عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں واپس نہ کی جائیں (یعنی ھدیۃ لینے سے انکار نہ کیا جائے) تکیے،عطر اور دودھ
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے کہ تین آدمی ایسے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن(رحمت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا۔ اپنے والدین کی نا فرمانی کرنے والا ، مستقل شراب پنےی والا اور اپنی دی ہوئی چیز پر احسان جتلانے والا احسان جتانے والا اور تین آدمی جنت میں داخل نہیں ہوں گے ، اپنے والدین کی نافرمانی کرنے والا دیوث (بے غیرت شخص) اور مرد کی مشابہت کرنے والی عورت۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ(خیبر)سے ایک آدمی نکلا ۔اس کے پیچھے دو آدمی لگ گئے اور ایک اور آدمی ان دونوں کے پیچھے چل پڑا جو کہہ رہا تھا واپس آجاؤ، واپس آجاؤ، حتی کہ ان دونوں کو واپس کر دیا۔ پھر پہلے سے ملا اور کہا: یہ دونوں شیطان تھے میں ان کے ساتھ لگا رہا یہاں تک کہ انہیں واپس بھیج دیا۔ تم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچو تو انہیں میرا سلام کہنا اور انہیں بتانا کہ میں یہاں زکوٰۃ جمع کرنے میں لگا ہوا ہوں۔ اگر یہ آپ کے لئے درست ہو تو میں آپ کی طرف بھیج دوں جب وہ آدمی مدینے آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلے سفر کرنے سے منع فرمایا
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ خندق کے موقع پر میں باہر نکلی لوگوں کے نشانات پر چل رہی تھی میں نے اپنے پیچھے زمین کے روندنے کی آواز سنی ۔میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو سعد بن معاذنظر آئے ان کے ساتھ ان کا بھتیجا حارث بن اوس تھا جس نے اپنی ڈھال اٹھائی ہوئی تھی۔ میں زمین پر بیٹھ گئی سعد گزرے تو ان پر لوہے کی زرع تھی جس کے کنارے نکلے ہوئے تھے ۔میں سعد کے نکلے ہوئے کناروں سے خوف محسوس کر رہی تھی۔ وہ گزرے تو یہ شعر پڑھ رہے تھے: تھوڑی دیر ٹھہروکہ اونٹ لڑائی میں پہنچ جائے۔ جب موت کا وقت آجائے تو کتنی اچھی موت ہے۔میں کھڑی ہوئی اور ایک باغ میں داخل گئی ۔ کیا دیکھتی ہوں کہ اس میں مسلمانوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی ، ان میں عمر بن خطابرضی اللہ عنہ بھی تھے اورایک آدمی ایسا بھی تھا جس نے اپنے جسم پر خود پہناہوا تھا۔ عمررضی اللہ عنہ نے کہا: تمہیں کونسی چیز یہاں پر لائی ہے؟ واللہ تم تو بہادر ہو ،اگر کوئی آزمائش آگئی یا پسپائی اختیار کرنا پڑی تو تمہیں کونسی چیز بچائے گی؟ وہ مجھے ملامت کرتے رہے حتی کہ میں سوچنے لگی کہ اس وقت زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔ اس آدمی نے اپنے چہرے سے خود ہٹایا تو وہ طلحہ بن عبیداللہ تھے ۔انہوں نے کہا اے عمر! آج کے دن تو آپ نے حد کر دی، اللہ عزوجل کے علاوہ پناہ یا فرارکہاں ہے؟ ایک قریشی مشرک نے سعدرضی اللہ عنہ کو ایک تیر پھینک کر مارا ؛جسے ابن العرقہ کہا جاتا تھا۔ اور کہا :لو اسے پکڑو میں بھی ابن العرقہ ہوں،وہ تیر سعدرضی اللہ عنہ کے بازو کی رگ میں لگا اور اسے کاٹ دیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے اللہ عزوجل سے دعا کی : اے اللہ ! جب تک تو قریظہ کے انجام سے میری آنکھ ٹھنڈی نہ کردے مجھے موت نہ دینا۔ قریظہ جاہلیت میں ان کے حلیف تھے۔ سعد رضی اللہ عنہ کا زخم بھر گیا۔ پھر اللہ عزوجل نے مشرکین کے خلاف ایک سخت آندھی بھیجی اور اس طرح اللہ تعالیٰ مومنوں کو قتال کرنے سے کافی ہوگیا، اور اللہ تعالیٰ قوی اور غالب ہے ۔ ابو سفیان اور اس کے ساتھی تہامہ چلے گئے جبکہ عیینہ بن بدر اور اس کے ساتھی نجد او ر بنو قریظہ اپنے قلعوں میں بند ہو گئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے واپس پلٹے اور اپنا اسلحہ اتار کر دکھ دیا۔ اور چمڑے کا ایک خیمہ لگانے کا حکم دیا۔ مسجد میں سعدرضی اللہ عنہ کے لئے ایک خیمہ لگا دیا گیا۔ جبریل آئے ان پر گردو غبار کے آثار تھے، کہنے لگے کیا آپ نے اسلحہ رکھ دیا ہے؟ واللہ ابھی تک فرشتوں نے اسلحہ نہیں رکھا۔ بنو قریظہ کی طرف جائیے اور ان سے قتال کیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زرہ پہنی اور لوگوں کو نکلنے کا حکم دیا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو بنو غنم کے پاس سے گزرے ،یہ لوگ مسجد کے ارد گرد رہتے تھے آپ نے پوچھا تمہارے پاس سے کون گزرا ہے؟ انہوں نے کہا ہمارے پاس سے دحیہ کلبی گزرے ہیں، دحیہ کلبی کی داڑھی دانت اور چہرہ جبریل کے مشابہ تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پہنچ کر ان کا محاصرہ کر لیا، پچیس دن محاصرہ جاری رہا، جب محاصرہ شدت اختیار کرگیا اور پریشانی بڑھ گئی تو ان سے کہا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر اتر آؤ۔ انہوں نے ابو لبابہ بن عبدالمنذر سے مشورہ مانگا تو انہوں نے انہیں اشارہ کیا کہ تمہیں نیچے اتار کر ذبح کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر اتریں گے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے سعد بن معاذ رضی اللہ کے فیصلے پر اتر آؤ۔ وہ اتر آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ کی طرف پیغام بھیجا۔ انہیں ایک گدھے پر سوار کر کے لایا گیا۔ جس پر پتوں کا پالان تھا وہ گدھے پر سوار تھے۔ ان کی قوم نےانہیں گھیرلیا اور کہنے لگے اے ابو عمرو! وہ تمہارے حلیف تمہارے دوست ،اب وہ شکست خوردہ ہیں اور جو آپ جانتے ہیں ۔ لیکن سعدرضی اللہ عنہ نے ان کی طرف نہیں دیکھا نہ ان کی طرف پلٹے حتی کہ جب ان کے گھروں کے قریب پہنچے تو اپنی قوم کی طرف دیکھا اور کہا: مجھ پر ایسا وقت آگیا ہے کہ میں اللہ کی رضا کے لئے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈروں۔ ابو سعید نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا: اپنے سردار کی طرف کھڑے ہو کر جاؤ۔ اور انہیں سواری سےنیچے اتارو۔ عمررضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم وہ ہمارے سردار ہیں۔ آپ نے فرمایا سعد کو نیچے اتارو، لوگوں نے سعدرضی اللہ عنہ کو نیچے اتارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سعد ان کے بارے میں فیصلہ کرو۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے جنگجو قتل کر دیئے جائیں، ان کے بچے اور عورتیں غلام بنالئے جائیں اور ان کے اموال تقسیم کردیئے جائیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ تھا تم بھی نے وہی فیصلہ کیا ہے ۔ پھر سعدرضی اللہ عنہ نے دعا کی اے اللہ! اگر تو نے اپنے نبی کے خلاف کوئی جنگ قریش کی طرف سے باقی رکھی ہے تو اس کے لئے مجھے باقی رکھ اور اگر تو نے ان کے درمیان جنگ ختم کر دی ہے تو میری روح قبض کر لے۔ ان کا زخم اسی وقت بہنے لگا۔ ان کا زخم ٹھیک ہو چکا تھا صرف کان کی بالی کی مانند سا نشان باقی تھا۔ سعد رضی اللہ عنہ اپنے اس خیمے میں واپس آگئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے لگوایا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ابو بکررضی اللہ عنہ اور عمررضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے میں ابو بکر کے رونے کی طرح عمر کے رونے کی آواز پہچان گئی میں اپنے حجرے میں تھی ۔یہ لوگ اسی طرح تھے جیسا اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﭽ(رحمآء بینہم) آپس میں رحمدل۔ علقمہ نے کہا اے ام المومنین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح کر رہے تھے ؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : ان کی آنکھ کسی بھی شخص پر آنسو نہیں بہاتی تھی لیکن جب وہ غمگین ہوتے تو وہ اپنی داڑھی مبارک پکڑ لیتے تھے۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کہنا ، دعوت قبول کرنا، جنازے میں حاضر ہونا، مریض کی عیادت کرنا اور چھینک مارنے والے کو جواب دینا، جب وہ الحمد للہ کہے
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے کہ :اللہ کے ہاں بہترین دوست وہ ہے جو اپنے دوست کے نزدیک بہترین ہے اور اللہ کے ہاں بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لئے بہترین ہے۔
