Blog
Books
Search Hadith

اس چیز کا بیان کہ جب کافر کا غلام مسلمان ہو کر ہمارے پاس آ جائے تو وہ آزاد ہو گا

17 Hadiths Found
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ جو غلام اپنے مالکوں سے پہلے مسلمان ہو کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ جاتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو آزاد کر دیتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طائف والے دن اس طرح کے دو آدمیوں کو آزاد کیا تھا۔

Haidth Number: 5120
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اہل طائف کا محاصرہ کر لیا، ان کے دو غلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو آزاد کر دیا، ان میں سے ایک سیدنا ابو بکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ ویسے جب بھی غلام مسلمان ہو کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آتے تھے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو آزاد کر دیتے تھے۔

Haidth Number: 5121
۔ (تیسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طائف والے دن فرمایا: جو غلام ہمارے پاس آ جائیں گے، وہ آزاد ہوں گے۔ پھر ابوبکرہ سمیت کچھ غلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آگئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو آزاد کر دیا۔

Haidth Number: 5122
۔ (چوتھی سند) راوی کہتے ہیں: طائف والے دن مشرکوں کے جو غلام نکل کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو آزاد کر دیا تھا۔

Haidth Number: 5123
۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اب اس آیت کے نزول کے بعد کیسے ممکن ہے کہ آدمی نیکی اور راست روی سے متصف ہو: {لَیْسَ بِأَ مَانِیِّکُمْ وَلَا أَ مَانِیِّ أَ ہْلِ الْکِتَابِ مَنْ یَعْمَلْ سُوئًا یُجْزَ بِہِ}… دین نہ تمھاری آرزوئیں ہیں اور نہ اہل کتاب کی آرزوئیں،جو بھی کوئی برائی کرے گا اسے اس کی جزا دی جائے گی۔ ہم جو برا عمل بھی کرتے ہیں، اس کا ہمیں بدلہ دیا جائے گا؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابو بکر! اللہ تعالیٰ تم کو معاف کرے، کیا تم بیمار نہیں ہوتے؟ کیا تمہیں تھکاوٹ نہیں ہوتی؟ کیا تم غمگین نہیں ہوتے؟ کیا تم شدت اور تنگی میں مبتلا نہیں ہوتے؟ میں نے کہا: جی کیوں نہیں، ہوتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہی وہ چیز ہے، جو تمہیں بدلہ دیا جا رہا ہے۔ ایک روایت میں ہے: یہ اسی کے عوض میں ہے۔

Haidth Number: 8567
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: {مَنْ یَعْمَلْ سُوئً ا یُجْزَ بِہِ}… جو بھی کوئی برائی کرے گا اسے اس کی جزا دی جائے گی۔ تو یہ مسلمانوں پر بہت گراں گزری اور بہت زیادہ غمگین ہو گئے اور انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس کی شکایت کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میانہ روی اختیار کرو اور راہِ صواب پر چلتے رہو، مسلمان کو جو تکلیف بھی پہنچتی ہے، وہ اس کے لیے کفارہ بنتی ہے، یہاں تک کہ وہ مصیبت جو اسے لاحق ہوتی ہے اور وہ کانٹا جو اس کو چبھتا ہے۔

Haidth Number: 8568
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے یہ آیت تلاوت کی: {مَنْ یَعْمَلْ سُوئً ا یُجْزَ بِہِ}… جو بھی کوئی برائی کرے گا اسے اس کی جزا دی جائے گی۔ اور پھر کہا: اگر ہمیں ہر برے عمل کا بدلہ ملا تو ہم تو مارے جائیں گے، جب یہ بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں! (بدلہ تو ہر برے عمل کا ملتا ہے) لیکن ایمانداروں کو دنیا میں تکلیف دینے والی جو مصیبت لاحق ہوتی ہے، یہ ان (کے گناہوں کا) بدلہ ہوتا ہے۔

