Blog
Books
Search Hadith

غزوۂ بنو مصطلق میں واقعۂ افک کی وجہ سے اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی ابتلاء وآزمائش کا بیان

53 Hadiths Found
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک سرد صبح کو باہر نکلے اور دیکھا کہ مہاجرین اورانصار خندق کھود رہے ہیں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ! اصل بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے، پس تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما دے۔ صحابہ نے جواباً کہا: ہم وہ ہیں جنہوں نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر اس بات کی بیعت کی ہے کہ ہم جب تک زندہ رہیں گے جہاد کرتے رہیں گے۔

Haidth Number: 10759
۔( دوسری سند) سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر نکلے تو مہاجرین سخت سرد صبح کو خندق کھود رہے تھے، ان کے خادم نہیں تھے، (بلکہ وہ اپنا کام خود کیا کرتے تھے)، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اصل بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے، اے اللہ! تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما دے۔ صحابہ کرام نے جواباً کہا: ہم وہ لوگ ہیں، جنہوں نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر اس بات کی بیعت کی ہے کہ ہم جب تک زندہ رہیں گے جہاد کرتے رہیں گے، اور ہم میدان سے نہیں بھاگیں گے، اور ہم نہیں بھاگیں گے اور ہم نہیں بھاگیں گے۔

Haidth Number: 10760
سیدنا سہل بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ خندق کے موقع پر ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھے، صحابہ کرام خندق کھود رہے تھے اور ہم اپنے کندھوں پر مٹی اٹھا اٹھا کر منتقل کر رہے تھے، یہ منظر دیکھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! نہیں ہے کوئی زندگی، مگرآخرت کی زندگی، پس تو مہاجرین اور انصار کو بخش دے۔

Haidth Number: 10761
سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: مجھے خندق والے دن کی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کییہ بات نہیںبھولی، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صحابہ کرام کو اینٹیں پکڑا رہے تھے اور آپ کے سینہ مبارک کے بال غبار آلود ہو چکے تھے اور آپ یوں فرما رہے تھے: اے اللہ! اصل بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے، تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما دے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا تو فرمایا: سمیہ کے بیٹے پر افسوس ہے کہ اسے ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ حسن ابن سیرین کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کو محمد بن سیرین کے سامنے ذکر کیا تو انہوں نے کہا: کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی والدہ کا نام لے کر فرمایا تھا؟ میں نے کہا: جی ہاں، کیونکہ وہ( سمیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ) سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں آتی جاتی رہتی تھیں۔

Haidth Number: 10762

۔ (۱۰۷۶۳)۔ عَنِ الْبَرَاء ِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِحَفْرِ الْخَنْدَقِ، قَالَ: وَعَرَضَ لَنَا صَخْرَۃٌ فِی مَکَانٍ مِنَ الخَنْدَقِ لَا تَأْخُذُ فِیہَا الْمَعَاوِلُ، قَالَ: فَشَکَوْہَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ عَوْفٌ: وَأَحْسِبُہُ قَالَ وَضَعَ ثَوْبَہُ، ثُمَّ ہَبَط إِلَی الصَّخْرَۃِ فَأَخَذَ الْمِعْوَلَ، فَقَالَ: ((بِسْمِ اللّٰہِ۔)) فَضَرَبَ ضَرْبَۃً فَکَسَرَ ثُلُثَ الْحَجَرِ، وَقَالَ: ((اللّٰہُ أَکْبَرُ! أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ الشَّامِ، وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأُبْصِرُ قُصُورَہَا الْحُمْرَ مِنْ مَکَانِی ہٰذَا۔)) ثُمَّ قَالَ: ((بِسْمِ اللّٰہِ۔)) وَضَرَبَ أُخْرٰی فَکَسَرَ ثُلُثَ الْحَجَرِ فَقَالَ: ((اللّٰہُ أَکْبَرُ! أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ فَارِسَ، وَاللّٰہِ! إِنِّیلَأُبْصِرُ الْمَدَائِنَ وَأُبْصِرُ قَصْرَہَا الْأَبْیَضَ مِنْ مَکَانِی ہٰذَا۔))، ثُمَّ قَالَ: ((بِسْمِ اللّٰہِ۔)) وَضَرَبَ ضَرْبَۃً أُخْرٰی فَقَلَعَ بَقِیَّۃَ الْحَجَرِ، فَقَالَ: ((اللّٰہُ أَکْبَرُ! أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ الْیَمَنِ، وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأُبْصِرُ أَبْوَابَ صَنْعَائَ مِنْ مَکَانِی ہٰذَا۔))۔ (مسند احمد: ۱۸۸۹۸)

سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں خندق کھودنے کا حکم دیا، کھدائی کے دوران ایک مقام پر چٹان آگئی، جہاں گینتیاں کام نہیں کرتی تھیں، صحابہ کرام نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس کا شکوہ کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے، سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ سیدنا برائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ بھی بیان کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آکر اپنا کپڑا ایک طرف رکھا اور چٹان کی طرف گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے گینتی کو پکڑ کر بسم اللہ پڑھی اور اسے زور سے مارا ،چٹان کا ایک تہائی حصہ ٹوٹ گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زور سے فرمایا: اللہ اکبر، مجھے شام کی کنجیاں دے دی گئیں ہیں، اللہ کی قسم! میں اپنی اس جگہ سے اس وقت وہاں کے سرخ محلات کو دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوبارہ بسم اللہ پڑھ کر دوبارہ گنتی چلائی، چٹان کا دوسرا ایک تہائی ٹوٹ گیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زور سے اللہ اکبر کہا اور فرمایا: مجھے ایران کیچابیاں دے دی گئی ہیں، اللہ کی قسم میں مدائن کو اور وہان کے سفید محل کو اپنی اس جگہ سے اس وقت دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپ نے بسم اللہ پڑھ کر تیسری مرتبہ گینتی چلائی تو باقی چٹان بھی ریزہ ریزہ ہوگئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زور سے اللہ اکبر کہا اور فرمایا: مجھے یمن کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور میں اس وقت اس جگہ سے صنعاء کے دروازوں کو دیکھ رہا ہوں۔

Haidth Number: 10763
حارثہ بن مضرب سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا خباب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں گیا، وہ ایک بیماری کے علاج کے سلسلہ میں سات داغ لگوا چکے تھے، مگر کچھ افاقہ نہ ہوا تھا، انھوں نے کہا:اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا کہ تم میں سے کوئی آدمی موت کی تمنا نہ کرے۔ تو میں ضرور موت کی تمنا کرتا ۔ میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ اس حال میں دیکھا ہے کہ میرے پاس ایک بھی درہم نہیں ہوتا تھا اور اب یہ حال ہے کہ میرے گھر کے ایک کونے میں چالیس ہزار درہم موجود ہیں، اس کے بعد ان کے پاس ان کا کفن لایا گیا، وہ اسے دیکھ کر رونے لگے اور پھر کہا: ہمارے پاس ایسا کفن موجود ہے۔ لیکن سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے کہ ان کے کفن کے لیے محض ایک دھاری دار چادر تھی،ان کے سر پر ڈالی جاتی تو ان کے پائوں ننگے ہو جاتے اور جب ان کے پائوں پر ڈالی جاتی تو سر سے اتر جاتی، بالآخر اسے ان کے سر پر ڈال دیا گیا اور ان کے پائوں پر اذخرڈال دی گئی۔

