Blog
Books
Search Hadith

{قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِکَلِمَاتِ رَبِّیْ…} کی تفسیر

24 Hadiths Found
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ قریش نے یہودیوں سے کہا: ہمیں کوئی ایسی بات بتائو، جس کے بارے میں ہم اس آدمی (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم )سے سوال کریں (اور اس کو لا جواب کر دیں)، انہوں نے کہا: اس سے روح کے بارے میں سوال کرو، پس جب انہوں نے سوال کیا تو یہ آیت نازل ہوئی: {وَیَسْأَ لُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَ مْرِ رَبِّی وَمَا أُوتِیتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا} … یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، کہہ دو کہ روح میرے رب کا حکم ہے، تمہیں صرف تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: ہمیں تو بہت زیادہ علم دیا گیا ہے، ہمیں تورات دی گئی اور جس کو تورات دے دی جائے، اس کو بہت زیادہ بھلائی دے دی جاتی ہے، ان کی اس بات کے جواب میں اللہ تعالی نے یہ آیت اتار دی: {قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْتَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖمَدَدًا} … کہہدےاگرسمندرمیرے رب کی باتوں کے لیے سیاہی بن جائے تو یقینا سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے برابر اور سیاہی لے آئیں۔

Haidth Number: 8671
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دینار، درہم، بکری اور اونٹ ترکہ میں کچھ نہیں چھوڑا اور نہ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایسی کسی چیز کے بارے میں کوئی وصیت کی۔

Haidth Number: 11069
Haidth Number: 11070
سیدنا ابو بردہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں گیا، انہوں نے ہمیںیمن میں تیار ہونے والی ایک موٹی سی چادر اور ایک ایسی چادر نکال کر دکھائی جسے تم لوگ مُلَبَّدَۃ کہتے ہو اور کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ دو چادریں زیب تن کئے ہوئے تھے۔

Haidth Number: 11071
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات پاگئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ازواج مطہرات نے چاہا کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف بھیجیں، تاکہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اپنی میراث کا مطالبہ کر سکیں، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان سے کہا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ ہمارے وارث نہیں بنتے، ہم جو کچھ چھوڑکر جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتا ہے۔

Haidth Number: 11072
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم جو انبیاء کی جماعت ہیں،ہمارا کوئی وارث نہیں بنتا، میں اپنے عاملوں اور بیویوں کے اخراجات کے بعد جو کچھ چھوڑوں، وہ صدقہ ہو گا۔

Haidth Number: 11073
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک زرہ کسی کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات تک اتنی گنجائش نہیں تھی کہ آپ اسے واپس لے سکتے۔

Haidth Number: 11074
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے ورثاء دینار اور درہم تقسیم نہیں کریں گے، میں اپنی ازواج کے نان و نفقہ اور اپنے زرعی رقبہ پر مقرر کردہ عامل کے اخراجات کے بعد جو کچھ چھوڑ جاؤں، وہ صدقہ ہوگا۔

Haidth Number: 11075
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی فدک والی زمین اور خیبر والے حصہ میں سے اپنا میراث والا حق طلب کیا، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے فرمایا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ہمارے وارث نہیں بنتے، ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتاہے۔ البتہ آل محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس مال میں سے کھاتے رہیں گے، اللہ کی قسم! میں نے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جو کام جس طرح کرتے دیکھا، میںبھی ویسے ہی کروں گا۔

