Blog
Books
Search Hadith

سورۃ الاعراف {وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِنْ غِلٍّ…}کی تفسیر

14 Hadiths Found

۔ (۸۶۰۲)۔ حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ أَ بِی عَرُوبَۃَ فِی ہٰذِہِ الْآیَۃِ: {وَنَزَعْنَا مَا فِی صُدُورِہِمْ مِنْ غِلٍّ} [الأعراف: ۴۳] قَالَ: ثَنَا قَتَادَۃُ: أَ نَّ أَبَا الْمُتَوَکِّلِ النَّاجِیَّ حَدَّثَہُمْ: أَنَّ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ حَدَّثَہُمْ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَخْلُصُ الْمُؤْمِنُونَ مِنْ النَّارِ فَیُحْبَسُونَ عَلٰی قَنْطَرَۃٍ بَیْنَ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ، فَیُقْتَصُّ لِبَعْضِہِمْ مِنْ بَعْضٍ مَظَالِمُ کَانَتْ بَیْنَہُمْ فِی الدُّنْیَا حَتّٰی إِذَا ہُذِّبُوْا وَنُقُّوْا أُذِنَ لَہُمْ فِی دُخُولِ الْجَنَّۃِ))، قَالَ: ((فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَأَحَدُہُمْ أَہْدٰی لِمَنْزِلِہِ فِی الْجَنَّۃِ مِنْہُ لِمَنْزِلِہِ کَانَ فِی الدُّنْیَا)) قَالَ قَتَادَۃُ: وَقَالَ بَعْضُہُمْ: مَا یُشْبِہُ لَہُمْ إِلَّا أَہْلُ جُمُعَۃٍ حِینَ انْصَرَفُوْا مِنْ جُمُعَتِہِمْ۔ (مسند احمد: ۱۱۷۲۹)

۔ سعید بن ابی عروبہ نے اس آیت {وَنَزَعْنَا مَا فِی صُدُورِہِمْ مِنْ غِلٍّ}کے بارے میں کہا: ہمیں قتادہ نے بیان کیا کہ ان کو ابو متوکل ناجی نے بیانکیا کہ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب ایمانداروں کو دوزخ سے رہائی ملے گی تو انہیں جنت اور دوزخ کے درمیان ایک پل پر روکا جائے گا، آپس میں ظلموں کا قصاص دلایا جائے گا، یہاں تک کہ جب وہ ان سے پاک و صاف کردئیے جائیں گے، تو تب انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت ملے گی، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ جنت میں اپنے مقام کو اس سے زیادہ پہچانتے ہوں گے، جتنا دنیا میں وہ اپنے گھر کے راستے کو پہچانتے ہیں۔ قتادہ نے کہا: بعض راویوں نے کہا: جیسے وہ دنیا میں جمعہ پڑھنے کے بعد سیدھے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے۔

Haidth Number: 8602
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، اس وقت آپ کے سر پر خود تھا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے اتارا تو ایک آدمی نے آکر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا کہ ابن خطل کافر کعبہ کے پردوں کے ساتھ لٹکا ہوا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے قتل کر دو۔ امام مالک کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس روز احرام کی حالت میں نہیں تھے۔ واللہ اعلم۔

Haidth Number: 10880
ابوبرزہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فتح مکہ کے دن اعلان فرمایا کہ عبدالعزی بن خطل کے علاوہ باقی سب لوگوں کو امن دیا جاتا ہے۔

Haidth Number: 10881
عامر شعبی سے مروی ہے کہ وہ بنو عدی بن کعب کے ایک فرد عبداللہ بن مطیع بن اسود سے اور وہ اپنے والد سیدنا مطیع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت کرتے ہیں، سیدنا مطیع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا سابقہ نام عاص تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کا نام تبدیل کر کے مطیع رکھا تھا،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مکہ میں جب ان لوگوں کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا تو میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: آج کے بعد کبھی بھی مکہ پر چڑھائی نہیں کی جائے گی اور اس سال کے بعد کبھی کوئی قریشی اس طرح ( یعنی کفر اور ارتداد کی وجہ سے ) قتل نہ ہو گا۔ ایک روایت میں ہے: اور اسلام نے قریش کے عاص نامی لوگوں میں سے کسی کو نہیں پایا، ما سوائے سیدنا مطیع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے۔