Haidth Number: 11686
سیّدناخباب بن ارت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ہجرت کی، اس لیے اللہ تعالیٰ پر ہمارا ثواب ثابت ہو گیا( جیسا کہ اس نے وعدہ کیا ہے)۔ پھر ہم میں بعض لوگ ایسے تھے، جو اپنے عمل کا اجر کھائے بغیر اللہ کے پاس چلے گئے، ان میں سے ایک سیّدنا مصعب بن عمیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے، جو احد کے دن شہید ہو گئے، ہمیں ان کے کفن کے لیے صرف ایک چادر مل سکی اور وہ بھی اس قدر مختصر تھی کہ جب ہم ان کا سر ڈھانپتے تو پائوں ننگے ہو جاتے اور جب ان کے پائوں کو ڈھانپا جاتا تو سر ننگا ہو جاتا۔بالآخر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم ان کا سر ڈھانپ دیں اور ان کے پائوں پر اذخر (گھاس) ڈال دیں، جبکہ ہم میں بعض ایسے بھی ہیں جن کا پھل تیار ہو چکا اور اب وہ اسے چن رہا ہے۔

Haidth Number: 11687
سیدنا خباب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کفار کے مظالم کی شکایت کی، اس وقت آپ کعبہ کے سائے میں ایک چادر کو سر کے نیچے رکھے لیٹے ہوئے تھے۔ ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا: آپ اللہ تعالیٰ سے ہماری نصرت کی دعا کیوں نہیں فرماتے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے والے لوگوں پر یہ حالات بھی آئے کہ ایک آدمی کو زمین میں گڑھا کھود کر اس میں کھڑا کر دیا جاتا اور پھر اس کے سر پر آرا چلا کر اس کے دو ٹکڑے کر دیئے جاتے۔ اس قدر ظلم بھی ان لوگوں کو دین سے نہ ہٹانا۔ اور ان لوگوں کے جسموں پر لوہے کی کنگھیاں چلا دی جائیں اور وہ ان کی ہڈیوں اور پٹھوں کے اوپر سے گوشت ادھیڑ کر رکھ دیتیں۔ اس کے باوجود وہ لوگ دین سے پیچھے نہ ہٹتے۔ اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ ضرور بالضرور اپنے دین کو اس حد تک مکمل اور غالب کرے گا کہ ایک سوار مدینہ منورہ سے روانہ ہو کر حضر موت تک کا سفر کرے گا۔ اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا۔ حتیٰ کہ اسے اپنی بکریوں پر بھیڑیوں کے حملے کا بھی خوف نہ ہوگا۔ تم تو بہت جلدی کر رہے ہو۔

Haidth Number: 11688

۔ (۱۲۲۱۹)۔ عَنْ سِمَاکٍ، قَالَ سَمِعْتُ عِیَاضًا الْأَشْعَرِیَّ، قَالَ: شَہِدْتُ الْیَرْمُوکَ، وَعَلَیْنَا خَمْسَۃُ أُمَرَائَ، أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ وَیَزِیدُ بْنُ أَبِی سُفْیَانَ وَابْنُ حَسَنَۃَ وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ وَعِیَاضٌ، وَلَیْسَ عِیَاضٌ ہٰذَا بِالَّذِی حَدَّثَ سِمَاکًا، قَالَ: وَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: إِذَا کَانَ قِتَالٌ فَعَلَیْکُمْ أَبُو عُبَیْدَۃَ، قَالَ: فَکَتَبْنَا إِلَیْہِ أَ نَّہُ قَدْ جَاشَ إِلَیْنَا الْمَوْتُ وَاسْتَمْدَدْنَاہُ، فَکَتَبَ إِلَیْنَا إِنَّہُ قَدْ جَائَ نِی کِتَابُکُمْ تَسْتَمِدُّونِی، وَإِنِّی أَدُلُّکُمْ عَلٰی مَنْ ہُوَ أَعَزُّ نَصْرًا وَأَحْضَرُ جُنْدًا، اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فَاسْتَنْصِرُوہُ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ نُصِرَ یَوْمَ بَدْرٍ فِی أَقَلَّ مِنْ عِدَّتِکُمْ، فَإِذَا أَتَاکُمْ کِتَابِی ہٰذَا فَقَاتِلُوہُمْ، وَلَا تُرَاجِعُونِی، قَالَ: فَقَاتَلْنَاہُمْ، فَہَزَمْنَاہُمْ، وَقَتَلْنَاہُمْ أَرْبَعَ فَرَاسِخَ، قَالَ: وَأَصَبْنَا أَمْوَالًا فَتَشَاوَرُوا، فَأَشَارَ عَلَیْنَا عِیَاضٌ، أَنْ نُعْطِیَعَنْ کُلِّ رَأْسٍ عَشْرَۃً، قَالَ: وَقَالَ أَبُو عُبَیْدَۃَ: مَنْ یُرَاہِنِّی؟ فَقَالَ شَابٌّ: أَنَا إِنْ لَمْ تَغْضَبْ، قَالَ: فَسَبَقَہُ فَرَأَیْتُ عَقِیصَتَیْ أَبِی عُبَیْدَۃَ تَنْقُزَانِ، وَہُوَ خَلْفَہُ عَلٰی فَرَسٍ عَرَبِیٍّ۔ (مسند احمد: ۳۴۴)

