Blog
Books
Search Hadith

سورۂ مائدہ کی فضیلت کا بیان

15 Hadiths Found
۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب سورۂ مائدہ کا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر نزول ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی سواری پر سوار تھے، سواری میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ اس کیفیت میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اٹھا سکے، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس سے اتر آئے۔

Haidth Number: 8575
۔ سیدہ اسماء بنت یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی عضباء اونٹنی کی لگام تھامے ہوئے تھی کہ آپ پر سورۂ مائدہ نازل ہوئی، اس وحی کے بوجھ سے قریب تھا کہ اونٹنی کا بازو ٹوٹ جاتا۔

Haidth Number: 8576
۔ حبیر بن نفیر سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس گیا، انہوں نے مجھ سے پوچھا: کیا تم سورۂ مائدہ پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں، انھوں نے کہا: یہ آخری سورت ہے، جو نازل ہوئی، اس لیے اس میں جو چیز حلال پائو،اس کو حلال سمجھو اور جو چیز اس میں حرام پائو، اسے حرام سمجھو۔ پھر جب میں نے سیدہ سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اخلاق کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اخلاق قرآن تھا۔

Haidth Number: 8577

۔ (۱۰۸۲۶)۔ عَنْ مُجَمِّعِ ابْنِ جَارِیَۃَ الْأَنْصَارِیِّ، وَکَانَ أَحَدَ الْقُرَّائِ الَّذِینَ قَرَئُ وْا الْقُرْآنَ، قَالَ: شَہِدْنَا الْحُدَیْبِیَۃَ فَلَمَّا انْصَرَفْنَا عَنْہَا إِذَا النَّاسُ یُنْفِرُونَ الْأَبَاعِرَ، فَقَالَ النَّاسُ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ: مَا لِلنَّاسِ؟ قَالُوْا: أُوحِیَ إِلَی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَخَرَجْنَا مَعَ النَّاسِ نُوجِفُ حَتَّی وَجَدْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی رَاحِلَتِہِ عِنْدَ کُرَاعِ الْغَمِیمِ، وَاجْتَمَعَ النَّاسُ إِلَیْہِ، فَقَرَأَ عَلَیْہِمْ: {إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا} فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَیْ رَسُولَ اللّٰہِ! وَفَتْحٌ ہُوَ؟ قَالَ: ((أَیْ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ إِنَّہُ لَفَتْحٌ۔)) فَقُسِمَتْ خَیْبَرُ عَلَی أَہْلِ الْحُدَیْبِیَۃِ، لَمْ یُدْخِلْ مَعَہُمْ فِیہَا أَحَدًا إِلَّا مَنْ شَہِدَ الْحُدَیْبِیَۃَ، فَقَسَمَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی ثَمَانِیَۃَ عَشَرَ سَہْمًا، وَکَانَ الْجَیْشُ أَلْفًا وَخَمْسَ مِائَۃٍ، فِیہِمْ ثَلَاثُ مِائَۃِ فَارِسٍ، فَأَعْطَی الْفَارِسَ سَہْمَیْنِ وَأَعْطَی الرَّاجِلَ سَہْمًا۔ (مسند احمد: ۱۵۵۴۹)

سیدنا مجمع بن جاریہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ،جو ان قراء میں سے تھے، جنھوں نے قرآن پڑھا ہوا تھا،سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم حدیبیہ میں حاضر ہوئے، جب ہم وہاں سے واپس ہوئے تو لوگ اچانک اپنے اپنے اونٹوں کو تیز تیز چلانے لگے، لوگوں نے ایک دوسرے سے پوچھا: کیا بات ہوئی؟ تو دوسروں نے بتایا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی کا نزول ہوا ہے، ہم بھی اونٹوں کو دوڑاتے ہوئے دوسرے لوگوں کے ساتھ چل دئیے، ہم نے کراع غمیم مقام پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سواری پر موجود پایا، لوگ آپ کے اردگرد جمع تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے سامنے {اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنَا۔} یعنی سورۂ فتح کی تلاوت کی۔ صحابہ میں سے ایک آدمی نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول ! کیایہ ہمارے حق میں واقعی فتح ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! یہیقینا فتح ہے۔ اس کے بعد غزوۂ خیبر کی غنیمتیں صرف ان لوگوں میں تقسیم کی گئیں، جو حدیبیہ میں حاضر تھے، ان کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہ کیا گیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان غنیمتوں کو اٹھارہ حصوں میں بانٹ دیا، لشکر میں پندرہ سو آدمی تھے، ان میں سے تین سو گھڑ سوار بھی تھے، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے گھڑ سواروں کو دو دو حصے اور پیدل لوگوں کو ایک ایک حصہ دیا۔

Haidth Number: 10826
عمار بن ابی عمار سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ غزوۂ خیبر کے علاوہ جس غزوہ میں بھی حاضر ہوا، آپ نے مجھے مالِ غنیمت میں سے حصہ عطا فرمایا، غزوۂ خیبر کی غنیمتیں اہلِ حدیبیہ کے لیے مختص تھیں۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا ابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ حدیبیہ اور خیبر کے درمیانی عرصہ میں آئے تھے۔

