Blog
Books
Search Hadith

{وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ} کی تفسیر

13 Hadiths Found

۔ (۸۶۶۰)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ سَلَمَۃَیُحَدِّثُ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، قَالَ یَزِیدُ الْمُرَادِیِّ: قَالَ: قَالَ یَہُودِیٌّ لِصَاحِبِہِ: اذْہَبْ بِنَا إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَقَالَ یَزِیدُ: إِلٰی ہٰذَا النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی نَسْأَ لَہُ عَنْ ہٰذِہِ الْآیَۃِ: {وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسٰی تِسْعَ آیَاتٍ} [الاسرائ: ۱۰۱]فَقَالَ: لَا تَقُلْ لَہُ نَبِیٌّ فَإِنَّہُ إِنْ سَمِعَکَ لَصَارَتْ لَہُ أَ رْبَعَۃُ أَعْیُنٍ فَسَأَ لَاہُ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ شَیْئًا، وَلَا تَسْرِقُوْا، وَلَا تَزْنُوْا، وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَلَا تَسْحَرُوْا، وَلَا تَأْکُلُوا الرِّبَا، وَلَا تَمْشُوْا بِبَرِیئٍ إِلٰی ذِی سُلْطَانٍ لِیَقْتُلَہُ، وَلَا تَقْذِفُوْا مُحْصَنَۃً، أَ وْ قَالَ: تَفِرُّوْا مِنْ الزَّحْفِ۔))، شُعْبَۃُ الشَّاکُّ، ((وَأَ نْتُمْ یَایَہُودُ! عَلَیْکُمْ خَاصَّۃً أَ نْ لَا تَعْتَدُوْا، قَالَ یَزِیدُ: تَعْدُوْا فِی السَّبْتِ۔)) فَقَبَّلَا یَدَہُ وَرِجْلَہُ، قَالَ یَزِیدُ: یَدَیْہِ وَرِجْلَیْہِ، وَقَالَا: نَشْہَدُ أَ نَّکَ نَبِیٌّ، قَالَ: ((فَمَا یَمْنَعُکُمَا أَ نْ تَتَّبِعَانِی؟)) قَالَا: إِنَّ دَاوُدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ دَعَا أَ نْ لَا یَزَالَ مِنْ ذُرِّیَّتِہِ نَبِیٌّ وَإِنَّا نَخْشٰی، قَالَ یَزِیدُ: إِنْ أَ سْلَمْنَا أَ نْ تَقْتُلَنَا یَہُودُ۔ (مسند احمد: ۱۸۲۶۲)

۔ سیدنا صفوان بن عسال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایکیہودی نے اپنے ساتھی سے کہا: آئو ہم اس نبی کے پاس چلیں اور اس سے اس آیت کے بارے میں پوچھیں {وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسٰی تِسْعَ آیَاتٍ} … (اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو نو (۹) نشانیاں دیں تھیں)۔ دوسرے یہودی نے کہا: اسے نبی مت کہہ، اگر اس نے یہ سن لیا تو اس کو چار آنکھیں لگ جائیں گی، (یعنی وہ بہت خوش ہوگا کہ یہودی بھی اس کو نبی کہتے ہیں)۔ پس وہ آئے اور سوال کیا اورنبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرو، چوری نہ کرو، زنا نہ کرو، جس جان کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، اسے قتل نہ کرو، مگر حق کے ساتھ، جادو نہ کرو، سود نہ کھائو، بری اور بے گناہ آدمی کو بادشاہ کے پاس اس لئے نہ لے جائو کہ اسے قتل کر وا دو، پاکدامن عورت پر تہمت نہ لگائو، یا فرمایا جنگ کے دن میدان سے نہ بھاگو، اوراے یہودیو! تم خصوصاً خیال رکھنا کہ ہفتہ کے دن حد سے نہ بڑھو۔ ان یہودیوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ پائوں چوما اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ واقعی آپ نبی ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر میری پیروی کرنے میں کون سی چیز مانع اور رکاوٹ ہے؟ انہوں نے کہا: دائود علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ ان کی نسل سے ہمیشہ نبی آتا رہے، اس لیے اگر ہم نے اسلام قبول کر لیا تو ہمیں ڈر ہے کہ یہودی ہمیں قتل کر دیں گے۔