عیاض اشعر ی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں یرموک کے معرکہ میں شامل تھا، پانچ افراد ہمارے اوپر امیر مقرر تھے، سیدنا ابو عبیدہ بن جراح، سیدنا یزید بن ابی سفیان، سیدنا ابن حسنہ، سیدنا خالد بن ولید اور سیدنا عیاض اس جگہ عیاض سے مراد وہ عیاض نہیں جس سے سماک حدیث بیان کرتے ہیں بلکہ یہ کوئی اور شخص ہے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ ہدایت دی تھی کہ جب لڑائی شروع ہو تو ابوعبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تمہارے امیر ہوں گے، ہم نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لکھا کہ موت ہمیں نگلنے کے لیے تیارہے، پھر ہم نے ان سے مزید کمک کا مطالبہ کیا۔ انہوںنے جواباً لکھا کہ مجھے تمہاراخط ملا ہے، تم لوگوں نے مجھے سے مزید کمک طلب کی ہے، میں بہت بڑی طاقت اور تعداد کی طرف تمہاری رہنمائی کرتاہوں، تم اللہ تعالیٰ سے نصرت مانگو، بدر کے دن تمہاری بہ نسبت تعداد بہت کم تھی، لیکن پھر بھی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مدد کی گئی تھی، میرا یہ خط جب تمہارے پاس پہنچے تو تم دشمن سے لڑائی شروع کر دینا اور مجھ سے مدد طلب نہ کرنا۔ عیاض کہتے ہیں: جب ہماری دشمن سے لڑائی ہوئی تو ہم نے ان کو شکست دے دی اور ہم نے بارہ میل تک انہیں قتل کیا اور ہمیں بہت سارامالِ غنیمت حاصل ہوا، جب لوگوں نے آپس میں مشاورت کی توعیاض نے ہمیں مشورہ دیاکہ ہم ہر سر کی طرف سے دس دیں۔ سیدنا ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم میں سے کون ہے جو گھڑ دوڑ میں مجھ سے بازی لگائے گا؟ ایک نوجوان نے کہا: اگرآپ ناراض نہ ہوں تو میں حاضر ہوں، چنانچہ وہ آگے آیا، میں نے سیدنا ابو عبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی دونوں لٹوں کودیکھا کہ وہ ہوا میں لہرا رہی تھیں، وہ نوجوان ان کے پیچھے اور ایک عربی گھوڑے پر سوار تھا یعنی وہ نوجوان ابو عبیدہ کے مقابلہ میں پیچھے رہ گیا۔