Haidth Number: 11076

۔ (۱۱۰۷۷)۔ عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہَا أَخْبَرَتْہُ: أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَرْسَلَتْ إِلٰی أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، تَسْأَلُہُ مِیرَاثَہَا مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِمَّا أَفَائَ اللّٰہُ عَلَیْہِ بِالْمَدِینَۃِ وَفَدَکَ وَمَا بَقِیَ مِنْ خُمُسِ خَیْبَرَ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ۔)) إِنَّمَا یَأْکُلُ آلُ مُحَمَّدٍ فِی ہٰذَا الْمَالِ، وَإِنِّی وَاللّٰہِ! لَا أُغَیِّرُ شَیْئًا مِنْ صَدَقَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ حَالِہَا الَّتِی کَانَتْ عَلَیْہَا فِی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَأَعْمَلَنَّ فِیہَا بِمَا عَمِلَ بِہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَبٰی أَبُو بَکْرٍ أَنْ یَدْفَعَ إِلٰی فَاطِمَۃَ مِنْہَا شَیْئًا، فَوَجَدَتْ فَاطِمَۃُ عَلٰی أَبِی بَکْرٍ فِی ذٰلِکَ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَقَرَابَۃُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَحَبُّ إِلَیَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِی، وَأَمَّا الَّذِی شَجَرَ بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ مِنْ ہٰذِہِ الْأَمْوَالِ، فَإِنِّی لَمْ آلُ فِیہَا عَنِ الْحَقِّ، وَلَمْ أَتْرُکْ أَمْرًا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَصْنَعُہُ فِیہَا إِلَّا صَنَعْتُہُ۔ (مسند احمد: ۵۵)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ دخترِ رسول سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیغام بھیج کر مدینہ منورہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے مالِ فے والے حصے، فدک اور خیبر والے خمس کے بقیہ حصہ سے اپنا حصہ طلب کیا، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ارشاد ہے کہ دنیوی طور پر کوئی ہمارا وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ البتہ آل محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس میں سے کھا سکتے ہیں۔ اللہ کی قسم! اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس صدقہ کی جو حالت اور کیفیت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد میں تھی، میںاس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کروں گا اور میں بھی اس میں اسی طرح عمل کروں گا، جیسے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عمل کرتے تھے، اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو کچھ دینے سے انکار کر دیا، اس وجہ سے سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے دل میں سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میںکچھ ناراضگی اورغصہ آگیا، تو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فرمایا: اس اللہ کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھے اپنے رشتہ داروں کی بہ نسبت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے رشتہ داروں کی صلہ رحمی زیادہ محبوب ہے، مگر اس مال کے سلسلہ میں میرے اور آپ کے درمیان جو رنجش آگئی ہے تو حقیقتیہی ہے کہ میں نے اس بارے میں راہِ صواب سے ذرہ بھی انحراف نہیں کیا اور میں نے اس میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جو عمل کرتے دیکھا ہے میں نے اسے نہیں چھوڑا بلکہ میں نے بھی اسی طرح کیا ہے۔

Haidth Number: 11077

۔ (۱۱۰۷۸)۔ (وَعَنْہَا مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَتْ: فَغَضِبَتْ فَاطِمَۃُ عَلَیْہَا السَّلَامُ فَہَجَرَتْ أَبَا بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَلَمْ تَزَلْ مُہَاجِرَتَہُ حَتّٰی تُوُفِّیَتْ، قَالَ: وَعَاشَتْ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سِتَّۃَ أَشْہُرٍ، قَالَ: وَکَانَتْ فَاطِمَۃُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا تَسْأَلُ أَبَا بَکْرٍ نَصِیبَہَا مِمَّا تَرَکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ خَیْبَرَ وَفَدَکَ وَصَدَقَتِہِ بِالْمَدِینَۃِ، فَأَبٰی أَبُو بَکْرٍ عَلَیْہَا ذٰلِکَ وَقَالَ: لَسْتُ تَارِکًا شَیْئًا، کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَعْمَلُ بِہِ إِلَّا عَمِلْتُ بِہِ، وَإِنِّی أَخْشٰی إِنْ تَرَکْتُ شَیْئًا مِنْ أَمْرِہِ أَنْ أَزِیغَ، فَأَمَّا صَدَقَتُہُ بِالْمَدِینَۃِ فَدَفَعَہَا عُمَرُ إِلٰی عَلِیٍّ وَعَبَّاسٍ فَغَلَبَہُ عَلَیْہَا عَلِیٌّ، وَأَمَّا خَیْبَرُ وَفَدَکُ فَأَمْسَکَہُمَا عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَقَالَ: ہُمَا صَدَقَۃُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَتَا لِحُقُوقِہِ الَّتِی تَعْرُوْہُ وَنَوَائِبِہِ، وَأَمْرُہُمَا إِلٰی مَنْ وَلِیَ الْأَمْرَ، قَالَ: فَہُمَا عَلٰی ذٰلِکَ الْیَوْمَ۔ (مسند احمد: ۲۵)

۔(دوسری سند) سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے یہی حدیث سابق روایت کی مانند مروی ہے، البتہ اس میں تفصیل اس طرح ہے:سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بیان کیا کہ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ناراض ہو گئیں اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے قطع تعلق کر لیا اور یہ سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا، سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے بعد چھ ماہ تک زندہ رہی تھیں۔ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے خیبر والے اور فدک والے اور مدینہ میں موجود حصے سے اپنے حصے کا مطالبہ کرتی تھیں۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو حصہ دینے سے انکار کیا اور کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جس طرح کیا کرتے تھے، میں بھی اسی طرح کروں گا اور اس میں سے کسی بھی عمل کو ترک نہیں کروں گا، مجھے ڈر ہے کہ اگر میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے طرز عمل میں سے کچھ بھی چھوڑ دیا تو میں راہ راست سے بھٹک جاؤں گا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا جو صدقہ یعنی مال مدینہ منورہ میں تھا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سپرد کر دیا تھا اور اس پر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غالب آگئے تھے۔ البتہ خیبر اور فدک والے حصوں کو عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے کنٹرول میں ہی رکھا اور کہا کہ یہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف سے صدقہ ہیں،یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پیش آنے والی ضروریات اور حقوق کے لیے تھے، ان کا انتظام اور کنٹرول حاکمِ وقت کے پاس رہے گا، وہ اب تک اسی طرح چلے آرہے ہیں۔