Haidth Number: 10882
سیدہ ام ہانی فاختہ بنت ابو طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: فتح مکہ والے دن میں نے اپنے دو سسرالی رشتہ داروں کو پناہ دی اور ان کو گھر میں داخل کر کے دروازہ بند کر دیا، میری اپنی ماں کا بیٹا سیدنا علی بن ابو طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور ان پر تلوار سونت لی، میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئی، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے نہ مل سکے، البتہ سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا موجود تھیں، لیکن وہ میرے معاملے میں مجھ پر اپنے خاوند سے بھی زیادہ سختی کرنے والی تھیں، اتنے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر گردو غبار کا اثر تھا، جب میں نے اپنی بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتائی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ام ہانی! جن کو تو نے پناہ دی، ہم نے بھی ان کو پناہ دی اور جن کو تو نے امن دیا، ہم نے بھی ان کو امن دے دیا۔

Haidth Number: 10883
سیدہ اسماء بنت ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ مکہ میں ان کو حمل ہو گیا تھا، یہ بچہ عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، وہ کہتی ہیں: جب ایام حمل پورے ہو چکے تھے کہ تو میں مکہ سے روانہ ہو کر مدینہ منورہ کی طرف چل دی اورقباء میں آکر ٹھہری اور میں نے ان کو وہیں جنم دیا اور اس کو لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گئی اور اسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی گود میں رکھ دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھجور منگوا کر اسے چبایا اور لعاب مبارک اس کے منہ میں ڈالا، اس کے پیٹ میں سب سے پہلے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا لعاب دہن گیا تھا۔ سیدہ اسماء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو کھجور کی گھٹی دی، اس کے حق میں دعا فرمائی اور برکت کی دعا بھی کی، اسلام میں1 یہ سب سے پہلا پیدا ہونے والا بچہ تھا۔ ! اس سے مراد یہ ہے کہ مدینہ میں مہاجرین کے ہاں پیدا ہونے والا یہ پہلا بچہ تھا۔ ورنہ مہاجرین کا مدینہ کے علاوہ پہلا بچہ عبداللہ بن جعفر تھا جو حبشہ میں پیدا ہوا اور ہجرت کے بعد انصار کے ہاں پہلا بچہ مسلمہ بن مخلد تھا۔ [فتح الباری: ج۷، ص ۲۴۸] (عبداللہ رفیق)

Haidth Number: 11782
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں عبد اللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے کھجور کی گھٹی دی اور فرمایا: اس کا نام عبداللہ ہے اور (عائشہ!) تم ام عبداللہ ہو۔

Haidth Number: 11783

۔ (۱۲۳۵۳)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: بَعَثَ عَلِیٌّ مِنَ الْیَمَنِ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذَہَبَۃٍ فِی أَدِیمٍ مَقْرُوظٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِہَا، فَقَسَمَہَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَرْبَعَۃٍ بَیْنَ زَیْدِ الْخَیْرِ وَالْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ وَعُیَیْنَۃَ بْنِ حِصْنٍ وَعَلْقَمَۃَ بْنِ عُلَاثَۃَ أَوْ عَامِرِ بْنِ الطُّفَیْلِ شَکَّ عُمَارَۃُ، فَوَجَدَ مِنْ ذٰلِکَ بَعْضُ أَصْحَابِہِ وَالْأَنْصَارُ وَغَیْرُہُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((أَلَا تَأْتَمِنُونِی وَأَنَا أَمِینُ مَنْ فِی السَّمَائِ، یَأْتِینِی خَبَرٌ مِنَ السَّمَائِ صَبَاحًا وَمَسَائً۔)) ثُمَّ أَتَاہُ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَیْنَیْن، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَیْنِ، نَاشِزُ الْجَبْہَۃِ، کَثُّ اللِّحْیَۃِ، مُشَمَّرُ الْإِزَارِ، مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، فَقَالَ: اتَّقِ اللّٰہِ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ: فَرَفَعَ رَأْسَہُ إِلَیْہِ فَقَالَ: ((وَیْحَکَ أَلَسْتُ أَحَقَّ أَہْلِ الْأَرْضِ أَنْ یَتَّقِیَ اللّٰہَ أَنَا؟)) ثُمَّ أَدْبَرَ، فَقَالَ خَالِدٌ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَلَا أَضْرِبُ عُنُقَہُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((فَلَعَلَّہُ یَکُونُیُصَلِّی)) فَقَالَ: إِنَّہُ رُبَّ مُصَلٍّ یَقُولُ بِلِسَانِہِ مَا لَیْسَ فِی قَلْبِہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((إِنِّی لَمْ أُومَرْ أَنْ أُنَقِّبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ، وَلَا أَشُقَّ بُطُونَہُمْ۔)) ثُمَّ نَظَرَ إِلَیْہِ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ: ((ہَا إِنَّہُ سَیَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ ہٰذَا قَوْمٌ یَقْرَئُ وْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ، یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِِِِِ)) زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ: ((یَقْتُلُونَ أَہْلَ الْإِسْلَامِ، وَیَدَعُونَ أَہْلَ الْأَوْثَانِ، لَئِنْ أَنَا أَدْرَکْتُہُمْ لَأَقْتُلَنَّہُمْ قَتْلَ عَادٍ۔)) (مسند احمد: ۱۱۶۷۱)

سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یمن سے رنگے ہوئے چمڑے میں بند سونا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بھیجاہے، جسے ابھی مٹی سے صاف نہیںکیا گیا تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ سونا زید خیر، اقرع بن حابس، عیینہ بن حصن اور علقمہ بن علاثہ یا عامر بن طفیل یہ شک اس حدیث کے ایک راوی عمارہ کو ہے (صحیح علقمہ بن علاثہ ہے کیونکہ عامر کئی سال پہلے کا فوت ہو چکا ہے)، میں تقسیم فرمایا: تو بعض صحابہ اور انصار وغیرہ کو یہ کافی محسوس ہوا، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ مجھے امین،دیانت دار نہیں سمجھتے؟ حالانکہ میں اللہ کا امین ہوں اور میرے پاس صبح شام آسمان سے خبریں آتی ہیں۔ دوسری روایت ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اس تقسیم پر قریش اور انصار کے کچھ لوگ غضناک ہوئے، انہوںنے کہا:آپ اہل نجد کے بڑے بڑے لوگوں کو عطیات دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ رہے ہیں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میںان کی دل جوئی کرتا ہوں، اس کے بعدایک آدمی آپ کے پاس آیا، اس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی، رخسار ابھرے ہوئے اور پیشانی اونچی،داڑھی گھنی،چادر خوب اونچی اور سرمنڈا ہواتھا، اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ اللہ سے ڈریں، دوسری روایت میں ہے، اس نے کہا: اے محمد! اللہ سے ڈریں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا سر مبارک اس کی طرف اٹھایا اور فرمایا: تم پر افسوس ہے کہ تمام روئے زمین والوں میں سے میں سب سے زیاد ہ اس بات کا حقدار نہیں کہ اللہ سے ڈروں؟ اس کے بعد وہ آدمی چلا گیا، یہ سارا ماجرا دیکھ کر خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میںاس کی گردن نہ اڑادوں؟ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں!شاید یہ نماز پڑھتا ہو۔ تو خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بعض نماز ی اپنی زبان سے ایسی باتیں کہتے ہیں: جو ان کے دل میں نہیں ہوتیں،تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے اس بات کا مکلف نہیں ٹھہرایاگیا کہ میں لوگوں کے دلوں اور ان کے پیٹوں کو چیر چیر کر دیکھوں۔ وہی آدمی پیٹھ موڑ کر جا رہا تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی طرف دیکھ کر فرمایا: اس کی نسل میں سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے، وہ قرآن تو پڑھیں گے مگر وہ قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے یوں نکل جائیں گے جیسے شکار میں سے تیر تیزی سے نکل جاتا ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پرستوںکو کچھ نہیں کہیں گے، اگر میں نے ان کو پایا تو ان کو یوں قتل کر وں گا جس طرح قوم عاد کو قتل کیا گیا تھا کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔

Haidth Number: 12353

۔ (۱۲۳۵۴)۔ حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ الشَّحَّامُ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ أَبِی بَکْرَۃَ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِرَجُلٍ سَاجِدٍ، وَہُوَ یَنْطَلِقُ إِلَی الصَّلَاۃِ، فَقَضَی الصَّلَاۃَ،وَرَجَعَ عَلَیْہِ وَہُوَ سَاجِدٌ، فَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ((مَنْ یَقْتُلُ ہٰذَا؟)) فَقَامَ رَجُلٌ فَحَسَرَ عَنْ یَدَیْہِ فَاخْتَرَطَ سَیْفَہُ وَہَزَّہُ، ثُمَّ قَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، کَیْفَ أَقْتُلُ رَجُلًا سَاجِدًا یَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ؟ ثُمَّ قَالَ: ((مَنْ یَقْتُلُ ہٰذَا؟)) فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: أَنَا، فَحَسَرَ عَنْ ذِرَاعَیْہِ وَاخْتَرَطَ سَیْفَہُ وَہَزَّہُ حَتّٰی أُرْعِدَتْیَدُہُ فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! کَیْفَ أَقْتُلُ رَجُلًا سَاجِدًا یَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، لَوْ قَتَلْتُمُوہُ لَکَانَ أَوَّلَ فِتْنَۃٍ وَآخِرَہَا۔)) (مسند احمد: ۲۰۷۰۳)

مسلم بن ابی بکرہ اپنے سے والد بیان کرتے ہیں: کہ ایک آدمی سجدہ کی حالت میں تھا کہ نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پا س سے گزرے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی اس وقت نماز کے لیے تشریف لے جارہے تھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز ادا کرنے کے بعد واپس ہوئے تووہ ابھی تک سجدہ ہی میں تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رک گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے کون قتل کرے گا،؟ تو ایک آدمی نے اٹھ کر اپنے بازوں سے آستین اوپر کو چڑھائی اور تلوار نکال کر اسے لہرایا، پھر کہا: اللہ کے نبی میرے ماں باپ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر فدا ہوں، میں کیونکر ایسے آدمی کو قتل کروں جو سجدہ میں ہے اور اللہ کی وحدانیت اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اللہ کے بندے اور رسول ہونے کی شہادت دیتا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: اسے کون قتل کرے گا؟ تو ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا: میں، پھر اس نے اپنے آستین چڑھا لیے اور تلوار نکال کر اس قدر لہرایا کہ اس کا ہاتھ کانپنے لگا، اس نے کہا: اللہ کے نبی! میں کیونکر ایسے آدمی کو قتل کروںجو سجدہ کی حالت میں ہے اور وہ اللہ کی توحید اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہے۔

Haidth Number: 12354

۔ (۱۲۳۵۵)۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ جَائَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی مَرَرْتُ بِوَادِی کَذَا وَکَذَا، فَإِذَا رَجُلٌ مُتَخَشِّعٌ حَسَنُ الْہَیْئَۃِیُصَلِّی، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((اذْہَبْ إِلَیْہِ فَاقْتُلْہُ۔))قَالَ: فَذَہَبَ إِلَیْہِ أَبُو بَکْرٍ فَلَمَّا رَآہُ عَلٰی تِلْکَ الْحَالِ کَرِہَ أَنْ یَقْتُلَہُ فَرَجَعَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعُمَرَ: ((اذْہَبْ فَاقْتُلْہُ۔)) فَذَہَبَ عُمَرُ فَرَآہُ عَلٰی تِلْکَ الْحَالِ الَّتِی رَآہُ أَبُو بَکْرٍ، قَالَ: فَکَرِہَ أَنْ یَقْتُلَہُ، قَالَ: فَرَجَعَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی رَأَیْتُہُیُصَلِّی مُتَخَشِّعًا فَکَرِہْتُ أَنْ أَقْتُلَہُ، قَالَ: (یَا عَلِیُّ! اذْہَبْ فَاقْتُلْہُ۔)) قَالَ: فَذَہَبَ عَلِیٌّ فَلَمْ یَرَہُ فَرَجَعَ عَلِیٌّ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّہُ لَمْ یُرَہْ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ ہَذَا وَأَصْحَابَہُ یَقْرَئُ وْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ،یَمْرُقُونَ مِنْ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنْ الرَّمِیَّۃِ، ثُمَّ لَا یَعُودُونَ فِیہِ حَتَّییَعُودَ السَّہْمُ فِی فُوقِہِ، فَاقْتُلُوہُمْ ہُمْ شَرُّ الْبَرِیَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۱۱۳۵)

سیدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں تشریف لائے اور کہا: اللہ کے رسول! میرا فلاں وادی میں گزر ہوا تو وہاں ایک حسین وجمیل آدمی انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کررہا تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جا کر اسے قتل کردو۔ ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کی طرف واپس گئے تو اسے اسی حالت میں پایا، آپ نے اسے قتل کرنا مناسب نہ سمجھا،آپ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس واپس آگئے، تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تم جا کر اسے قتل کرآؤ۔ عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ وہا ں گئے، تو اسے اسی حالت میں پایا جس حالت میں ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسے دیکھا تھا، انہوں نے بھی اسے قتل کر ناٹھیک نہ سمجھا، انہوں نے واپس آکر کہا: اللہ کے رسول! میں نے اسے انتہائی خشوع کے ساتھ نماز ادا کرتے دیکھا اس لیے اس کو قتل کرنا ٹھیک نہ سمجھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: علی! تم جاؤ اور اسے قتل کردو۔ علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ گئے تو آپ نے اسے وہاں نہ دیکھا، علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے واپس آکر کہا: اللہ کے رسول! وہ مجھے تو نظر نہیں آیا، تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ اور اس کے ساتھی قرآن کی تلاوت خوب کریں گے، مگر وہ ان کے سینے سے نیچے نہ اترے گا اور یہ دین سے یوں نکل جائیں گے جیسے کمان میں سے تیر نکل جاتا ہے، یہ دین میں واپس نہیں آئیں گے حتی کہ تیر اپنی کمان میں واپس آجائے، تم انہیں قتل کر دینا، یہ تمام لوگوںمیں سے بد ترین لوگ ہوں گے۔

Haidth Number: 12355

۔ (۱۲۳۵۶)۔ عَنْ مِقْسَمٍ أَبِی الْقَاسِمِ مَوْلَی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، قَالَ: خَرَجْتُ أَنَا وَتَلِیدُ بْنُ کِلَابٍ اللَّیْثِیُّ، حَتّٰی أَتَیْنَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَہُوَ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ مُعَلِّقًا نَعْلَیْہِ بِیَدِہِ، فَقُلْنَا لَہُ: ہَلْ حَضَرْتَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَیُکَلِّمُہُ التَّمِیمِیُّیَوْمَ حُنَیْنٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، أَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی تَمِیمٍیُقَالُ لَہُ: ذُو الْخُوَیْصِرَۃِ، فَوَقَفَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یُعْطِی النَّاسَ، قَالَ: یَا مُحَمَّدُ! قَدْ رَأَیْتَ مَا صَنَعْتَ فِی ہٰذَا الْیَوْمِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَجَلْ، فَکَیْفَ رَأَیْتَ؟)) قَالَ: لَمْ أَرَکَ عَدَلْتَ، قَالَ: فَغَضِبَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قَالَ: ((وَیْحَکَ إِنْ لَمْ یَکُنِ الْعَدْلُ عِنْدِی فَعِنْدَ مَنْ یَکُونُ؟)) فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَلَا نَقْتُلُہُ؟ قَالَ: ((لَا، دَعُوہُ فَإِنَّہُ سَیَکُونُ لَہُ شِیعَۃٌ،یَتَعَمَّقُونَ فِی الدِّینِ حَتّٰییَخْرُجُوا مِنْہُ، کَمَا یَخْرُجُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ،یُنْظَرُ فِی النَّصْلِ فَلَا یُوجَدُ شَیْئٌ، ثُمَّ فِی الْقِدْحِ فَلَا یُوجَدُ شَیْئٌ، ثُمَّ فِی الْفُوقِ فَلَایُوجَدُ شَیْئٌ، سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ۔)) قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمٰنِ: أَبُو عُبَیْدَۃَ ہٰذَا اسْمُہُ مُحَمَّدٌ ثِقَۃٌ، وَأَخُوہُ سَلَمَۃُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارٍ، لَمْ یَرْوِ عَنْہُ إِلَّا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ، وَلَا نَعْلَمُ خَبَرَہُ، وَمِقْسَمٌ لَیْسَ بِہِ بَأْسٌ، وَلِہٰذَا الْحَدِیثِ طُرُقٌ فِی ہٰذَا الْمَعْنَی، وَطُرُقٌ أُخَرُ فِی ہٰذَا الْمَعْنَی صِحَاحٌ، وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی أَعْلَمُ۔ (مسند احمد: ۷۰۳۸)