Haidth Number: 8569

۔ (۱۰۸۱۹)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ خَیْبَرُ أُہْدِیَتْ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَاۃٌ فِیہَا سُمٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اجْمَعُوا لِی مَنْ کَانَ ہَاہُنَا مِنَ الْیَہُودِ۔)) فَجَمَعُوا لَہُ، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنِّی سَائِلُکُمْ عَنْ شَیْئٍ، فَہَلْ أَنْتُمْ صَادِقِیَّ عَنْہُ؟)) قَالُوا: نَعَمْ، یَا أَبَا الْقَاسِمِ!، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَنْ أَبُوکُمْ؟)) قَالُوا: أَبُونَا فُلَانٌ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((کَذَبْتُمْ، أَبُوکُمْ فُلَانٌ۔)) قَالُوا: صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ، قَالَ لَہُمْ: ((ہَلْ أَنْتُمْ صَادِقِیَّ عَنْ شَیْئٍ سَأَلْتُکُمْ عَنْہُ؟)) قَالُوا: نَعَمْ، یَا أَبَا الْقَاسِمِ، وَإِنْ کَذَبْنَاکَ عَرَفْتَ کَذِبَنَا کَمَا عَرَفْتَہُ فِی أَبِینَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَنْ أَہْلُ النَّارِ؟)) قَالُوا: نَکُونُ فِیہَایَسِیرًا ثُمَّ تَخْلُفُونَنَا فِیہَا، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا نَخْلُفُکُمْ فِیہَا أَبَدًا۔)) ثُمَّ قَالَ لَہُمْ: ((ہَلْ أَنْتُمْ صَادِقِیَّ عَنْ شَیْئٍ سَأَلْتُکُمْ عَنْہُ؟)) فَقَالُوا: نَعَمْ، یَا أَبَا الْقَاسِمِ!، فَقَالَ: ((ہَلْ جَعَلْتُمْ فِی ہٰذِہِ الشَّاۃِ سُمًّا؟)) قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: ((فَمَا حَمَلَکُمْ عَلٰی ذٰلِکَ؟)) قَالُوْا: أَرَدْنَا إِنْ کُنْتَ کَاذِبًا نَسْتَرِیحُ مِنْکَ، وَإِنْ کُنْتَ نَبِیًّا لَمْ تَضُرَّکَ۔ (مسند احمد: ۹۸۲۶)

سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب خیبر فتح ہوا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں یہودیوں کی طرف سے ایک زہر آلود بکری بھیجی گئی،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہاں جتنے یہودی ہیں، سب کو اکٹھا کرو ۔ پس ان کو جمع کیا گیا، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: میں تم لوگوں سے ایک چیز کے متعلق پوچھنے والا ہوں، کیا تم اس کے متعلق میرے ساتھ صحیح صحیح بات کرو گے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں اے ابو القاسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: تمہارا باپ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا باپ فلاں ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم غلط کہہ رہے ہو، تمہارا باپ تو فلاں ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات سن کر وہ بولے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بالکل درست فرمایا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے پھر فرمایا: میں تم سے ایک چیز کے متعلق پوچھتا ہوں، کیاتم مجھے سچ سچ بتلاؤ گے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں اے ابو القاسم! اور اگر ہم نے آپ سے غلط بیانی کی تو آپ کو اس کا علم ہو ہی جائے گا، جیسا کہ آپ ہمارے والد کے متعلق بیان میں جان چکے ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: اہلِ نار کون ہیں؟ وہ بولے کہ ہم اس میں کچھ عرصہ رہیں گے، ہمارے بعد آپ لوگ اس میں جائیں گے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے بعد ہم اس میں کبھی بھی نہیں جائیں گے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: میں تم سے ایک چیز کے متعلق دریافت کرتا ہوں، کیا تم مجھ سے سچ بولو گے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں اے ابو القاسم! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اس بکری میں زہر ڈالا ہے؟ انھوں نے کہا:جی ہاں، ڈالا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہیں اس کا م پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ انھوں نے کہا: ہم نے سوچا کہ آپ اگر جھوٹے ہیں تو ہمیں آپ سے راحت مل جائے گی اور اگر آپ سچے نبی ہیں تو یہ آپ کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکے گی۔