Haidth Number: 12219
سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ سفر سے واپس ہوئے اور ہم ذوالحلیفہ میں ٹھہرے، کچھ لوگ تو مدینہ منورہ کی طرف جلدی چلے گئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رات وہیں بسر کی اور ہم نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ہی رات گزاری، صبح ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان حضرات کے متعلق پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟ بتلایا گیا کہ وہ تو مدینہ کی طرف جلدی چلے گئے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ مدینہ کی طرف اور اپنی بیویوں کی طرف جلدی چلے گئے، خبردار! عنقریب ایک دور آئے گا کہ مدینہ کی اچھی بھلی حالت ہونے کے باوجود یہ مدینہ کو چھوڑ جائیں گے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کاش کہ مجھے علم ہو کہ یمن کے جبل وارق سے کب وہ آگ نمودار ہوگی، جس سے بصریٰ میں بیٹھے ہوئے اونٹوں کی گردنیں یوں چمکیں گی، جیسے دن میں چمکتی ہیں۔

Haidth Number: 12665

۔ (۱۲۶۶۶)۔ عَنْ مِحْجَنِ بْنِ الْأَدْرَعِ قَالَ: قَالَ رَجَائٌ: أَقْبَلْتُ مَعَ مِحْجَنٍ ذَاتَ یَوْمٍ حَتّٰی إِذَا انْتَہَیْنَا إِلٰی مَسْجِدِ الْبَصْرَۃِ، فَوَجَدْنَا بُرَیْدَۃَ الْأَسْلَمِیَّ عَلٰی بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ جَالِسًا، قَالَ: وَکَانَ فِی الْمَسْجِدِ رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ: سُکْبَۃُیُطِیلُ الصَّلَاۃَ، فَلَمَّا انْتَہَیْنَا إِلٰی بَابِ الْمَسْجِدِ وَعَلَیْہِ بُرَیْدَۃُ، قَالَ: وَکَانَ بُرَیْدَۃُ صَاحِبَ مُزَاحَاتٍ، قَالَ: یَا مِحْجَنُ! أَلَا تُصَلِّی کَمَا یُصَلِّی سُکْبَۃُ؟ قَالَ: فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْہِ مِحْجَنٌ شَیْئًا وَرَجَعَ، قَالَ: وَقَالَ لِی مِحْجَنٌ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِیَدِی فَانْطَلَقَ یَمْشِی حَتّٰی صَعِدَ أُحُدًا، فَأَشْرَفَ عَلَی الْمَدِینَۃِ، فَقَالَ: ((وَیْلُ أُمِّہَا مِنْ قَرْیَۃٍیَتْرُکُہَا أَہْلُہَا کَأَعْمَرِ مَا تَکُونُ یَأْتِیہَا الدَّجَّالُ، فَیَجِدُ عَلٰی کُلِّ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِہَا مَلَکًا مُصْلِتًا، فَلَا یَدْخُلُہَا۔)) قَالَ: ثُمَّ انْحَدَرَ حَتّٰی إِذَا کُنَّا بِسُدَّۃِ الْمَسْجِدِ رَأٰی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلًا یُصَلِّی فِی الْمَسْجِدِ، وَیَسْجُدُ وَیَرْکَعُ وَیَسْجُدُ وَیَرْکَعُ، قَالَ: فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((مَنْ ہَذَا؟)) قَالَ: فَأَخَذْتُ أُطْرِیہِ لَہُ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ہٰذَا فُلَانٌ وَہٰذَا وَہٰذَا، قَالَ: ((اسْکُتْ لَا تُسْمِعْہُ فَتُہْلِکَہُ۔)) قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ یَمْشِی حَتّٰی إِذَا کُنَّا عِنْدَ حُجْرَۃٍ لٰکِنَّہُ رَفَضَ یَدِی ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّ خَیْرَ دِینِکُمْ أَیْسَرُہُ، إِنَّ خَیْرَ دِینِکُمْ أَیْسَرُہُ، إِنَّ خَیْرَ دِینِکُمْ أَیْسَرُہُ۔)) (مسند احمد: ۲۰۶۱۷)