Haidth Number: 11078
سیدنا ابو طفیل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تو سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیغام بھیج کر کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے وارث آپ ہیںیا ان کے اہل خانہ ہیں؟ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جواب دیا:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے وارث تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اہل خانہ ہی ہیں ،سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: مال فے میں سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم والا حصہ کہاں ہے؟ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی نبی کو کچھ عطا فرماتا ہے پھر نبی کی وفات ہوتی ہے تو اس کے بعد اس کا نائب ہی اس چیز کا حق دار ہوتا ہے۔ میں نے سوچا ہے کہ اس حصہ کو مسلمانوں کی طرف لوٹا دوں تو سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے یہ سن کر کہا آپ ہی بہتر جانتے ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ سنا ہے یا نہیں؟

Haidth Number: 11079
عبدالعزیز بن رُفیع سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں اور شداد بن معقل ہم دونوں سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں گئے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صرف یہ چیز چھوڑ کر گئے ہیں جو ان دو گتوں کے درمیان ہے۔ ( یعنی قرآن کریم) اور ہم محمد بن علی کی خدمت میں گئے تو انہوں نے بھی ایسے ہی کہا، عبدالعزیز نے کہا کہ مختار بن ثقفی کہا کرتا تھا کہ اس کی طرف وحی نازل ہوتی ہے۔

Haidth Number: 11080
سیدناابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آرہا تھا تو میں نے راستے میں یہ شعر کہا: یَالَیْلَۃً مِنْ طُولھا وَعَنَالِٔھا عَلٰی انّہا مِنْ دَارْۃِ الکُفْرِ نَجَّتٖ (تعجبہےاسراتپرجواسقدرطویل اور پر مشقت ہے ہاں یہ فائدہ ضرور ہوا کہ اس نے مجھے دارالکفر سے نکال لیا) سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: راستے میں میرا ایک غلام مجھ سے فرار ہو گیا، میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا کر مسلمان ہوا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیعت کر لی، میں آپ کی خدمت میں ہی بیٹھا تھا کہ وہ غلام بھی آگیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: ابو ہریرہ! یہ ہے تمہارا غلام۔ میں نے عرض کیا:وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہے، پھر انھوںنے اس کو آزاد کر دیا۔

Haidth Number: 11962
عراک بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی قوم کے افراد کے ساتھ مدینہ منورہ آئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان دنوں خیبر میں تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ میں سیدنا سباع بن عرفطہ کو اپنا نائب مقرر کر گئے تھے، سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں : میں سیدنا سباع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس پہنچا تو وہ صبح کی پہلی رکعت میں {کہیعص}اور دوسری رکعت میں سورۂ مطففین کی تلاوت کر رہے تھے، میں نے دل میں کہا: فلاں آدمی کے لیے تباہی اور ہلاکت ہے، جب وہ اپنے لیے لیتا ہے تو پورا پیمانہ لیتا ہے اور جب دوسروں کو دیتا ہے تو کم پیمانہ دیتا ہے، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو انہوںنے ہمیں کچھ زاد راہ دیا،یہاں تک کہ ہم خیبر جا پہنچے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابۂ کرام سے بات کرکے ہمیں بھی مال غنیمت میں شریک کر لیا۔