مقسم ابو القاسم مولی عبداللہ بن حارث بن نوفل سے مروی ہے کہ میں اور تلید بن کلاب لیثی روانہ ہوئے اور ہم عبداللہ بن عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس پہنچے، وہ اپنے جوتے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے، میں نے ا ن سے کہا: کہ کیا آ پ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حنین کے دن اس وقت موجود تھے، جب ایک تمیمی آپ سے محو کلام تھا؟ انہوںنے کہا: ہاں، بنوتمیم کاایک آدمی آیا تھا، جسے ذوالخویصر، کہا جاتا ہے: وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آکر کھڑا ہوگیا، آپ اس وقت لوگوں میں عطیات تقسیم فرمارہے تھے، اس نے کہا: اے محمد آپ آج جو کام کر رہے ہیں، میں نے دیکھ لیا ہے، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں تم نے کیا دیکھا ہے؟ اس نے کہا:میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ نے انصاف سے کام نہیں لیا، اس کی اس بات پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غضبناک ہوگئے اور فرمایا: تجھ پر افسوس ہے، اگر میرے پاس عدل نہیں تو اور کس کے پاس ہوگا؟ تو عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے گزارش کی: اللہ کے رسول! کیا ہم اسے قتل نہ کردیں؟ آپ نے فرمایا: نہیںاسے چھوڑ دو، کچھ لوگ اس کے معاون ہوںگے اور وہ دین میں اس حد تک گہرائی میں جائیں گے کہ دین میں سے یوںنکل جائیں گے جیسے شکار میں سے تیر نکل جاتا ہے، تیرکو اچھی طرح دیکھیں تو اس کے کسی بھی حصہ پر خون کا نشان تک نہیں ہوتا، وہ خون اور گو بر کے درمیان سے تیزی سے نکل جاتا ہے۔ ابوعبدالرحمن نے کہا ہے: اس حدیث کے راوی ابو عبیدہ کا نام محمد ہے اور وہ ثقہ راوی ہے اس کے بھائی سلمہ بن محمد بن عمار سے صرف علی بن زید نے روایت حدیث کی ہے ہم اس کے حالات سے واقف نہیں، مقسم بھی مقبول راوی ہے۔ اس حدیث کے بہت سے طرق صحیح ہیں۔واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔

Haidth Number: 12356
سیدناابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے گزشتہ حدیث کی مانند روایت کی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ ان لوگوں میں ایک آدمی سیاہ فام ہوگا جس کا ایک بازو عورت کے پستان کی مانند ہوگا، یا یوں فرمایا کہ اس کا ایک باز و گوشت کے لوتھڑے کی مانند ہوگا اور حرکت کرتا ہوگا، یہ لوگ ایک زمانے1 میں نکلیں گے، انہی لوگوں کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئی: {وَمِنْہُمْ مَنْ یَلْمِزُکَ فِی الصَّدَقَاتِ}… اور ان میں کچھ لوگ صدقات کی تقسم میں آپ پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ جب سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسے قتل کیا تو میں اس وقت ان کے ساتھ تھا اور وہ آدمی ویسا ہی تھاجیسا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیان فرمایا تھا۔