محجن بن ادرع سے مروی ہے کہ رجاء کہتے ہیں: میں ایک روز محجن کے ہمراہ آیا اور ہم بصرہ کی مسجد میں جاپہنچے، مسجد کے ایک دروزے پر ہم نے بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بیٹھے ہوئے پایا، مسجد میں سکبہ نامی ایک شخص تھا، وہ کافی طویل نماز پڑھتا تھا، جب ہم مسجد کے دروازے پر واپس آئے تو سیدنا بریدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ وہیں موجود تھے، وہ بڑے صاحب مزاح تھے، کہنے لگے: ارے محجن! کیا تم اس طرح نماز نہیں پڑھتے، جیسے سکبہ پڑھتا ہے؟ تو محجن نے کوئی جواب نہ دیا اور واپس آگئے، رجاء کہتے ہیں: محجن نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور چل پڑے، یہاں تک کہ احد کے اوپر چلے گئے، آپ نے مدینہ کی طرف جھانک کر فرمایا: افسوس ہے اس بستی پر کہ جب یہ خوب آباد ہوگی، یہاں کے باشندے اسے چھوڑ دیں گے یعنی یہاں سے نقل مکانی کر جائیں گے۔ (ایک روایت ہے محجن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے نبی! تب یہاں کے پھل وغیرہ کون کھائے گا؟ آپ نے فرمایا: پرندے اور درندے) دجال اس بستی کی طرف آئے گا تو وہ اس کے ہر دروازے پر تلوار سونتے ہوئے فرشتے کو دیکھے گا اور اس میں داخل نہ ہو سکے گا۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نیچے کو اترے، جب ہم مسجد کے دروازے پر پہنچے، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک آدمی کو مسجد میں نماز پڑھتے دیکھا بس وہ رکوع و سجود ہی کیے جا رہا تھا، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے پوچھا: یہ کون ہے؟ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ارشاد کے بعد اسے غور سے دیکھنا شروع کیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ فلاں آدمی ہے، یہ فلاں ہے اور یہ فلاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خاموش رہو، یہ الفاظ اسے سنا کر تم اسے ہلاکت میں ڈال دو گے۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چل پڑے، یہاں تک کہ جب ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حجرہ کے قریب پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اورفرمایا: تمہارا بہترین دین وہ ہے، جو سب سے آسان ہو، تمہارا بہترین دین وہ ہے، جس میں سب سے زیادہ آسانی ہو، تمہارا بہترین دین وہ ہے جو سب سے آسان ہو۔

Haidth Number: 12666
سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اہل مدینہ، مدینہ کو چھوڑ جائیں گے، حالانکہ یہ ہر لحاظ سے خوش گوار اور آسودہ زندگی والاہو گا اور اس کے پھل خوب پکے ہوئے ہوں گے۔ کسی نے کہا: تب وہاں کے پھل وغیرہ کون کھائے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پرندے اور درندے۔

Haidth Number: 12667
۔ (دوسری سند) سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مدینہ کے متعلق فرمایا: تم لوگ خوش حالی کے باوجود اس شہر کو درندوں اور پرندوں کے لیے چھوڑ جاؤ گے۔

Haidth Number: 12668
سیدناجابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مدینہ اگر چہ تازہ کھجوروں والا ہوگا، مگر اہل مدینہ اسے چھوڑ جائیں گے۔ صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! یہاں (کے پھل اور غلہ وغیرہ) کون کھائے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: درندے اور پرندے۔ ابو عوانہ نے کہا: مجھے بتایا گیا کہ ابو بشر نے کہا ہے کہ یہ حدیث سلیمان بن قیس کی کتاب میں تھی۔

Haidth Number: 12669
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مدینہ کی وادی کے قریب سے کوئی سوار گزرتے ہوئے کہے گا کہ کبھی ا س شہر میں اہل ایمان کی بہت بڑی آبادی ہوتی تھی۔

Haidth Number: 12670
سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک سوار مدینہ کے پاس سے گزرتے ہوئے کہے گا کہ کبھی اس شہر میں اہل ایمان کی بڑی تعداد ہوا کرتی تھی۔ امام احمد بن حنبل نے کہا: حسن اشیب نے جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے آگے تجاوز نہیں کیا۔ (یعنی عمر بن خطاب کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ مسند جابر کے انداز میں حدیث بیان کی ہے)