Haidth Number: 10827

۔ (۱۱۷۴۳)۔ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ثنی سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ، حَدِیْثَہُ مِنْ فِیْہِ، قَالَ: کُنْتُ رَجُلاً فَارِسِیًّا مِنْ أَھْلِ (اِصْبَھَانَ) مِنْ أَھْلِ قَرْیَۃٍ مِنْھَا یُقَالُ لَھا: (جَیُّ) وَکَانَ أَبِی دِھْقَانَ قَرْیَتِہٖ، وَکُنْتُ أَحَبَّ خَلْقِ اللّٰہِ إِلَیْہِ، فَلَمْ یَزَلْ حُبُّہُ إِیَّایَ حَتّٰی حَبَسَنِی فِی بَیْتِہِ۔ أَیْ مُلَازِمَ النَّارِ۔ کَمَا تُحْبَسُ الْجَارِیَۃُ، وَأَجْھَدْتُ فِی الْمَجُوْسِیَّۃِ حَتّٰی کُنْتُ قَاطِنَ النَّارِ الَّذِی یُوْقِدُھَا لَایَتْرُکُھَا تَخْبُوْسَاعَۃً۔ قَالَ: وَکاَنَتْ لِأَبِی ضَیْعَۃٌ عَظِیْمَۃٌ، قَالَ: فَشَغَلَ فِی بُنْیَانٍ لَّہُ یَوْماً، فَقَالَ: لِی: یَابُنَیَّ! إِنِّی شَغَلْتُ فِی بُنْیَانِ ھٰذَا الْیَوْمَ عَنْ ضَیْعَتِی، فَاذْھَبْ فَاطَّلِعْھَا وَأَمَرَنِی فِیْھَا بِبَعْضِ ماَ یُرِیْدُ، فَخَرَجْتُ، أُرِیْدُ ضَیْعَتَہُ، فَمَرَرْتُ بَکَنِیْسَۃٍ مِنْ کَنَائِسِ النَّصَارٰی، فَسَمِعْتُ أَصْوَاتَھُمْ فِیْھَا وَھُمْ یُصَلُّوْنَ، َوَکُنْتُ لَا أَدْرِی مَا أَمْرُ النَّاسِ لِحَبْسِ أَبِی إِیَّایَ فِی بَیْتِہِ، فَلَمَّا مَرَرْتُ بِھِمْ وَسَمِعْتُ أَصْوَاتَھُمْ،دَخَلْتُ عَلَیْھِمْ أَنْظُرُ مَا یَصْنَعُوْنَ، قَالَ: فَلَمَّا رَأَیْتُھُمْ أَعْجَبَتْنِی صَلَا تُھُمْ، وَرَغِبْتُ فِی أَمْرِھِمْ، وَقُلْتُ: ھٰذَا وَاللّٰہِ خَیْرٌ مِنَ الدِّیْنِ الَّذِی نَحْنُ عَلَیْہِ، فَوَاللّٰہِ مَاتَرَکْتُھُمْ حَتّٰی غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَتَرَکْتُ ضَیْعَۃَ أَبِی، وَلَمْ آتِھَا، فَقُلْتُ لَھُمْ: أَیْنَ أَصْلُ ھٰذَا الدِّیْنِ؟ قَالُوْا: بِالشَّامِ، قَالَ: ثُمَّ رَجَعْتُ إِلٰی أَبِی، وَقَدْ بَعَثَ فِی طَلَبِی، وَشَغَلْتُہُ عَنْ عَمَلِہِ کُلِّہِ۔ قَالَ: فَلَمَّا جِئْتُہُ قَالَ: أَیْ بُنَیَّ أَیْنَ کُنْتَ؟ أَلَمْ أَکُنْ عَھِدتُّ إِلَیْکَ مَاعَھِدتُّ؟ قَالَ: قُلْتُ: یَا أَبَتِ! مَرَرْتُ بِنَاسٍ یُصَلُّوْنَ فِی کَنِیْسَۃٍ لَّھُمْ، فَأَعْجَبَنِی مَارَأَیْتُ مِنْ دِیْنِھِمْ، فَوَاللّٰہِ مَا زِلْتُ عِنْدَھُمْ حَتّٰی غَرَبَتِ الشَّمْسُ قاَلَ: أَیْ بُنَیَّ! لَیْسَ فِی ذٰلِکَ الدِّیْنِ خَیْرٌ، دِیْنُکَ وَدِیْنُ آباَئِکَ خَیْرٌ مِنْہُ۔ قَالَ: قُلْتُ کَلاَّ وَاللّٰہِ، إِنَّہُ خَیْرٌ مِنْ دِیْنِنَا، قَالَ: فَخَافَنِی فَجَعَلَ فِی رِجْلِیْ قَیْداً ثُمَّ حَبَسَنِی فِی بَیْتِہِ۔ قَالَ: وَبَعَثْتُ إِلَی النَّصَارٰی فَقُلْتُ لَھُمْ: إِذَا قَدِمَ عَلَیْکُمْ رَکْبٌ مِّنَ الشَّامِ تُجَّارٌ مِنَ النَّصَارٰی، فَأَخْبِرُوْنِی بِھِمْ، قَالَ: فَقَدِمَ عَلَیْھِمْ رَکْبٌ مِنَ الشَّامِ تُجَّارٌ مِّنَ النَّصَارٰی، قَالَ: فَأَخْبَرُوْنِی بِھِمْ، قَالَ: قُلْتُ لَھُمْ: إِذَا قَضَوْا حَوَائِجَھُمْ، وَأَرَادُوْا الرَّجْعَۃَ إِلٰی بِلَادِھِمْ فَآذِنُوْنِی بِھِمْ، فَلَمَّا أَرَادُوْا الرَّجْعَۃَ إِلٰی بِلَادِھِمْ أَخْبَرُوْنِی بِھِمْ، فَأَلْقَیْتُ الْحَدِیْدَ مِنْ رِجْلَیَّ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَھُمْ حَتّٰی قَدِمْتُ الشَّامَ۔ فَلَمَّا قَدِمْتُھَا قُلْتُ: مَنْ أَفْضَلُ أَھْلِ ھٰذَا الدِّیْنِ؟ قَالُوْا: الْاُسْقُفُ فِی الْکَنِیْسَۃٍ قَالَ: فَجِئْتُہُ، فَقُلْتُ: إِنِّی قَدْ رَغِبْتُ فِی ھٰذَا الدِّیْنِ، وَأَحْبَبْتُ أَنْ أَکُوْنَ مَعَکَ أَخْدِمُکَ فِی کَنِیْسَتِکَ، وَأَتَعَلَّمُ مِنْکَ، وَأُصَلِّی مَعَکَ۔قَالَ: فَادْخُلْ فَدَخَلْتُ مَعَہُ، قَالَ: فَکاَنَ رَجُلٌ سُوْئٌ یَأْمُرُھُمْ بِالصَّدَقَۃِ وَیُرَغِّبُھُمْ فِیْھَا، فَإِذَا جَمَعُوْا اإِلَیْہِ مِنْھَا أَشْیَائَ اکْتَنَزَہٗ لِنَفْسِہِ وَلَمْ یُعْطِہِ الْمَسَاکِیْنَ، حَتّٰی جَمَعَ سَبْعَ قِلَالٍ مِنْ ذَھَبٍ وَوَرِقٍ، قَالَ: وَأَبْغَضْتُہٗ بُغْضًا شَدِیْداً لِمَا رَأَیْتُہٗ یَصْنَعُ، ثُمَّ مَاتَ، فَاجْتَمَعَتْ إِلَیْہِ النَّصَارٰی لِیَدْفِنُوْہُ، فَقُلْتُ لَھُمْ: إِنَّ ھٰذَا کَانَ رَجُلٌ سُوْئٌ، یَأْمُرُکُمْ بِالصَّدَقَۃِ وَیُرَغِّبُکُمْ فِیْھَا، فَإِذَا جِئْتُمُوْہُ بِھَا، اکْتَنَزَھَا لِنَفْسِہِ وَلَمْ یُعْطِ الْمَسَاکِیْنَ مِنْھَا شَیْئاً۔ قَالُوْا: وَمَاعِلْمُکَ بِذٰلِکَ؟ قَالَ: قُلْتُ: أَنَا أَدُلُّکُمْ عَلٰی کَنْزِہِ۔ قَالُوْا: فَدُلَّنَا عَلَیْہِ۔ قَالَ: فَأَرَیْتُھُمْ مَوْضِعَہٗ، قَالَ: فَاسْتَخْرَجُوْا مِنْہُ سَبْعَ قِلَالٍ مَمْلُوْئَ ۃٍ ذَھَباً وَوَرِقاً، قَالَ: فَلَمَّا رَأَوْھَا قَالُوْا: وَاللّٰہِ لَانَدْفِنُہُ أَبَداً۔ فَصَلَبُوْہُ ثُمَّ رَجَمُوْہُ بِالْحِجَارَۃِ، ثُمَّ جَائُ وْا بِرَجُلٍ آخَرَ فَجَعَلُوْہُ بِمَکَانِہِ۔ قَالَ: یَقُوْلُ سَلْمَانُ: فَمَا رَأَیْتُ رَجُلاً لَایُصَلِّی الْخَمْسَ أَرٰی أَنَّہُ أَفْضَلَ مِنْہُ، أَزْھَدَ فِی الدُّنْیَا وَلَا أَرْغَبَ فِی الآخِرَۃِ، وَلَا أَدْأَبَ لَیْلاً وَنَھَاراً مِنْہُ، قَالَ: فَأَحْبَبْتُہُ حُبًّا لَمْ أُحِبَّہٗ مِنْ قَبْلِہِ، وَأَقَمْتُ مَعَہُ زَمَاناً ثُمَّ حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ، فَقُلْتُ لَہُ: یَافُلَانُ! إِنِّی کُنْتُ مَعَکَ، وَأَحْبَبْتُکَ حُبًّا لَمْ أُحِبَّہٗ مِنْہُ قَبْلَکَ، وَقَدْ حَضَرَکَ مَاتَرٰی مِنْ أَمْرِ اللّٰہِ فَإِلٰی مَنْ تُوْصِیْ بِیْ؟ وَمَاتَأْمُرُنِی؟ قَالَ: أَیْ بُنَیَّ! وَاللّٰہِ مَا أَعْلَمُ أَحَداً الْیَوْمَ عَلٰی مَاکُنْتُ عَلَیْہِ، لَقَدْ ھَلَکَ النَّاسُ وَبَدَّلُوْا وَتَرَکُوْا أَکْثَرَمَا کَانُوْا عَلَیْہِ إِلاَّ رَجُلاً بِـ(الْمَوْصِلِ) وَھُوَ فُلَانٌ، فَھُوَ عَلٰی مَا کُنْتُ عَلَیْہِ فَالْحَقْ بِہٖ۔ قَالَ: فَلَمَّا مَاتَ وَغُیِّبَ، لَحِقْتُ بِصَاحِبِ (الْمَوْصِلِ)، فَقُلْتُ لَہُ: یَافُلَانُ! إِنَّ فُلَاناً أَوْصَانِی عِنْدَ مَوْتِہِ أَنْ أَلْحَقَ بِکَ وَأَخْبَرَنِی أَنَّکَ عَلٰی أَمْرِہِ۔ قَالَ: فَقَالَ لِی: أَقِمْ عِنْدِی۔ فَأَقَمْتُ عِنْدَہُ، فَوَجَدتُّہُ خَیْرَ رَجُلٍ عَلٰی أَمْرِ صَاحِبِہِ، فَلَمْ یَلْبَثْ أَنْ مَاتَ، فَلَمَّا حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ، قُلْتُ لَہٗ: یَا فُلَانُ! اِنَّ فُلَانًا أَوْصٰی بِیْ أِلَیْکَ وَأَمَرَنِیْ بِاللُّحُوْقِ بِکَ وَقَدْ حَضَرَکَ مِنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مَا تَرٰی فَأِلٰی مَنْ تُوْصِیْ بِیْ؟ وَمَا تَأْمُرُنِیْ؟ قَالَ: أَیْ بُنَیَّ! وَاللّٰہِ! مَا أَعْلَمُ رَجُلًا عَلٰی مِثْلِ مَا کُنَّا عَلَیْہِ اِلَّا رَجُلًا بِـ (نَصِیْبَیْن) وَھُوَ فُلَانٌ فَالْحَقْ بِہٖ۔ قَالَ: فَلَمَّا مَاتَ وَغُیِّبَ لَحِقْتُ بِصَاحِبِ نَصِیْبَیْن فَجِئْتُہٗ فَأَخْبَرْتُہٗ بِخَبَرِیْ وَمَا أَمَرَنِیْ بِہٖ صَاحِبِیْ قَالَ: فَأَقِمْ عِنْدِیْ۔ فَأَقَمْتُ عِنْدَہٗ فَوَجَدْتُّہٗ عَلٰی أَمْرِ صَاحِبَیْہِ فَأَقَمْتُ مَعَ خَیْرِ رَجُلٍ، فَوَاللّٰہِ مَا لَبِثَ اَنْ نَزَلَ بِہِ الْمَوْتُ، فَلَمَّا حُضِرَ قُلْتُ لَہٗ: یَا فَلَانُ! اِنَّ فُلَانًا کَانَ أَوْصٰی بِیْ أِلٰی فُلَانٍ، ثُمَّ أَوْصٰی بِیْ فُلَانٌ اِلَیْکَ، فَاِلٰی مَنْ تُوْصِیْ بِیْ؟ وَمَا تَأْمُرُنِیْ؟ قَالَ: أَیْ بُنَیَّ! وَاللّٰہِ مَا نَعْلَمُ أَحَدًا بَقِیَ عَلٰی أَمْرِنَا آمُرُکَ أَنْ تَأْتِیَہٗ أِلاَّ رَجُلًا بِـ (عَمُوْرِیَّۃَ) فَاِنَّہٗ بِمِثْلِ مَا نَحْنُ عَلَیْہِ، فَاِنْ اَحْبَبْتَ فَأْتِہٖ۔ قَالَ: فَأِنَّہٗ عَلٰی أَمْرِنَا۔ قَالَ: فَلَمَّا مَاتَ وَغُیِّبَ، لَقِیْتُ بِصَاحِبِ عَمُوْرِیَّۃَ وَأَخْبَرْتُہٗ خَبَرِیْ، فَقَالَ: أَقِمْ عِنْدِیْ۔ فَأَقَمْتُ مَعَ رَجُلٍ عَلٰی ھَدْیِ أَصْحَابِہٖ وَأَمْرِھِمْ۔ قَالَ: وَاکْتَسَبْتُ حَتّٰی کَانَ لِیْ بَقَرَاتٌ وَغُنَیْمَۃٌ ۔ قَالَ: ثُمَّ نَزَلَ بِہٖ أَمْرُ اللّّٰہِ، فَلَمَّا حُضِرَ قُلْتُ لَہٗ: یَا فُلَانُ! أِنِّیْ کُنْتُ مَعَ فُلَانٍ، فَأَوْصٰی بِیْ فُلَانٌ اِلٰی فُلَانٍ، وَأَوْصٰی بِیْ فُلَانٌ أِلٰی فُلَانٍ، ثُمَّ أَوْصٰی بِیْ فُلَانٌ أِلَیْکَ، فَأِلٰی مَنْ تُوْصِیْ بِیْ؟ وَمَا تَأْمُرُنِیْ؟ قَالَ: أَیْ بُنَیَّ! مَا أَعْلَمُہٗ أَصْبَحَ عَلٰی مَا کُنَّا عَلَیْہِ أَحَدٌ مِّنَ النَّاسِ آمُرُکَ أَنْ تَأْتِیَہٗ وَلٰکِنَّّہٗ قَدْ أَظَلَّکَ زَمَانُ نَبِيٍّ، ھُوَ مَبْعُوْثٌ بِدِیْنِ أِبْرَاہِیْمَ، یَخْرُجُ بِأَرْضِ الْعَرَبِ، مُہَاجِرًا أِلٰی أَرْضٍ بَیْنَ حَرَّتَیْنِ بَیْنَھُمَا نَخْلٌ، بِہٖ عَلَامَاتٌ لَا تَخْفٰی، یَأْکُلُ الْھَدِیَّّۃَ وَلَا یَأْکُلُ الصَّدَقَۃَ،بَیْنَ کَتِفَیْہِ خَاتَمُ النُّبُوَّۃِ، فَأِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَلْحَقَ بِتِلْکَ الْبِلَادِ فَافْعَلْ۔ قَالَ: ثُمَّّ مَاتَ وَ غُیِّبَ، فَمَکَثْتُ فِیْ عَمُوْرِیَّۃَ مَا شَائَ اللّٰہُ أَنْ أَمْکُثَ۔ثُمَّ مَرَّبِی نَفَرٌ مِنْ کَلْب تُجَّارًا فَقُلْتُ لَھُمْ: تَحْمِلُوْنِی إِلٰی أَرْضِ الْعَرَبِ وَأُعْطِیْکُمْ بَقَرَاتِیْ ھٰذِہٖ وَغَنِیْمَتِی ھٰذِہٖ؟ قَالُوْا: نَعَمْ فَاَعْطَیْتُھُمُوْھَا، وَحَمَلُوْنِی، حَتّٰی إِذَا قَدِمُوْا بِی وَادِیَ الْقُرٰی ظَلَمُوْنِی، فَبَاعُوْنِی مِنْ رَجُلٍ مِنَ الْیَھُوْدِ عَبْداً، فَکُنْتُ عِنْدَہُ، وَرَأَیْتُ النَّخْلَ، وَرَجَوْتُ، أَنْ تَکُوْنَ الْبَلَدُ الَّذِی وَصَفَ لِی صَاحِبِی، وَلَمْ یَحُقَّ لِی فِی نَفْسِی۔ فَبَیْنَمَا أَنَا عِنْدَہُ قَدِمَ عَلَیْہِ ابْنُ عَمٍّ لَّہُ مِنَ الْمَدِیْنَۃِ مِنْ بَنِی قُرَیْظَۃَ، فَابْتَاعَنِیْ مِنْہُ، فَاحْتَمَلَنِی إِلَی الْمَدِ یْنَۃِ، فَوَاللّٰہِ مَاھُوَ إِلاَّ أَنْ رَأَیْتُھَا فَعَرَفْتُھَا بِصِفَۃِ صَاحِبِی، فَأَقَمْتُ بِھَا۔ وَبَعَثَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ فَأَقَامَ بِمَکَّۃَ مَا أَقَامَ، لَا أَسْمَعُ لَہُ بِذِکْرٍ مَعَ مَا أَنَا فِیْہِ مِنْ شُغْلِ الرِّقِّ۔ ثُمَّ ھَاجَرَ إِلَی الْمَدِیْنَۃِ، فَوَاللّٰہِ إِنِّی لَفِی رَأْسِ عِذْقٍ لِسَیِّدِیْ أَعْمَلُ فِیْہِ بَعْضَ الْعَمَلِ، وَسَیِّدِی جَالِسٌ إِذْ أَقْبَلَ ابْنُ عَمٍّ لَّہُ حَتّٰی وَقَفَ عَلَیْہِ فَقَالَ: فُلَاَنٌ قَاتَلَ اللّٰہُ بَنِی قِیْلَۃَ، وَاللّٰہِ إِنَّھُمْ الآنَ لَمُجْتَمِعُوْنَ بـ(قُبَائَ) عَلٰی رَجُلٍ قَدِمَ عَلَیْھِمْ مِنْ مَّکَّۃَ الْیَوْمَ یَزْعَمُوْنَ أَنَّہُ نَبِیٌّ۔ قَالَ: فَلَمَّا سَمِعْتُھَا أَخَذَتْنِی الْعُرَوَائُ حَتّٰی ظَنَنْتُ أَنِّی سَأَسْقُطُ عَلٰی سَیِّدِیْ، قَالَ: وَنَزَلْتُ عَنِ النَّخْلَۃِ فَجَعَلْتُ أَقُوْلُ لِاِبْنِ عَمِّہِ ذٰلِکَ: مَاذَا تَقُوْلُ؟ مَاذَا تَقُوْلُ؟ قَالَ: فَغَضِبَ سَیِّدِی فَلَکَمَنِی لَکْمَۃً شَدِیْدَۃً، ثُمَّ قَالَ: مَالَکَ وَلِھٰذا؟ أَقْبِلْ عَلٰی عَمَلِکَ۔ قَالَ: قُلْتُ: لَاشَیْئَ إِنَّمَا أَردتُّ أَنْ أَسْتَثْبِتَ عَمَّا قَالَ۔ وَقَدْ کَانَ عِنْدِی شَیْئٌ قَدْ جَمَعْتُہُ، فَلَمَّا أَمْسَیْتُ أَخَذْتُہُ ثُمَّ ذَھَبْتُ بِہِ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِVوَھُوَ بـ(قُبَائٍ) فَدَخَلْتُ عَلَیْہِ فَقُلْتُ لَہُ: إِنَّہُ قَدْ بَلَغَنِی أَنَّکَ رَجُلٌ صَالِحٌ، وَمَعَکَ أَصْحَابٌ لَّکَ غُرَبَائُ ذَوُوْ حَاجَۃٍ،وَھٰذَا شَیْئٌ کَانَ عِنْدِی لِلصَّدَقَۃِ، فَرَأَیْتُکُمْ أَحَقَّ بِہِ مِنْ غَیْرِکُمْ، قَالَ: فَقَرَّبْتُہُ إِلَیْہِ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِV لأَِصْحَابِہِ: ((کُلُوْا۔)) وَأَمْسَکَ یَدَہُ فَلَمْ یَأْکُلْ۔ قَالَ: فَقُلْتُ فِی نَفْسِی: ھٰذِہِ وَاحِدَۃٌ ثُمَّ انْصَرَفْتُ عَنْہُ، فَجَمَعْتُ شَیْئاً، وَتَحَوَّلَ رَسُوْلُ اللّٰہِV إِلَی الْمَدِیْنَۃِ، ثُمَّ جِئْتُ بِہٖ فَقُلْتُ: إِنِّی رَأَیْتُکَ لَا تَأْکُلُ الصَّدَقَۃَ، وَھٰذِہٖ ھَدِیَّۃٌ أَکْرَمْتُکَ بِھَا، قَالَ: فَأَکَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِVمِنْھَا، وَأَمَرَ أَصْحَابَہُ فَأَکَلُوْا مَعَہُ، قاَلَ: فَقُلْتُ: فِی نَفْسِی ھَاتَانِ اثْنَتَانِ۔ ثُمَّ جِئْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِV وَھُوَ بِبَقِیْعِِ الْغَرْقَدِ، قَالَ: وَقَدْ تَبِعَ جَنَازَۃً مِنْ أَصْحَابِہِ، عَلَیْہِ شَمْلَتَانِ لَہُ، وَھُوَجَالِسٌ فِی أَصْحَابِہِ، فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ، ثُمَّ اسْتَدَرْتُ أَنْظُرُ إِلٰی ظَھْرِہِ، ھَلْ أَرٰی الْخَاتَمَ الَّذِی وَصَفَ لِی صَاحِبِی، فَلَمَّا رَآنِی رَسُوْلُ اللّٰہِV اسْتَدَرْتُہُ، عَرَفَ أَنِّی اَسْتَثْبِتُ فِی شَیْئٍ وَصَفَ لِی، قَالَ: فَأَلْقٰی رِدَائَ ہُ عَنْ ظَھْرِہِ، فَنَظَرْتُ إِلَی الْخَاتَمِ فَعَرَفْتُہُ، فَانْکَبَبْتُ عَلَیْہِ أُقَبِّلُہُ وَأَبْکِی۔ فَقَالَ لِی رَسُوْلُ اللّٰہِV: ((تَحَوَّلْ۔)) فَتَحَوَّلْتُ، فَقَصَصْتُ عَلَیْہِ حَدِیْثِی۔ کَمَا حَدَّثْتُکَ یَا ابْنَ عَبَّاسٍ! قَالَ: فَأَعْجَبَ رَسُوْلُ اللّٰہVأَنْ یَّسْمَعَ ذٰلِکَ أَصْحَابُہُ۔ ثُمَّ شَغَلَ سَلْمَانُ الرِّقَ حَتّٰی فَاتَہُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِVبَدْرٌ وَأُحُدٌ۔ قَالَ: ثُمَّ قَالَ لِی رَسُوْلُ اللّٰہِV: ((کَاتِبْ یَا سَلْمَانُ!)) فَکاَتَبْتُ صَاحِبِی عَلٰی ثَلَاثِ مِائَۃِ نَخْلَۃٍ أُحْیِیْھَا لَہُ بِالْفَقِیْرِ، وَبِأَرْبَعِیْنَ أُوْقِیَۃً۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِV : ((أَعِیْنُوْا أَخَاکُمْ۔)) فَأَعَانُوْنِی بِالنَّخْلِ، الرَّجُلُ بِثَلَاثِیْنَ وَدِیَّۃً وَالرَّجُلُ بِعِشْرِیْنَ، وَالرَّجُلُ بِخَمْسَ عَشَرَۃَ، وَالرَّجُلُ بِعَشْرٍ یَعْنِی: الرَّجُلَ بِقَدَرِ مَاعِنْدَہُ۔ حَتّٰی اِجْتَمَعَتْ لِی ثَلَاثُ مِئَۃِ وَدِیَّۃٍ۔ فَقَالَ لِی رَسُوْلُ اللّٰہِV: ((اِذْھَبْ یَاسَلْمَانُ! فَفَقِّرْلَھَا، فَإِذَا فَرَغْتَ فَأْتِنِی أَکُوْنُ أَنَا أَضَعُھَا بِیَدِی۔)) فَفَقَّرْتُ لَھَا، وَأَعَانَنِی أَصْحَابِی، حَتّٰی إِذَا فَرَغْتُ مِنْھَا جِئْتُہُ فَأَخْبَرْتُہُ۔ فَخَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِV مَعِیَ إِلَیْھَا،فَجَعَلْنَا نُقَرِّبُ لَہُ الْوَدِیَّ، وَیَضَعُہُ رَسُوْلُ اللّٰہِV بِیَدِہِ، فَوَالَّذِی نَفْسُ سَلْمَاَنَ بِیَدِہِ! مَا مَاتَتْ مِنْھَا وَدِیَّۃٌ وَاحِدَۃٌ، فَأَدَّیْتُ النَّخْلَ وَبَقِیَ عَلَیَّ الْمَالُ، فَأُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِV بِمِثْلِ بَیْضَۃِ الدَجَّاجَۃٍ مِنْ ذَھَبٍ مِنْ بَعْضِ الْمَغَازِیْ، فَقَالَ: ((مَافَعَلَ الْفَارِسِیُّ الْمُکَاتَبُ؟)) قَالَ: فَدُعِیْتُ لَہٗ۔ فَقَالَ: ((خُذْ ھٰذِہِ فَأَدِّ بِھَا مَا عَلَیْکَ یَاسَلْمَانُ!)) فَقُلْتُ: وَأَیْنَ تَقَعَ ھٰذِہٖ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مِمَّا عَلَیَّ؟ قَالَ: ((خُذْھَا، فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ سَیُؤَدِّی بِھَا عَنْکَ۔)) قَالَ: فَأَخَذْتُھَا، فَوَزَنْتُ لَھُمْ مِنْھَا وَالَّذِی نَفْسُ سَلْمَانَ بِیَدِہِ! أَرْبَعِیْنَ أُوْقِیَۃً، فَأَوْفَیْتُھُمْ حَقَّھُمْ، وَعَتَقْتُ، فَشَھِدتُّ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِV الْخَنْدَقَ، ثُمَّ لَمْ یَفُتْنِیْ مَعَہٗ مَشْھَدٌ۔ (مسند احمد: ۲۴۱۳۸)

سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا سلمان فارسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے اپنا واقعہ اپنی زبانییوں بیان کیا، وہ کہتے ہیں: میں اصبہان والوں میں سے ایک فارسی باشندہ تھا،میرا تعلق ان کی ایک جيّ نامی بستی سے تھا، میرے باپ اپنی بستی کے بہت بڑے کسان تھے اور میں اپنے باپ کے ہاں اللہ کی مخلوق میں سے سب سے زیادہ محبوب تھا۔ میرے ساتھ ان کی محبت قائم رہی حتیٰ کہ انھوں نے مجھے گھر میں آگ کے پاس ہمیشہ رہنے والے کی حیثیت سے پابند کردیا، جیسے لڑکی کو پابند کر دیا جاتا ہے۔ میں نے مجوسیت میں بڑی جد وجہد سے کام لیا، حتی کہ میں آگ کا ایسا خادم و مصاحب بنا کہ ہر وقت اس کو جلاتا رہتا تھا اور ایک لمحہ کے لیے اسے بجھنے نہ دیتا تھا۔ میرے باپ کی ایک بڑی عظیم جائداد تھی، انھوں نے ایک دن ایک عمارت (کے سلسلہ میں) مصروف ہونے کی وجہ سے مجھے کہا: بیٹا! میں تو آج اس عمارت میں مشغول ہو گیا ہوں اور اپنی جائداد (تک نہیں پہنچ پاؤں گا)، اس لیے تم چلے جاؤ اور ذرا دیکھ کر آؤ۔ انھوں نے اس کے بارے میں مزید چند (احکام بھی) صادر کئے تھے۔ پس میں اس جاگیر کے لیے نکل پڑا، میرا گزر عیسائیوں کے ایک گرجا گھر کے پاس سے ہوا، میں نے ان کی آوازیں سنیں اور وہ نماز ادا کر رہے تھے۔ مجھے یہ علم نہ ہو سکا تھا کہ عوام الناس کا کیا معاملہ ہے کہ میرے باپ نے مجھے اپنے گھر میں پابند کر رکھا ہے۔ (بہرحال) جب میں ان کے پاس سے گزرا اور ان کی آوازیں سنیں تو میں ان کے پاس چلا گیا اور ان کی نقل و حرکت دیکھنے لگ گیا۔ جب میں نے ان کو دیکھا تو مجھے ان کی نماز پسند آئی اور میں ان کےدین کی طرف راغب ہوا اور میں نے کہا: بخدا! یہ دین اُس (مجوسیت) سے بہتر ہے جس پر ہم کاربند ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا: اس دین کی بنیاد کہاں ہے؟ انھوں نے کہا: شام میں۔ پھر میں اپنے باپ کی طرف واپس آ گیا، (چونکہ مجھے تاخیر ہو گئی تھی اس لیے) انھوں نے مجھے بلانے کے لیے کچھ لوگوں کو بھی میرے پیچھے بھیج دیا تھا۔ میں اِس مصروفیت کی وجہ سے ان کے مکمل کام کی (طرف کوئی توجہ نہ دھر سکا)۔ جب میں ان کے پاس آیا تو انھوں نے پوچھا: بیٹا! آپ کہاں تھے؟ کیا میں نے ایک ذمہ داری آپ کے سپرد نہیں کی تھی؟ میں نے کہا: ابا جان! میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا، وہ گرجا گھر میں نماز پڑھ رہے تھے، مجھے ان کی کاروائی بڑی پسند آئی۔ اللہ کی قسم! میں ان کے پاس ہی رہا، حتی کہ سورج غروب ہو گیا۔ میرے باپ نے کہا: بیٹا!اس دین میں کوئی خیر نہیں ہے، تمہارا اور تمہارے آباء کا دین اس سے بہتر ہے۔ میں نے کہا: بخدا! ہرگز نہیں، وہ دین ہمارے دین سے بہتر ہے۔ (میرے ان جذبات کی وجہ سے) میرے باپ کو میرے بارے میں خطرہ لاحق ہوا اور انھوں نے میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر مجھے گھر میں پابند کر دیا۔ میں نے عیسائیوں کی طرف پیغام بھیجا کہ جب شام سے تاجروں کا عیسائی قافلہ آئے تو مجھے خبر دینا۔ (کچھ ایام کے بعد) جب شام سے عیسائیوں کا تجارتی قافلہ پہنچا تو انھوں نے مجھے اس (کی آمد) کی اطلاع دی۔ میں نے ان سے کہا: جب (اس قافلے کے) لوگ اپنی ضروریات پوری کرکے اپنے ملک کی طرف واپس لوٹنا چاہیں تو مجھے بتلا دینا۔ سو جب انھوں نے واپس جانا چاہا تو انھوں نے مجھے اطلاع دے دی۔ میں نے اپنے پاؤں سے بیڑیاں اتار پھینکیں اور ان کے ساتھ نکل پڑا اور شام پہنچ گیا۔ جب میں شام پہنچا تو پوچھا: وہ کون سی شخصیت ہے جو اس دین والوں میں افضل ہے؟ انھوں نے کہا: فلاں گرجا گھر میں ایک پادری ہے۔میں اس کے پاس گیا اور میں نے کہا: میں اِس دینِ (نصرانیت) کی طرف راغب ہوا ہوں، اب میں چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس رہوں اور گرجا گھر میں آپ کی خدمت کروں اور آپ سے تعلیم حاصل کروں اور آپ کے ساتھ نماز پڑھوں۔ اس نے کہا: (ٹھیک ہے) آ جاؤ۔ پس میں اس میں داخل ہو گیا۔ لیکن وہ بڑا برا آدمی تھا۔ وہ لوگوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیتا تھا اور ان کو ترغیب دلاتا تھا۔ جب وہ کئی اشیاء لے کر آتے تھے، تو وہ اپنے لیے جمع کر لیتا تھا اور مساکین کو کچھ بھی نہیں دیتا تھا، حتی کہ اس کے پاس سونے اور چاندی کے سات مٹکے جمع ہو گئے۔ میں اس کے کرتوں کی بنا پر اس سے نفرت کرتا تھا۔ بالآخر وہ مر گیا، اسے دفن کرنے کے لیے عیسائی لوگ پہنچ گئے۔ میں نے ان سے کہا: یہ تو برا آدمی تھا، یہ تم لوگوں کو تو صدقہ کرنے کا حکم دیتا اور اس کی ترغیب دلاتا تھا، لیکن جب تم لوگ اس کے پاس صدقہ جمع کرواتے تھے تو یہ اسے اپنے لیے ذخیرہ کر لیتا تھا اور مساکین کو بالکل نہیں دیتا تھا۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا: تجھے کیسے علم ہوا؟ میں نے کہا: میں تمہیں اس کے خزانے کی خبر دے سکتا ہوں۔ انھوں نے کہا: تو پھر ہمیں بتاؤ۔پس میں نے ان کو (اس کے خزانے کا) مقام دکھایا۔ انھوں نے وہاں سے سونے اورچاندی کے بھرے ہوئے سات مٹکے نکالے۔جب انھوں نے صدقے (کا یہ حشر) دیکھا تو کہنے لگے: بخدا! ہم اس کو کبھی بھی دفن نہیں کریں گے۔ سو انھوں نے اس کو سولی پر لٹکایا اور پھر پتھروں سے اس کو سنگسار کیا۔ بعد ازاں وہ اس کی جگہ پر ایک اور آدمی لے آئے۔ سیدنا سلمان کہتے ہیں: جو لوگ پانچ نمازیں ادا کرتے تھے، میں نے اس کو ان میں افضل پایا۔ میں نے اسے دنیا سے سب سے زیادہ بے رغبت، آخرت کے معاملے میں سب سے زیادہ رغبت والا اور دن ہو یا رات (عبادت کے معاملات کو) تندہی سے ادا کرنے والا پایا۔ میں نے اس سے ایسی محبت کی کہ اس سے پہلے اس قسم کی محبت کسی سے نہیں کی تھی۔ میں اسی کے ساتھ کچھ زمانہ تک مقیم رہا۔ بالآخر اس کی وفات کا وقت قریب آ پہنچا۔ میں نے اسے کہا: او فلان! میں تیرے ساتھ رہا اور میں نے تجھ سے ایسی محبت کی کہ اس سے قبل اس قسم کی محبت کسی سے نہیں کی تھی۔ اب تیرے پاس اللہ تعالیٰ کا حکمِ (موت) آ پہنچا ہے، تو خود بھی محسوس کر رہا ہے۔ اب تو مجھے کس کے پاس جانے کی نصیحت کرے گا؟ اور مجھے کیا حکم دے گا؟ اس نے کہا: میرے بیٹا! اللہ کی قسم! میں جس دین پر پابند تھا، میرے علم کے مطابق کوئی بھی اس دین کا پیروکار نہیں ہے۔ لوگ ہلاک ہو گئے ہیں اور تبدیل ہو گئے ہیں اور جس شریعت کو اپنا رکھا تھا اس کے اکثر امور کو ترک کر دیا ہے۔ ہاں فلاں ایک آدمی موصل میں ہے۔ وہ اسی دین پر کاربند ہے، پس تو اس کے پاس چلے جانا۔جب وہ فوت ہو گیا اور اسے دفن کر دیا گیا تو میں موصل والے آدمی کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے اسے کہا: اے فلاں! فلاں آدمی نے موت کے وقت مجھے وصیت کی تھی کہ میں تجھ سے آ ملوں۔ اس نے مجھے بتلایا تھاکہ تم بھی اس کے دین پر کاربند ہو۔ اس نے مجھے کہا: (ٹھیک ہے) تم میرے پاس ٹھہر سکتے ہو۔ پس میں نے اس کے پاس اقامت اختیار کی، میں نے اسے بہترین آدمی پایا جو اپنے ساتھی کے دین پر برقرار تھا۔ (کچھ عرصے کے بعد اس پر بھی) فوت ہونے کے آثار (دکھائی دینے لگے)۔ جب اس پر وفات کی گھڑی آ پہنچی تو میں نے کہا: او فلاں! فلاں نے تو مجھے تیرے بارے میں وصیت کی تھی اور مجھے حکم دیا تھا کہ تیری صحبت میں رہوں۔ اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ تجھ پر نازل ہونے والا ہے وہ تو دیکھ رہا ہے۔ اب تو مجھے کیا وصیت کرے گا اور کیا حکم دے گا کہ میں کس کے پاس جاؤں؟ اس نے کہا: بیٹا! اللہ کی قسم! میرے علم کے مطابق تو ہمارے دین پر قائم صرف ایک آدمی ہے، جو نصیبین میں ہے۔ (میری وفات کے بعد) اس کے پاس چلے جانا۔ پس جب وہ فوت ہوا اور اسے دفن کر دیا گیا تو میں نصیبین والے صاحب کے پاس پہنچ گیا۔ میں اس کے پاس آیا اور اسے اپنے بارے میں اور اپنے (رہنما) کے حکم کے بارے میں مطلع کیا۔ اس نے کہا: میرے پاس ٹھہریئے۔ سو میں اس کے پاس ٹھہر گیا۔ میں نے اس کو اس کے سابقہ دونوں صاحبوں کے دین پر پایا۔ وہ بہترین آدمی تھا جس کے پاس میں نے اقامت اختیار کی۔ لیکن اللہ کی قسم! وہ جلد ہی مرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو میں نے اسے کہا: او فلاں! فلاں (اللہ کے بندے) نے مجھے فلاں کی (صحبت میں رہنے کی) نصیحت کی تھی، پھر اس نے تیرے پاس آنے کی نصیحت کی۔ اب تو مجھے کس کے پاس جانے کی وصیت کرے گا یا کیا حکم دے گا؟ اس نے کہا: میرے بیٹے! ہم تو ایسے آدمی کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتے، جو ہمارے دین پر قائم ہو، کہ تو اس کے پاس جا سکے ۔ البتہ ایک آدمی عموریہ میں ہے۔ وہ دین کے معاملے میں ہماری طرح کا ہے۔ اگر تو چاہتا ہے تو اس کے پاس چلے جانا، کیونکہ وہ ہمارے دین پر برقرار ہے۔ پس جب وہ بھی مر گیا اور اسے دفن کر دیا گیا، تو میں عموریہ والے کے پاس پہنچ گیا اور اسے اپنا سارا ماجرا سنایا۔ اس نے کہا: تم میرے پاس ٹھہرو۔ میں نے اس کی صحبت اختیار کر لی اور اسے اس کے اصحاب کی سیرت اور دین پر پایا۔ سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے اس کے پاس کمائی بھی کی، حتی کہ میں کچھ گائیوں اور بکریوں کا مالک بن گیا۔ لیکن اس پر بھی اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہونے (کی علامات دکھائیدینے لگیں)۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آ پہنچا تو میں نے اسے کہا: او فلاں! میں فلاں بندے کے پاس تھا، فلاں نے مجھے فلاں کے بارے میں، فلاں نے فلاں کے بارے میں اور اس نے تیرے پاس آنے کی وصیت کی تھی۔ اب تو مجھے کس (کی صحبت میں رہنے) کی وصیت کرے گا؟ اور مجھے کیا حکم دے گا؟ اس نے کہا: میرے بیٹا! میں تو کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو ہمارے دین پر کاربند ہو اور جس کے بارے میں میں تجھے حکم دے سکوں۔ لیکن اب ایک نبی کی آمد کا وقت قریب آ چکا ہے، اسے دینِ ابراہیمی کے ساتھ مبعوث کیا جائے گا ، وہ عربوں کی سرزمین سے ظاہر ہو گا اور ایسے (شہر) کی طرف ہجرت کرے گا جو دو حرّوں (یعنی کالے پتھر والی زمینوں) کے درمیان ہو گا اور ان کے درمیان کھجوروں کے درخت ہوں گے۔ اس کی اور علامات بھی ہوں گی، جو مخفی نہیں ہوں گی۔ وہ ہدیہ (یعنی بطورِ تحفہ دی گئی چیز) کھائے گا، صدقہ نہیں کھائے گا اور اس کے کندھوں کے درمیان مہرِ ختمِ نبوّت ہو گی۔ اگر تجھے استطاعت ہے تو (عرب کے) ان علاقوں تک پہنچ جا۔ سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: پھر وہ فوت ہو گیا اور اسے دفن کر دیا گیا۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور تھا، میں عموریہ میں سکونت پذیر رہا۔ پھر میرے پاس سے بنو کلب قبیلے کا ایک تجارتی قافلہ گزرا۔ میں نے ان سے کہا: اگر تم مجھے سرزمینِ عرب کی طرف لے جاؤ تو میں تم کو اپنی گائیں اور بکریاں دے دوں گا؟ انھوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ پس میں نے اپنی گائیں اور بکریاںان کو دے دیں اور انھوں نے مجھے اپنے ساتھ ملا لیا۔ جب وہ مجھے وادیٔ قری تک لے کر پہنچے تو انھوں نے مجھ پر ظلم کیا اور بطورِ غلام ایکیہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ پس میں اس کے پاس ٹھہر گیا۔ جب میں نے کھجوروں کے درخت دیکھے تو مجھے امید ہونے لگی کہ یہ وہی شہر ہے جو میرے ساتھی نے بیان کیا تھا، لیکنیقین نہیں آ رہا تھا۔ ایک دن اس یہودی کا چچا زاد بھائی، جس کا تعلق بنو قریظہ سے تھا، مدینہ سے اس کے پاس آیا اور مجھے خرید کر اپنے پاس مدینہ میں لے گیا۔ اللہ کی قسم! جب میں نے مدینہ کو دیکھا تو اپنے ساتھی کی بیان کردہ علامات کی روشنی میں اس کو پہچان گیا (کہ یہی خاتم النبین کا مسکن ہو گا)۔ میں وہاں فروکش ہو گیا۔ اُدھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مکہ مکرمہ میں مبعوث کر دیا، جتنا عرصہ انھوں نے وہاں ٹھہرنا تھا، وہ ٹھہرے۔ لیکن میں نے ان (کی آمد) کا کوئی تذکرہ نہیں سنا، دوسری بات یہ بھی ہے کہ میں غلامی والے شغل میں مصروف رہتا تھا۔ بالآخر نبی کریمa ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے آئے۔ اللہ کی قسم! (ایک دن) میں اپنے آقا کے پھل دار کھجور کے درخت کی چوٹی پر کوئی کام کر رہا تھا، میرا مالک بیٹھا ہوا تھا، اس کا چچازاد بھائی اچانک اس کے پاس آیا اور کہا: او فلاں! اللہ تعالیٰ بنوقیلہ کو ہلاک کرے، وہ قباء میں مکہ سے آنے والے ایک آدمی کے پاس جمع ہیں اور ان کا خیال ہے کہ وہ نبی ہے۔ جب میں نے اس کییہ بات سنی تو مجھ پر اس قدر کپکپی طاری ہو گئی کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ اپنے مالک پر گر جاؤں گا۔ میں کھجور کے درخت سے اترا اور اس کے چچا زاد بھائی سے کہنے لگا: تم کیا کہہ رہے ہو؟ تم کیا کہہ رہے ہو؟ اس بات سے میرے آقا کو غصہ آیا اور اس نے مجھے زور سے مکا مارا اور کہا: تیرا اس کی بات سے کیا تعلق ہے۔ جا، اپنا کام کر۔ میں نے کہا: کوئی تعلق نہیں، بس ذرا بات کی چھان بین کرنا چاہتا تھا۔ سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میرے پاس میرا جمع کیا ہوا کچھ مال تھا۔ جب شام ہوئی تو میں نے وہ مال لیا اور قباء میں رسول اللہ a کے پاس پہنچ گیا۔ میں آپ a پر داخل ہوا اور کہا: مجھے یہ بات موصول ہوئی ہے کہ آپ کوئی صالح آدمی ہیں اور آپ کے اصحاب غریب اور حاجتمند لوگ ہیں۔ یہ میرے پاس کچھ صدقے کا مال ہے، میں نے آپ لوگوں کو ہی اس کا زیادہ مستحق سمجھا ہے۔ پھر میں نے وہ مال آپ a کے قریب کیا۔ لیکن آپ a نے اپنے صحابہ سے فرمایا: ’’تم لوگ کھا لو۔‘‘ آپa نے خود اپنا ہاتھ روک لیا اور نہ کھایا۔ میں نے دل میں کہا کہ (اس بندے کے نبی ہونے کی) ایک نشانی تو (پوری ہو گئی ہے)۔ پھر میں چلا گیا اور مزید کچھ مال جمع کیا۔ اب رسول اللہ a مدینہ میں منتقل ہو چکے تھے۔ پھر (وہ مال لے کر) میں آپ a کے پاس آیا اور کہا: میرا آپ کے بارے میں خیال ہے کہ آپ صدقے کا مال نہیں کھاتے، اس لیےیہ ہدیہ (یعنی تحفہ) ہے، میں اس کے ذریعےآپ کی عزت کرنا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ a نے وہ چیز خود بھی کھائی اور اپنے صحابہ کو بھی کھانے کاحکم دیا، سو انھوں نے بھی کھائی۔ (یہ منظر دیکھ کر) میں نے دل میں کہا: دو علامتیں (پوری ہو گئیں ہیں)۔ (سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: )میں (تیسری دفعہ) جب رسول اللہ a کے پاس آیا تو وہ ’’بَقِیْعُ الْغَرْقَد‘‘ میں تھے۔آپ a کسی صحابی کے جنازے کی خاطر وہاں آئے ہوئے تھے، آپ a پر دو چادریں تھیں۔ آپa اپنے اصحاب میں تشریف فرما تھے۔ میں نے آپ a کو سلام کہا، پھر آپ کی پیٹھ پر نظر ڈالنے کے لیے گھوما، تاکہ (دیکھ سکوں کہ) آیا وہ (ختمِ نبوّت والی) مہر بھی ہے، جس کی پیشین گوئی میرے ساتھی نے کی تھی۔ جب رسول اللہ a نے مجھے گھومتے ہوئے دیکھا تو آپ پہچان گئے کہ میں آپ a کے کسی وصف کی جستجو میں ہوں، پس آپ a نے اپنی چادر اپنی پیٹھ سے ہٹا دی، میں نے مہرِنبوت دیکھی اور اسے پہچان گیا۔ پھر میں آپa پر ٹوٹ پڑا اور آپ کے بوسے لینے اور رونے لگا۔ رسول اللہa نے مجھے فرمایا: ’’پیچھے ہٹو۔‘‘ پس میں پیچھے ہٹ گیا۔ ابن عباس! پھر میں نے آپ a کو اپنا وہ سارا ماجرا سنایا، جو تجھے سنایا ہے اور رسول اللہ a کو یہ بات اچھی لگی کہ یہ واقعہ آپ کے صحابہ بھیسنیں۔ پھر سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ غلامی کی وجہ سے مشغول رہے اور غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں رسول اللہa کے ساتھ شریک نہ ہو سکے۔ (سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:) ایک دن رسول اللہa نے مجھے فرمایا: ’’سلمان! (اپنے مالک سے) مکاتبت کر لو۔‘‘ پس میں نے اپنے آقا سے اس بات پر مکاتبت کر لی کہ میں اس کے لیے تین سو کھجور کے چھوٹے درخت زمین سے اکھاڑ کر اس کی جگہ پر لگاؤں گا اور (مزید اسے) چالیس اوقیے دوں گا۔ رسول اللہa نے فرمایا: ’’اپنے بھائی (سلمان) کی مدد کرو۔‘‘ لوگوں نے مدد کرتے ہوئے مجھے کھجوروں کے درخت دیے۔ کسی نے تیس، کسی نے بیس،کسی نے پندرہ، کسی نے دس، الغرض کہ ہر ایک نے اپنی استطاعت کے بقدر مجھے کھجوروں کے چھوٹے درخت دیے، حتی کہ میرے پاس تین سو کھجوریں جمع ہو گئیں۔ رسول اللہa نے مجھے فرمایا: ’’سلمان! جاؤ اور گڑھے کھودو۔ جب فارغ ہو جاؤ تو میرے پاس آ جانا، (یہ پودے) میں خود لگاؤں گا۔‘‘ (سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:) میں نے گڑھے کھودے، میرے ساتھیوں نے میری معاونت کی۔ جب میں فارغ ہوا تو آپa کے پاس آیا اور آپ کو اطلاع دی۔ رسول اللہa میرے ساتھ نکلے۔ ہم (کھجوروں کے وہ) بوٹے آپa کے قریب کرتے تھے اور آپ اپنے ہاتھ سے ان کو لگا دیتے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے! ان میں سے کھجور کا ایک پودا بھی نہ مرا۔ اب میں کھجور کے چھوٹے درخت تو لگا چکا تھااور (چالیس اوقیوں والا) مال باقی تھا۔ کسی غزوے سے رسول اللہ a کے پاس مرغی کے انڈے کے بقدر سونا لایا گیا۔ آپ aنے پوچھا: ’’مکاتبت کرنے والا (سلمان) فارسی کیا کر رہا ہے؟‘‘ مجھے بلایا گیا، آپ aنے فرمایا: ’’سلمان! یہ لو اور اس کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کرو۔‘‘ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھ پر جتنا (قرضہ) ہے، اس سے کیا اثر ہو گا؟ (یعنی قرضہ بہت زیادہ ہے)۔ آپ a نے فرمایا: ’’یہ تو لو، عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارا (قرضہ) بھی ادا کر دے گا۔‘‘ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے! میں نے وہ لے لیا اور اس میں سے ان آقاؤں کو چالیس اوقیے تول کر دے دئیے ، ان کا پورا حق ادا کر دیا اور آزا د ہو گیا۔ پھر میں رسول اللہ a کے ساتھ غزوۂ خندق میں حاضر ہوا اور اس کے بعد کوئی غزوہ مجھ سے نہ رہ سکا۔