Haidth Number: 11963

۔ (۱۱۹۶۴)۔ عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ عَنْ رَجُلٍ مِنَ الطُّفَاوَۃِ قَالَ: نَزَلْتُ عَلٰی أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: وَلَمْ أُدْرِکْ مِنْ صَحَابَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَجُلًا أَشَدَّ تَشْمِیرًا، وَلَا أَقْوَمَ عَلٰی ضَیْفٍ مِنْہُ، فَبَیْنَمَا أَنَا عِنْدَہُ وَہُوَ عَلٰی سَرِیرٍ لَہُ، وَأَسْفَلَ مِنْہُ جَارِیَۃٌ لَہُ سَوْدَائُ، وَمَعَہُ کِیسٌ فِیہِ حَصًی وَنَوًی یَقُولُ: سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ حَتّٰی إِذَا أَنْفَذَ مَا فِی الْکِیسِ أَلْقَاہُ إِلَیْہَا فَجَمَعَتْہُ فَجَعَلَتْہُ فِی الْکِیسِ ثُمَّ دَفَعَتْہُ إِلَیْہِ، فَقَالَ لِی: أَلَا أُحَدِّثُکَ عَنِّی وَعَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قُلْتُ: بَلٰی، قَالَ: فَإِنِّی بَیْنَمَا أَنَا أُوعَکُ فِی مَسْجِدِ الْمَدِینَۃِ إِذْ دَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَسْجِدَ، فَقَالَ: ((مَنْ أَحَسَّ الْفَتَی الدَّوْسِیَّ؟ مَنْ أَحَسَّ الْفَتَی الدَّوْسِیَّ؟)) فَقَالَ لَہُ قَائِلٌ: ہُوَ ذَاکَ یُوعَکُ فِی جَانِبِ الْمَسْجِدِ حَیْثُ تَرٰی یَا رَسُولَ اللّٰہِ، فَجَائَ فَوَضَعَ یَدَہُ عَلَیَّ وَقَالَ لِی مَعْرُوفًا، فَقُمْتُ فَانْطَلَقَ حَتّٰی قَامَ فِی مَقَامِہِ الَّذِی یُصَلِّی فِیہِ، وَمَعَہُ یَوْمَئِذٍ صَفَّانِ مِنْ رِجَالٍ وَصَفٌّ مِنْ نِسَائٍ أَوْ صَفَّانِ مِنْ نِسَائٍ وَصَفٌّ مِنْ رِجَالٍ، فَأَقْبَلَ عَلَیْہِمْ فَقَالَ: ((إِنْ نَسَّانِی الشَّیْطَانُ شَیْئًا مِنْ صَلَاتِی فَلْیُسَبِّحِ الْقَوْمُ وَلْیُصَفِّقِ النِّسَائُ۔)) فَصَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَمْ یَنْسَ مِنْ صَلَاتِہِ شَیْئًا، فَلَمَّا سَلَّمَ أَقْبَلَ عَلَیْہِمْ بِوَجْہِہِ فَقَالَ: ((مَجَالِسَکُمْ ہَلْ مِنْکُمْ إِذَا أَتٰی أَہْلَہُ أَغْلَقَ بَابَہُ وَأَرْخٰی سِتْرَہُ، ثُمَّ یَخْرُجُ فَیُحَدِّثُ فَیَقُولُ: فَعَلْتُ بِأَہْلِی کَذَا، وَفَعَلْتُ بِأَہْلِی کَذَا؟)) فَسَکَتُوْا فَأَقْبَلَ عَلَی النِّسَائِ فَقَالَ: ((ہَلْ مِنْکُنَّ مَنْ تُحَدِّثُ؟)) فَجَثَتْ فَتَاۃٌ کَعَابٌ عَلٰی إِحْدٰی رُکْبَتَیْہَا وَتَطَاوَلَتْ لِیَرَاہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَیَسْمَعَ کَلَامَہَا فَقَالَتْ: إِی وَاللّٰہِ إِنَّہُمْ لَیُحَدِّثُونَ وَإِنَّہُنَّ لَیُحَدِّثْنَ، فَقَالَ: ((ہَلْ تَدْرُونَ مَا مَثَلُ مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ؟ إِنَّ مَثَلَ مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ مَثَلُ شَیْطَانٍ وَشَیْطَانَۃٍ، لَقِیَ أَحَدُہُمَا صَاحِبَہُ بِالسِّکَّۃِ قَضٰی حَاجَتَہُ مِنْہَا وَالنَّاسُ یَنْظُرُونَ إِلَیْہِ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((أَلَا لَا یُفْضِیَنَّ رَجُلٌ إِلٰی رَجُلٍ وَلَا امْرَأَۃٌ إِلَی امْرَأَۃٍ إِلَّا إِلٰی وَلَدٍ أَوْ وَالِدٍ۔)) قَالَ: وَذَکَرَ ثَالِثَۃً فَنَسِیتُہَا، ((أَلَا إِنَّ طِیبَ الرَّجُلِ مَا وُجِدَ رِیحُہُ وَلَمْ یَظْہَرْ لَوْنُہُ، أَلَا إِنَّ طِیبَ النِّسَائِ مَا ظَہَرَ لَوْنُہُ وَلَمْ یُوجَدْ رِیحُہُ۔)) (مسند احمد: ۱۰۹۹۰)