Haidth Number: 12357

۔ (۱۲۳۵۸)۔ عَنْ شَرِیکِ بْنِ شِہَابٍ، قَالَ: کُنْتُ أَتَمَنّٰی أَنْ أَلْقٰی رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یُحَدِّثُنِی عَنِ الْخَوَارِجِ، فَلَقِیتُ أَبَا بَرْزَۃَ فِییَوْمِ عَرَفَۃَ فِی نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِہِ، فَقُلْتُ: یَا أَبَا بَرْزَۃَ! حَدِّثْنَا بِشَیْئٍ سَمِعْتَہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُہُ فِی الْخَوَارِجِ، فَقَالَ: أُحَدِّثُکَ بِمَا سَمِعَتْ أُذُنَیَّ وَرَأَتْ عَیْنَایَ، أُتِیَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِدَنَانِیرَ، فَکَانَ یَقْسِمُہَا، وَعِنْدَہُ رَجُلٌ أَسْوَدُ مَطْمُومُ الشَّعْرِ، عَلَیْہِ ثَوْبَانِ أَبْیَضَانِ، بَیْنَ عَیْنَیْہِ أَثَرُ السُّجُودِ، فَتَعَرَّضَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَأَتَاہُ مِنْ قِبَلِ وَجْہِہِ، فَلَمْ یُعْطِہِ شَیْئًا، ثُمَّ أَتَاہُ مِنْ خَلْفِہِ فَلَمْ یُعْطِہِ شَیْئًا، فَقَالَ: وَاللّٰہِ، یَا مُحَمَّدُ! مَا عَدَلْتَ مُنْذُ الْیَوْمِ فِی الْقِسْمَۃِ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَضَبًا شَدِیدًا، ثُمَّ قَالَ: ((وَاللّٰہِ! لَا تَجِدُونَ بَعْدِی أَحَدًا أَعْدَلَ عَلَیْکُمْ مِنِّی۔)) قَالَہَا ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: ((یَخْرُجُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ رِجَالٌ، کَاَنَّ ہٰذَا مِنْہُمْ، ہَدْیُہُمْ ہٰکَذَا یَقْرَئُ وْنَ الْقُرْآنَ، لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ،یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ، لَا یَرْجِعُونَ إِلَیْہِ، وَوَضَعَ یَدَہُ عَلٰی صَدْرِہِ، سِیمَاہُمْ التَّحْلِیقُ، لَا یَزَالُونَیَخْرُجُونَ حَتّٰییَخْرُجَ آخِرُہُمْ، فَإِذَا رَأَیْتُمُوہُمْ فَاقْتُلُوہُمْ، قَالَہَا ثَلَاثًا، شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِیقَۃِ، قَالَہَا ثَلَاثًا۔)) وَقَدْ قَالَ حَمَّادٌ: لَا یَرْجِعُونَ فِیہِ۔ (مسند احمد: ۲۰۰۲۱)

شریک بن شہاب کہتے ہیں: میںتمنا کیا کرتا تھاکہ میری کسی ایسے صحابی سے ملاقات ہو جو مجھے خوارج کے متعلق بتلائے، اتفاق سے میری ابو برزہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے عرفہ کے دن ملاقات ہوگئی، وہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ تھے، میںنے کہا: اے ابو برزہ! آپ مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کوئی ایسی حدیث بیان فرمائیں جس میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خوراج کے متعلق بیان فرمایا ہو، انہوںنے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں دینار لا ئے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہ تقسیم فرما رہے تھے، ایک سیاہ فام اور گنجاآدمی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس کھڑا تھا،جس نے دو سفید کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے اور اس کی آنکھوں کے ! آگے حدیث ۱۲۳۶۸ میں آرہاہے کہ لوگوں کے اختلاف و افتراق کے وقت یہ گروہ وجود میں آئے گا۔ (عبداللہ رفیق) درمیان سجدوں کے نشانات تھے، وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے کی طرف سے آیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے کوئی چیز نہ دی، پھروہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے کی طرف سے آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر بھی اسے کچھ نہ دیا، اس نے کہا: اللہ کی قسم! آپ نے آج کی تقسیم میں انصاف بالکل نہیں کیا، اس کی یہ بات سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شدید غضبناک ہوئے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! تم میرے بعد مجھ سے بڑھ کر کسی کو انصاف کرنے والا نہیں پاؤ گے۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ فرمائی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مشرق کی جانب سے کچھ لوگ ظاہر ہوں گے، یہ آدمی گویا انہی لوگوں میں سے ہے وہ ایسے ہوں گے کہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے سینے سے نیچے نہ اترے گا، وہ دین سے یوں نکل جائیں گے جسے شکار میں سے تیر صاف نکل جاتا ہے۔ اس سند کے ایک راوی حما د نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر یوں بیان کیاکہ: وہ لوگ دین کی طرف پلٹ کر نہیں آئیں گے، ان کی علامت یہ ہوگی کہ وہ سرمنڈاتے ہوں گے، وہ دین سے نکلتے جائیں گے، یہاں تک کہ ان کا آخری آدمی (دجال کے ساتھ) نکلے گا، تم انہیں دیکھو تو انہیں قتل کر دینا۔ یہ بھی آپ نے تین مرتبہ فرمایا: وہ سب لوگوں سے بدترین ہوں گے۔ یہ بات بھی آپ نے تین مرتبہ دہرائی۔

Haidth Number: 12358
سیدناابو بکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس دینار لائے گئے، اس سے آگے ابو بزرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی گزشتہ حدیث کی مانند ہے۔

Haidth Number: 12359