Haidth Number: 10819
سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایکیہودی عورت نے ایک زہریلی بکری رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے علم ہونے پر اسے پیغام بھیج کر بلوایا اور دریافت فرمایا: تجھے اس حرکت پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ اس نے کہا: میں نے ارادہ کیا تھا کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس کے بارے میں مطلع کر دے گا اور اگر آپ سچے نبی نہیں ہیں تو اس طرح میں لوگوں کو آپ سے راحت دلا دوں گی۔ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بعد میں جب بھی اس زہر کا اثر محسوس کرتے تو سینگی لگوا لیتے، ایک دفعہ آپ سفر میںتھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے احرام باندھا تو اس زہر کا اثر محسوس ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سینگی لگوالی۔

Haidth Number: 10820

۔ (۱۱۷۳۵)۔ (۱۱۴۹۲)۔ عَنْ سَفِیْنَۃَ اَبِیْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ: اَعْتَقَتْنِیْ اُمُّ سَلَمَۃَ وَاشْتَرَطَتْ عَلَیَّ اَنْ اَخْدُمَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا عَاشَ۔ (مسند احمد: ۲۲۲۷۲) (۱۱۷۳۶)۔ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَۃَ الْعَبْسِیُّ کُوفِیٌّ، حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ جُمْہَانَ، حَدَّثَنِی سَفِینَۃُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((الْخِلَافَۃُ فِی أُمَّتِی ثَلَاثُونَ سَنَۃً ثُمَّ مُلْکًا بَعْدَ ذٰلِکَ۔)) ثُمَّ قَالَ لِی سَفِینَۃُ: أَمْسِکْ خِلَافَۃَ أَبِی بَکْرٍ وَخِلَافَۃَ عُمَرَ وَخِلَافَۃَ عُثْمَانَ وَأَمْسِکْ خِلَافَۃَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ، قَالَ: فَوَجَدْنَاہَا ثَلَاثِینَ سَنَۃً، ثُمَّ نَظَرْتُ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْخُلَفَائِ فَلَمْ أَجِدْہُ یَتَّفِقُ لَہُمْ ثَلَاثُونَ، فَقُلْتُ لِسَعِیدٍ: أَیْنَ لَقِیتَ سَفِینَۃَ؟ قَالَ: لَقِیتُہُ بِبَطْنِ نَخْلٍ فِی زَمَنِ الْحَجَّاجِ فَأَقَمْتُ عِنْدَہُ ثَمَانِ لَیَالٍ أَسْأَلُہُ عَنْ أَحَادِیثِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قُلْتُ لَہُ: مَا اسْمُکَ؟ قَالَ: مَا أَنَا بِمُخْبِرِکَ سَمَّانِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَفِینَۃَ، قُلْتُ: وَلِمَ سَمَّاکَ سَفِینَۃَ؟ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَعَہُ أَصْحَابُہُ فَثَقُلَ عَلَیْہِمْ مَتَاعُہُمْ فَقَالَ: ((لِی ابْسُطْ کِسَائَکَ؟)) فَبَسَطْتُہُ فَجَعَلُوْا فِیہِ مَتَاعَہُمْ ثُمَّ حَمَلُوہُ عَلَیَّ، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((احْمِلْ فَإِنَّمَا أَنْتَ سَفِینَۃُ۔)) فَلَوْ حَمَلْتُ یَوْمَئِذٍ وِقْرَ بَعِیرٍ أَوْ بَعِیرَیْنِ أَوْ ثَلَاثَۃٍ أَوْ أَرْبَعَۃٍ أَوْ خَمْسَۃٍ أَوْ سِتَّۃٍ أَوْ سَبْعَۃٍ مَا ثَقُلَ عَلَیَّ إِلَّا أَنْ یَجْفُوْا۔ (مسند احمد: ۲۲۲۷۴)

