Blog
Books
Search Hadith

{یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ …الخ} کی تفسیر

25 Hadiths Found
۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری آدمی نے کھانا تیار کیا اور ساتھیوں کو دعوت دی، انہوں نے کھانا کھایا اور شراب پی اور نشہ میں مست ہو گئے، یہ شراب کے حرام ہونے سے پہلے کی بات ہے، ہم بھی ان کے پاس جمع تھے، انہوں نے آپس میں فخر کا اظہار کرنا شروع کر دیا، انصار نے کہا: انصار بہتر ہیں، مہاجرین نے کہا کہ مہاجر بہتر ہیں، ایک آدمی نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اٹھائی اور سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ناک کو پھاڑ دیا، اس طرح ان کی ناک پھاڑی ہوئی تھی،پھریہ آیات نازل ہوئیں: {یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَاء َ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ۔} … اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور شرک کے لیے نصب کردہ چیزیں اور فال کے تیر سراسر گندے ہیں، شیطان کے کام سے ہیں، سو اس سے بچو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمھارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمھیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے، تو کیا تم باز آنے والے ہو۔

Haidth Number: 8585
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارے ان بھائیوں کا کیا بنے گا، جو اس حال میں فوت ہوئے کہ وہ شراب پیتے تھے، پس یہ آیت نازل ہوئی: {لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔}… ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جو وہ کھا چکے، جب کہ وہ متقی بنے اور ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، پھر وہ متقی بنے اور ایمان لائے، پھر وہ متقی بنے اور انھوں نے نیکی کی اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (سورۂ مائدہ: ۹۳) ایک روایت میں ہے: کسی نے کہا: سیدنا سہیل بن بیضائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہو گئے، جبکہ ان کے پیٹ میں شراب تھی (یعنی وہ اس وقت پیتے تھے) پس اللہ تعالی نے یہ حکم اتار دیا: {لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا}۔