ابو نضرہ سے روایت ہے، وہ بنو طفاوہ قبیلہ کے ایک فرد سے روایت کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں مہمان ٹھہرا، میں نے صحابۂ کرام میں سے کسی کو ان سے بڑھ کر مہمان نواز نہیں پایا، میں ان کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا اور وہ اپنی چارپائی پر تشریف فرما تھے، ان کی سیاہ فام لونڈی نیچے تھی، سیدنا ابو ہریرہ کے پاس ایک تھیلی میں کنکر اور گٹھلیاں تھیں، سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سُبْحَانَ اللّٰہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ پڑھتے جاتے، جب تھیلی خالی ہو جاتی تو وہ اسے اس لونڈی کی طرف پھینکتے اور وہ تمام کنکروں اور گٹھلیوں کو تھیلی میں جمع کر کے ان کے حوالے کر دیتی۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے کہا: کیا میں تمہیں اپنا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ایک واقعہ نہ سنائوں۔ میں نے عرض کیا: جی ضرور سنائیں، انہوں نے کہا: مجھے بخار تھا اور میں مدینہ منورہ کی مسجد یعنی مسجد نبوی میں تھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا: کسی کو دوسی جوان یعنی ابو ہریرہکے متعلق علم ہو، کسی کو دوسی جوان کا علم ہو۔ (کہ وہ کہاں ہے؟) کسی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلایا کہ اے اللہ کے رسول! وہ دیکھیں وہ تو مسجد کے ایک کونے میں بخار میں مبتلا پڑا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آکر اپنا ہاتھ مبارک مجھ پر رکھا اور میرے ساتھ پیاری پیاری باتیں کیں۔ یہاں تک کہ میں اٹھ کھڑا ہوا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چل کر اپنی نماز والی جگہ پر تشریف لے گئے، اس روز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مردوں کی دو اور عورتوں کی ایک صف یا عورتوں کی دو اور مردوں کی ایک صف تھی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کی طرف رخ کرکے ارشاد فرمایا: اگر شیطان مجھے نماز میں کچھ بھلوا دے تو مرد حضرات سُبْحَانَ اللّٰہِ کہہ دیاکریں اور عورتیں اپنے ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مار کر آواز پیدا کریں (جس سے میں اپنی بھول اور غلطی پر متنبہ ہو جائوں گا)۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز پڑھائی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز میں نہ بھولے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز کا سلام پھیرا اور لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: تم اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے رہو،کیا تم میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے اہل خانہ کے ہاں جا کر دروازہ بند کرکے پردے لٹکانے کے بعد (حق زوجیت سے فارغ ہو کر) باہر جا کر لوگوں کی بتلائے کہ میں نے اپنی بیوی کے ساتھ یوں کیا اور یہ کیا۔ آپ کی بات سن کر صحابۂ کرام خاموش رہے، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عورتوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: کیا تم میں کوئی عورت بھی ایسی ہے جو ایسی باتیں کرتی ہو؟ تو ابھرے ہوئے سینہ والی ایک نوجوان لڑکی اپنے ایک گھٹنے کے بل ذرا اونچی ہو کر گردن اٹھا کر آپ کی طرف دیکھنے لگی تاکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی طرف توجہ فرمائیں اور اس کی بات سنیں۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم! مرد بھی ایسی باتیں کرتے ہیں اور عورتیں بھی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ ایسی باتیں کرنے والوں کی کیا مثال ہے؟ ایسی باتیں کرنے والوں کی مثال شیطان اور شیطاننی کی مانند ہے، جو راستے میں ہی ایک دوسرے سے ملیں اور بر سر عام ایک دوسرے سے اپنی نفسانی خواہش پوری کریں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید فرمایا: خبر دار! کوئی مرد کسی مرد یا کسی عورت کے ساتھ اور کوئی عورت کسی مرد یا کسی عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں علیحدہ نہ لیٹے، صرف باپ اور اس کا بیٹا اس طرح لیٹ سکتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک تیسری بات کا بھی ذکر کیا جو مجھے بھول گئی ہے۔ خبردار! مردوں کی خوشبو ایسی ہونی چاہیے جس کی صرف خوشبو ہو اور رنگ نہ ہو اور عورتوں کی خوشبو ایسی ہونی چاہیے کہ جس کا رنگ ہو اور خوشبو نہ ہو۔