Haidth Number: 8660

۔ (۱۱۰۳۷)۔ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یُحَدِّثُ: أَنَّ رِجَالًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ تُوُفِّیَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَزِنُوا عَلَیْہِ، حَتّٰی کَادَ بَعْضُہُمْ یُوَسْوِسُ، قَالَ عُثْمَانُ: وَکُنْتُ مِنْہُمْ فَبَیْنَا أَنَا جَالِسٌ فِی ظِلِّ أُطُمٍ مِنَ الْآطَامِ، مَرَّ عَلَیَّ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَسَلَّمَ عَلَیَّ فَلَمْ أَشْعُرْ أَنَّہُ مَرَّ وَلَا سَلَّمَ، فَانْطَلَقَ عُمَرُ حَتّٰی دَخَلَ عَلٰی أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ لَہُ: مَا یُعْجِبُکَ أَنِّی مَرَرْتُ عَلٰی عُثْمَانَ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ السَّلَامَ، وَأَقْبَلَ ہُوَ وَأَبُو بَکْرٍ فِی وِلَایَۃِ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حَتّٰی سَلَّمَا عَلَیَّ جَمِیعًا، ثُمَّ قَالَ أَبُو بَکْرٍ: جَائَنِی أَخُوکَ عُمَرُ فَذَکَرَ أَنَّہُ مَرَّ عَلَیْکَ فَسَلَّمَ فَلَمْ تَرُدَّ عَلَیْہِ السَّلَامَ، فَمَا الَّذِی حَمَلَکَ عَلٰی ذٰلِکَ؟ قَالَ: قُلْتُ: مَا فَعَلْتُ، فَقَالَ عُمَرُ: بَلٰی وَاللّٰہِ! لَقَدْ فَعَلْتَ وَلٰکِنَّہَا عُبِّیَّتُکُمْیَا بَنِی أُمَیَّۃَ، قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ مَا شَعَرْتُ أَنَّکَ مَرَرْتَ وَلَا سَلَّمْتَ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ: صَدَقَ عُثْمَانُ وَقَدْ شَغَلَکَ عَنْ ذٰلِکَ أَمْرٌ، فَقُلْتُ: أَجَلْ، قَالَ: مَا ہُوَ؟ فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: تَوَفَّی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِیَّہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَبْلَ أَنْ نَسْأَلَہُ عَنْ نَجَاۃِ ہٰذَا الْأَمْرِ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ: قَدْ سَأَلْتُہُ عَنْ ذٰلِکَ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَیْہِ، فَقُلْتُ لَہُ: بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی أَنْتَ أَحَقُّ بِہَا، قَالَ أَبُو بَکْرٍ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ مَا نَجَاۃُ ہٰذَا الْأَمْرِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَنْ قَبِلَ مِنِّی الْکَلِمَۃَ الَّتِی عَرَضْتُ عَلٰی عَمِّی فَرَدَّہَا عَلَیَّ فَہِیَ لَہُ نَجَاۃٌ۔)) (مسند احمد: ۲۰)

سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تو بعض صحابہ پر اس کا شدید اثر ہوا اور قریب تھا کہ ان میں سے بعض کی حالت غیر ہو جاتی، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:میں بھی ایسے ہی لوگوں میں سے تھا، میں ایک مکان کے سائے میں بیٹھا تھا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرے پاس سے گزرے، انہوں نے مجھے سلام کہا، لیکن مجھے ان سے گزرنے اور سلام کہنے کا علم ہی نہیں ہوا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جا کر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے شکایت کی اور کہا: کیایہ بات آپ کے لیے تعجب انگیز نہیں کہ میں سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس سے گزرا، میں نے انہیں سلام کہا، لیکن انہوں نے سلام کا جواب تک نہیں دیا۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خلیفہ منتخب ہو چکے تھے، وہ دونوں میرے پاس آئے، دونوں نے مجھے سلام کہا اور پھر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تمہارے بھائی عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے میرے پاس آکر شکایت کی ہے کہ وہ تمہارے پاس سے گزرے اور سلام کہا، مگر آپ نے انہیں سلام کا جواب نہیں دیا، اس کی کیا وجہ تھی؟ میں نے عرض کیا:میں نے تو ایسا کیا ہی نہیں، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیوں نہیں؟ اللہ کی قسم ! میں نے سلام کہا ہے اور آپ نے جواب نہیں دیا، اے بنو امیہ! یہ تمہاری متکبرانہ عادت ہے، میں نے عرض کیا:اللہ کی قسم! مجھے تو پتہ ہی نہیں کہ آپ میرے پاس سے گزرے ہوں یا سلام کہا ہو۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ درست کہتے ہیں، آپ کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جدائی کا غم تھا، اس لیے آپ ادھر توجہ نہیں دے سکے، میں نے بھی کہا: جی ہاں ایسے ہی ہے، انہوں نے کہا، کیا ؟ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو موت دے دی اور ہم آپ سے یہ تو دریافت ہی نہیں کر سکے کہ قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے نجات کیسے ہو گی؟ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بارے میں دریافت کر چکا ہو ں، پس میں اٹھ کر ان کی طرف گیا اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! واقعی آپ ہی اس بات کو دریافت کرنے کے زیادہ حق دار تھے، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:میں نے دریافت کیا تھا کہ اے اللہ کے رسول! قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے نجات کیونکر ہو گی؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: میں نے جو کلمۂ اسلام اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا، مگر اس نے اسے قبول نہیں کیا تھا، جو آدمی بھی میری طرف سے اس کلمہ کو قبول کر لے یعنی اس کا دلی طور پر اقرار کر لے تو یہی کلمہ( توحید) اس کی نجات کا ذریعہ ہو گا۔