Haidth Number: 8586

۔ (۱۰۸۴۱)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ مِنْ فِیْہِ قَالَ: لَمَّا انْصَرَفْنَا مِنَ الْأَحْزَابِ عَنِ الْخَنْدَقِ جَمَعْتُ رِجَالًا مِنْ قُرَیْشٍ، کَانُوا یَرَوْنَ مَکَانِی وَیَسْمَعُونَ مِنِّی، فَقُلْتُ لَہُمْ: تَعْلَمُونَ وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأَرٰی أَمْرَ مُحَمَّدٍیَعْلُو الْأُمُورَ عُلُوًّا کَبِیرًا مُنْکَرًا، وَإِنِّی قَدْ رَأَیْتُ رَأْیًا فَمَا تَرَوْنَ فِیہِ؟ قَالُوا: وَمَا رَأَیْتَ؟ قَالَ: رَأَیْتُ أَنْ نَلْحَقَ بِالنَّجَاشِیِّ فَنَکُونَ عِنْدَہُ فَإِنْ ظَہَرَ مُحَمَّدٌ عَلٰی قَوْمِنَا کُنَّا عِنْدَ النَّجَاشِیِّ فَإِنَّا أَنْ نَکُونَ تَحْتَ یَدَیْہِ أَحَبُّ إِلَیْنَا مِنْ أَنْ نَکُونَ تَحْتَ یَدَیْ مُحَمَّدٍ، وَإِنْ ظَہَرَ قَوْمُنَا فَنَحْنُ مَنْ قَدْ عُرِفَ فَلَنْ یَأْتِیَنَا مِنْہُمْ إِلَّا خَیْرٌ، فَقَالُوا: إِنَّ ہٰذَا الرَّأْیُ، قَالَ: فَقُلْتُ لَہُمْ: فَاجْمَعُوا لَہُ مَا نُہْدِی لَہُ، وَکَانَ أَحَبَّ مَا یُہْدٰی إِلَیْہِ مِنْ أَرْضِنَا الْأَدَمُ، فَجَمَعْنَا لَہُ أُدْمًا کَثِیرًا، فَخَرَجْنَا حَتّٰی قَدِمْنَا عَلَیْہِ، فَوَاللّٰہِ! إِنَّا لَعِنْدَہُ إِذْ جَائَ عَمْرُو بْنُ أُمَیَّۃَ الضَّمْرِیُّ، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ بَعَثَہُ إِلَیْہِ فِی شَأْنِ جَعْفَرٍ وَأَصْحَابِہِ، قَالَ: فَدَخَلَ عَلَیْہِ ثُمَّ خَرَجَ مِنْ عِنْدِہِ، قَالَ: فَقُلْتُ لِأَصْحَابِی: ہٰذَا عَمْرُو بْنُ أُمَیَّۃَ الضَّمْرِیُّ، لَوْ قَدْ دَخَلْتُ عَلَی النَّجَاشِیِّ فَسَأَلْتُہُ إِیَّاہُ فَأَعْطَانِیہِ فَضَرَبْتُ عُنُقَہُ، فَإِذَا فَعَلْتُ ذٰلِکَ رَأَتْ قُرَیْشٌ أَنِّی قَدْ أَجْزَأْتُ عَنْہَا حِینَ قَتَلْتُ رَسُولَ مُحَمَّدٍ، قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَیْہِ فَسَجَدْتُ لَہُ کَمَا کُنْتُ أَصْنَعُ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِصَدِیقِی أَہْدَیْتَ لِی مِنْ بِلَادِکَ شَیْئًا؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، أَیُّہَا الْمَلِکُ، قَدْ أَہْدَیْتُ لَکَ أُدْمًا کَثِیرًا، قَالَ: ثُمَّ قَدَّمْتُہُ إِلَیْہِ فَأَعْجَبَہُ وَاشْتَہَاہُ ثُمَّ قُلْتُ لَہُ: أَیُّہَا الْمَلِکُ! إِنِّی قَدْ رَأَیْتُ رَجُلًا خَرَجَ مِنْ عِنْدِکَ وَہُوَ رَسُولُ رَجُلٍ عَدُوٍّ لَنَا فَأَعْطِنِیہِ لِأَقْتُلَہُ فَإِنَّہُ قَدْ أَصَابَ مِنْ أَشْرَافِنَا وَخِیَارِنَا، قَالَ: فَغَضِبَ ثُمَّ مَدَّ یَدَہُ فَضَرَبَ بِہَا أَنْفَہُ ضَرْبَۃً، ظَنَنْتُ أَنْ قَدْ کَسَرَہُ، فَلَوِ انْشَقَّتْ لِیَ الْأَرْضُ لَدَخَلْتُ فِیہَا فَرَقًا مِنْہُ ثُمَّ قُلْتُ: أَیُّہَا الْمَلِکُ وَاللّٰہِ! لَوْ ظَنَنْتُ أَنَّکَ تَکْرَہُ ہٰذَا مَا سَأَلْتُکَہُ، فَقَالَ لَہُ: أَتَسْأَلُنِی أَنْ أُعْطِیَکَ رَسُولَ رَجُلٍ یَأْتِیہِ النَّامُوسُ الْأَکْبَرُ الَّذِی کَانَ یَأْتِی مُوسٰی لِتَقْتُلَہُ؟ قَالَ: قُلْتُ، أَیُّہَا الْمَلِکُ أَکَذَاکَ ہُوَ؟ فَقَالَ: وَیْحَکَیَا عَمْرُو! أَطِعْنِی وَاتَّبِعْہُ فَإِنَّہُ وَاللّٰہِ لَعَلَی الْحَقِّ وَلَیَظْہَرَنَّ عَلٰی مَنْ خَالَفَہُ کَمَا ظَہَرَ مُوسٰی عَلٰی فِرْعَوْنَ وَجُنُودِہِ، قَالَ: قُلْتُ: فَبَایِعْنِی لَہُ عَلَی الْإِسْلَامِ، قَالَ: نَعَمْ فَبَسَطَ یَدَہُ وَبَایَعْتُہُ عَلَی الْإِسْلَامِ ثُمَّ خَرَجْتُ إِلٰی أَصْحَابِی، وَقَدْ حَالَ رَأْیِی عَمَّا کَانَ عَلَیْہِ وَکَتَمْتُ أَصْحَابِی إِسْلَامِی، ثُمَّ خَرَجْتُ عَامِدًا لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِأُسْلِمَ، فَلَقِیتُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِیدِ وَذٰلِکَ قُبَیْلَ الْفَتْحِ وَہُوَ مُقْبِلٌ مِنْ مَکَّۃَ، فَقُلْتُ: أَیْنَیَا أَبَا سُلَیْمَانَ؟ وَاللّٰہِ! لَقَدْ اسْتَقَامَ الْمَنْسِمُ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَنَبِیٌّ أَذْہَبُ وَاللّٰہِ أُسْلِمُ فَحَتّٰی مَتٰی؟ قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! مَا جِئْتُ إِلَّا لِأُسْلِمَ، قَالَ: فَقَدِمْنَا عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَدِمَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ فَأَسْلَمَ وَبَایَعَ، ثُمَّ دَنَوْتُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی أُبَایِعُکَ عَلٰی أَنْ تَغْفِرَ لِی مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِی وَلَا أَذْکُرُ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا عَمْرُو بَایِعْ فَإِنَّ الْإِسْلَامَ یَجُبُّ مَا کَانَ قَبْلَہُ، وَإِنَّ الْہِجْرَۃَ تَجُبُّ مَا کَانَ قَبْلَہَا۔)) قَالَ: فَبَایَعْتُہُ ثُمَّ انْصَرَفْتُ، قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَقَدْ حَدَّثَنِی مَنْ لَا أَتَّہِمُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَۃَ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ کَانَ مَعَہُمَا أَسْلَمَ حِینَ أَسْلَمَا۔ (مسند احمد: ۱۷۹۳۰)