عبدالرحمن بن ابی عمرہ انصاری کہتے ہیں کہ ابو سعید رضی اللہ عنہ کو ان کی قوم کے ایک آدمی کے جنازے کی خبر دی گئی تو انھوں نے کچھ تاخیر کی تاکہ لوگ اپنی اپنی جگہ بیٹھ جائیں۔ پھر وہ تشریف لائے۔ پس جب لوگوں نے ان کو دیکھا تو آگے پیچھے ہونے لگے اور کچھ لوگ اپنی جگہوں سے اٹھ کھڑے ہو تاکہ وہ بیٹھ جائیں۔ انہوں نے فرمایا: خبردار! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بہتر مجلس وسعت والی ہوتی ہے۔‘‘
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعا مروی ہے : تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے بہترین ہےاور جب تمہارا ساتھی مر جائے تو اسے چھوڑ دو( اس کی خامیاں بیان نہ کرو)
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عمر بن خطابرضی اللہ عنہ آئے تو حبشی مسجد میں کھیل رہے تھے۔ عمررضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(اے عمر!)انہیں چھوڑ دو کیونکہ یہ بنو ارفدہ ہیں
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری کی عیادت کی، جب آپ اس کے گھر کے نزدیک پہنچے تو اندر سے بات کرنے کی آواز سنی ، جب اس سے اجازت لے کر اندر گئے تو کوئی بھی نظر نہ آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاس سے کہا: میں نے تمہیں کسی شخص سے بات کرتے سنا ہے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول میں تو بخار کی وجہ سے لوگوں کی باتوں سے اکتا کر گھر آگیا تو میرے پاس ایسا شخص آیا تھا کہ آپ کے بعد میں نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو میرے پاس اچھی مجلس اور خوب صورت بات کرنے والا ہو۔ آپ نے فرمایا: وہ جبریل علیہ ا لسلام تھے تم میں ایسے بھی آدمی ہیں جو اگر اللہ پر قسم کھائیں تو اللہ ان کی قسم پورا کر دے۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ اموال کے ذریعے اپنی عزتوں کی حفاظت کرو، لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم اپنے اموال کے ذریعے اپنی عزتوں کی حفاظت کس طرح کر سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: شاعر اور جس کی زبان سے تم ڈرتے ہو اسے مال دیا کرو
ام کلثوم بنت عقبہ کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں میں جھوٹ بولنے کی رخصت دی : جنگ میں، لوگوں کے درمیان صلاح کرانے میں اور بیوی سے اور ایک روایت میں ہے: شوہر کے بیوی سے اور بیوی کے شوہر سے بات کرنے میں
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے : خواب تین قسم کے ہیں اللہ کی طرف سے خوش خبری ، دل میں آیا ہوا خیال اور شیطان کی طرف سے خوف دلانے والا، جب تم میں سے کوئی شخص ایسا خواب دیکھے جو اسے اچھا لگے تو اگر وہ چاہے تو اسے بیان کردے۔ اور جب ایسا خواب دیکھے جو اسے ناپسند ہو تو وہ کسی سے بھی بیان نہ کرے اور کھڑا ہو کر نماز پڑھے
عبداللہ بن یزید خطمی امیر کوفہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ہم قیس بن سعد بن عبادہ کے پاس ان کے گھر آئے۔ موذن نے نماز کے لئے اذان دی، ہم نے قیس سے کہا: اٹھو اور ہمیں نماز پڑھاؤ۔ انہوں نے کہا: میں ایسا نہیں کہ جن لوگوں کا امیر نہیں انہیں نماز پڑھاؤں۔ ایک آدمی جو کہ درجہ میں کم نہیں تھا جسے عبداللہ بن حنظلہ غسیل کہا جاتا تھا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی اپنی سواری پر آگے بیٹھنے کا زیادہ حقدار ہے اور اپنے بستر پر آگے بیٹھنے کا اور یہ کہ اپنے گھر میں امامت کروانے کا زیادہ حقدار ہے(قیس بن سعد نے (یہ سن کر) اپنے غلام سے کہا۔ اور فلاں! اٹھو اور نماز پڑھاؤ۔
سلیمان بن زیاد حضرمی سے مروی ہے کہ عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی نے بیان کیا کہ وہ گزر رہے تھے ان کا ساتھی دائیں طرف میں تھااورقریش کی ایک برہنہ جماعت جنہوں نے اپنے تہہ بند اتار کر انھیں کوڑوں کی شکل بٹ دے کر برہنہ حالت میں پٹا کھیل رہے تھے۔عبداللہ نے کہا: جب ہم ان کے پاس سےگزرے تو انہوں نے کہا: یہ درویش(پاگل) لوگ ہیں انہیں چھوڑ دو۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو بھاگ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں واپس آئے اور گھر میں داخل ہو گئے میں نے آپ کو کہتے ہوئے سنا:”سبحان اللہ نہ اللہ سے شرم کرتے ہیں ، نہ اللہ کے رسول سے پردہ کرتے ہیں“۔ ام ایمن ان کے پاس تھیں کہہ رہی تھیں اللہ کے رسول ان کے لئے بخشش طلب کیجئے۔ عبداللہ نے کہا: آپ نے کسی دشواری کی وجہ سے ان کے لئے بخشش طلب نہیں کی۔( )