ابو عبد الرحمن سیدنا سفینہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے آزاد کیا اور مجھ پر یہ شرط عائد کی کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب تک زندہ رہیں، میں ان کی خدمت کرتا رہوں گا۔

Haidth Number: 11735

۔ (۱۱۷۳۶)۔ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَۃَ الْعَبْسِیُّ کُوفِیٌّ، حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ جُمْہَانَ، حَدَّثَنِی سَفِینَۃُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((الْخِلَافَۃُ فِی أُمَّتِی ثَلَاثُونَ سَنَۃً ثُمَّ مُلْکًا بَعْدَ ذٰلِکَ۔)) ثُمَّ قَالَ لِی سَفِینَۃُ: أَمْسِکْ خِلَافَۃَ أَبِی بَکْرٍ وَخِلَافَۃَ عُمَرَ وَخِلَافَۃَ عُثْمَانَ وَأَمْسِکْ خِلَافَۃَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ، قَالَ: فَوَجَدْنَاہَا ثَلَاثِینَ سَنَۃً، ثُمَّ نَظَرْتُ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْخُلَفَائِ فَلَمْ أَجِدْہُ یَتَّفِقُ لَہُمْ ثَلَاثُونَ، فَقُلْتُ لِسَعِیدٍ: أَیْنَ لَقِیتَ سَفِینَۃَ؟ قَالَ: لَقِیتُہُ بِبَطْنِ نَخْلٍ فِی زَمَنِ الْحَجَّاجِ فَأَقَمْتُ عِنْدَہُ ثَمَانِ لَیَالٍ أَسْأَلُہُ عَنْ أَحَادِیثِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قُلْتُ لَہُ: مَا اسْمُکَ؟ قَالَ: مَا أَنَا بِمُخْبِرِکَ سَمَّانِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَفِینَۃَ، قُلْتُ: وَلِمَ سَمَّاکَ سَفِینَۃَ؟ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَعَہُ أَصْحَابُہُ فَثَقُلَ عَلَیْہِمْ مَتَاعُہُمْ فَقَالَ: ((لِی ابْسُطْ کِسَائَکَ؟)) فَبَسَطْتُہُ فَجَعَلُوْا فِیہِ مَتَاعَہُمْ ثُمَّ حَمَلُوہُ عَلَیَّ، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((احْمِلْ فَإِنَّمَا أَنْتَ سَفِینَۃُ۔)) فَلَوْ حَمَلْتُ یَوْمَئِذٍ وِقْرَ بَعِیرٍ أَوْ بَعِیرَیْنِ أَوْ ثَلَاثَۃٍ أَوْ أَرْبَعَۃٍ أَوْ خَمْسَۃٍ أَوْ سِتَّۃٍ أَوْ سَبْعَۃٍ مَا ثَقُلَ عَلَیَّ إِلَّا أَنْ یَجْفُوْا۔ (مسند احمد: ۲۲۲۷۴)

