نے کبھی نہیں کیا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے مجھے کیا کرتے دیکھا ہے؟ اس نے کہا: میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی ہے، پھرآپ نے دائیں جانب جھکائی ہے، پھر آپ نے مجھ سے اعراض کر لیا اورمجھے چھوڑ دیا اور اس طرح سر جھکا لیا تھا، جس طرح آپ کوئی چیز سمجھ رہے ہیں،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم نے یہ حالت دیکھی ہے؟ عثمان نے کہا:جی میں نے دیکھی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابھی تمہارے بیٹھے بیٹھے اللہ تعالی کا قاصد آیا تھا۔ عثمان نے کہا: اللہ کا قاصد؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں۔ انھوں نے کہا: تو پھر اس نے کیا کہا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس نے کہا: {إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَائِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِیَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ} … بے شک اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور قرابتداروں کو دینے کا حکم دیتے ہے، اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے، وہ تم کو نصیحت کرتا ہے تاکہ تم عبرت پکڑو۔ سیدنا عثمان بن مطعون کہتے ہیں؛ اس وقت سے ایمان نے میرے دل میں جگہ پکڑ لی تھی اور میں محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے محبت کرنے لگا تھا۔

Haidth Number: 8650
۔ سیدنا عثمان بن ابی عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، اچانک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نگاہ اٹھائی اور پھر نیچے جھکائی، اور قریب تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زمین کے ساتھ لگا دیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نگاہ اٹھائی اور فرمایا: جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے ہیں اور انھوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہ آیت فلاں سورت کے فلاں مقام پر رکھوں: {إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَائِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِیَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ} … بے شک اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور قرابتداروں کو دینے کا حکم دیتا ہے، اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے، وہ تم کو نصیحت کرتا ہے تاکہ تم عبرت پکڑو۔

Haidth Number: 8651

۔ (۸۶۵۲)۔ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ قُتِلَ مِنْ الْأَ نْصَارِ أَ رْبَعَۃٌ وَسِتُّونَ رَجُلًا، وَمِنْ الْمُہَاجِرِینَ سِتَّۃٌ، فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : لَئِنْ کَانَ لَنَا یَوْمٌ مِثْلُ ہٰذَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ لَنُرْبِیَنَّ عَلَیْہِمْ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ الْفَتْحِ، قَالَ رَجُلٌ لَا یُعْرَفُ: لَا قُرَیْشَ بَعْدَ الْیَوْمِ، فَنَادٰی مُنَادِی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : أَ مِنَ الْأَ سْوَدُ وَالْأَ بْیَضُ إِلَّا فُلَانًا وَفُلَانًا، نَاسًا سَمَّاہُمْ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: {وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرٌ لِلصَّابِرِینَ} [النحل: ۱۲۶] فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نَصْبِرُوَلَا نُعَاقِبُ۔)) (مسند احمد: ۲۱۵۴۹)

۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے احد کے دن انصار میں سے چونسٹھ اور مہاجرین میں سے چھ آدمی شہید ہو گئے، صحابہ کرام میں سے بعض افراد نے کہا: اب اگر ہمیں کسی دن موقع ملا تو ہم کئی گنا بڑھ کر زیادتی کریں گے، پھر جب مکہ فتح ہوا تو اس دن ایک آدمی نے کہا: آج کے بعد قریش کا نام نہ رہے گا۔ لیکن اُدھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے منادی نے یہ آواز دی: سیاہ فام ہو، سفید فام ہو،ہر ایک کو امن مل گیا ہے، ما سوائے فلاں فلاں کے، چند لوگوں کے نام لیے۔ پھر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کر دی: {وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرٌ لِلصَّابِرِینَ} … اگر تم بدلہ لو تو جس طرح تمہیں سزا دی گئی ہے، اتنی ہی سزا دواور اگر تم صبر کرو گے تو یہ صبرکرنے والوں کے لئے بہتر ہو گا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم صبرکریں گے اور سزا نہیں دیں گے۔