حبیب بن اوس سے مروی ہے کہ سیدنا عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے براہ راست بیان کیا کہ جب ہم غزوۂ احزاب میں خندق سے واپس ہوئے، تو میں نے چند ان قریشی لوگوں کو جمع کیا، جو میرا مقام سمجھتے اور میری بات کو توجہ سے سنتے تھے، میں نے ان سے کہا: اللہ کی قسم! تم جانتے ہو کہ میری نظر میں محمد کی دعوت سب پر غالب ہو کر رہے گی اور ہم لوگ اسے پسند بھی نہیں کرتے، میری ایک رائے ہے، اب تم بتاؤ کہ اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا: جی آپ کی رائے کیا ہے؟ میں نے کہا: میرا خیال ہے کہ ہم نجاشی کے پاس چلے جائیں اور وہیں رہیں، اگر محمد ہماری قوم پر غالب آ گئے، تو ہم نجاشی کے ہاں ہوں گے اور محمد کے ماتحت رہنے کی نسبت نجاشی کے ماتحت رہنا ہمیں زیادہ پسند ہے اور اگر ہماری قوم غالب ہوئی تو ہم معروف ہیں،ہمیں ان کے ہاں خیر ہی خیر ملے گی۔ لوگوں نے کہا: واقعی آپ کی رائے مناسب ہے۔پھر میں نے ان سے کہا: تم اس کو تحائف دینے کے لیے مال جمع کرو، اسے ہمارے علاقے کا چمڑا بطور ہدیہ بہت پسند تھا، پس ہم نے اسے دینے کے لیے بہت سے چمڑے جمع کر لئے اور ہم روانہ ہو گئے اور اس کے ہاں پہنچ گئے، اللہ کی قسم !ہم اس کے پاس موجود تھے کہ عمرو بن امیہ ضمریبھی وہاں آگئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو جعفر اور ان کے ساتھیوںکے سلسلہ میں بات چیت کے سلسلہ میں وہاں بھیجا تھا، وہ اس کے پاس آئے اور اس کے ہاں سے چلے گئے، اب میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: یہ عمرو بن امیہ ضمری ہے، اگر میں نجاشی کے ہاں جا کر اس سے اس کا مطالبہ کروں کہ اسے میرے حوالے کر دے تو وہ اسے میرے حوالے کر دے گا اور میں اسے قتل کر دوں گا تو قریش اعتراف کریں گے کہ میں نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سفیر کو قتل کر کے ان کی نیابت کا حق ادا کر دیا۔ چنانچہ میں اس کے دربار میں گیا اور جاتے ہی اسے تعظیمی سجدہ کیا، جیسا کہ میں اس سے پہلے بھی کیا کرتا تھا،اس نے کہا: دوست کی آمد مبارک، تم اپنے وطن سے میرے لیے کچھ تحفہ لائے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں ! بادشاہ سلامت! میں آپ کے لیے کثیر مقدار میں چمڑے لے کر حاضر ہوا ہوں۔ پھر میں نے وہ اس کی خدمت میں پیش کئے، اس نے ان کو خوب پسند کیا اور یہ بھی اظہار کیا کہ اس کو ان کی ضرورت تھی، اس کے بعد میں نے کہا: بادشاہ سلامت! میں نے یہاں ایک آدمی کو دیکھا ہے، جو آپ کے ہاں سے باہر گیا ہے، وہ تو ہمارے دشمن کا قاصد ہے، آپ اسے میرے حوالے کر دیں تاکہ میں اسے قتل کر سکوں، وہ تو ہمارے معزز اور بہترین لوگوں کا قاتل ہے، یہ سن کر نجاشی غضبناک ہو گیا۔ اس نے اپنا ہاتھ لمبا کر کے اپنے ہی ناک پر اس قدر زور سے مارا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ اس نے اپنے ناک کی ہڈی توڑ دی ہو گی، اس کے خوف کی وجہ سے میرییہ حالت ہوئی کہ اگر زمین پھٹ جاتی تو میں اس میں داخل ہو جاتا۔ پھر میں نے کہا: بادشاہ سلامت! اللہ کی قسم اگر مجھے علم ہوتا کہ یہ بات آپ کو اس قدر ناگوار گزرے گی تو میں آپ سے اس کا مطالبہ ہی نہ کرتا۔ نجاشی نے کہا: جو فرشتہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا کرتا تھا، اب وہ جس آدمی کے پاس آتا ہے، کیا میں اس کے قاصد کو تمہارے حوالے کر دوں تاکہ تم اسے قتل کر سکو؟ میں نے کہا: بادشاہ سلامت! کیا وہ واقعی ایسا ہی ہے؟ وہ بولا: اے عمرو! تجھ پر افسوس ہے، تم میری بات مان لو اور اس کی اتباع کر لو، اللہ کی قسم وہ یقینا حق پر ہے اور وہ ضرور بالضرور اپنے مخالفین پر غالب آئے گا، جیسے موسیٰ علیہ السلام ، فرعون اور اس کے لشکروں پر غالب آئے تھے۔ میں نے کہا: آپ مجھ سے اس کے حق میں قبولِ اسلام کی بیعت لے لیں۔ نجاشی نے کہا: ٹھیک ہے۔ چنانچہ اس نے اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور میں نے اس کے ہاتھ پر قبولِ اسلام کی بیعت کر لی۔ پھر میں اپنے ساتھیوں کی طرف گیا، جبکہ میری رائے سابقہ رائے سے یکسر بدل چکی تھی، لیکن میں نے اپنے ساتھیوں سے اپنے قبولِ اسلام کو چھپائے رکھا، پھر میں مسلمان ہونے کے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف چل دیا، خالد بن ولید سے میری ملاقات ہوئی، وہ مکہ مکرمہ سے آرہے تھے، یہ فتح مکہ سے پہلے کی بات ہے اور میں نے ان سے دریافت کیا: ابو سلیمان! کہاں سے آرہے ہو؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! راستہ خوب واضح ہو چکا ہے، وہ محمد یقینا نبی ہے، اللہ کی قسم میں تو جا کر مسلمان ہوتا ہوں۔ کب تک یوں ہی ادھر ادھربھٹکتا رہوں گا، میں نے کہا: اللہ کی قسم میں بھی اسلام قبول کرنے کے لیے ہی آیاہوں۔ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچے۔ خالد بن ولید آگے بڑھے۔ انہوں نے اسلام قبول کیا اوربیعت کی، ان کے بعد میں بھی قریب ہوا اور میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں آپ سے اس شرط پر بیعت کرتا ہوں کہ میرے سابقہ سارے گناہ معاف ہو جائیں اور مجھے بعد میں سرزد ہونے والے گناہوں کانام لینایاد نہ رہا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عمرو! تم بیعت کرو، بے شک اسلام پہلے کے سارے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت سابقہ تمام گناہوں کو ختم کر دیتی ہے، پس میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کر لی اور پھر میں واپس آگیا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں: مجھ سے ایک ایسے آدمی نے بیان کیا جومیرے نزدیک قابلِ اعتماد ہے، اس نے کہا کہ سیدنا عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی ان دونوں کے ہم راہ تھے، جب یہ دونوں اسلام میں داخل ہوئے تو وہ بھی ان کے ساتھ ہی مسلمان ہوئے۔