سیدنا سفینہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت میں خلافت کا زمانہ تیس سال تک ہے۔ اس کے بعد ملوکیت آجائے گی۔ پھر سیدنا سفینہ نے مجھ (سعید بن جمہان) سے کہا: تم سیدنا ابو بکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان اور سیدنا علی کے ادوار خلافت کو شمار کرو، ہم نے ان تمام ادوار کے مجموعہ کو تیس سال پایا۔ میں نے ان سے بعد کے خلفاء کے ادوار پر بھی نظر ڈالی، مگر مجھے ان میں تیس سال پورے ہوتے دکھائی نہیں دیئے۔ میں نے (یعنی حشرح بن نباتہ عبسی کوفی نے)سعید سے دریافت کیا: آپ کی سفینہ سے کہاں ملاقات ہوئی تھی؟ انہوںنے بتلایا کہ حجاج کے دور حکومت میں بطن نخل میں میری ان سے ملاقات ہوئی تھی اور میں نے ان کے ہاں آٹھ رات قیام کیا تھا۔ میں ان سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی احادیث کے بارے میں دریافت کرتا رہا، میں نے ان سے دریافت کیا کہ تمہارا اصل نام کیا ہے؟ انھوں نے کہا: یہ میں آپ کو نہیں بتلائوں گا، البتہ یہ بات ہے کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا نام سفینہ رکھا ہے۔ میں نے پوچھا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تمہارا نام سفینہ کس وجہ سے رکھا ؟ انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابہ سفر پر جا رہے تھے، سامان اٹھانا ان کے لیے بوجھ اور مشقت کا سبب بنا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اپنی چادر بچھائو، میں نے چادر بچھائی تو سب لوگوں نے اپنا اپنا سامان اس میں ڈال کر مجھے اٹھوا دیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اٹھا لو، تم تو سفینہ (یعنی کشتی) ہو۔ آپ کے اس کلام کی برکت سے میں اس دن ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھ یا سات اونٹوں کے اٹھائے جانے والے وزن کے برابر بھی اٹھاتا تو مجھے بوجھل محسوس نہ ہوتا۔ الایہ کو لوگ (قافلہ) مجھ سے آگے نکل جاتے۔

Haidth Number: 11736

۔ (۱۲۲۶۴)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ أَبِی الْبَخْتَرِیِّ الطَّائِیِّ، عَنْ أَبِی ثَوْرٍ قَالَ: بَعَثَ عُثْمَانُ یَوْمَ الْجَرَعَۃِ بِسَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: فَخَرَجُوا إِلَیْہِ فَرَدُّوہُ، قَالَ: فَکُنْتُ قَاعِدًا مَعَ أَبِی مَسْعُودٍ وَحُذَیْفَۃَ، فَقَالَ أَبُو مَسْعُودٍ: مَا کُنْتُ أَرٰی أَنْ یَرْجِعَ لَمْ یُہْرِقْ فِیہِ دَمًا، قَالَ: فَقَالَ حُذَیْفَۃُ: وَلٰکِنْ قَدْ عَلِمْتُ لَتَرْجِعَنَّ عَلٰی عَقِبَیْھَا لَمْ یُہْرِقْ فِیہَا مَحْجَمَۃَ دَمٍ، وَمَا عَلِمْتُ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا إِلَّا عَلِمْتُہُ وَمُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَیٌّ حَتّٰی إِنَّ الرَّجُلَ لَیُصْبِحُ مُؤْمِنًا ثُمَّ یُمْسِی مَا مَعَہُ مِنْہُ شَیْئٌ، وَیُمْسِی مُؤْمِنًا وَیُصْبِحُ مَا مَعَہُ مِنْہُ شَیْئٌ،یُقَاتِلُ فِئَتَہُ الْیَوْمَ، وَیَقْتُلُہُ اللّٰہُ غَدًا،یَنْکُسُ قَلْبُہُ تَعْلُوہُ اسْتُہُ، قَالَ: فَقُلْتُ: أَسْفَلُہُ، قَالَ: اسْتُہُ۔ (مسند احمد: ۲۳۷۳۸)

ابو ثور سے مروی ہے کہ جرعہ کے روز سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا سعید بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو روانہ کیا، لیکن لوگ ان کی طرف آئے اور انہیں واپس کر دیا، میں (ابو ثور) سیدنا ابو مسعود واور سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، سیدنا ابو مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نہیں سمجھتا تھا کہ وہ بغیر خون بہائے یوں ہی واپس لوٹ آئے گا، ان کی بات سن کر سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: لیکن میں تو اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ لشکر بغیر خون خرابہ کیے یوں ہی اپنی ایڑیوں پر واپس آجائے گا، میں تو یہ بات اس وقت سے جانتا ہوں، جب محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حیات تھے، بلکہ یہاں تک حالات پیدا ہوجائیں گے کہ ایک آدمی ایمان کی حالت میں صبح کر ے گا، لیکن جب شام ہوگی تو وہ ایمان سے فارغ ہو چکا ہو گا اور ایک آدمی ایمان کی حالت میں شام کر ے گا، اور صبح تک اس کے پاس ایمان نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی، ایک آدمی اپنے ہی گروہ سے لڑائی کرے گا اور اگلے دن اللہ تعالیٰ اسے قتل کر دے گا اور اس کے دل کو الٹ دے گا اور اس کی دبر اس کے اوپر ہوگی۔ میں نے کہا: نچلی والی طرف اوپر ہو گی؟ انھوں نے کہا: دبر کہہ رہا ہوں، دبر۔

