Blog
Books
Search Hadith

سورۂ فرقان {وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا آخَرَ} کی تفسیر

13 Hadiths Found
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا کہ کونسا گناہ سب سے بڑاہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کہ تو اللہ تعالیٰ کاشریک ٹھہرائے، حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ اس نے کہا: اس کے بعد کون ساگناہ بڑاہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائے گی۔ اس آدمی نے پھر کہا: اس کے بعدکونساگناہ بڑا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی کے ساتھ زنا کرے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ان باتوں کی تصدیق نازل کر دی اور فرمایا: {وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا۔} (سورۂ فرقان: ۶۸) اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ اس جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ کرے گا وہ سخت گناہ کو ملے گا۔

Haidth Number: 8691
سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ارشاد فرمایا: انبیاء میں میری مثال اس آدمی کی مانند ہے، جو ایک انتہائی خوبصورت مکمل گھر بنائے اور اس میں صرف ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑدے، لوگ اس گھر کے چکر لگا لگا کر تعجب کا اظہار کریں اور کہیں: کاش کہ اس اینٹ کی جگہ بھی پوری ہوتی، پس قیصرِ نبوت میں اس اینٹ والی خالی جگہ کو میں پر کرنے والا ہوں۔ ! صحیح مسلم میں اس جگہ یہ لفظ ہے وَلَا یَرَانِیْ فاضل مترجم نے غالبًا اسی کو سامنے رکھ کر ترجمہ کیا ہے۔ (عبداللہ رفیق)

Haidth Number: 11115
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسی طرح کی حدیث ِ نبوی بیان کی ہے، البتہ اس میں یہ الفاظ زائد ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اس اینٹ کی جگہ پر آیا ہوں اور میں نے آکر انبیاء کے سلسلہ کو مکمل کر دیا ہے۔

Haidth Number: 11116
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری اور دوسرے انبیاء کی مثال اس آدمی کی مانند ہے، جس نے آگ جلائی اور پتنگے اور پروانے آگ میں گرنے لگے اور وہ انہیں ہٹانے لگا، پس میں تمہیں تمہاری کمروں سے پکڑ پکڑ کر تم کو آگ سے بچانے کی کوشش کر رہا ہوں اور تم میرے ہاتھ سے چھوٹ چھوٹ کر آگ میں گھستے ہو۔

Haidth Number: 11117
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دو آدمیوں کا کھانا تین کے لیے اور تین آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کے لیے کافی ہے میری اور لوگوں کی مثال ایسے ہے، جیسے کوئی آدمی آگ جلائے، جب آگ خوب روشن ہو جائے تو پتنگے اور پروانے آکر آگ میں گرنے لگیں، میں بھی تمہیں تمہاری کمروں سے پکڑ پکڑ کر آگ سے بچانے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن تم چھڑا چھڑا کے آگ میں جاتے ہو، انبیاء کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک مکمل خوبصورت گھر بنایا، لوگ اس کے گرد گھوم گھوم کر اسے دیکھتے اور کہتے ہیں کہ ہم نے اس سے بڑھ کر کوئی خوبصورت گھر نہیں دیکھا۔ اس میں صرف یہ تھوڑی سی کمی ہے، پس میں اس کمی کو پورا کرنے والا ہوں۔

Haidth Number: 11118
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رسالت اور نبوت کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے، میرے بعد کوئی رسول یا نبی نہیں آئے گا۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ یہ بات لوگوں پر شاق گزری تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (نبوت ورسالت کا سلسلہ تو بہرحال ختم ہو چکا ہے) تاہم خوش خبریوں کا سلسلہ باقی ہے۔ صحابہ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! خوشخبروں سے کیا مراد ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مسلمان آدمی کا خواب، جو کہ نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے۔

Haidth Number: 11119
سیدہ ام ہانی فاختہ بنت ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: فتح مکہ والے دن میں نے اپنے دو سسرالی رشتہ داروں کو پناہ دی اور ان کو گھر میں داخل کر کے دروازہ بند کر دیا، میری اپنی ماں کا بیٹا سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور ان پر تلوار سونت لی، میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئی، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے نہ مل سکے، البتہ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا موجود تھیں، لیکن وہ میرے معاملے میں مجھ پر اپنے خاوند سے بھی زیادہ سختی کرنے والی تھیں، اتنے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر گردو غبار کا اثر تھا، جب میں نے اپنی بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتائی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ام ہانی! جن کو تو نے پناہ دی، ہم نے بھی ان کو پناہ دی اور جن کو تو نے امن دیا، ہم نے بھی ان کو امن دے دیا۔