Haidth Number: 10841
سیدنا طارق بن شہاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہے اور میںنے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ادوار میں۳۳یا۳۴ لڑائیوں میں شرکت کی ہے۔

Haidth Number: 11752
سیدنا ابو سعد خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں شکایتیں کیں، سو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: لوگو! تم علی کے شکوے مت کیا کرو، وہ اللہ کی ذات کے بارے میں یا اللہ تعالیٰ کی راہ میں بہت سخت ہے۔

Haidth Number: 12292
سیدنا عمر و بن شاس اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ اصحابِ حدیبیہ میں سے تھے، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں یمن کی جانب گیا، دوران سفر انہوں نے میرے ساتھ کچھ سختی کی، اس سے مجھے دل میں بہت کوفت ہوئی، جب میں واپس آیا تو میں نے اعلانیہ مسجد میں ان کا شکوہ کردیا، یہ بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچ گئی، میں ایک دن صبح کے وقت مسجد میں داخل ہو ا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صحابہ کے ہمراہ تشریف فرما تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی نظریں مجھ پر گاڑھ دیں، پھر میں بیٹھ گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عمرو! اللہ کی قسم! تو نے مجھے تکلیف دی ہے۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اس بات سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ آپ کو ایذا پہنچاؤں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں، جس نے علی کو ایذا دی، اس نے درحقیقت مجھے تکلیف پہنچائی۔

Haidth Number: 12293
سیدنا یحییٰ بن آدم سلولی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حاضرتھے، سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں، میری طرف سے ادائیگی یا تو میں خود کروں گا، یا علی کرے گا۔ ابن ابی بکیر کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: میرا قرضہ میں خود ادا کروں گا یا میری طرف سے علی ادا کرے گا۔

Haidth Number: 12294
سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: کوئی مومن تجھ سے بغض نہیں رکھ سکتا اور کوئی منافق تجھ سے محبت نہیںکر سکتا۔

Haidth Number: 12295
ابو عبداللہ جدلی کہتے ہیں: میں سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے مجھ سے کہا: کیا تمہارے ہاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو برا بھلا کہا جا رہا ہے؟ میں نے کہا: اللہ کی پناہ، یا کہا: سبحان اللہ! بڑا تعجب ہے، یا اسی قسم کا کوئی کلمہ کہا، (یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو برا بھلا کہا جائے) انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: جس نے علی کو برا بھلا کہا، اس نے یقینا مجھے برا بھلا کہا۔

Haidth Number: 12296
Haidth Number: 12297
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب یہ آیت {وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ} … اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ۔ نازل ہوئی، تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے خاندان کے لوگوں کو جمع کیا، تیس آدمی جمع ہو گئے، انہوںنے کھایا پیا، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: تم میں سے کون ہے، جو میرے قرض کی ادائیگی اور میرے وعدوں کو پورا کرنے کی ضمانت دے گا، اس کے نتیجہ میں وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا اور میرے اہل میں میرا خلیفہ ہوگا؟ ایک آدمی نے جواباً کہا: اللہ کے رسول! آپ تو سمندر ہیں، کون ان ذمہ داریوں کو ادا کر سکتا ہے؟ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کسی اور کو بھی یہ بات کہی پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہی بات جب اپنے اہل بیت پر پیش کی تو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی میں اس کی ضمانت دیتا ہوں۔

Haidth Number: 12298
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بعد نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ سب سے پہلے نماز پڑھنے والے یا ان کے بعد سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے ۔