Haidth Number: 12671

۔ (۱۳۰۱۶)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَلْاَنْبِیَائُ اِخْوَۃٌ لِعَلاَّتٍ، اُمَّہَاتُہُمْ شَتّٰی وَدِیْنُہُمْ وَاحِدٌ، وَاَنَا اَوْلٰی النَّاسِ بِعِیْسٰی بْنِ مَرْیَمَ، لِاَنَّہُ لَمْ یَکُنْ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُ نَبِیٌّ وَاِنَّہُ نَازِلٌ فَاِذَا رَاَیْتُمُوْہُ فَاعْرِفُوْہُ رَجُلًا مَرْبُوْعًا اِلٰی الْحُمْرَۃِ وَالْبَیَاضِ، عَلَیْہِ ثَوْبَانِ مُمَصَّرَانِ، کَاَنَّ رَاْسَہُ یَقْطُرُ وَاِنْ لَمْ یُصِبْہُ بَلَلٌ، فَیَدُقُّ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ وَیَدْعُو النَّاسَ اِلَی الْاِسْلَامِ، فَیُہْلِکُ اللّٰہُ فِیْ زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلَّہَا اِلَّا الْاِسْلَامَ وَیُہْلِکُ اللّٰہُ فِیْ زَمَانِہِ الْمَسِیْحَ الدَّجَّالَ وَتَقَعُ الْاَمَنَۃُ عَلٰی الْاَرْضِ حَتّٰی تَرْتَعَ الْاَسْوَدُ مَعَ الْاِبِلِ وَالنِّمَارُ مَعَ الْبَقَرِ وَالذِّئَابُ مَعَ الْغَنَمِ وَیَلْعَبُ الصِّبْیَانُ بِالْحَیَّاتِ لَا تَضُرُّھُمْ، فَیَمْکُثُ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ثُمَّ یُتَوَفّٰی وَیُصَلِّیْ عَلَیْہِ الْمُسْلِمُوْنَ۔)) زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ ((وَیَدْفُنُوْنَہُ۔)) (مسند احمد: ۹۲۵۹)

سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انبیا علاتی بھائی ہیں، (یعنی ان کا باپ ایک ہے اور) مائیں مختلف ہیں اور ان کا دین ایک ہے اور میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے سب سے زیادہ قریب ہوں کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے اور وہ (میری امت میں) اترنے والے ہیں۔ تم جب ان کو دیکھو تو پہچان لینا، وہ درمیانے قد کے ہیں، ان کا رنگ سرخی سفیدی مائل ہے، وہ دو سوتی چادروں میں ملبوس ہوں گے، جب وہ اتریں گے تو ایسے لگیں گے کہ گویا کہ ان کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے، اگرچہ ان کو گیلا نہیں کیا ہو گا، وہ لوگوں سے اسلام پر قتال کریں گے، صلیب توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ (کا تصور) ختم ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ ان کے زمانے میںاسلام کے علاوہ تمام (باطل) مذاہب کو نیست و نابود کر دے گا اور مسیح دجال کو بھی ہلاک کر دے گا۔ اور (ان کے زمانے میں) زمین میں اتنا امن ہو گا کہ سانپ اونٹوں کے ساتھ، چیتے گائیوں کے ساتھ اور بھیڑیئے بکریوں کے ساتھ چریں گے اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے اور وہ انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے، حضرت عیسی علیہ السلام زمین میں چالیس سال قیام کرنے کے بعد فوت ہو جائیں گے اور مسلمان ان کی نمازِ جنازہ پڑھیں گے۔ اور ایک روایت میں ہے: پھر ان کو دفن کریں گے۔

Haidth Number: 13016
۔ (دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ بھی پہلی سند والی حدیث کے ہم معنی ہی ہے، البتہ اس میں ہے: ان کے زمانے میں گمراہی والا کانا اور جھوٹا مسیح ہلاک ہوجائے گا۔