Haidth Number: 8652

۔ (۱۰۹۹۰)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی مَرَضِہِ الَّذِی مَاتَ فِیہِ، وَہُوَ عَاصِبٌ رَأْسَہُ، قَالَ: فَاتَّبَعْتُہُ حَتّٰی صَعِدَ عَلَی الْمِنْبَرِ، قَالَ: فَقَالَ: ((إِنِّی السَّاعَۃَ لَقَائِمٌ عَلَی الْحَوْضِ۔)) قَالَ: ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ عَبْدًا عُرِضَتْ عَلَیْہِ الدُّنْیَا وَزِینَتُہَا فَاخْتَارَ الْآخِرَۃَ، فَلَمْ یَفْطَنْ لَہَا أَحَدٌ مِنَ الْقَوْمِ إِلَّا أَبُو بَکْرٍ۔)) فَقَالَ: بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی بَلْ نَفْدِیکَ بِأَمْوَالِنَا وَأَنْفُسِنَا وَأَوْلَادِنَا، قَالَ: ثُمَّ ہَبَطَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنِ الْمِنْبَرِ فَمَا رُئِیَ عَلَیْہِ حَتَّی السَّاعَۃِ، (زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ) فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَیَّ فِی صُحْبَتِہِ وَمَالِہِ أَبُو بَکْرٍ، وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا مِنَ النَّاسِ خَلِیلًا غَیْرَ رَبِّی لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَکْرٍ، وَلٰکِنْ أُخُوَّۃُ الْإِسْلَامِ أَوْ مَوَدَّتُہُ لَا یَبْقٰی بَابٌ فِی الْمَسْجِدِ إِلَّا سُدَّ إِلَّا بَابَ أَبِی بَکْرٍ۔)) (مسند احمد: ۱۱۸۸۵)

سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مرض الموت کے دنوں میں ہمارے ہاں باہر تشریف لائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سر پر کپڑا باندھا ہوا تھا، میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے چلا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تشریف لائے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (گویا) میں اس وقت حوض( کوثر) پر کھڑا ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا: ایک بندے پر دنیا اور اس کی زینت پیش کی گئی ہے، لیکن اس نے آخرت کا انتخاب کر لیا ہے۔ لوگوں میں سے ابوبکر کے سوا کوئی بھی اس بات کو نہ سمجھ سکا، انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، بلکہ ہم سب کے اموال، جانیں اور اولادیں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر نثار ہوں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر سے نیچے اترے، اس کے بعد آخری دم تک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کومسجد میں نہیں دیکھا گیا۔ نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں میں اپنی صحبت اور مال کے لحاظ سے مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابوبکر کے ہیں، اگر میں نے اپنے رب کے سوا لوگوں میں سے کسی کو خلیل بنانا ہوتا تو ابوبکر کو بناتا، البتہ سب کے ساتھ اسلامی اخوت اور مودت ضرور ہے، مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کر دئیے جائیں، ما سوائے ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے دروازے کے۔

Haidth Number: 10990

۔ (۱۰۹۹۱)۔ عَنِ ابْنِ أَبِی الْمُعَلَّی عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَطَبَ یَوْمًا، فَقَالَ: ((إِنَّ رَجُلًا خَیَّرَہُ رَبُّہُ عَزَّ وَجَلَّ بَیْنَ أَنْ یَعِیشَ فِی الدُّنْیَا مَا شَائَ أَنْ یَعِیشَ فِیہَا،یَأْکُلُ مِنَ الدُّنْیَا مَا شَائَ أَنْ یَأْکُلَ مِنْہَا، وَبَیْنَ لِقَائِ رَبِّہِ عَزَّ وَجَلَّ، فَاخْتَارَ لِقَائَ رَبِّہِ۔)) قَالَ فَبَکٰی أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَلَا تَعْجَبُونَ مِنْ ہٰذَا الشَّیْخِ، أَنْ ذَکَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَجُلًا صَالِحًا خَیَّرَہُ رَبُّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی بَیْنَ الدُّنْیَا وَبَیْنَ لِقَائِ رَبِّہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، فَاخْتَارَ لِقَائَ رَبِّہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَکَانَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَعْلَمَہُمْ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: بَلْ نَفْدِیکَ بِأَمْوَالِنَا وَأَبْنَائِنَا أَوْ بِآبَائِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَمَنُّ عَلَیْنَا فِی صُحْبَتِہِ وَذَاتِ یَدِہِ مِنْ ابْنِ أَبِی قُحَافَۃَ، وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیلًا لَاتَّخَذْتُ ابْنَ أَبِی قُحَافَۃَ، وَلٰکِنْ وُدٌّ وَإِخَائُ إِیمَانٍ، وَلٰکِنْ وُدٌّ وَإِخَائُ إِیمَانٍ مَرَّتَیْنِ، وَإِنَّ صَاحِبَکُمْ خَلِیلُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۱۶۰۱۸)