Haidth Number: 12299
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانہ میں کہا کرتے تھے کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سب لوگوں سے افضل ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں اور سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو تین ایسی خصوصیات نصیب ہوئی ہیں کہ اگر مجھے ان میں سے کوئی ایک مل جاتی تووہ مجھے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہوتی، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بیٹی کی ان سے شادی کی،ان سے ان کی اولاد ہوئی اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے دروازے کے علاوہ مسجد میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر وادئیے اور خیبر کے روز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں جھنڈا عطا فرمایا۔

Haidth Number: 12300
عبد اللہ بن رقیم کنانی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:جنگ جمل کے دنوںمیں ہم مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے اور سیدنا سعد بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ہماری ملاقات ہوئی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا تھا کہ مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیئے جائیں، البتہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا دروازہ کھلا رہنے دیا جائے۔

Haidth Number: 12301

۔ (۱۲۳۰۲)۔ عَنْ أَبِی حَسَّانَ أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ یَأْمُرُ بِالْأَمْرِ فَیُؤْتٰی، فَیُقَالُ: قَدْ فَعَلْنَا کَذَا وَکَذَا، فَیَقُولُ: صَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ الْأَشْتَرُ: إِنَّ ہٰذَا الَّذِی تَقُولُ قَدْ تَفَشَّغَ فِی النَّاسِ أَفَشَیْئٌ عَہِدَہُ إِلَیْکَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: مَا عَہِدَ إِلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْئًا خَاصَّۃً دُونَ النَّاسِ إِلَّا شَیْئٌ سَمِعْتُہُ مِنْہُ، فَہُوَ فِی صَحِیفَۃٍ فِی قِرَابِ سَیْفِی، قَالَ: فَلَمْ یَزَالُوا بِہِ حَتَّی أَخْرَجَ الصَّحِیفَۃَ، قَالَ: فَإِذَا فِیہَا ((مَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوٰی مُحْدِثًا فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ، لَا یُقْبَلُ مِنْہُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ، قَالَ: وَإِذَا فِیہَا إِنَّ إِبْرَاہِیمَ حَرَّمَ مَکَّۃَ وَإِنِّی أُحَرِّمُ الْمَدِینَۃَ حَرَامٌ مَا بَیْنَ حَرَّتَیْھَا وَحِمَاھَا کُلُّہُ لَا یُخْتَلٰی خَلَاھَا وَلَا یُنَفَّرُ صَیْدُھَا وَلَا تُلْتَقَطُ لُقْطَتُھَا اِلاَّ لِمَنْ اَشَارَبِھَا وَلَا تُقْطَعُ مِنْھَا شَجَرَۃٌ اِلاَّ اَنْ یَعْلِفَ رَجُلٌ بَعِیْرَہٗ وَبُجْمَلُ فِیْھَا السِّلَاحُ لِقِتَالٍ وَقَالَ وَاِذَا فِیْھَا الْمُوْمِنُوْنَ تَتَکاَفَؤُ دِمَائَ ہُمْ وَیَسْعٰی بِذِمَّتِھِمْ اَدْنَاھُمْ وَہُمْ یَدٌ عَلٰی مَنْ سِوَاہُمْ اَلَا لَا یُقْتَلُ مُوْمِنٌ بِکَافِرٍ وَلَا ذُوْ عَہْدٍ فِیْ عَھْدِہٖ۔)) (مسنداحمد: ۹۵۹)