Haidth Number: 12264
جندب سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جرعہ والے دن وہاں ایک آدمی تھا، اس نے کہا: اللہ کی قسم! آج ضرور ضرور کشت و خون ہوگا، اس کی بات سن کر ایک اور آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! ہر گز نہیں، پہلا شخص کہنے لگا: تم نے یوں کیوں نہیں کہا کہ اللہ کی قسم ہاں ضرورت کشت و خون ہوگا؟ دوسرے نے کہا: اللہ کی قسم! ایسا ہر گز نہیں ہوگا، یہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک حدیث ہے، جو آپ نے مجھ سے خود بیان کی تھی، میں نے کہا: آج آپ میرے برے ہم نشین ہیں۔ میں ایک بات کی قسم اٹھا رہا ہوں اور آپ مجھے سن بھی رہے ہیں، جبکہ اس بارے میں تونے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حدیث بھی سنی ہوئی ہے اور مجھے آپ روک بھی نہیں رہے۔ پھر میں نے سوچا کہ اس میں غصہ کرنے کی کیا ضرورت ہے، چنانچہ میں نے ناراضگی دور کر دی اور میں اس ساتھی کی طرف لپکا اور اس سے سوال کرنے لگ گیا۔ پھر پتا چلا کہ وہ آدمی حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔

Haidth Number: 12265
سیدناعمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں عمان نامی ایک سرزمین کو جانتا ہوں، جس کے ایک پہلو میں سمندر بہتا ہے، وہاں عرب کا ایک ایسا قبیلہ آباد ہے، اگرمیرا نمائندہ ان کے پاس جاتا تو وہ اس پر نہ تیر چلاتے اور نہ پتھر مارتے۔

Haidth Number: 12746
حسن بن ہادیہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: میری ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے مجھ سے کہا: تم کن لوگوں میں سے ہو؟ میں نے کہا: میں اہل عمان میںسے ہوں، انہوںنے کہا: اہل عمان میں سے؟ میںنے کہا: جی ہاں!انہوں نے کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہوئی ایک حدیث بیان کر دوں؟ میںنے کہا: ضرور سنائیں، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں عمان نامی ایک جگہ جانتا ہوں، جس کے پہلو میں سمندر بہتا ہے، وہاں سے آکر ایک حج اداکرنا دیگر مقامات سے آکر دو حج کرنے سے بھی افضل ہے۔

Haidth Number: 12747
سیدنا ابو برزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک آدمی کو کسی عربی قبیلے کی طرف نمائندہ بنا کر روانہ فرمایا، تو اس قبیلہ والوں نے اسے مارا اوربرا بھلا بھی کہا، اس نے واپس آکر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس کی شکایت کی تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم اہل عمان کے ہاں جاتے تو وہ تمہیں نہ مارتے اور نہ برا بھلا کہتے۔

Haidth Number: 12748
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عدن ابین سے بارہ ہزار ایسے لوگ برآمد ہو ں گے، جو اللہ اور اس کے رسول کی مدد کریں گے، میرے اوران کے درمیان جتنے بھی لوگ ہیں وہ ان تمام لوگوں سے افضل ہوںگے۔ معمر نے مجھ سے کہا: تم جا کر اس حدیث کی بابت پوچھ کرآؤ۔

Haidth Number: 12749