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ: یہاں ایک شخص کے گھر بچہ پیدا ہوا تو انہوں نے کہا: ہم اس کا کیا نام رکھیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے جو سب سے پیارا نام ہے وہ رکھو”حمزہ بن عبدالمطلب“
عبداللہرضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: السلام اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جسے اللہ نے مین میں رکھا ہے ۔ اسے آپس میں پھیلایا کرو کیونکہ جب ایک مسلمان آدمی کسی قوم کے پاس سے گزرتا ہے اور انہیں سلام کہتا ہے اور وہ اسے جواب دیتے ہیں تو اس کے لئے ان پر(فضیلت کا درجہ ہے)۔ اگر وہ جواب نہ دیں تو جو ان سے اچھے اور پاکیزہ ہیں وہ انہیں جواب دیتے ہیں
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوال کرنے سے پہلے سلام کہو، اگر کوئی سلام کرنے سے پہلے تم سے سوال کرے تو اسے جواب نہ دو۔
ابو موسیٰ اشعریرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ: ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے۔ پوچھا گیا اگر اس کے پاس نہ ہو تو اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ہاتھ سے کام کرے، خود بھی فائدہ اٹھائے اور صدقہ بھی کرے۔ پوچھا گیا اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو؟ کہا کہ فقیر حاجت مند کی مدد کرے۔ پوچھا گیا اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھے؟ کہا کہ نیکی کا حکم کرے ۔ پوچھا گیا: اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھے؟ انہوں نے کہا: برائی سے رکا رہے یہی اس کا صدقہ ہے
ابو ذررضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے : ہر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے ہر شخص پر صدقہ ہے: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں کہاں سے صدقہ کروں ہمارے پاس تو مال نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تکبیر(اللہ اکبر)،سبحان اللہ، الحمدللہ ،لا الہ الا اللہ اور استغفراللہ صدقے سے تعلق رکھتے ہیں۔تم نیکی کا حکم کرو برائی سے منع کرو۔ لوگوں کے راستے سے کانٹا ،ہڈی اور پتھر ہٹاؤ، اندھے کو راستہ بتاؤ، بہرے گونگے کو بات سمجھاؤ، حاجت مند کو اس کی حاجت کا راستہ بتاؤ جوتم جانتے ہو،مدد طلب کرنے والے مجبور شخص کی طرف دوڑ کر جاؤ اور کمزور کا بوجھ اٹھانے میں ہاتھ بٹاؤ،یہ سب کام تمہارے اپنے آپ پر صدقہ کرنے کی قبیل سے ہیں۔ اور تمہارے لئے تمہاری اپنی بیوی سے جماع کرنے میں اجر ہے، ابو ذررضی اللہ عنہ نے کہا: میرے لئے میری اس شہوت میں کس طرح اجر ہو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے خیال میں اگر تمہارا کوئی بیٹا ہوتا، وہ بڑا ہو جاتا تم اس سے بھلائی(کمائی) کی امید رکھتے اور وہ مرجاتا تو کیا تمہیں اس کا ثواب نہیں ملتا ؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پیدا کیا ہے؟ ابو ذر نے کہا: نہیں اللہ نے اسے پیدا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اسے ہدایت دی تھی؟ ابو ذر نے کہا: نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہدایت دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اسے رزق دیا تھا؟ ابو ذر نے کہا: نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اسے رزق دیتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی طرح اپنی شہوت کو حلال جگہ پورا کرو اور حرام کاری سے اجتناب کرو، اگر اللہ نے چاہا تو اسے زندہ رکے گا اور اگر اللہ نے چاہا تو اسے مار دے گا ، اور تمہارے لئے اس میں اجر ہوگا