Haidth Number: 11743

۔ (۱۱۷۴۴)۔ عَنْ أَبِی قُرَّۃَ الْکِنْدِیِّ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ قَالَ: کُنْتُ مِنْ أَبْنَائِ أَسَاوِرَۃِ فَارِسَ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ قَالَ: فَانْطَلَقْتُ تَرْفَعُنِی أَرْضٌ وَتَخْفِضُنِی أُخْرٰی حَتّٰی مَرَرْتُ عَلٰی قَوْمٍ مِنَ الْأَعْرَابِ فَاسْتَعْبَدُوْنِی فَبَاعُونِی حَتَّی اشْتَرَتْنِی امْرَأَۃٌ، فَسَمِعْتُہُمْ یَذْکُرُوْنَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکَانَ الْعَیْشُ عَزِیزًا، فَقُلْتُ لَہَا: ہَبِی لِی یَوْمًا، فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَانْطَلَقْتُ فَاحْتَطَبْتُ حَطَبًا فَبِعْتُہُ فَصَنَعْتُ طَعَامًا فَأَتَیْتُ بِہِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَوَضَعْتُہُ بَیْنَ یَدَیْہِ، فَقَالَ: ((مَا ہٰذَا؟)) فَقُلْتُ: صَدَقَۃٌ، فَقَالَ لِأَصْحَابِہِ: ((کُلُوْا۔)) وَلَمْ یَأْکُلْ، قُلْتُ: ہٰذِہِ مِنْ عَلَامَاتِہِ، ثُمَّ مَکَثْتُ مَا شَائَ اللّٰہُ أَنْ أَمْکُثَ، فَقُلْتُ لِمَوْلَاتِی: ہَبِی لِی یَوْمًا، قَالَتْ: نَعَمْ، فَانْطَلَقْتُ فَاحْتَطَبْتُ حَطَبًا بِأَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَصَنَعْتُ طَعَامًا فَأَتَیْتُہُ بِہِ وَہُوَ جَالِسٌ بَیْنَ أَصْحَابِہِ فَوَضَعْتُہُ بَیْنَ یَدَیْہِ، فَقَالَ: ((مَا ہٰذَا؟)) قُلْتُ: ہَدِیَّۃٌ، فَوَضَعَ یَدَہُ وَقَالَ لِأَصْحَابِہِ: ((خُذُوْا بِسْمِ اللّٰہِ۔)) وَقُمْتُ خَلْفَہُ فَوَضَعَ رِدَائَ ہُ فَإِذَا خَاتَمُ النُّبُوَّۃِ، فَقُلْتُ: أَشْہَدُ أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ، فَقَالَ: ((وَمَا ذَاکَ؟)) فَحَدَّثْتُہُ عَنِ الرَّجُلِ، وَقُلْتُ: أَیَدْخُلُ الْجَنَّۃَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَإِنَّہُ حَدَّثَنِی أَنَّکَ نَبِیٌّ؟ فَقَالَ: ((لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَۃٌ۔)) فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّہُ أَخْبَرَنِی أَنَّکَ نَبِیٌّ أَیَدْخُلُ الْجَنَّۃَ؟ قَالَ: ((لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَۃٌ۔)) (مسند احمد: ۲۴۱۱۳)