Haidth Number: 11964

۔ (۱۱۹۶۵)۔ حَدَّثَنِی أَبُو کَثِیرٍ، حَدَّثَنِی أَبُوہُرَیْرَۃَ وَقَالَ لَنَا: وَاللّٰہِ مَا خَلَقَ اللّٰہُ مُؤْمِنًا یَسْمَعُ بِی وَلَا یَرَانِی إِلَّا أَحَبَّنِی، قُلْتُ: وَمَا عِلْمُکَ بِذٰلِکَ یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ؟ قَالَ: إِنَّ أُمِّی کَانَتْ امْرَأَۃً مُشْرِکَۃً، وَإِنِّی کُنْتُ أَدْعُوہَا إِلَی الْإِسْلَامِ، وَکَانَتْ تَأْبٰی عَلَیَّ، فَدَعَوْتُہَا یَوْمًا فَأَسْمَعَتْنِی فِی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا أَکْرَہُ، فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا أَبْکِی، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی کُنْتُ أَدْعُو أُمِّی إِلَی الْإِسْلَامِ وَکَانَتْ تَأْبَی عَلَیَّ، وَإِنِّی دَعَوْتُہَا الْیَوْمَ فَأَسْمَعَتْنِی فِیکَ مَا أَکْرَہُ، فَادْعُ اللّٰہَ أَنْ یَہْدِیَ أُمَّ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اللَّہُمَّ اہْدِ أُمَّ أَبِی ہُرَیْرَۃَ۔)) فَخَرَجْتُ أَعْدُو أُبَشِّرُہَا بِدُعَائِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا أَتَیْتُ الْبَابَ إِذَا ہُوَ مُجَافٍ وَسَمِعْتُ خَضْخَضَۃَ الْمَائِ، وَسَمِعْتُ خَشْفَ رِجْلٍ یَعْنِی وَقْعَہَا، فَقَالَتْ: یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ کَمَا أَنْتَ ثُمَّ فَتَحَتِ الْبَابَ وَقَدْ لَبِسَتْ دِرْعَہَا وَعَجِلَتْ عَنْ خِمَارِہَا، فَقَالَتْ: إِنِّی أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَجَعْتُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبْکِی مِنَ الْفَرَحِ کَمَا بَکَیْتُ مِنَ الْحُزْنِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَبْشِرْ فَقَدِ اسْتَجَابَ اللّٰہُ دُعَائَ کَ وَقَدْ ہَدٰی أُمَّ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، فَقُلْتُ: یَارَسُولَ اللّٰہِ! ادْعُ اللّٰہَ أَنْ یُحَبِّبَنِی أَنَا وَأُمِّی إِلٰی عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِینَ وَیُحَبِّبُہُمْ إِلَیْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اللَّہُمَّ حَبِّبْ عُبَیْدَکَ ھٰذَا وَأُمَّہُ اِلٰی عِبَادِکَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَجَبِّبْہِمْ اِلَیْہِمَا۔)) فَمَا خَلَقَ اللّٰہُ مُؤْمِنًا یَسْمَعُ بِیْ وَلَا یَرَانِیْ أَوْ یَرٰی أُمِّیْ إِلَّا وَھُوَ یُحِبُّنِیْ۔ (مسند احمد: ۸۲۴۲)

ابوکثیر سے روایت ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہم سے بیان کرتے ہوئے کہا: اللہ کی قسم! اللہ نے جس کسی مومن کو پیدا کیا اور اس نے میر ے متعلق محض سنا ہو، دیکھا نہ بھی ہو تو وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ ابو کثیر کہتے ہیں: میں نے ان سے دریافت کیا کہ ابو ہریرہ! آپ کو اس بات کا کیا علم کہ ہر مومن آپ سے محبت رکھتا ہے؟ انہوں نے کہا: میری والدہ مشرک عورت تھی، میں اس کو اسلام کی دعوت دیا کرتا تھا اور وہ میری بات کو قبول کرنے سے انکار کرتی رہتی تھی۔ ایک دن میںنے ان کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے مجھ سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے متعلق ایسی ایسی باتیں کہیں جو مجھے قطعاً اچھی نہ لگیں، میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا کر رونے لگا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دیا کرتا تھا اور وہ میری دعوت کو قبول کرنے سے انکار کرتی رہتی تھی، میں نے آج بھی اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے آپ کے متعلق ایسی ایسی ناگواری باتیں کہی ہیں، جو مجھے قطعاً پسند نہیں، آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ میری ماں کو ہدایت سے سر فراز فرما دے، (پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دعا کی)۔ میں دوڑتا ہوا اپنی والدہ کی طرف گیا تاکہ جا کر اسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعا کی بشارت دے سکوں، میں دروازے پر پہنچا تو دروازہ اندر سے بند تھا۔ میں نے پانی کے گرنے کی آواز سنی اور میں نے جوتوں کی آواز بھی سنی۔ اندر سے میری والدہ نے کہا: ابو ہریرہ! ذرا ٹھہرے رہو۔ کچھ دیر بعد اس نے دروازہ کھولا۔اس نے قمیص پہنی اور سر پر اوڑھنی لینے سے بھی پہلے پکار اٹھی: إِنِّی أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ۔میں جس طرح کچھ دیر قبل غم کی وجہ سے روتا ہوا آپ کی خدمت میں گیا تھا، اب اسی طرح خوشی کی شدت سے روتا ہوا میں آپ کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مبارک ہو، اللہ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ماں کو ہدایت سے سرفراز کر دیا ہے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے اور میری ماں کو اپنے تمام اہل ایمان بندوں کی نظروں میں محبوب بنا دے اور تمام اہل ایمان کو ہمارے ہاں محبوب بنادے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دعا فرمائی: یا اللہ!تو اپنے اس بندے (ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) اور اس کی والدہ کو اپنے تمام اہل ایمان بندوں کا محبوب بنا دے اور تمام اہل ایمان کو ان دونوں کا محبوب بنا دے۔ اس دعا کی برکت سے اب ہر وہ مومن جو میرے متعلق سنتا ہے، خواہ اس نے مجھے یا میری والدہ کو نہ بھی دیکھا ہو، وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔

Haidth Number: 11965
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کون ہے جو اللہ کے فرائض میں سے ایک، دو، تین، چار یا پانچ باتیں سن کر اپنی چادر کے پلو میں باندھ لے، پھر ان باتوں کا علم خود بھی حاصل کرے اور دوسروں کو بھی ان کی تعلیم دے؟ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس کام کے لیے میں حاضر ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنا کپڑا بچھائو۔ چنانچہ میں نے اپنا کپڑا بچھایا، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کچھ باتیں ارشاد فرمائیں اور پھر فرمایا: اس کپڑے کو سمیٹ لو۔ چنانچہ میں نے اپنے کپڑے کو سمیٹ کر اپنے سینےسے لگا لیا، مجھے امید ہے کہ اس کے بعد میں نے آپ سے جو بھی حدیث سنی، اسے بھولنے نہیں پاؤں گا۔

Haidth Number: 11966

۔ (۱۱۹۶۷)۔ عَنِ الْأَعْرَجِ قَالَ: قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: إِنَّکُمْ تَقُولُوْنَ أَکْثَرَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاللّٰہُ الْمَوْعِدُ! إِنَّکُمْ تَقُولُوْنَ: مَا بَالُ الْمُہَاجِرِینَ لَا یُحَدِّثُونَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِہٰذِہِ الْأَحَادِیثِ؟ وَمَا بَالُ الْأَنْصَارِ لَا یُحَدِّثُونَ بِہٰذِہِ الْأَحَادِیثِ؟ وَإِنَّ أَصْحَابِی مِنَ الْمُہَاجِرِینَ کَانَتْ تَشْغَلُہُمْ صَفَقَاتُہُمْ فِی الْأَسْوَاقِ، وَإِنَّ أَصْحَابِی مِنَ الْأَنْصَارِ کَانَتْ تَشْغَلُہُمْ أَرْضُوہُمْ وَالْقِیَامُ عَلَیْہَا، وَإِنِّی کُنْتُ امْرَأً مُعْتَکِفًا، وَکُنْتُ أُکْثِرُ مُجَالَسَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَحْضُرُ إِذَا غَابُوْا وَأَحْفَظُ إِذَا نَسُوا، وَإِنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَدَّثَنَا یَوْمًا فَقَالَ: ((مَنْ یَبْسُطُ ثَوْبَہُ حَتّٰی أَفْرُغَ مِنْ حَدِیثِی، ثُمَّ یَقْبِضُہُ إِلَیْہِ فَإِنَّہُ لَیْسَ یَنْسٰی شَیْئًا سَمِعَہُ مِنِّی أَبَدًا۔)) فَبَسَطْتُ ثَوْبِیْ أَوْ قَالَ: نَمِرَتِی، ثُمَّ قَبَضْتُہُ إِلَیَّ فَوَاللّٰہِ! مَا نَسِیتُ شَیْئًا سَمِعْتُہُ مِنْہُ، وَایْمُ اللّٰہِ لَوْلَا آیَۃٌ فِی کِتَابِ اللّٰہِ مَا حَدَّثْتُکُمْ بِشَیْئٍ أَبَدًا، ثُمَّ تَلَا: {إِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالْہُدٰی} الْآیَۃَ کُلَّہَا [البقرۃ: ۱۵۹]۔ (مسند احمد: ۷۶۹۱)