Haidth Number: 12002
سیدہ ام ہانی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں تشریف لائے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پانی طلب فرمایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پانی پی کر باقی پانی ان کو واپس دیا تو انہوںنے (آپ کا جوٹھا پانی) پی لیا اور پھر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں تو روزے سے تھی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نفلی روزے دار اپنے نفس کا خود امیر ہوتا ہے، چاہے تو روزہ پورا کر لے اور چاہے تو روزہ توڑ دے۔

Haidth Number: 12003
ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: سیدہ ام ہانی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے علاوہ کسی نے مجھے خبر نہیں دی کہ اس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہو، انھوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فتح مکہ والے دن اس کے گھر میں داخل ہوئے،غسل کیا اور آٹھ رکعات نماز پڑھی، تخفیف کے ساتھ رکوع و سجود کیے، (بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ) اس نے نبی کریمfکو اس سے ہلکی نماز پڑھتے کبھی نہیں دیکھا تھا، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رکوع و سجود مکمل کر رہے تھے۔

Haidth Number: 12004

۔ (۱۲۰۰۵)۔ عَنْ أُمِّ ہَانِیئٍ بِنْتِ أَبِی طَالِبٍ قَالَتْ: مَرَّ بِی ذَاتَ یَوْمٍ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی قَدْ کَبِرْتُ وَضَعُفْتُ أَوْ کَمَا قَالَتْ: فَمُرْنِی بِعَمَلٍ أَعْمَلُہُ وَأَنَا جَالِسَۃٌ، قَالَ: ((سَبِّحِی اللّٰہَ مِائَۃَ تَسْبِیحَۃٍ، فَإِنَّہَا تَعْدِلُ لَکِ مِائَۃَ رَقَبَۃٍ تُعْتِقِینَہَا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِیلَ، وَاحْمَدِی اللّٰہَ مِائَۃَ تَحْمِیدَۃٍ تَعْدِلُ لَکِ مِائَۃَ فَرَسٍ مُسْرَجَۃٍ مُلْجَمَۃٍ تَحْمِلِینَ عَلَیْہَا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ، وَکَبِّرِی اللّٰہَ مِائَۃَ تَکْبِیرَۃٍ فَإِنَّہَا تَعْدِلُ لَکِ مِائَۃَ بَدَنَۃٍ مُقَلَّدَۃٍ مُتَقَبَّلَۃٍ، وَہَلِّلِی اللّٰہَ مِائَۃَ تَہْلِیلَۃٍ۔)) قَالَ ابْنُ خَلَفٍ: أَحْسِبُہُ قَالَ: ((تَمْلَأُ مَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأَرْضِ، وَلَا یُرْفَعُ یَوْمَئِذٍ لِأَحَدٍ عَمَلٌ إِلَّا أَنْ یَأْتِیَ بِمِثْلِ مَا أَتَیْتِ بِہِ۔)) (مسند أحمد: ۲۷۴۵۰)

سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس سے گزرے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں عمر رسیدہ ہو گئی ہوں اور کمزور ہو گئی ہے، اس لیے مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں کہ بیٹھ کر کر لیا کروں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سو (۱۰۰) بار سُبْحَانَ اللّٰہ کہو، یہ عمل تمہارے لیے اولادِ اسماعیل سے سو گردنیں آزاد کرنے کے برابر ہو گا، سو (۱۰۰) دفعہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہو، یہ عمل تمہارے لیے اللہ کے راستے میں سو لگام شدہ اور زین شدہ گھوڑے دینے کے برابر ہو گا، سو (۱۰۰) بار اَللّٰہُ اَکْبَر کہو، یہ عمل تیرے لیے ان سو (۱۰۰) اونٹوں کے برابر ہو گا، جن کو قلادے ڈال کر حج کے زمانے میں مکہ مکرمہ کی طرف بھیج دیا جائے اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبول بھی کر لیے جائیں اور سو (۱۰۰) بار لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہو، یہ عمل آسمان و زمین کے درمیانی خلا کو ثواب سے بھر دے گا، اس دن کسی آدمی کا ایسا عظیم عمل اوپر کی طرف نہیں اٹھائے، الا یہ کہ وہ اسی طرح کا عمل کرے، جیسے تو نے کیا ہے۔