ابن ابی المعلی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خطاب کیا اور فرمایا: ایک بندے کو اس کے رب نے اس بات کا اختیار دیا ہے کہ وہ یا تو جب تک دنیا میں چاہے رہے اور یہاں سے جو چاہے کھائے یا اپنے رب سے ملاقات کرے، اس نے اپنے رب کی ملاقات کو اختیار کیا ہے۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رونے لگے، صحابۂ کرام نے کہا کہ اس بزرگ کو دیکھو کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو کسی نیک بندے کا ذکر کیا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے دنیایا رب کی ملاقات میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا اور اس نے اپنے رب کی ملاقات کا انتخاب کر لیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات کو ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اچھی طرح جان گئے تھے۔ انہوں نے کہا:ہم سب اپنے اموال، اور اولادوں یا (کہا، راوی کو شک ہے) باپوں سمیت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر فدا ہیں،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کسی نے اپنی صحبت اور اپنے مال کے ذریعے ابوبکر ابن ابی قحافہ سے بڑھ کر مجھ پر احسان نہیں کیا، اگر میں نے کسی کو خلیل بنانا ہوتا تو میں ابو قحافہ کے بیٹے کو خلیل بناتا، لیکن سب سے مودت، اخوت اور ایمان کا تعلق ہے اور بے شک میں اللہ تعالیٰ کا خلیل ہوں۔

Haidth Number: 10991
سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا تو اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر پر سیاہ رنگ کی پگڑی تھی۔

Haidth Number: 10992
سیدنا واثلہ بن اسقع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: کیا تم سمجھتے ہو کہ میں تم سب سے آخر میں فوت ہو ں گا؟ خبردار! میں تم میں پہلے وفات پانے والے لوگوں میں سے ہوں اور تم میرے بعد گروہ در گروہ فوت ہو کر آؤ گے اور تمہارا بعض بعض کو ہلاک بھی کرے گا۔

Haidth Number: 10993

۔ (۱۱۹۰۳)۔ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ لِفُلَانٍ نَخْلَۃً وَأَنَا أُقِیمُ حَائِطِی بِہَا فَأْمُرْہُ أَنْ یُعْطِیَنِی حَتّٰی أُقِیمَ حَائِطِی بِہَا، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَعْطِہَا إِیَّاہُ بِنَخْلَۃٍ فِی الْجَنَّۃِ۔)) فَأَبٰی فَأَتَاہُ أَبُوالدَّحْدَاحِ، فَقَالَ: بِعْنِی نَخْلَتَکَ بِحَائِطِی، فَفَعَلَ، فَأَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی قَدْ ابْتَعْتُ النَّخْلَۃَ بِحَائِطِی، قَالَ: فَاجْعَلْہَا لَہُ فَقَدْ أَعْطَیْتُکَہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((کَمْ مِنْ عَذْقٍ رَاحَ لِأَبِی الدَّحْدَاحِ فِی الْجَنَّۃِ۔)) قَالَہَا مِرَارًا، قَالَ: فَأَتَی امْرَأَتَہُ فَقَالَ: یَا أُمَّ الدَّحْدَاحِ! اخْرُجِی مِنَ الْحَائِطِ فَإِنِّی قَدْ بِعْتُہُ بِنَخْلَۃٍ فِی الْجَنَّۃِ، فَقَالَتْ: رَبِحَ الْبَیْعُ أَوْ کَلِمَۃً تُشْبِہُہَا۔ (مسند احمد: ۱۲۵۱۰)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! فلاں آدمی کا کھجور کا ایک درخت ہے، میں اس درخت کا ضرورت مند ہوں تاکہ اس کے ذریعے اپنے باغ کی دیوار کو سیدھا کر سکوں، آپ اسے حکم دیں کہ وہ یہ درخت مجھے دے دے اور میں اپنے باغ کی دیوار کو مضبوط کر لوں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: تم یہ درخت اسے دے دو، اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں ایک درخت لے دوں گا۔ اس نے اس بات سے انکار کیا۔ یہ بات سن کر سیدنا ابو دحداح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آکر اس آدمی سے کہا کہ میرے پورے باغ کے عوض تم یہ ایک کھجور مجھے فروخت کر دو، اس نے ایسے ہی کیا، پھر سیدنا ابو دحداح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے وہ ایک کھجور اپنے پورے باغ کے عوض خریدلی ہے، آپ یہ کھجور اس ضرورت مند کو دے دیں، میں کھجور کا یہ درخت آپ کے حوالے کر چکا ہوں،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں کھجور کے کتنے ہی خوشے ابو دحداح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لیے لٹک رہے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بات متعدد مرتبہ دہرائی، ابو دحداح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنی بیوی کے پاس آکر اس سے کہا: اے ام وحداح! باغ سے باہر نکل آئو، میں نے یہ باغ جنت کی ایک کھجور کے عوض فروخت کر دیا ہے۔ اس نے کہا: آپ نے تو بڑے فائدے والا سودا کیا۔