اعرج سے روایت ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم لوگ اعتراض کرتے ہو اور کہتے ہو کہ ابو ہریرہ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بہت احادیث روایت کرتا ہے، اللہ گواہ ہے، تم کہتے ہو کہ ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیان کردہ احادیث ایسی ہوتی ہیں، جو نہ تو مہاجرین بیان کرتے ہیں اور نہ انصاری۔ (اب سنو،) حقیقتیہ ہے کہ میرے مہاجر بھائی بازاروں میں خرید و فروخت میں مصروف رہتے اور میرے انصاری بھائی اپنی کھیتی باڑی اور اپنے اموال وغیرہ میں مشغول رہتے اور میں ایک گوشہ نشین بن کر رہا اور میرا بیشتر وقت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بسر ہوتا۔ لوگ اپنے کاموں کی وجہ سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی محفلوں سے غیر حاضر رہتے اور میں حاضر ہوتا۔ وہ لوگ احادیث بھول جاتے مگر میںیاد رکھتا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیان کے دوران ایک دن ہم سے فرمایا: کون ہے جو اپنا کپڑا بچھائے یہاں تک کہ جب میں اپنی بات مکمل کرکے فارغ ہو جائوں تو وہ اپنے کپڑے کو اپنی طرف سمیٹ لے، اس کی برکت اس قدر ہوگی کہ وہ مجھ سے سنی ہوئی کوئی بھی بات کبھی بھی نہ بھلا سکے گا۔ چنانچہ میں نے اپنا کپڑا بچھا دیااور پھر اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ اللہ کی قسم! اس کی برکت سے میں آپ سے سنی ہوئی کوئی بھی بات نہیں بھولا۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ کی کتاب میں یہ آیت نہ ہوتی تو میں تمہیں کبھی کچھ بیان نہ کرتا، پھر انہوںنے یہ آیت تلاوت کی:{اِنّ الّذینیَکْتُمُونَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیّنَاتِ وَالْھُدیٰ مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنَّاہُ لِلنَّاسِ فِیْ الْکِتَابِ اُولٰئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰہُ وَیَلْعَنُھُمُ اللَّاعِنُوْنَ} … بے شک جو لوگ ہمارے نازل کردہ صریح دلائل اور ہدایت کی باتوں کو چھپاتے ہیں بعد اس کے کہ ہم نے لوگوں کے لیے ان کو کتاب میں کھول کر بیان کر دیا ہے ان لوگوں پر اللہ اور سب لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔

Haidth Number: 11967
ابو عثمان نہدی سے مروی ہے،وہ کہتے ہیں: میں سات روز تک سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں مہمان ٹھہرا، ان کا معمول تھا کہ وہ، ان کی اہلیہ اور ان کا خادم رات کو تین حصوں میں باری باری جاگتے، ایک نماز پڑھتا رہتا، بعد میں وہ دوسرے کو جگا دیتا، وہ نماز پڑھتا رہتا، پھر وہ سو جاتا اور تیسرے کو بیدار کر دیتا۔ میں نے دریافت کیا: ابو ہریرہ! آپ روزے کس طرح رکھتے ہیں؟ انھوں نے کہا: مہینہ کے شروع میں تین روزے رکھتا ہوں، اگر کوئی وجہ در پیش ہو تو مہینہ کے آخر تک یہی روزے ہوتے ہیں۔1 ابو عثمان کہتے ہیں: میں نے ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو کہتے سنا کہ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ کے درمیان کھجور یں تقسیم کیں تو سات کھجوریں میرے حصے میں آئیں۔ ان میں سے ایک بے کار سی کھجور تھی، تاہم وہ مجھے سب سے زیادہ پسند تھی، اس نے میرے دانتوں کو مضبوط کر دیا2، (تب میں اس کو چبا سکا)۔

Haidth Number: 11968
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میرے سچے ! یعنی میں کسی بیمارییا سفر کی وجہ سے کوئی اور روزے نہ رکھ سکوں تو پھر یہی تین روزے ہی آخر تک رہتے ہیں اور ان سے ہی پورے مہینہ کے ثواب حاصل ہونے کی امید ہوتی ہے کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ دس گناہ ملتا ہے۔ [بلوغ الامانی] (عبداللہ رفیق) @ صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: شدَّتْ فِیْ مَضَاغِیْ وہ میرے چبانے میں سخت تھی۔ یعنی وہ کھجور چبانے کے لحاط سے سخت ہونے کی وجہ سے مجھے زیادہ پسند آئی۔ خلیل اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بیان کرتے ہوئے فرمایا: اس امت میں ایک لشکر سندھ اور ہند کی طرف جائے گا۔ پھر ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے تھے: اگر میں اس لشکر کو پا لوں اور اس میں شریک ہو کر شہادت کے مرتبہ پر فائز ہو جائوں تو بہتر، اوراگر میں (شہید نہ ہوا)، بلکہ واپس آ گیا تو میں آزاد ابو ہریرہ بن جاؤں گا، اللہ تعالیٰ مجھے آگ سے آزاد کر دے گا۔

Haidth Number: 11969
Haidth Number: 11970
Haidth Number: 11971
Haidth Number: 11972