Haidth Number: 12005

۔ (۱۲۰۰۶)۔ عَنْ أُمِّ وَرَقَۃَ بِنْتِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَزُورُہَا کُلَّ جُمُعَۃٍ، وَأَنَّہَا قَالَتْ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! یَوْمَ بَدْرٍ أَتَأْذَنُ فَأَخْرُجُ مَعَکَ أُمَرِّضُ مَرْضَاکُمْ وَأُدَاوِی جَرْحَاکُمْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُہْدِی لِی شَہَادَۃً؟ قَالَ: ((قَرِّی فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یُہْدِی لَکِ شَہَادَۃً۔)) وَکَانَتْ أَعْتَقَتْ جَارِیَۃً لَہَا وَغُلَامًا عَنْ دُبُرٍ مِنْہَا، فَطَالَ عَلَیْہِمَا فَغَمَّاہَا فِی الْقَطِیفَۃِ حَتّٰی مَاتَتْ وَہَرَبَا، فَأَتَی عُمَرُ فَقِیلَ لَہُ إِنَّ أُمَّ وَرَقَۃَ قَدْ قَتَلَہَا غُلَامُہَا وَجَارِیَتُہَا وَہَرَبَا، فَقَامَ عُمَرُ فِی النَّاسِ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَزُورُ أُمَّ وَرَقَۃَ، یَقُولُ: انْطَلِقُوْا نَزُوْرُ الشَّہِیدَۃَ، وَإِنَّ فُلَانَۃَ جَارِیَتَہَا وَفُلَانًا غُلَامَہَا غَمَّاہَا ثُمَّ ہَرَبَا فَلَا یُؤْوِیہِمَا أَحَدٌ، وَمَنْ وَجَدَہُمَا فَلْیَأْتِ بِہِمَا، فَأُتِیَ بِہِمَا فَصُلِبَا فَکَانَا أَوَّلَ مَصْلُوبَیْنِ۔ (مسند احمد: ۲۷۸۲۵)

سیدہ ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہر جمعہ کے دن ان کی ملاقات کے لیے جایا کرتے تھے، بدر کے موقع پر انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! کیا مجھے اجازت ہے کہ میں آپ کے ساتھ چلوں تاکہ مریضوں کی تیمار داری اور زخمیوں کا علاج معالجہ کروں، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے مقام شہادت عطا فرما دے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنے گھر ہی ٹھہری رہو، اللہ تعالیٰ تمہیںیہیں شہادت سے سرفراز کرے گا۔ سیدہ ام ورقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے ایک غلام اور لونڈی کو مدبر کیا تھا (یعنی انہوںنے یہ اعلان کر دیا تھا کہ میری وفات کے بعد یہ دونوں آزاد ہوں گے۔) مگر اللہ کی قدرت کہ سیدہ ام ورقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی عمر طویل ہو گئی اور ان دو غلام اور لونڈی نے اپنی آزادی کے لالچ میں ان کے منہ اور ناک پر کس کر کپڑا لپیٹ کر ان کا سانس بند کرکے ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور خود فرار ہوگئے۔ امیر المومنین سیدناعمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں مقدمہ گیا اور ان سے کہا گیا کہ ان کو ان کے غلام اور لونڈی نے قتل کیا ہے اور خود فرار ہوگئے ہیں۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لوگوں میں کھڑے ہو کر خطاب کیا اور کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدہ ام ورقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی ملاقات کے لیے جایا کرتے اور کہا کرتے تھے کہ آئو شہیدہ کی ملاقات کو جائیں۔ ان کی فلاں لونڈی اور فلاں غلام نے ان کا سانس گھونٹ کر ان کو قتل کر دیا ہے اور فرار ہوگئے ہیں، کوئی بھی آدمی ان دونوں کو پناہ نہ دے اور جسے وہ دونوں ملیں، وہ ان کو ہمارے ہاں پیش کرے۔ چنانچہ ان دونوں کو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور انہیں پھانسی دے دی گئی، سب سے پہلے ان دونوں کو پھانسی دی گئی تھی۔

Haidth Number: 12006
ابومعشرکہتے ہیں کہ ابراہیم نخعیl، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس جایا کرتے تھے۔ حدیث کے راوی سعید بن ابی عروبہ نے اپنے شیخ ابو معشر سے دریافت کیا کہ وہ ان کی خدمت میں کیسے چلے جاتے تھے؟ انھوں نے کہا: وہ اپنے ماموں اسود کے ساتھ جاتے تھے، سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اور اسود کے مابین بھائی چارہ اور کافی الفت و محبت تھی۔

Haidth Number: 12007
حسن سے روایت ہے کہ احنف نے کہا: میں ایک دفعہ بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا کہ بنو سلیم کا ایک آدمی آ کر مجھے ملا اور اس نے مجھ سے کہا:کیا میں تمہیں ایک خوش خبری سنائوں؟ میں نے کہا: جی ضرور سنائیں۔ اس نے کہا: کیا آپ کو یاد ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے تمہاریقوم بنو سعد کی طرف روانہ فرمایا تھا تاکہ میں انہیں اسلام کی دعوت دوں تو تم نے اس موقع پر کہا تھا کہ اللہ کی قسم! اس رسول نے اچھی بات ہی کہی ہے اور میں نے بھی ان کے متعلق اچھا ہی سنا ہے، جب میں نے واپس آکر تمہاری بات سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو آگاہ کیا تو آپ نے یوں دعا کی تھی: اے اللہ! تو احنف کو بخش دے۔ انھوں نے کہا: پس مجھے سب سے زیادہ امید اسی دعا پر ہے۔

Haidth Number: 12008