Haidth Number: 11903
سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دحداح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بیٹےیا ابو دحداح کی نماز جنازہ ادا کی، اس کے بعد بغیرزین کے ایک گھوڑا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا، ایک آدمی نے اس کی ٹانگ کو رسی سے باندھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس پر سوار ہوئے، وہ گھوڑا اچھلتا ہوا چلنے لگا، ہم آپ کے پیچھے پیچھے تیز تیز جا رہے تھے، لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں کھجور کے کتنے ہی خوشے ابو دحداح کی انتظار میں لٹک رہے ہیں۔ حجاج نے اپنی حدیث میںیوں بیان کیا کہ محفل میں ہمارے ساتھ بیٹھے ایک آدمی نے سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں کھجور کے کتنے ہی خوشے ابو دحداح کے لیے لٹک رہے ہیں۔

Haidth Number: 11904

۔ (۱۲۴۵۴)۔ حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِی ہِنْدٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ یُقَالُ لَہُ: عَمَّارٌ، قَالَ: أَدْرَبْنَا عَامًا ثُمَّ قَفَلْنَا، وَفِینَا شَیْخٌ مِنْ خَثْعَمٍ، فَذُکِرَ الْحَجَّاجُ فَوَقَعَ فِیہِ وَشَتَمَہُ، فَقُلْتُ لَہُ: لِمَ تَسُبُّہُ وَہُوَ یُقَاتِلُ أَہْلَ الْعِرَاقِ فِی طَاعَۃِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ؟ فَقَالَ: إِنَّہُ ہُوَ الَّذِی أَکْفَرَہُمْ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((یَکُونُ فِی ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ خَمْسُ فِتَنٍ۔)) فَقَدْ مَضَتْ أَرْبَعٌ وَبَقِیَتْ وَاحِدَۃٌ وَہِیَ الصَّیْلَمُ، وَہِیَ فِیکُمْیَا أَہْلَ الشَّامِ، فَإِنْ أَدْرَکْتَہَا فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَکُونَ حَجَرًا فَکُنْہُ، وَلَا تَکُنْ مَعَ وَاحِدٍ مِنَ الْفَرِیقَیْنِ أَلَا فَاتَّخِذْ نَفَقًا فِی الْأَرْضِ، وَقَدْ قَالَ حَمَّادٌ: وَلَا تَکُنْ، وَقَدْ حَدَّثَنَا بِہِ حَمَّادٌ قَبْلَ ذَا، قُلْتُ: أَأَنْتَ سَمِعْتَہُ مِنَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: یَرْحَمُکَ اللّٰہُ أَفَلَا کُنْتَ أَعْلَمْتَنِی أَنَّکَ رَأَیْتَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی أُسَائِلَکَ؟ (مسند احمد: ۲۰۹۷۲)

داؤ د بن ابی ہند نے عمار نامی ایک شخص سے بیان کیا، جس کا تعلق ملک شام سے تھا، اس نے کہا: ایک سال ہم روم کی طرف گئے اور وہاں سے واپس آئے، ہمارے قافلے میں قبیلہ خثعم کا ایک آدمی بھی تھا، اس نے حجاج کا ذکر کیا اور اسے خوب برا بھلاکہنے لگا، میں نے اس سے کہا:آپ اسے گالیاں کیوں دیتے ہیں؟ وہ تو امیر المومنین کے حکم کو بجا لاتے ہوئے اہل عراق سے بر سر پیکار ہے، اس نے کہا:اس نے تو انہیں کفر میں مبتلا کیا ہوا ہے، پھر اس نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا کہ اس امت میں پانچ بڑے بڑے فتنے رونما ہوں گے۔ ان میں سے چار وقوع پذیر ہو چکے ہیں اور ایک باقی ہے اور وہ بہت بڑا فتنہ ہوگا، اہل شام یاد رکھو وہ فتنہ تمہارے اندر رونماہوگا، اگر تم اس فتنہ کو پاؤ تو اگر ہوسکے تو پتھر بن جانا یعنی دو فریقوں میں سے کسی ایک کا بھی ساتھ نہ دینا، بلکہ ہوسکے تو زمین میں سرنگ بنا کر چھپ جانا، میں نے کہا:کیا آپ نے خود یہ حدیث رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، میںنے کہا: اللہ آپ پر رحم فرمائے، آپ نے پہلے کیوں نہیں بتلایا کہ آپ نبی کی زیارت سے مشرف ہوچکے ہیں، تاکہ میں آپ سے مزید کچھ دریافت کرلیتا۔

Haidth Number: 12454