ابو قرہ کندی سے روایت ہے کہ سلمان فارسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ میں سرداران فارس کی نسل میں سے تھا، اس سے آگے انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا، میں وہاں سے چل دیا، کوئی سر زمین مجھے اپنے اوپر جگہ دیتی اور پھر مجھے کہیں آگے پھینک دیتی،یہاں تک کہ میں اعرابیوں کی ایک جماعت کے پاس سے گزرا۔ انہوںنے مجھے غلام کی حیثیت سے فروخت کر دیا اور بالآخر مجھے ایک خاتون نے خرید لیا، میں اس گھر کے افراد کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا تذکرہ کرتے سنا، ان دنوں میری گزر بسر انتہائی تنگی میں ہوئی تھی، میں نے اپنی اس مالکہ سے درخواست کی کہ مجھے ایک دن رخصت دیں، انہوںنے رخصت دے دی، تو میں نے جا کر لکڑیاں جمع کر کے ان کو فروخت کیا اور کھانا تیار کیا، میں وہ کھانا لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے وہ کھانا آپ کے سامنے رکھ دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کیا ہے؟ میں نے عر ض کیا: یہ صدقہ ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ سے فرمایا: یہ کھا لو۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود تناول نہ فرمایا، میں نے دل میں کہا: آپ کی علامات میں سے یہ ایک بات تو پوری ہوئی، اس کے بعد اللہ کو جس قدر منظور تھا، وقت گزرا۔ پھر میں نے اپنی مالکہ سے ایک دن کی رخصت طلب کی، اس نے مجھے رخصت دے دی۔ تو میں نے جا کر لکڑیاں اکٹھی کرکے ان کو پہلے سے زیادہ قیمت میں فروخت کیااور اس رقم سے میں نے کھانا تیار کیا، میں وہ کھانا لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صحابہ کی جماعت میں تشریف فرما تھے، میں نے وہ کھانا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے رکھ دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ ہدیہ ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک کھانے کی طرف بڑھایا اور صحابہ سے بھی فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر تم بھی کھائو۔ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے کھڑا ہوگیا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی چادر ہٹا دی اور مجھے مہر نبوت بھی نظر آ گئی، میں بے اختیار پکاراٹھا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہاری اس بات کی وجہ اور سبب کیا ہے؟ میں نے اس پادری کا واقعہ آپ کے گوش گزار کیا اور دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! کیا وہ جنت میں جائے گا؟ اس نے مجھے بتلایا تھا کہ آپ اللہ کے آخری نبی ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں وہی جائے گا، جو مسلمان ہوگا۔ میں نے دوبارہ عرض کیا: اللہ کے رسول! اسی نے مجھے بتلایا تھا کہ آپ اللہ کے نبی ہیں، تو کیا وہ جنت میں جائے گا ؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہی آدمی جنت میں جائے گا جو مسلمان ہو گا۔

Haidth Number: 11744

۔ (۱۱۷۴۵)۔ وَعَنْ بُرَیْدَۃَ الْأَسْلَمِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: جَائَ سَلْمَانُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ قَدِمَ الْمَدِینَۃَ بِمَائِدَۃٍ عَلَیْہَا رُطَبٌ، فَوَضَعَہَا بَیْنَ یَدَیْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا ہٰذَا؟ یَا سَلْمَانُ!۔)) قَالَ: صَدَقَۃٌ عَلَیْکَ وَعَلٰی أَصْحَابِکَ، قَالَ: ((ارْفَعْہَا فَإِنَّا لَا نَأْکُلُ الصَّدَقَۃَ۔)) فَرَفَعَہَا فَجَائَ مِنَ الْغَدِ بِمِثْلِہِ فَوَضَعَہُ بَیْنَ یَدَیْہِ یَحْمِلُہُ، فَقَالَ: ((مَا ہٰذَا؟ یَا سَلْمَانُ!۔)) فَقَالَ: ہَدِیَّۃٌ لَکَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِأَصْحَابِہِ: ((ابْسُطُوْا۔)) فَنَظَرَ إِلَی الْخَاتَمِ الَّذِی عَلٰی ظَہْرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَآمَنَ بِہِ، وَکَانَ لِلْیَہُوَدِ، فَاشْتَرَاہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِکَذَا وَکَذَا دِرْہَمًا وَعَلٰی أَنْ یَغْرِسَ نَخْلًا، فَیَعْمَلَ سَلْمَانُ فِیہَا حَتّٰی یَطْعَمَ، قَالَ: فَغَرَسَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم النَّخْلَ إِلَّا نَخْلَۃً وَاحِدَۃً غَرَسَہَا عُمَرُ، فَحَمَلَتِ النَّخْلُ مِنْ عَامِہَا وَلَمْ تَحْمِلِ النَّخْلَۃُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا شَأْنُ ہٰذِہِ؟)) قَالَ عُمَرُ: أَنَا غَرَسْتُہَا، یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، قَالَ: فَنَزَعَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ غَرَسَہَا فَحَمَلَتْ مِنْ عَامِہَا۔ (مسند احمد: ۲۳۳۸۵)

سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک دسترخوان لیے، جس میں کھجوریں تھیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آکر وہ دستر خوان رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے رکھ دیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: سلمان! یہ کیا ہے؟ انہوںنے کہا: یہ آپ کے لیے اور آپ کے صحابہ کے لیے صدقہ ہے۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے اٹھا لو، ہم صدقہ کا مال نہیں کھاتے۔ چنانچہ انہوںنے اسے اٹھا لیا۔ وہ دوسرے دن بھی حسب سابق آئے اور انہوںنے کھانا لا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے رکھ دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: سلمان! یہ کیا ہے؟ انہوںنے جواب دیا: اے اللہ کے رسول! یہ آپ کے لیے تحفہ ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ سے فرمایا: اپنے ہاتھ بڑھائو۔ سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پشت پر مہر بھی ملاحظہ کی اور یہ سب کچھ دیکھ کر وہ ایمان لے آئے۔ سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان دنوں یہود کے غلام تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو کچھ درہم اور کھجور کے پودے کاشت کرنے کے عوض خرید لیا۔ شرط یہ تھی کہ ان درختوں کے ثمر آور ہونے تک سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ وہاں باغ میں کام کریں گے، کھجور کے تمام پودے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہاتھوں سے خود لگائے، صرف ایک پودا سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لگایا، تمام پودے اسی سال ثمر آور ہوگئے، کھجور کے صرف ایکپودے پر پھل نہ آیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے کیا ہوا؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ٰنے بتلایا: اے اللہ کے رسول! یہ پودا میں نے لگایا تھا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اکھیڑ کر دوبارہ گاڑھ دیا تو وہ بھی اسی سال پھل دار ہوگیا۔

Haidth Number: 11745
Haidth Number: 12271

۔ (۱۲۲۷۲)۔ عَنِ الْجُرَیْرِیِّ، عَنْ ثُمَامَۃَ بْنِ حَزْنٍ الْقُشَیْرِیِّ قَالَ: شَہِدْتُ الدَّارَ یَوْمَ أُصِیبَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَاطَّلَعَ عَلَیْہِمْ اطِّلَاعَۃً، فَقَالَ: ادْعُوا لِی صَاحِبَیْکُمْ اللَّذَیْنِ أَلَبَّاکُمْ عَلَیَّ، فَدُعِیَا لَہُ فَقَالَ: نَشَدْتُکُمَا اللّٰہَ أَتَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَۃَ ضَاقَ الْمَسْجِدُ بِأَہْلِہِ، فَقَالَ: ((مَنْ یَشْتَرِی ہٰذِہِ الْبُقْعَۃَ مِنْ خَالِصِ مَالِہِ؟ فَیَکُونَ فِیہَا کَالْمُسْلِمِینَ، وَلَہُ خَیْرٌ مِنْہَا فِی الْجَنَّۃِ۔)) فَاشْتَرَیْتُہَا مِنْ خَالِصِ مَالِی، فَجَعَلْتُہَا بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ، وَأَنْتُمْ تَمْنَعُونِی أَنْ أُصَلِّیَ فِیہِ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُکُمُ اللّٰہَ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَۃَ لَمْ یَکُنْ فِیہَا بِئْرٌ یُسْتَعْذَبُ مِنْہُ إِلَّا رُومَۃَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((مَنْ یَشْتَرِیہَا مِنْ خَالِصِ مَالِہِ؟ فَیَکُونَ دَلْوُہُ فِیہَا کَدُلِیِّ الْمُسْلِمِینَ، وَلَہُ خَیْرٌ مِنْہَا فِی الْجَنَّۃِ؟)) فَاشْتَرَیْتُہَا مِنْ خَالِصِ مَالِی، فَأَنْتُمْ تَمْنَعُونِی أَنْ أَشْرَبَ مِنْہَا، ثُمَّ قَالَ: ہَلْ تَعْلَمُونَ أَنِّی صَاحِبُ جَیْشِ الْعُسْرَۃِ؟ قَالُوْا: اللَّہُمَّ نَعَمْ۔ (مسند احمد: ۵۵۵)