Haidth Number: 11037
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات پر سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا روتے ہوئے یوں کہہ رہی تھی: اے میرے ابا جان! آپ اپنے رب کے کس قدر قریب پہنچ گئے، اے میرے ابا جان! میں جبریل کو آپ کی موت کی خبر دوں گی، اے میرے ابا جان! جنت الفردوس آپ کا ٹھکانا ہے۔

Haidth Number: 11038
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات ہوئی تو سیدہ ام ایمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا رونے لگیں، ان سے کہا گیا کہ آپ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پرکیوں گریہ کرتی ہیں؟ انھوں نے کہا: میں یہ تو جانتی ہی تھی کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا عنقریب انتقال ہو جائے گا، لیکن میں تو اس لیے رو رہی ہوں کہ اب وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔

Haidth Number: 11039
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے،انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال میری گردن اور سینے کے درمیان میری ہی باری کے دن ہوا، میں نے اس دن کسی سے کچھ بھی زیادتی نہیں کی،یہ میری نا سمجھی اور نو عمری تھی کہ میری گود میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فوت ہوئے۔ پھر میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سر مبارک تکیہ پر رکھ دیا اور میں عورتوں کے ساتھ مل کر رونے لگی اور اپنے چہرے پر ہاتھ مارنے لگی۔

Haidth Number: 11040
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور اپنا منہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دونوں آنکھوں کے درمیان اور اپنے ہاتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کنپٹیوں پر رکھے اور کہا: ہائے میرے نبی ! ہائے میرے خلیل ! ہائے اللہ کے منتخب نبی۔

Haidth Number: 11041
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ (نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے انتقال کے بعد) سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے ہاں آئے اور سیدھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر دھاری دارچادر ڈالی گئی تھی، انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرۂ انور سے کپڑا ہٹایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اوپر جھک گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بوسہ دیا اور رونے لگے، پھر کہا: میرا باپ اور ماں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر فدا ہوں، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر دو موتیں کبھی بھی جمع نہیں کرے گا، پہلی موت جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے مقدر تھی وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر آچکی ہے۔

Haidth Number: 11042
سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے تھے کہ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مسجد میں داخل ہوئے، وہاں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لوگوں سے محوِ کلام تھے، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگے چلتے گئے، یہاں تک کہ وہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے گھر داخل ہو گئے، جہاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہو چکا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک دھاری دار چادر سے ڈھانپا گیا تھا، انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرہ اقدس سے کپڑا ہٹا کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرہ کی طرف دیکھا اور بوسہ دینے کے لیے نیچے کو جھکے اور پھر کہا: اللہ کی قسم!اللہ تعالیٰ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر دو موتوں کو جمع نہیں کرے گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وہ موت طاری ہو چکی ہے، جس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر موت طاری نہیں ہو گی۔

Haidth Number: 11043
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ احد کے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے کھڑے کفار پر تیربرسا رہے تھے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پیچھے کھڑے ان کو ڈھال بنائے ہوئے تھے، سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بڑے اچھے تیر انداز تھے، جب وہ تیر چھوڑتے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سر اٹھا کر دیکھتے کہ تیر کہاں جا کر گرتا ہے اور ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی خوشی سے سینہ تان کر کہتے: اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! ایسے ہوتی ہے تیر اندازی، اللہ کی قسم! کوئی تیر آپ تک نہیں1 پہنچے گا، میری گردن آپ کے آگے ہے۔ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خود کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آگے لے جاتے اور کہتے: اے اللہ کی رسول! میں مضبوط ہوں، آپ اپنے کاموں کے لیے مجھے بھیجا کریں اور جوچاہیں مجھے حکم دیا کریں۔

Haidth Number: 11936
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لشکر میں ابوطلحہ اکیلے کی آواز پوری جماعت کی آواز سے بہتر ہے۔ جنگ کے دوران سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہو جاتے اور اپنے تر کش کے تیروں کو بکھیر دیتے اور کہتے: اے اللہ کے رسول! میرا چہرہ آپ کے چہرے کو بچانے والا ہے اور میری جان آپ کے لیے فدا ہے۔

Haidth Number: 11937
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک ہی ڈھال کی اوٹ میں ہو جاتے اور سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بہترین تیر انداز تھے، جب وہ تیر چلاتے تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گردن اٹھا کر دیکھتے کہ تیر کہاں جا کر گرتا ہے۔

Haidth Number: 11938
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تم اپنی قوم کو میرا سلام کہنا، میرے علم کے مطابق یہ لوگ پاکدامن اور صابر ہیں۔

Haidth Number: 11939
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں بھی کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے۔ لیکن جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات ہو گئی تو پھر تو وہ صرف سفر یا بیماری کی وجہ سے ہی روزے کا ناغہ کرتے تھے۔

Haidth Number: 11940