Haidth Number: 13017

۔ (۱۳۰۱۸)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا یَزِیْدٌ اَنَا سُفْیَانُ عَنِ الزُّھْرِیِّ عَنْ حَنْظَلَۃَ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَنْزِلُ عِیْسٰی بْنُ مَرْیَمَ فَیَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ وَیَمْحُوْ الصَّلِیْبَوَتُجْمَعُ لَہُ الصَّلَاۃُ وَیُعْطِی الْمَالَ حَتّٰی لَایَقْبَلَہُ وَیَضَعُ الْخِرَاجَ وَیَنْزِلُ الرَّوْحَائَ وَیَحُجُّ مِنْہَا اَوْ یَعْتَمِرُ اَوْ یَجْمَعُہُمَا۔)) قَالَ: وَتَلَا اَبُوْ ھُرَیْرَۃَ: {وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ اِلَّا لَیُوْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖوَیَوْمَ الْقِیَامَۃِیَکُوْنُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا۔} فَزَعَمَ حَنْظَلَۃُ اَنَّ اَبَا ھُرَیْرَۃَ قَالَ: یُوْمِنُ بِہٖقَبْلَمَوْتِہٖعِیْسٰی، فَلَا اَدْرِیْ ہٰذَا کُلُّہُ حَدِیثُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَوْشَیْئٌ قَالَہُ اَبُوْ ھُرَیْرَۃَ۔ (مسند احمد: ۷۸۹۰)

سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے زمین پر نازل ہوں گے، خنزیر کو قتل کر دیں گے، صلیب کو مٹا دیں گے، ان کی آمد پر نماز با جماعت اداکی جائے گی، وہ لوگوں میں اس قدر مال و دولت تقسیم کریں گے کہ بالآخر کوئی مال قبول نہیں کرے گا، وہ جزیہ کو ختم کر دیںگے اور وہ روحاء مقام پر اتر کر وہاں سے حج یا عمرے یا دونوں کا احرام باندھ کر روانہ ہوں گے۔ پھر سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ آیت تلاوت کی: {وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ اِلَّا لَیُوْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا۔}(سورۂ نسائ: ۱۵۹) (اور تمام اہل کتاب عیسیٰ علیہ السلام پر ان کی وفات سے پہلے پہلے ایمان لے آئیں گے اور وہ قیامت کے دن ان سب پر گواہ ہوں گے)۔ حنظلہ کا خیال ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس طرح کہا تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے، اب میں نہیں جانتا کہ یہ سارے الفاظ حدیث نبوی کے ہیں یا سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے۔

Haidth Number: 13018
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! ابن مریم علیہ السلام روحائ کے کشادہ راستے سے حج یا عمرے یا دونوں کا تلبیہ کہیں گے۔

Haidth Number: 13019
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے امیدہے کہ اگر میری عمرطویل ہوئی تو عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سے میری ملاقات ہوجائے گی اور اگر میری موت جلدی آ گئی تو تم میں سے جس کی ان سے ملاقات ہو، وہ انہیں میری طرف سے سلام پہنچا دے۔

Haidth Number: 13020
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عنقریب مسیح بن مریم علیہ السلام ایک عادل اور منصف حکمران کی حیثیت سے تشریف لائیں گے، وہ خنزیر کو قتل کر دیں گے، صلیب کو توڑ ڈالیں گے اور دین ایک ہوجائے گا، تم انہیں رسول اللہ کا سلام پہنچا دینا، اگر یہ ہوا کہ میں ان سے گفتگو کروں تو وہ میری تصدیق کریں گے۔ پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم انہیںمیری طرف سے سلام پہنچا دینا۔

Haidth Number: 13021
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا، جب عیسیٰ بن مریم علیہ السلام تمہارے درمیان اتریں گے اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا۔

Haidth Number: 13022