ابو حسان سے روایت ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کسی کا م کا حکم دیتے تو لوگ وہ کام کر لینے کے بعد آ کر کہتے کہ ہم نے وہ کام کر لیا، یہ سن کر وہ کہتے: اللہ اور اس کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سچ فرمایا ہے، اشتر نے ان سے کہا: آپ کی یہ بات اب لوگوں میں عام ہوچکی ہے، اگر اللہ کے رسول نے آپ سے کچھ فرمایا ہوتو اسے بیان کردیا کریں، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عام لوگوں سے ہٹ کر مجھے خاص کر کے کچھ نہیں فرمایا، البتہ صرف ایک بات ہے جو میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے اور وہ میری تلوار کے نیام میں لکھی ہوئی موجود ہے، لوگ اس کا اصرار کرتے رہے، یہاں تک کہ انہوں نے وہ تحریر نکال دی، اس میں لکھا تھا کہ جو شخص بدعت جاری کر ے یا بدعتی کو پناہ دے تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اس کی فرضی اور نفلی عبادت قبول نہیں ہوگی۔ اور اس میں یہ بات بھی لکھی ہوئی تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا تھا اور میں مدینہ منورہ کوحرم قرار دیتا ہوں اس کے دو میدانوں کے درمیان والا سارا علاقہ حرام ہے۔ اس کی چراگاہ کی گھاس نہ کاٹی جائے اس کے شکار کو بھگایا نہ جائے۔ اس کی گری ہوئی چیز کوئی نہ اٹھائے مگر اس کا اعلان کرنے والا۔ (وہ اٹھا سکتا ہے اس کا کوئی درخت نہ کاٹا جائے۔ ہاں آدمی اپنے اونٹ کو پتے ڈال سکتا ہے۔ لڑائی کے لیے اس میں ہتھیار نہ اٹھایا جائے۔ اس صحیفہ میں یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کے خون برابر ہیں۔ ان میں ادنیٰ آدمی کسی کو پناہ دے سکتا۔ وہ کافروں کے خلاف ایک ہاتھ کی طرح اکٹھے اور جماعت ہیں۔ مومن کو کافر کے بدلے میں اور ذمی کو اس کے عہد و پیمان کے دوران قتل نہیں کیا جائے گا۔

Haidth Number: 12302
سیدنا زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ساتھ ایک وادی میں اترے، اس کو وادی خُم کہتے تھے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز کا حکم دیا اور سخت گرمی میں ظہر کی نماز پڑھائی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور دھوپ سے بچانے کے لیے کیکر کے درخت پر کپڑا ڈال کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر سایہ کیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے نہیں ہو، یا کیا تم یہ گواہی نہیں دیتے کہ میں ہر مومن کے اس کے نفس سے بھی زیادہ قریب ہوں؟ صحابہ نے کہا: جی کیوں نہیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں جس کا دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے، اے اللہ! تو اس سے دشمنی رکھ، جو علی سے دشمنی رکھتا ہے اور تو اس کو دوست رکھ، جو علی کو دوست رکھتا ہے۔

Haidth Number: 12303
سیدنا زید بن ارقم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لوگوں سے گواہی طلب کی اور کہا: میں اس آدمی کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، جس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اے اللہ! میں جس کا دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے تو بھی اسے اپنا دوست رکھ اور جو علی سے عداوت رکھے تو بھی اس سے عداوت رکھ۔ یہ سن کر سولہ آدمی کھڑے ہوئے اور انھوں نے یہ شہادت دی (کہ واقعی انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ حدیث سنی ہے)۔

Haidth Number: 12304
ریاح بن حارث سے مروی ہے کہ لوگوں کی ایک جماعت رحبہ کے مقام پر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئی اور انھوں نے کہا: اے ہمارے مولی! تم پر سلامتی ہو، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں تمہارا مولیٰ کیسے ہوسکتا ہوں، تم تو عرب قوم ہو؟ ان لوگوں نے کہا: ہم نے غدیر خم کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں فرماتے سنا تھا کہ میں جس کا مولیٰ ہوں، یہ علی بھی اس کا مولیٰ ہے۔ ریاح کہتے ہیں: جب وہ لوگ چلے گئے تو میں ان کے پیچھے ہولیا اور میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے بتلایا کہ یہ انصاری لوگ ہیں، ان میں سیدنا ابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے۔

Haidth Number: 12305
۔ (دوسری سند) ریاح کہتے ہیں: میں نے انصاریوں کی ایک جماعت دیکھی، وہ رحبہ میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پوچھا: تم کون لوگ ہو؟انہوں نے کہا، اے امیر المومنین! ہم آپ کے دوست ہیں، پھر مذکورہ حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔

Haidth Number: 12306
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رحبہ میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں حاضر تھا، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر کہہ رہے تھے: میں اس آدمی کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں، جس نے غدیر خم والے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میں جس کا دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے۔ وہ اٹھ کر گواہی دے، یہ بات سن کر بارہ بدری صحابہ کھڑے ہوئیـ، وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے، گویا میں ان میں سے ہر ایک کو دیکھ رہا ہوں، ان سب نے کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے غدیر خم کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کیا میں مومنین پر ان کی جانوں سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟ اور کیا میری ازواج ان کی مائیں نہیں ہیں؟ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! بالکل بات ایسے ہی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میںجس کا دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے، اے اللہ! تو اس آدمی کو دوست رکھ، جو علی کو دوست رکھتا ہے اور جو اس سے عداوت رکھے، تو بھی اس سے عداوت رکھ۔

Haidth Number: 12307
۔ (دوسری سند) عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رحبہ میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس موجود تھا، انھوں نے کہا: میں اس آدمی کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں جو غدیر خم والے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس موجود تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، وہ کھڑا ہو جائے، یہ بات سن کر بارہ آدمی کھڑے ہو گئے، سب نے کہا:ہم نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کا ہاتھ بھی پکڑا ہوا تھا: یا اللہ! جو اس علی سے دوستی رکھے تو بھی اسے اپنا دوست رکھ، جو اس سے عداوت رکھے تو بھی ا س سے عداوت رکھ، جو اس کی مدد کرے تو بھی ا س کی مدد کر اور جو اسے چھوڑ جائے تو بھی اسے چھوڑ دے۔ صرف تین آدمی نہیں اٹھے تھے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان پر بددعا کی اور ان کی بددعاان کو لگ گئی تھی۔ ابو عمر زاذان کہتے ہیں:میں نے رحبہ میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دیکھا، وہ لوگوں کو اللہ کا واسطہ دے کر کہہ رہے تھے کہ جو آدمی غدیر خم کے روز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر تھا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرما رہے تھے جو آپ نے فرمایا (جواب سے آپ کے اس فرمان کی سمجھ آرہی ہے) پس تیرہ آدمی کھڑے ہو گئے اور انھوں نے یہ گواہی دی کہ انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ میں جس کا دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے۔

Haidth Number: 12308
سعید بن وہب اور زیدبن یثیع کہتے ہیں: سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رحبہ میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر کہا کہ جس کسی نے غدیر خم کے روز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، وہ اٹھ کر کھڑا ہوجائے، پس سعید کی طرف سے چھ اور زید کی جانب سے بھی چھ آدمی کھڑے ہو گئے اور ان سب نے گواہی دی کہ انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو غدیر خم کے روز سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے متعلق فرماتے ہوئے سنا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا مومنین پر اللہ کا حق زیادہ نہیں؟ صحابہ نے کہا: جی بالکل، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ! میں جس کا دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے، یا اللہ! جو اس سے دوستی رکھے تو بھی اس سے دوستی رکھ اور جو اس سے عداوت رکھے تو بھی اس سے عداوت رکھ۔

Haidth Number: 12309
سعید اور زید یہ بھی روایت کرتے ہیں، اس میں یہ الفاظ زائد ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ! جو علی کی مدد کرے، تو بھی اس کی مدد کر اور جو اس کو چھوڑ دے، تو بھی اس کو چھوڑ دے۔

Haidth Number: 12310
سعید بن وہب سے مروی ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لوگوں کو اللہ کا واسطہ دیا، توپانچ چھ صحابہ کھڑے ہوئے اور انھوں نے یہ گواہی دی کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ میں جس کا دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے۔

Haidth Number: 12311
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: عرفہ کے دن فلاں آدمی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے سواری پر سوار تھا، وہ آدمی عورتوں کی طرف غور سے دیکھنے لگا اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے پیچھے سے اپنے ہاتھ کے ساتھ اس کے چہرے کو دوسری طرف پھیرتے تھے، لیکن وہ آدمی عورتوں کی طرف برابر دیکھتا رہا، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: بھتیجے! آج کے دن جو آدمی اپنے کانوں، آنکھوں اور زبان کو کنٹرول میں رکھ لے گا، اسکی مغفرت کر دی جائے گی۔

Haidth Number: 12765