ثمامہ بن حزن قشیری سے مروی ہے کہ جس روز سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو شہید کیا گیا، میں اس روز ان کے مکان پر حاضر تھا، عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لوگوں کی طرف جھانک کر کہا: لوگو تم اپنے ان دو سرکردہ آدمیوں کو بلاؤ، جنہوں نے تمہیںمیرے خلاف اکسایاہے۔ پس جب انہیں بلایا گیا تو انھوں نے کہا: میں آپ لوگوں کو اللہ کاواسطہ دے کر پوچھتا ہوں آیا تم جانتے ہو کہ جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے اور نمازیوں کے لیے مسجد تنگ ہو گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا کوئی ایسا آدمی ہے جو اپنے خالص مال سے اس قطعہ زمین کو خرید کر مسجد میں شامل کردے اور اس کا اس قطعۂ زمین پر کوئی استحقاق نہ ہو، بلکہ وہ عام مسلمانوں کی طرح ہی اس پر حق رکھتا ہو اور اسے اس کے عوض جنت میں اس سے بہتر جگہ ملے گی۔ تو میں نے اپنے خالص ذاتی مال سے وہ قطعہ خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا، لیکن اب حال یہ ہے کہ تم لوگ مجھے اس مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے سے بھی روکتے ہو۔ پھر کہا: میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو رومہ کے کنوئیں کے علاوہ کوئی کنواں شیریں پانی کا نہیں تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کون ہے جو اپنے ذاتی مال سے یہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دے اور اس میں اس کا حصہ بھی عام مسلمانوں کی طرح ہی ہو، اس کے عوض اس کے لیے جنت میں اس سے بہتر کنواں ہو گا۔ تو میں نے یہ کنوں اپنے ذاتی مال سے خریدا تھا، لیکن اب حال یہ ہے کہ تم مجھے اس سے پانی تک پینے نہیں دیتے۔ پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ میں جیش العسرۃ یعنی غزوہ تبوک کے لشکر کو تیار کرنے والا ہوں؟ لوگوں نے کہا: اللہ گواہ ہے کہ یہ سب باتیں درست ہیں۔

Haidth Number: 12272

۔ (۱۲۲۷۳)۔ عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ: أَشْرَفَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مِنَ الْقَصْرِ وَہُوَ مَحْصُورٌ، فَقَالَ: أَنْشُدُ بِاللّٰہِ مَنْ شَہِدَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ حِرَائٍ إِذَ اہْتَزَّ الْجَبَلُ فَرَکَلَہُ بِقَدَمِہِ ثُمَّ قَالَ: ((اسْکُنْ حِرَائُ لَیْسَ عَلَیْکَ إِلَّا نَبِیٌّ أَوْ صِدِّیقٌ أَوْ شَہِیدٌ۔)) وَأَنَا مَعَہُ، فَانْتَشَدَ لَہُ رِجَالٌ، قَالَ: أَنْشُدُ بِاللّٰہِ مَنْ شَہِدَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَیَوْمَ بَیْعَۃِ الرِّضْوَانِ، إِذْ بَعَثَنِی إِلَی الْمُشْرِکِینَ إِلٰی أَہْلِ مَکَّۃَ، قَالَ: ((ہٰذِہِ یَدِی وَہٰذِہِ یَدُ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ۔)) فَبَایَعَ لِی؟ فَانْتَشَدَ لَہُ رِجَالٌ، قَالَ: أَنْشُدُ بِاللّٰہِ مَنْ شَہِدَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنْ یُوَسِّعُ لَنَا بِہٰذَا الْبَیْتِ فِی الْمَسْجِدِ بِبَیْتٍ فِی الْجَنَّۃِ؟)) فَابْتَعْتُہُ مِنْ مَالِی فَوَسَّعْتُ بِہِ الْمَسْجِدَ، فَانْتَشَدَ لَہُ رِجَالٌ، قَالََ: وَأَنْشُدُ بِاللّٰہِ مَنْ شَہِدَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ جَیْشِ الْعُسْرَۃِ، قَالَ: ((مَنْ یُنْفِقُ الْیَوْمَ نَفَقَۃً مُتَقَبَّلَۃً؟)) فَجَہَّزْتُ نِصْفَ الْجَیْشِ مِنْ مَالِی، قَالَ: فَانْتَشَدَ لَہُ رِجَالٌ، وَأَنْشُدُ بِاللّٰہِ مَنْ شَہِدَ رُومَۃَیُبَاعُ مَاؤُہَا ابْنَ السَّبِیلِ؟ فَابْتَعْتُہَا مِنْ مَالِی فَأَبَحْتُہَا لِابْنِ السَّبِیلِ، قَالَ: فَانْتَشَدَ لَہُ رِجَالٌ۔ (مسند احمد: ۴۲۰)

ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے مروی ہے کہ جب سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ محصور تھے، تو وہ مکان کے اوپر سے جھانکے اور کہا: لوگو! میں تم کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم میں سے کوئی اس وقت موجود تھا، جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حراء پر تھے اور پہاڑ جھومنے لگ گیا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا قدم مبارک پہاڑ پر مار کر فرمایا تھا: اے حرائ! ٹھہر جا، تیرے اوپر صرف نبی، صدیق یا شہید موجود ہیں۔ اس وقت میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، کئی لوگوں نے ان کی تصدیق کی۔ پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر اس آدمی سے پوچھتا ہوں، جو بیعت رضوان کے دن حاضر تھا اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے مشرکین مکہ کی طرف قاصد بنا کر روانہ کیا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیعت لیتے اور کرتے وقت فرمایا تھا: یہ میرا ہاتھ ہے اور یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔ یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری طرف سے بیعت لی تھی، کئی لوگوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی،پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں اس آدمی کو اللہ کاواسطہ دے کر پوچھتا ہوں، جو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس اس وقت موجود ہو، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ کون ہے جو مسجد کے ساتھ والے گھر کو خرید کر مسجد میں شامل کرے اور اسے اس کے عوض جنت میں گھر ملے گا۔ تو میں نے اپنے ذاتی مال سے وہ جگہ خرید کر مسجد کو وسیع کر دیا تھا، بہت سے لوگوں نے اس دعوے کی بھی تصدیق کی، پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں اس آدمی کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، جو جیش العسرہ یعنی غزوہ تبوک کے لشکر کے موقع پر موجود تھا،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: کون ہے، جو آج اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور اس کا یہ عمل اللہ کے ہاں مقبول ہو۔ تو میں نے اپنے ذاتی مال سے آدھے لشکر کی ضروریات کا انتظام کر دیا تھا، بہت سے لوگوں نے اس منقبت کی بھی تصدیق کی۔ پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا کہ کیا کوئی جانتا ہے کہ رومہ کا پانی مسافروں کو قیمتاً دیا جاتا تھا، میں نے اپنے ذاتی مال سے اسے خرید کر مسافروں کے لیے وقف کر دیا تھا۔ بہت سے لوگوں نے اس کی بھی تصدیق کی۔

Haidth Number: 12273

۔ (۱۲۲۷۴)۔ عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلٍ، قَالَ: کُنَّا مَعَ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَہُوَ مَحْصُورٌ فِی الدَّارِ، فَدَخَلَ مَدْخَلًا کَانَ إِذَا دَخَلَہُ یَسْمَعُ کَلَامَہُ مَنْ عَلَی الْبَلَاطِ، قَالَ: فَدَخَلَ ذٰلِکَ الْمَدْخَلَ وَخَرَجَ إِلَیْنَا، فَقَالَ: إِنَّہُمْ یَتَوَعَّدُونِی بِالْقَتْلِ آنِفًا، قَالَ: قُلْنَا: یَکْفِیکَہُمُ اللّٰہُ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ!، قَالَ: وَبِمَ یَقْتُلُونَنِی؟ إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدٰیثَلَاثٍ رَجُلٌ کَفَرَ بَعْدَ إِسْلَامِہِ، أَوْ زَنٰی بَعْدَ إِحْصَانِہِ، أَوْ قَتَلَ نَفْسًا فَیُقْتَلُ بِہَا۔)) فَوَاللّٰہِ! مَا أَحْبَبْتُ أَنَّ لِی بِدِینِی بَدَلًا مُنْذُ ہَدَانِی اللّٰہُ، وَلَا زَنَیْتُ فِی جَاہِلِیَّۃٍ وَلَا فِی إِسْلَامٍ قَطُّ، وَلَا قَتَلْتُ نَفْسًا، فَبِمَ یَقْتُلُوْنَنِی؟ (مسند احمد: ۴۳۷)

ابو امامہ بن سہل سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے گھر میں محصور تھے، وہ اپنے گھر کے ایک ایسے مقام میں آئے، جہاں سے آواز باہر سنی جاسکتی تھی، وہ اس جگہ پر گئے اور ہماری طرف جھانکا اور کہا: اب یہ لوگ مجھے قتل کی دھمکیاں دیتے ہیں، ہم نے کہا: اے امیر المومنین! ان کے مقابلے میں آپ کے لیے اللہ کافی ہے، انہوں نے پھر کہا: یہ لوگ مجھے کیونکر قتل کریں گے، جبکہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کا خون اِن تین صورتوں کے علاوہ کسی بھی صورت میں حلال نہیں: کوئی آدمی اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جائے، یا شادی شدہ ہو کر زنا کرے، یا کسی کو قتل کر دے تو اسے اس کے بدلے میں قتل کر دیا جائے۔ اللہ کی قسم! اللہ نے جب سے مجھے ہدایت دی ہے، میں نے اپنے دین کے مقابلے میں کسی دین کو پسند نہیں کیا، اور میں نے قبل ازاسلام یا بعد ازاسلام کبھی بھی زنانہیں کیا اور نہ ہی میں نے کسی کو قتل کیا ہے، پھر یہ لوگ میرے قتل کے درپے کیوں ہیں؟

Haidth Number: 12274
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نےفرمایا: اگر علم ثریا ستاروں کے پاس ہوتا، پھر بھی اہل فارس اسے ضرور حاصل کر لیتے۔

Haidth Number: 12753
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ہی مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر دین ثریا ستاروں پر ہوتا، پھر بھی فارس یا اہل فارس کا ایک آدمی جاکر اسے ضرور حاصل کرلیتا۔

Haidth Number: 12754
سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے بعد بہت سے لشکر روانہ کیے جائیںگے، تم کوشش کرکے خراسان کی طرف جانے و الے لشکر میں شامل ہونا اور جا کر مرو شہر میں قیام کرنا، کیونکہ ذوالقرنین نے اس شہر کو بنایا تھا اور اس کے لیے برکت کی دعا کی تھی، یہاںکے لوگوں کو کوئی بری چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی۔

Haidth Number: 12755